Topics
ختمی مرتبت، سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کے نورِ نظر ، حاملِ علمِ لدنی، پیشوائے سلسلۂ عظیمیہ ، ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات با برکات نوعِ انسان کیلئے علوم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علوم سے منور کیا ہے وہاں علومِ ادب اور شعر و سخن سے بھی بہرہ ور کیا ہے۔ اس طرح حضور بابا جیؒ کے رخ جمال۱ کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ جاوید ثبوت ہیں کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ذاتِ گرامی سے شرابِ عرفانی کا ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہر وانِ سلوک نشۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کیلئے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔
حضور بابا صاحبؒ نے اپنی رباعیات میں بیشتر موضوعات پر روشنی ڈالی ہے کہیں بنی نوعِ انسانی کی فطرت اور حقیقی طرزِ فکر کو اجاگر کیا ہے، کہیں مٹی کے ذرے کی حقیقت اور فنا و بقا پر روشنی ڈالی ہے ۔ کہیں پرودگار کی شان و
________________________________________
۱ؔظاہر و باطن
عظمت کا ذکر ہے۔ کہیں فطرتِ آدم کی شرابِ وحدت میں مست و بے خودی کا ذکر ہے۔ کہیں عالمِ ملکوت و جبروت کا تذکرہ ہے ۔ کہیں کہکشانی نظام او رسیاروں کا ذکر ہے، کہیں فطرتِ آدم کی مستی وقلندری اور گمراہی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں اس فانی دنیا کی فانی زندگی کو عبرت کا مرقع ٹھہرایا ہے۔ کہیں فرمان الٰہی اور فرمان رسولؐ پیش کرکے تصوف کے پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے ۔ کہیں عارف کے بارے میں فرمایا ہے کہ عارف وہ ہے جو شرابِ معرفت کی لذتوں سے بہرہ ور ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی برضا ہو۔ غرضیکہ رباعیاتِ عظیم علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔
ذیل میں میکدۂ عظیمیہ سے شراب عرفانی۱ کے چند قطرے۲ تشنگانِ شرابِ معرفت کے لئے پیشِ خدمت ہیں۔ اس طرح وہ ہر ایک رباعی کو ساغر سمجھ کر پے در پے نوش فرماتے ہوئے نشۂ توحیدی میں مست و بے خود ہوکر سرورِ عرفانی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔
(۱)
محرم نہیں راز کا وگرنہ کہتا
اچھا تھا کہ اک ذرّہ ہی آدم رہتا
ذرّہ سے چلا، چل کے اجل تک پہنچا
مٹی کی جفائیں یہ کہاں تک سہتا
تشریح:
آدمی قدرت کے راز ، و جہِ تخلیق اور تمام باتوں سے محض نابلد ہے۔ زمین کا ہر ذرہ آدم کی تصویر کا عکس ہے ۔ لیکن یہی ایک ذرہ جب مشکّل اور مجسم ہوجاتا ہے تو فنا کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ آدمی مٹی میں دفن ہوکر پھر مٹی بن جاتا ہے۔ مٹی کے ذرات بوقلمونی کے ساتھ پھر مشکّل اور مجسم ہوجاتے ہیں اور پھر فنا کے راستے پر چل کر مٹی میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ تحلیل نفسی کے اس مسلسل اور متواتر عمل سے آدمی کے اندر مٹی کی جفائیں برداشت کرنے کی سکت پیدا ہوجاتی ہے۔ دنیا کی نشو و نما کا یہ قانون تخلیقی فارمولوں کا راز بن کر جاری و ساری ہے۔
______________________________________________
۱ رُباعیات ۲ اقتباسات
(۲)
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم ؔ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا
تشریح:
اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ ایک لفظ میں ساری کائنات کو سمودیا ہے۔ اس لفظ میں اربوں، کھربوں بلکہ ان گنت عالم بند ہیں۔ یہ لفظ جب عکس ریز ہوجاتا ہے تو کہیں عالمِ ملکوت و جبرت آباد ہوجاتے ہیں اور کہیں کہکشانی نظام اور سیارے مظہر بن جاتے ہیں۔ کتنا برجستہ راز ہے یہ کہ لفظ ہر آن اورہر لمحہ نئی صورت میں جلوہ فگن ہورہا ہے۔ اس ایک ہی لفظ کی ضیا پاشیوں کو کبھی ہم بقا کہتے ہیں اور کبھی فنا کا نام دے دیتے ہیں۔ اے عظیم! اس کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں کہ اس نے ‘‘کن’‘ کہہ کر ایک ذرہ بے مقدار پر اتنے عکس ڈال دیئے ہیں کہ میں پیمانہ بن گیا ہوں ایسا پیمانہ جس کے ذریعے دوسرے ذرات (مخلوق) وہ نشہ اور شیفتگی حاصل کر سکتے ہیں جس سے پیمانہ خود سرشار اور وحدت کی شراب میں مست و بے خود ہے۔
(۳)
معلوم نہیں کہاں سے آنا ہے میرا
معلوم نہیں کہاں پہ جانا ہے میرا
یہ علم کہ کچھ علم نہیں ہے مجھ کو
کیا علم کہ کھونا ہے کہ پانا ہے میرا
تشریح:
یہ نہیں معلوم کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ منزل کہاں ہے۔ ایسا علم جس کو نہ تو کھو جانے کا علم ہو اور نہ کچھ پالینے کا علم ہو علم نہیں ہے۔ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا یہ حال ہے تو ہم حقیقت کے سمندر میں کس طرح غوطہ زن ہوسکتے ہیں حقیقی علم جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ ہمیں کس نے پیدا کیا ہے ۔ اس دنیا میں پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے اور مرنے کے بعد کون سے عالم میں چلے جاتے ہیں اور اس عالم میں زندگی کن طرزوں پر قائم ہے؟
(۴)
مٹی میں ہے دفن آدمی مٹی کا
پُتلا ہے وہ اک پیالہ بھری مٹی کا
مے خوار پئیں گے جس پیالہ میں شراب
وہ پیالہ بنے گا کل اسی مٹی کا
تشریح:
خدا نے آدم کو مٹی سے بنایا ہے تو ہر آدمی بھی مٹی سے بنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اسے مٹی میں ہی دفن کردیتے ہیں۔ یہ ایک حسین مورتی جس کے حسن پر سب لوگ جان دیتے ہیں والہ و شیدا بنے رہتے ہیں وہ اصل میں مٹی کے ذرات سے مرکب ہے۔ محبت کی شراب پینے والے جس پیالہ میں شراب پئیں گے وہ پیالہ پھر اسی مٹی سے بنادیا جائے گا۔ یعنی قدرت کی کرشمہ سازی بھی کیا خوب ہے کہ ایک ہی مٹی سے مختلف شکلیں بناتی رہتی ہے۔ اور پھر اسی میں ملاکر مٹا دیتی ہے اور پھر بنا دیتی ہے۔ تخلیق کے اس عمل میں ان لوگوں کیلئے واضح نشانیاں ہیں جو فی الواقع اللہ تعالیٰ کو جاننا اور پہچاننا چاہتے ہیں ۔
(۵)
نہروں کو مئے ناب کی ویران چھوڑا
پھولوں میں پرندوں کو غزل خواں چھوڑا
افتادِ طبیعت تھی عجب آدم کی
کچھ بس نہ چلا تو باغِ رضوان چھوڑا
تشریح:
اس آدم یا آدم زاد کی صفات نہ پوچھئے ۔ اس نے چمک دمک رکھنے والی شراب کی نہروں کو جنت میں ویران چھوڑ دیا۔ قسم قسم کے پھولوں اور باغوں میں جو پرندے چہچہارہے تھے، ان کی گنگناہٹ کو بھی خیربادکہہ آیا۔ اس آدم کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی خوبی رکھی ہے کہ کسی ایک بات یا ایک چیز پر قانع نہیں رہتا ۔ اس کا جنت میں رہتے رہتے جب جی گھبرانے لگا تو اسے چھوڑ کر بھاگ آیا۔ اس کے مزاج میں مظاہرِ کائنات میں کام کرنے والی ہر آن اور ہر لمحہ تغیر و تبدل کی صفت (حرکت ) موجود ہے۔
(۶)
اک جرعہ مئے ناب ہے ہر دم میرا
اک جرعہ مئے ناب ہے عالم میرا
مستی و قلندری و گمراہی کیا
اک جرعہ مئے ناب ہے محرم میرا
تشریح:
بندہ کہتا ہے کہ میرا ہر سانس خالص شراب کے ایک گھونٹ کی مانند ہے اور زیادہ گہرائی میں سوچوں تو میری ساری دنیا ہی خالص شراب کا ایک گھونٹ نظر آنے لگتی ہے۔ جب میری حد اور حدود ایسی ہوں تو میری مستی و قلندری یا گمراہی کا وجود نا وجود بن جاتا ہے ۔ شراب کا یہی گھونٹ میری زندگی میں پنہاں اسرار کو میرے اوپر منکشف کرتا ہے چاہے اسے مستی و قلندری میں گزار لوں اور چاہے تو اسے گمراہی میں ضائع کردوں۔
(۷)
جس وقت کہ تن جان سے جدا ٹھہرے گا
دو گز ہی زمین میں تو جا ٹھہرے گا
دو چار ہی روز میں تو ہوگا غائب
آکر کوئی اور اس جگہ ٹھہرے گا
تشریح:
جب قدرت کے حکم سے اس بدن سے روح کو الگ کردیا جائے گا تو اس بدن کا ٹھکانہ صرف دو گز زمین کا ٹکڑا ہوگا (وہ بھی اس کے لئے جسے میسر آجائے) اور دو چار دن گزرجانے کے بعد تو دنیا سے بالکل ہی غائب ہوکر رہ جائے گااور پھر تیری جگہ کسی اور کو دفن کردیاجائے گا۔ دیکھ لے اے بندے ! تیری زندگی، تیرا وجود، تیری حقیقت کتنی فانی ہے۔ اس دنیا میں سب کیلئے چل چلاؤ اور ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ قائم ہے۔ فانی دنیا کی یہ فانی زندگی، عبرت کا مرقع ہے۔
(۸)
اک آن کی دنیا ہے فریبی دنیا
اک آن میں ہے قید یہ ساری دنیا
اک آن ہی عاریت ملی ہے تجھ کو
یہ بھی جو گزر گئی، تو گزری دنیا
تشریح:
اس آدم کو دھوکہ دینے والی اور دھوکہ میں رکھنے والی دنیا محض ایک لمحہ ہے۔ یہ ساری دنیا ایک لمحہ کی زندگی میں قید ہے۔ اور اس ایک لمحاتی دنیا کے اصول کے مطا بق اس آدم ، اس بشر، اس آدمی ، اس بندہ کو محض ایک گھڑی مستعار ملی ہے۔ اگر یہ زندگی بیکار محض باتوں میں گزر گئی تو ساری دنیا ہی گزر گئی۔ ہم نہ پیدا ہوئے، نہ جئے، نہ اُٹھے، نہ بیٹھے، نہ کچھ کیا، نہ کچھ سمجھا۔ گویا ایسے آئے کہ آئے ہی نہ تھے۔ اس لئے اے بندے! جب تو اس دنیا میں آیا ہے تو کچھ کر گزر تاکہ قدرت نے تجھے جس مقصد کیلئے پیدا کیا ہے تو اس کو پورا کردے ورنہ پچھتانا ہی پچھتانا مقدر بن جائے گا۔
(۹)
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
تشریح:
یہ بھری پری دنیا ایک قسم کا طلسم کدہ ہے اس میں ایسا جادو موجود ہے کہ اس کو سمجھنا تولہ ماشہ تولنے والی عقل کے بس کی بات نہیں ۔ غور کیا جائے تو ساری دنیا مٹی کا ایک کھلونا ہے جس کا مقدر بالآخر ٹوٹ کر بکھر جانا ہے۔
(۱۰)
اک جرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا
اتنی سی کمی سے کیا فرق آئے گا
ساقی مجھے اب مفت پلا کیا معلوم
یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا
تشریح:
پابند زندگی کی حقیقت شراب کے ایک گھونٹ کی ہے۔ مل گیا تو اور نہ بھی ملا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تو معرفت کی وہ شراب چاہیئے جس کا ایک گھونٹ ٹائم اسپیس کی قید و بند سے آزاد کردیتا ہے۔
(۱۱)
تا چند کلیسا و کنشت و محراب
تا چند یہ واعظ کہ جہنم کا عذاب
اے کاش جہاں پہ روشن ہوتی
استادِ ازل نے کل جو لکھی تھی کتاب
تشریح:
گرجا گھر ، آتشکدہ اور مسجد کا وجود یا ان میں اور ان کے ماننے والوں میں اختلاف اور واعظ کے وعظ میں دوزخ کے عذاب سے ڈرانے کا عمل آخر کب تک جاری رہے گا۔ اے کاش! ان لوگوں پر قدرت کے وہ راز کھل جاتے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو بتادئیے ہیں ، ایسے بندے جن کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
(۱۲)
ماتھے پہ عیاں تھی روشنی کی محراب
رخسار و لب جن کے تھے گوہر نایاب
مٹی نے انہیں بدل دیا مٹی میں
کتنے ہوئے دفن آفتاب و ماہتاب
تشریح:
جن لوگوں کی پیشانی روشن تھی اور ماتھے پر سجدوں کا نشان تھا اور ان کے چہرے چمک دمک سے معمور تھے ۔ جب انہیں مٹی میں دفن کیا گیا تو مٹی نے انہیں بھی مٹی ہی بنادیا۔ کیسے کیسے چاند اور سورج اس زمین میں دفن ہوچکے ہیں۔ ہم ان کا شمار بھی نہیں کرسکتے ۔ چند دنوں کی اس عارضی دنیا میں آدمی کبرو نخوت کی تصویر بنا پھرتا ہے۔ بالآخر اسے بھی موت مٹی کے ذرّوں میں تبدیل کردے گی اور مٹی کے یہ ذرّے پیروں میں روندے جائیں گے۔
(۱۳)
جو شاہ کئی ملک سے لیتے تھے خراج
معلوم نہیں کہاں ہیں انکے سر و تاج
البتہ یہ افواہ ہے عالم میں عظیم ؔ
ابتک ہیں غبارِ زرد ان کی افواج
تشریح:
سکندر و دارا، شدّاد و نمرود، فراعین اور بڑے بڑے بادشاہ جن کی ہیبت و بربریت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کے نام سے لرزتے تھے، وہ جو بڑی بڑی ریاستوں اور مملکتوں کے تاجدار تھے، عوام سے خراج وصول کرتے تھے، خود کو آقا اور اللہ کی مخلوق کو غلام سمجھتے تھے معلوم نہیں کہ وہ خود اور ان کے تاج کہاں ہیں؟۔۔۔ ان کو اور ان کی افواج کو جو آندھی طوفان بن کر دنیا کیلئے مصیبت بن گئی تھیں مٹی نے نگِل لیا۔ یہ بڑے بڑے محلات اور کھنڈرات جو آج اپنی بے بضاعتی پر آ نسو بہارہے ہیں بالآخر ان کا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
(۱۴)
کُل عمر گزر گئی زمین پر ناشاد
افلاک نے ہر سانس کیا ہے برباد
شاید کہ وہاں خوشی میسّر ہو عظیم ؔ
ہے زیرِ زمیں بھی ایک دنیا آباد
تشریح:
ہماری اس رنگ و بو کی دنیا کی طرح ایک اور دنیا بھی ہے جو مرنے کے بعد ہمارے اوپر روشن ہوتی ہے۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہم نے کبھی اس نادیدہ دنیا کی طرف سفر نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ‘‘مرجاؤ مرنے سے پہلے’‘ پر عمل کرکے اگر ہم اس دنیا سے روشناسی حاصل کرلیں تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ناشاد و نامراد زندگی کو مسرت و شادمانی میسر آجائے ۔
(۱۵)
ہر ذرّہ ہے اک خاص نمو کا پابند
سبزہ ہو صنوبر ہو کہ ہو سر و بلند
انسان کی مٹّی کے ہر اک ذرّہ سے
جب ملتا ہے موقع تو نکلتے ہیں پرند
تشریح:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے معین مقداروں سے تخلیق کی ہے۔ ہر تخلیق میں معین مقداریں کام کررہی ہیں جو ہر نوع کو دوسری نوع سے اور ہر فرد کو دوسرے فرد سے ممتاز کردیتی ہیں۔ مٹی کے ذرات ایک ہی ہیں لیکن ان ذرات کی مقداروں میں ردو بدل سے طرح طرح کی تخلیق وجود میں آرہی ہیں۔ مٹی کے یہ ذرات کہیں سرو سمن، کہیں کوہ و دمن اور کہیں خوش الحان پرند بن جاتے ہیں اور جب بظاہر مٹی کے یہ بے جان ذرات زندگی کو اپناتے ہیں تو رنگ رنگ کائنات میں بکھر جاتے ہیں اور ان ہی رنگوں سے جیتی جاگتی ایک دنیا عالمِ وجود میں آجاتی ہے۔
(۱۶)
آدم کو بنایا ہے لکیروں میں بند
آدم ہے اسی قید کے اندر خورسند
واضح رہے جس دم یہ لکیریں ٹوٹیں
روکے گی نہ اک دم اسے مٹّی کی کمند
تشریح:
یہاں ہر چیز لہروں کے دوش پر رواں دواں ہے یہ لہریں (لکیریں) جہاں زندگی کو خوش آرام بناتی ہیں، مصیبت و ابتلا میں بھی مبتلا کردیتی ہیں۔ نور کے قلم سے نکلی ہوئی ہر لکیر نور ہے اور جب نور مظہر بنتا ہے تو روشنی بن جاتا ہے۔ روشنی کم ہوجائے تو اندھیرا ہوجاتا ہے۔ آدم نے اسی اندھیری دنیا میں قید ہونے کو سب کچھ سمجھ لیا ہے وہ اس بات پر خوش ہے کہ اسے روشنی کے سمندر میں سے چند روشن قطرے مل جائیں۔
(۱۷)
ساقی ترے میکدے میں اتنی بیداد
روزوں میں ہوا سارا مہینہ برباد
اس باب میں ہے پیر مغاں کا ارشاد
گربادہ نہ ہاتھ آئے تو آتی ہے باد
تشریح:
اے خدا ! تیرے میکدے میں یہ کیسی بیداد ہے کہ سارے مہینے روزے رکھنے کے بعد بھی ہمیں معرفت کی شراب نہیں ملی جبکہ خود تیرا فرمان ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔ جب اس مہینے میں بھی تیرا دیدار نصیب نہیں ہوا تو سارے سال مصیبتوں کی آندھیاں میرا مقدر بن جائیں گی۔
(۱۸)
اس بات پہ سب غور کریں گے شاید
آہیں بھی وہ دو چار بھریں گے شاید
ہے ایک ہی بات اس میں پانی ہو کہ مئے
ہم ٹوٹ کے ساغر ہی بنیں گے شاید
تشریح:
پانی اور مئے کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے۔ پانی ہو یا شراب دونوں ایک ہی فارمولے کے تحت وجود میں آتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پانی میں تخلیقی فارمولے براہِ راست کام کررہے ہیں اور شراب براہِ راست تخلیقی فارمولوں میں کچھ ردو بدل کے ساتھ بنتی ہے۔ شراب کے نام پر لوگ جھگڑتے ہیں ۔ آخر وہ کیوں ان رموز و نکات پر غور نہیں کرتے......... شراب بھی مٹی ہے، ساغر بھی مٹی ہے، ہم خود مٹی ہیں۔ ہم ٹوٹ کر بکھر جائیں گے تو ہماری مٹی سے پھر ساغر بن جائے گا۔ کیوں کہ تخلیق کا عمل جاری و ساری ہے۔
(۱۹)
یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر
انسان کی مٹّی سے بنا ہے ساغر
سو بار بنا ہے بن کے ٹوٹا ہے عظیم ؔ
کتنی ہی شکستوں کی صدا ہے ساغر
تشریح:
مورتیں ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں ۔۔۔ اے آدم زاد ! تو کیوں خود فراموشی کے جال میں گرفتار ہے؟ یہ سب مٹی ہے جو ٹوٹ کر، بکھر کر، ریزہ ریزہ ہوکر نئے نئے روپ میں جلوہ گر ہورہی ہے۔ تو کیوں مٹی کے سامنے شکست خوردہ نہیں ہوجاتا۔ اس شکست میں تیرے لئے سعادت ہے کہ تو کبر و نخوت سے بچ جائے گا۔
(۲۰)
اچھی ہے بری ہے دہر فریاد نہ کر
جو کچھ کہ گزر گیا اسے یاد نہ کر
دو چار نفس عمر ملی ہے تجھ کو
دو چار نفس عمر کو برباد نہ کر
تشریح:
دنیا کی ہر چیز ایک ڈگر پر چل رہی ہے۔ نہ یہاں کوئی چیز اچھی ہے نہ بری ہے۔ ایک بات جو کسی کے لئے خوشی کا باعث ہے، وہی دوسرے کے لئے پریشانی اور اضمحلال کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ دنیا معانی اور مفہوم کی دنیا ہے۔ جو جیسے معانی پہنادیتا ہے اس کے اوپر ویسے اثرات مرتّب ہوجاتے ہیں ۔ پھر کیوں دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر وقت کو برباد کیا جائے۔ یہ جو دو چار سانس کی زندگی ہے اسے ضائع نہ کر۔ ہر بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ۔ پروردگارِ عالم فرماتے ہیں......... اور وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں کہ ہر چیز ہمارے رب کی طرف سے ہے۔
(۲۱)
ساقی! ترا مخمور پئے گا سو بار
گردش میں ہے ساغر تو رہے گا سو بار
سو بار جو ٹوٹے تو مجھے کیا غم ہے!
ساغر مری مٹّی سے بنے گا سو بار
تشریح:
میں اس بات کاغم کیوں کروں کہ ساغر ٹوٹ گیا ہے۔ یہ پیالہ میری ہی ذات سے بنا ہے اور میرا وجود بھی ان ذروں سے بنا ہے۔ مجھے مرنے کا کوئی غم نہیں ہے کیونکہ میری روشنیوں سے جو ساغر بن گیا ہے وہ سو بار بھی ٹوٹے تو پھر بن جائے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
(۲۲)
کل روزِ ازل یہی تھی مری تقدیر
ممکن ہو تو پڑھ آج جبیں کی تحریر
معذور سمجھ واعظِ ناداں مجھ کو
ہیں بادہ و جام سب مشیت کی لکیر
تشریح:
اے واعظ! میں جس آقا کا غلام ہوں، ان کا ارشاد ہے ۔۔۔ قلم لکھ کر خشک ہوگیا۔ آج میری پیشانی پر زندگی کی جو فلم رقصاں ہے وہ میری پیدائش سے پہلے ہی ازل میں بن گئی تھی اور یہی میری تقدیر ہے۔ اے واعظ! تیرے وعظ و نصیحت کا میرے اوپر کیا اثر ہوگا تو خود ازل کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔ یہ سب بادہ جام کی باتیں بھی ازل میں ہی لکھی جاچکی ہیں۔ یہ شراب (زندگی) اور یہ جام (خاکی لباس سے مزین بدن) قدرت کی ایسی لکیر ہے جسے کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔ اے واعظ! یہ سعادتِ ازلی سعادت مندوں کو میسر آتی ہے۔ ازلی شقی اس کے قرب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ بالآخر ایک وقت آئے گا کہ یہ لکیریں (لہریں) منتشر ہوجائیں گی۔گراویٹی( Gravity) کا دائرہ کار ختم ہوجائے گا اور آدمی کا جسم تحلیل ہوجائے گا۔
(۲۳)
ساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر
پینے کے سوا کیا مجھے کرنی ہے عمر
پانی کی طرح آج پلا دے بادہ
پانی کی طرح کل تو بکھرنی ہے عمر
تشریح:
حضور قلندر بابا اولیاءؒ اس رباعی میں فرماتے ہیں کہ عارفوں کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف شرابِ معرفت کی لذتوں سے بہرہ ور ہونا ہے یا ساقیِ حقیقی (خالقِ کائنات) کی مشیت پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اس کا اللہ تعالیٰ سے یہی مطالبہ ہے کہ اسے معرفت کا اعلیٰ درجہ عطا فرمایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی برضا رہنے اور عملدرآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائی جائے۔ زندگی کے محدود عرصے میں اگر اس مقصد کی تکمیل نہ ہوسکی تو سب کچھ رائیگاں جائے گا۔ اور زندگی جو لمحہ بہ لمحہ ترتیب سے وقوع پذیر ہورہی ہے پانی کی طرح بکھرجائے گی۔ اور اسے کسی طرح سمیٹا نہ جاسکے گا۔
(۲۴)
آدم کا کوئی نقش نہیں ہے بیکار
اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار
دستہ جو ہے کوزہ کو اٹھانے کے لیے
یہ ساعد سیمیں سے بناتا ہے کمہار
تشریح:
آدم کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ روشنیاں بھردی ہیں۔ اس خاک کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی صناعی کے ہزاروں جلوے پنہاں ہیں۔ بظاہر یہ تخلیق مٹی (روحانیت کی زبان میں مٹی کا مطلب صرف مٹی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مظہر ہے جس میں تخلیقی فارمولے برسرِ عمل ہیں اور رد و بدل ہوکر مختلف تخلیقات کا روپ اختیار کرتے ہیں) سے مرکب نظر آتی ہیں لیکن اس کے پسِ پردہ جو روشنیاں اور فارمولے کام کررہے ہیں وہ ا حسنِ تقویم کا مظہر ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آدم اپنے آپ سے بے خبر ہے۔ وہ خود کو نہیں جانتا۔ اگر وہ خود کو جان لے، دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت کو پہچاننا بالکل آسان ہے۔ اس لیے کہ اس کی تخلیق صفتِ ربانیت کا مظہر ہے۔ یہ رُباعی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان من عرف نفسہٖ فقد عرف ربہ کی تشریح ہے۔
(۲۵)
حق یہ ہے کہ بیخودی خودی سے بہتر
حق یہ ہے کہ موت زندگی سے بہتر
البتّہ عدم کے راز ہیں سر بستہ
لیکن یہ کمی ہے ہر کمی سے بہتر
تشریح:
دنیا میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے موجود رہتے ہیں جو شہود اور باطنی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ جب وہ دنیا میں اکثریت کے طرزِ عمل کا تجزیہ کرتے ہیں تو انہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ لوگ چند روزہ زندگی کو اصل زندگی سمجھے ہوئے ہیں۔ لیکن جلد ہی اس کی وجہ بھی نظر آجاتی ہے اور وہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی طرح پکار اُٹھتے ہیں:
سچ تو یہ ہے بے خودی خودی سے اور موت زندگی سے اعلیٰ تر ہے لیکن دنیا کے باسیوں پر عدم کا یہ راز روشن نہیں ہے کہ اصل زندگی وہی ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس راز کا پوشیدہ ہونا ہی دنیا میں آدم کی دل چسپی قائم رکھنے کا سبب ہے۔ اگر ہر شخص پر دنیا کی بے ثباتی روشن ہوجائے تو عارضی زندگی اور دنیا سے کون جی لگائے۔ یہ اخفا اللہ تعالیٰ کی حکمتِ عملی کا زبردست جزو ہے۔
(۲۶)
جب تک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر
جب تک کہ لکیر میں ہے خم کی تصویر
جب تک کہ شبِ مہ کا ورق ہے روشن
ساقی نے کیا ہے مجھے ساغر میں اسیر
تشریح:
حضور بابا صاحبؒ چاند کو خُم سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ جس طرح خُم میں شراب بھری ہوئی ہوتی ہے اسی طرح چاند میں ٹھنڈی اور مسحور کُن چاندنی بھری ہوئی ہے۔ اور یہ مسحور کن ر وپہلی چاندنی دراصل وہ روشنی ہے جس سے زمین کا ذرّہ ذرّہ نمو و حیات پارہا ہے۔ جب تک نمو و حیات کا سلسلہ جاری ہے، کائنات منور اور روشن ہے اور جب روشنی کا نظام درہم برہم ہوجائے گا تو خُم رہے گا، نہ شراب ، نہ چاند رہے گا نہ چاندنی۔ اگر کوئی چیز باقی رہے گی تو وہ ساقی کی ذات والی صفات ہے۔
(۲۷)
پتھر کا زمانہ بھی ہے پتھر میں اسیر
پتھر میں ہے اس دور کی زندہ تصویر
پتھر کے زمانہ میں جو انساں تھا عظیم ؔ
وہ بھی تھا ہماری ہی طرح کا دلگیر
تشریح:
انسانی تاریخ کے تمام ادوار بشمول ماضی اور مستقبل لوحِ محفوظ پر نقش ہیں۔ کائنات کا ہر ذرّہ اسی نقش کی تفصیلی تصویر ہے۔ ہر ذرّے کے وجود کی گہرائی میں اسی نقش کا سراغ ملتا ہے۔ اسی طرح پتھر میں پتھر کے زمانے کی ساری فلم موجود ہے۔ یہ فلم پتھر کے اندر جھانکنے سے نظر آتی ہے۔ اسی ریکارڈ یا فلم کا مشاہدہ کرکے ایک روحانی آدمی ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات سے مطلع ہوجاتا ہے۔
آدم کی تخلیق میں جو فارمولے کام کررہے ہیں وہ ازل سے ایک ہی Pattern یا طرز پر قائم ہیں۔ ز مانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کی مظاہراتی طرزوں میں ضرور تغیر (Variation) رونما ہوتا ہے۔ لیکن بنیادوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ انسانی طبیعت میں تقاضے، رنج و غضب، پیار، رحم، جنس وغیرہ یکساں ہیں۔ البتہ ہر دور میں ان کی مظاہراتی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
(۲۸)
مٹّی سے نکلتے ہیں پرندے اُڑکر
دنیا کی فِضا دیکھتے ہیں مُڑمُڑ کر
مٹّی کی کشش سے اب کہاں جائیں گے
مٹّی نے انہیں دیکھ لیا ہے مُڑ کر
تشریح:
تمام جاندار مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ مٹی سے مراد روشنیوں کا وہ خلط ملط ہے جس میں تمام رنگ موجود ہیں۔ اسے کل رنگ روشنی بھی کہا جاتا ہے۔ یہی رنگ درخت کی جڑیں زمین سے حاصل کرتی ہیں۔ اور یہی رنگ تنا، شاخوں، پتوں ، پھول اور پھل میں نمایاں ہوجاتے ہیں لیکن تخلیق کی یہ طرز دیرپا نہیں ہے۔ جلد ہی یہ تخلیق پھرمٹی بن جاتی ہے۔ پرندے بھی اسی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ قوت پرواز حاصل ہوجانے کے بعد بھی مٹی سے رستگاری حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مٹی کے دائرہ کار( Gravity) سے باہر نہیں جا سکتے۔ جلد ہی یہ کشش انہیں پھر مٹی میں مل کر مٹی بن جانے پر مجبور کردیتی ہے۔
(۲۹)
معلوم ہے تجھ کو زندگانی کا راز؟
مٹّی سے یہاں بن کے اُڑا ہے شہباز
اس کے پر و پرزے تو یہی ذرّے ہیں
البتّہ کہ صنّاع ہے اس کا دمساز
تشریح:
اے آدم! کیا تجھے معلوم ہے کہ تیری زندگی کے اندر کون سے فارمولے کام کررہے ہیں؟ دنیا میں ہر چیز کی ساخت مٹی سے عمل میں آئی ہے۔ شہباز کی قوت پرواز بھی اسی مٹی کی ممنونِ کرم ہے کیونکہ اس کے جسمانی اعضاء اسی مٹی (کل رنگ روشنی) کی مختلف ترکیبوں سے وجود میں آئے ہیں۔ البتہ تخلیق کا اصل راز یہ ہے کہ مٹی کے اندر خالقِ کائنات کا امر متحرک ہے جو کہ مٹی کو مختلف سانچوں میں ڈھال کر مختلف شکلوں میں ظاہر کر رہا ہے۔ کنکر، پتھر، پودے، مختلف قسم کے جانور اور انسان دراصل مختلف سانچے (Dye)ہیں۔
(۳۰)
مٹّی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو ہیں قیاس کے ہیں، مفروضہ ہیں
اِن ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
تشریح:
ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف جاندار مٹی کی بنی ہوئی وہ مختلف تصویریں ہیں جو سانس لیتی ہیں۔ ان کی زندگی کا سارا اثاثہ قیاس آرائی ہے۔ یہی قیاس آرائی حواس کی بنیاد ہے۔ جب خیال متحرک ہوتا ہے تو بصارت، سماعت، گویائی، شامہ،مشام اور لمس درجہ بدرجہ ترتیب پاجاتے ہیں۔چونکہ ان کی بنیاد قیاس آرائی ہے اس لئے ظاہری حواس میں ہمارا دیکھنا ،سمجھنا اور سوچنا حقیقی نہیں ہے۔ اسی لئے روحانیت میں قلبی مشاہدے کو حقیقت کہا گیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ‘‘دل نے جو دیکھا، جھوٹ نہیں دیکھا۔’‘
(۳۱)
ہر چیز خیالات کی ہے پیمائش
ہیں نام کے دنیا میں غم و آسائش
تبدیل ہوئی جو خاک گورستاں میں
سب کوچہ و بازار کی تھی زیبائش
تشریح:
انسانی نگاہ کے سامنے جتنے مناظر ہیں وہ شعور کی بنائی ہوئی مختلف تصویریں ہیں ۔یہ تذکرہ ہوچکا ہے کہ دیکھنے کی یہ طرز مفروضہ ہے۔ اس لئے اس کے مشاہدات و تجربات بھی مفروضہ ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ ایک ہی چیز ایک آدمی کے لئے خوشی اور دوسرے کے لئے غم کا باعث ہوتی ہے۔ ایک چیز کے بارے میں مختلف لوگوں کی سینکڑوں مختلف آراء ہوتی ہیں حالانکہ حقیقت ایک اور صرف ایک ہوسکتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہماری نگاہ کے سامنے مظاہر میں ہر وقت تغیر ہوتا رہتا ہے۔ آبادی ویرانہ میں اور ویرانہ آبادی میں بدل جاتا ہے۔ یہ متغیر دنیا کس طرح حقیقی ہے جبکہ حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا۔
(۳۲)
ساقی کا کرم ہے میں کہاں کامئے نوش
مجھ ایسے ہزارہا کھڑے ہیں خاموش
مئے خوار عظیم برخیاؔ حاضر ہے
افلاک سے آرہی ہے آوازِ سروش
تشریح:
حضور قلندر بابا اولیاءؒ اس رباعی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے اس نے مجھے خصوصی علم (علم لدنی) عطا فرماکر ہزاروں لاکھوں سے ممتاز کردیا اور میرے اندر شرابِ معرفت کے خُم کے خُم انڈیل دیئے ہیں۔ آواز سروش یا صوتِ سرمدی نے مجھے مظاہراتی دنیا اور قید و بند کی زندگی سے آزاد کردیا ہے۔ میری سماعت طول موج (Wave Length)کے تانے بانے سے ماورأ اور بہت ماورأ ہے۔ آسمانوں میں جو کچھ ہورہا ہے میں کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتا ہوں اور ماورائی آوازوں سے میری سماعت لطف اندوز ہوتی ہے اور یہ ساری نعمتیں مجھے ساقی کے کرم سے ملی ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنے نانا کی منقبت میں اس بات کو اس طرح کہا ہے
یہ آپ ہی کا تو نواسہ ہے، دریا پی کر جو پیاسا ہے
جلووں کا سمندر دے دیجئے، اے بادہ حق اے جوئے علیؓ
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
ا نتساب
اُس نوجوان نسل کے نام
جو
ابدالِ حق، قلندر بابا اَولیَاء ؒ کی
‘‘ نسبت فیضان ‘‘
سے نوعِ ا نسانی کو سکون و راحت سے آشنا کرکے
اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے
ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے جنت
میں داخل ہوجائے گا۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیمٓ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا