Topics

خوش کیسے رہیں؟؟؟


اللہ تعالیٰ نے آدم کی رہائش کیلئے جنت بنائی۔ جنت کا مطلب یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں غم، خوف، ڈر، فساد اور مشقت نہ ہو۔۔۔۔۔۔بے سکونی، بدصورتی، گندگی، غلاظت اور کثافت نہ ہو۔۔۔۔۔۔جب غم اور خوف ختم ہو جائے تو خوشی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔
غم کا مطلب کیا ہے؟

ناخوشی۔۔۔۔۔۔!
جنت میں نافرمانی کی بناء پر آدم کے اندر خوشی کے بجائے ناخوشی در آئی۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے کہا، اب تم یہاں سے اتر جاؤ۔ آدمؑ زمین پر آ گئے۔۔۔۔۔۔طویل عرصے تک روتے رہے، آہ و زاری کرتے رہے۔۔۔۔۔۔

حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت یہ ہے کہ انہوں نے عاجزی و انکساری سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کو رحم آ گیا اور ان کی خطا معاف کر دی گئی۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی جنت میں دوبارہ داخلے کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔۔۔۔۔۔لہٰذا فارمولہ یہ بنا کہ انسان جب تک خوش نہیں رہے گا جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوش کیسے رہیں۔۔۔۔۔۔؟

اللہ تعالیٰ سب کو سعادت مند اولاد دے۔۔۔۔۔۔فرض کریں اولاد نافرمان ہو جائے تو باپ کیسے خوش ہو گا؟۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کے پاس محل ہے دوسرا جھونپڑی میں رہتا ہے۔۔۔۔۔۔برسات میں جس کی چھت ٹپکتی ہے۔۔۔۔۔۔بتایئے! جھونپڑی والا شخص کیسے خوش رہ سکے گا۔۔۔۔۔۔؟

ایک شخص کے پاس چالیس لاکھ کی کار ہے دوسرے کے پاس سائیکل بھی نہیں تو غریب شخص کیسے خوش ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ہم ایسی چیز کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جس میں مسرت کا پہلو نمایاں ہو۔۔۔۔۔۔چونکہ ہم غم زدہ اور پر مسرت زندگی گزارنے کے قانون سے ناواقف ہیں اس لئے زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ہم مسرت کی تلاش میں اکثر و بیشتر غلط سمت قدم بڑھاتے رہتے ہیں اور ناواقفیت کی بناء پر اپنے لئے ایسا راستہ منتخب کر لیتے ہیں جس میں تاریکی، بے سکونی اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے میں مسرت کی روشن قندیلیں اپنی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ وہ کون سی فضاء ہے؟۔۔۔۔۔۔جس میں شبنم موتی بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔؟ وہ کون سا ماحول ہے جو معطر اور پر سکون ہے۔۔۔۔۔۔؟وہ کون سی خوشبو ہے جس سے شعور روشن ہو جاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔

آیئے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں!۔۔۔۔۔۔

انسان کی بنیادی ضروریات میں سب سے اہم ہوا، پانی، دھوپ، چاند کی چاندنی شامل ہیں۔ اگر انسان خود کو ہی اپنی ضروریات کا کفیل سمجھتا ہے تو اس کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے یا ایسا کون سا علم ہے کہ وہ دھوپ کو حاصل کر سکے، پانی کو حاصل کر سکے؟ زمین کے اندر اگر پانی کے سوتے خشک ہو جائیں تو انسان کے پاس ایسا کون سا علم ہے۔۔۔۔۔۔؟طاقت ہے، عقل ہے کہ وہ زمین کے اندر پانی کی نہریں جاری کر دے؟۔۔۔۔۔۔

یہی حال ہوا کا ہے۔۔۔۔۔۔ہوا اگر بند ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کا نظام، وہ نظام جو ہوا کو تخلیق کرتا ہے اور ہوا کو گردش میں رکھتا ہے اس بات سے انکار کر دے کہ ہوا کو گردش نہیں دینا ہے، تو زمین پر موجود اربوں کھربوں مخلوق ایک منٹ میں تباہ و برباد ہو جائے گی۔ یہ کیسی بے عقلی اور ستم ظریفی ہے کہ بنیادی ضروریات کا جب تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے اور جب روٹی، کپڑے اور مکان کا تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنا اختیار استعمال نہ کریں تو یہ چیزیں ہمیں کیسے فراہم ہوں گی؟۔۔۔۔۔۔
ان معروضات سے منشاء یہ ہرگز نہیں کہ انسان یہ سمجھ کر کہ میں بے اختیار ہوں اور ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جائے، اس کے اعضاء منجمد ہو جائیں، منشاء صرف یہ ہے کہ زندگی میں ہر عمل اور ہر حرکت کو من جانب اللہ سمجھا جائے۔

جدوجہد اور کوشش اس لئے ضروری ہے کہ اعضاء منجمد نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔آدمی اپاہج نہ ہو جائے۔ آدمی جس مناسبت سے جدوجہد کرتا ہے جس مناسبت سے عملی اقدام کرتا ہے، بے شک اسے وسائل بھی اسی مناسبت سے نصیب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قانون قدرت پر اسے دسترس حاصل ہو گئی۔ قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے زمین آسمان اور زمین آسمان کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا ہے۔ اب طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کو صرف اور صرف مادی حدود میں استعمال کیا جائے اور دوسرا احسن طریقہ یہ ہے کہ وسائل کو اس لئے استعمال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام وسائل انسان کیلئے پیدا کئے ہیں۔

بجلی کا بڑا سورس پانی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ کی ایک تخلیق ہے بجلی کو محفوظ رکھنے کے لئے اوربجلی کو رواں رکھنے کے لئے تاروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تار جس دھات سے بنتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق ہے۔ بڑی بڑی مشینری، چھوٹی چھوٹی مشینری، چھوٹے سے چھوٹا پرزہ یا بڑے سے بڑا پرزہ دھات سے بنتا ہے۔ یہ دھات بھی اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔ علی ہذاالقیاس دنیا کی ترقی ایسے ممکن نہیں ہے جس میں پہلے سے موجود اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کا عمل دخل نہ ہو۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کسی تخلیق میں تفکر کرتا ہے اور تفکر کے ساتھ اس چیز کو آگے بڑھاتا ہے تو اسی ایک چیز سے ہزاروں لاکھوں چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں لیکن لوہے کے اندر باوجود اس کے ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں اشیاء میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ از خود دیگر اشیاء میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ لوہے کو نئی نئی چیزوں میں ڈھالنے کی صلاحیت انسان کو عطا ہوئی ہے۔

میں نے قلندر بابا اولیاءؒ سے ایک روز سوال کیا کہ سب کے ساتھ بشری تقاضے ہیں۔ کمزوریاں، مجبوریاں ہیں۔ بتایئے کہ پھر ہر شخص خوش کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟ تو انہوں نے مجھے تین باتیں بتائیں کہ ان تینوں کو اختیار کر کے آدمی ہمیشہ خوش رہ سکتا ہے؟
قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:

’’پہلی بات یہ ہے کہ جو تمہارے پاس ہے اس کا شکر ادا کرو۔ جو تمہارے پاس نہیں ہے اس کا شکوہ نہ کرو۔دوسری بات یہ ہے کہ جدوجہد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی کی کوشش رائیگاں نہیں کرتا۔‘ان دونوں باتوں کو ملائیں تو Equationیہ بنتی ہے کہ بالفرض آپ کے پاس موٹر سائیکل ہے، کار نہیں ہے۔ آپ موٹر سائیکل پر شکر ادا کریں اور کار کے لئے جدوجہد کریں۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا جو چیز پاس ہے اس کا شکر ادا کرو، جو نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کرو بلکہ اس کیلئے جدوجہد اور کوشش کرو۔
پھر فرمایا:

’’تیسری بات یہ ہے کہ کسی سے توقع قائم نہ کرو۔‘‘

ہمیشہ مالک و خود مختار اللہ کی ذات پر صدقِ دل سے یقین کرو۔







وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!