Topics

جوانی

جوانی میں ذہنی رجحانات صحت مند مشاغل کی طرف متوجہ ہونے کے باعث آپ کا جسم کسرتی ، مضبوط اور اعصاب بہت طاقتو رہیں۔ پسندیدہ کھیل میں ہاکی اور فٹ بال ہیں ۔کچھ عرصہ پہلوانی بھی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کشتی کے لئے اکھاڑے میں بھی اترے ہیں ۔ بعض اوقات آپ دوستوں کے ہمراہ جنگل میں نکل جاتے اور وہاں درختوں سے لپٹ کر انہیں جڑسے اکھیڑنے کی کوشش کرتے ۔ ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لئے دیواروں میں مکے مارتے ۔

چولستان کا جنگل

ایک بار بیٹھے بیٹھے دوستوں میں پروگرام بن گیا کہ ’’روڑ کی ‘‘ چلتے ہیں جو کہ تقریباً سولہ میل دور تھا۔ فیصلہ کیا اور پیدل روانہ ہوگئے اور حضرت صابر کلیری رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار پر حاضر ہوئے۔ ایک مرتبہ دوستوں کے ساتھ ہرن کا شکار کرنے کے لئے آپ چولستان کے جنگل میں گئے۔ شومئی قسمت کہ وہاں آپ اپنے دوستوں سے بچھڑ گئے۔دو ست اپنے مقام سے آگاہ کرنے کیلئے رائفل سے فائر کرتے رہے لیکن کھلی فضا ہونے کے باعث آواز کی باز گشت سے سمت کا درست تعین کرنا دشوار تھا لہٰذا تلاش میں شام کا دھند لکا پھیلنا شروع ہوگیا۔سانپوں سے ریت پر بننے والی لکیریں پیش آنے والی صورتحال کا اشارہ دے رہی تھیں۔ چولستان کے بارے میں عام رائے ہے کہ اگر کوئی اس میں بھٹک جائے تو اس کی لاش بھی نہیں ملتی ۔

عظیمی صاحب نے مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے رائفل سے فائر کر کے اسی جگہ بیٹھ کر اپنے دوستوں کے انتظار کا فیصلہ کیا۔ دوستوں کے ہمراہ ایک کھوجی تھا۔ وہ قدموں کے نشان دیکھ دیکھ کر بالآخرحضرت عظیمی صاحب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

نوجوانی کے ایام میں عظیمی صاحب سہارن پور سے دہلی آگئے۔یہاں حکیم امتیاز الدین کی طبابت کا بہت چرچا تھا۔دہلی میں آپ نے حکیم امتیاز الدین کی شاگردی اختیار کی اور ان سے دوا سازی اور نسخہ نویسی سیکھی۔

آفتاب نبوت

آپ کے بھائی مولانا ادریس احمد انصاری نے دہلی سے ’’ آفتاب نبوت ‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ کا اجراء کیا اور آپ کو اپنی معاونت کے لئے کہا چنانچہ عظیمی صاحب نے رسالہ کے منتظم اور معاون مدیر کے فرائض انجام دیئے۔۱۹۴۶ء کے آخر میں روزنامہ خلافت، بمبئی اور مولانا اختر علی خان کے اخبار زمیندار میں قیام پاکستان کے حق میں مضامین لکھے۔ عظیمی صاحب اپنے بھائی مولوی محمد الیاس انصاری کے ہمراہ ۱۹۴۷ ء کے ایک دن مشرقی پنجاب کی ریاست ’’پٹیالہ ‘‘میں ماہنامہ آفتاب نبوت کی ترویج کے لئے آئے۔ یہاں آپ کا قیام ایک تحصیل دار کی وسیع و عریض ، بلند و بالا حویلی میں تھا۔ اس دوران تقیسم ہندو پاک کے باعث پورے علاقے میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔

ہندو مسلم فسادات

وہاں کی خوں ریزی کے بارے میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ مشین گنوں کی تڑتڑاہٹ سے شعو ر معطل اور اعصاب مضمحل ہورہے تھے۔

گھر سے باہر نکلنے والوں کو موت اچک لیتی تھی۔ جو لوگ گھروں میں بند تھے۔ ان کے گھروں کو نذر آتش کیا جارہا تھا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ اس قتل و غارت گری میں تحصیل دار صاحب کا گھر محفوظ رہا۔ جب تھوڑا امن ہوا تو حویلی میں محصور افراد کو سات روز کی قید اور بھوک پیاس کی اذیت سے نجات ملی۔ جب میں گھر سے باہر نکلا تو سڑکوں پر مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئیں تھیں۔مجھے ایک سڑک عبور کرنا تھی، میں نے چاہا کہ سڑک اس طرح پار کروں کہ قدم لاشوں کے او پر نہ پڑیں مگر سڑک لاشوں سے اٹی پڑی تھی اور مجھے مجبوراً پنجوں کے بل لاشوں کے اوپر سے گزر کر سڑک کی دوسری طرف جانا پڑا۔ قتل و غارت گری کے باعث گھروں کی چھتوں پرسے خون ٹپک رہا تھا۔ نالے خون آلود پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ بچے بلک رہے تھے ۔ خواتین چادر اور چا ر دیواری سے آزاد عبرت کا مرقع بنی ہوئی تھیں۔ دولت کے انبار اور نوٹوں سے بھری ہوئی گھٹڑیاں مٹی سے بھی زیادہ بے وقعت ہوگئی تھیں ۔

حشر کا سماں

ایک جگہ قرآن پاک کے مقدس اوراق بکھرے ہوئے تھے ۔میں اللہ کی کتاب کے نورانی اوراق اپنے کرتے کے دامن میں جمع کرتے کرتے ’’ شیراں والہ دروازہ ‘‘ سے باہر نکل گیا۔ شیراں والہ دروازہ کرفیو زدہ علاقے کا آغاز تھا۔ وہاں نگرانی کے لئے سکھ فوجی کھڑے تھے۔ ایک فوجی نے مجھے وارننگ دی اور بندوق تان لی ۔میں نے اس سے کہا ،اگر گرنتھ صاحب کے اوراق اس طرح زمین پر ہوتے تو کیا تم انہیں نہ اٹھاتے۔ فوجی بندوق پر ہاتھ مارکر اٹینشن ہوا اور دونوں ایڑیوں پر گھوم گیا۔میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا کہ مسلمان اتنا بے حس ہوگیا ہے کہ اسے یہ بھی نظر نہیں آتا کہ قرآن کی بے حرمتی ہورہی ہے، گویا حشر کا سماں تھا۔ آدھا دن اور ایک رات سڑک پر گزرگئی ۔

اگلی ٹھٹھرتی صبح فوجیوں کے ساتھ لٹے پٹے افراد کا قافلہ کے ہمراہ شہر سے تقریباً ۳۰ میل دور مغلیہ دور کے بہادر گڑ ھ قلعہ میں جانے کے لئے روانہ ہوا۔ یہ قلعہ مہاجر کیمپ تھا۔ عجب بے سروسامانی کا عالم تھا۔ علاج معالجہ کی سہولیات ناپیدتھیں۔ جو مرتا ، لواحقین یا دوسرے افراد اس کی لاش سڑک پر رکھ دیتے ۔ صبح سویرے ٹرک آتا اورجمعدار کوڑے کرکٹ کی طرح لاشیں بھر کر لے جاتے۔ ایک دن میرے ذہن میں آیا کہ دیکھنا چاہئے کہ ان لاشوں کو دفنانے کا کیا انتظام کیا جاتا ہے ۔ مجھے اس جگہ جانے کا موقع ملا جہاں تمام لاشیں اکھٹی کرکے پہنچائی جاتی تھیں میں نے دیکھا ، وہاں ایک بہت بڑی کھائی تھی اورلاشیں اس میں پھینک دی جاتی تھیں۔ یہ طریقہ ایک طرح سے مختلف النوع جانوروں کے لئے دعوت طعام تھا ۔میں لاشوں کی اس قدر بے حرمتی دیکھ کر دلبرداشتہ ہوگیا۔

پانچ روپے

قلعہ میں رہائش کے لئے جو جگہ ملی وہ گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ وہاں پانی بھرا ہوا تھا۔ کچھ پانی ہاتھوں کی مدد سے اور باقی ماندہ اِدھراُدھر سے مٹی بھر کر نکالا گیا۔ میں بہت خوش ہوا کہ بستر مل گیا لہٰذا رات کو اس گیلی مٹی کے بستر پر سوگیا۔صبح آنکھ کھلی تو مٹی کی نمی اور موسم کی ٹھنڈ کی و جہ سے جسم اکڑ چکا تھا۔ کسی نہ کسی صورت باہر سے لوگوں کو مدد کے لئے بلایا اور لوگوں نے مجھے اٹھا کر دھوپ میں بٹھادیا۔ دھوپ کی تمازت سے اعصاب بحال اور جسم کے پٹھے متحرک ہوئے۔

اسی رات خواب میں والدہ محترمہ آئیں اور فرمایا ،تو پریشان نہ ہو، تیری واسکٹ کی اندر کی جیب میں پانچ روپے ہیں،اس کو لے لے،اللہ بہت برکت دے گا۔ صبح اٹھتے ہی بھائی جان سے خوا ب کا تذکرہ کیا ۔

بھائی جان کو بتایا کہ آپا جی نے کہا ہے کہ واسکٹ کی اندر کی جیب میں پانچ روپے ہیں۔ بھائی صاحب نے کہا،ہاں بھئی ! ٹھیک ہے ۔ بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظرآتے ہیں۔ میں نے غیر اختیاری طور پر جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں سے پانچ روپیہ کا بالکل نیا نوٹ بر آمد ہوا۔میرے علم میں یہ بات تھی کے قلعے کے باہر کچھ دکانیں وغیرہ ہیں جہاں سے کھانے پینے کا انتظام کیا جاسکتا ہے ۔میں قلعہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر باہر کا جائزہ لے رہاتھا کہ ایک فوجی آیا اور کہا ،صاحب بلارہے ہیں ۔میں اس کے ہمراہ لیفٹینٹ صاحب کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے سوال کیا، دروازے پر کھڑے کیا کررہے تھے۔میں نے کہا کہ باہر کچھ دکانیں لگی ہوئی ہیں اگر قلعہ سے باہر جانے کا پاس مل جائے تو میں کچھ کھانے پینے کو لے آؤں ۔ چار پانچ دن ہوگئے کچھ کھایا پیا نہیں ۔ اس نے سوال کیا، پیسے ہیںآپ کے پاس ۔۔۔میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا ، مجھے دے دیں۔ میں نے جب پانچ روپیہ کا نوٹ اسے دیا تو وہ اتنا نیا نوٹ دیکھ بہت حیران ہوا۔ اس نے حیرت سے پوچھا یہ تو بالکل نیا نوٹ ہے ، کہاں سے آیا۔میں نے اسے اپنا خواب سنادیا۔ خواب سننے کے بعد لیفٹیننٹ صاحب پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اردلی کو بلواکرمیرے لئے چائے اور بسکٹ منگوائے ۔ چائے اور بسکٹ کھانے کے بعد جب میں جانے کے لئے اٹھا تو اس نے ایک ’’پاس ‘‘ دیا اور ساتھ ہی پانچ روپے بھی واپس کردےئے ۔ میں یقین اور بے یقینی کے عالم میں دفتر سے باہر آگیا۔

فوجی کیمپ

گارڈ کو پاس دکھا کر قلعہ سے باہرنکلا، ایک دکان سے کچھ نمک ،گھی کا ایک خالی کنستر اور چائے کے دو ڈبے خریدنے کے بعد کھانے کے لئے کچھ چنے لے لئے ۔

یہ سارا سامان لے کر واپس کیمپ میں آیا تو خیال وار د ہوا،یہ لوگ بھوکے ، پیا سے ہیں ۔ بغیر دودھ کے نمک کی چائے بناؤ۔سوال ابھرا ،کیا لوگ بغیر دودھ کی چائے خریدیں گے لیکن اگلا سوال اس سے زیادہ اہم تھا ۔چائے کے لئے پانی کہاں سے آئے گا۔ یہاں تو پانی کی صورت حال یہ ہے کہ ایک کنواں ہے جو کہ بالکل خشک ہوچکا ہے ۔ جب پانی کی بہت زیادہ قلت ہوگئی تو ایک آدمی کو اس کنویں میں اتارا گیا۔ اس نے گیلی مٹی بالٹی میں بھر کر اوپر پہنچائی ۔ وہ گیلی مٹی لوگوں میں تقسیم ہوئی تو مردوں نے اپنے کرتوں اور عورتوں نے دوپٹوں میں اس مٹی کو پوٹلی بنا کر چو سا تاکہ حلق تر ہوجائے ۔ ریت چوس چوس کر گزار ا ہورہا ہے تو پانی کہاں سے آئے گا،کیا خواہ مخواہ بیکار ہی میں پیسے برباد کردےئے ۔میں اسی سوچ میں فوجی کیمپ جانکلا۔ایک صوبے دار صاحب نے مجھ سے پوچھا......یہاں کیوں کھڑے ہو۔میں نے کہا اس لئے کھڑا ہوں کہ اپنی پاکستانی فوج ہے ۔ صوبے دار نے خوشگوار حیرت سے کہا، کیا ہم اچھے لگتے ہیں۔میں نے کہا ، بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ کھانے کا وقت تھا وہ مجھے اپنے ہمراہ بیرک میں لے گیا۔ کھانا کھلایا، بہت سی ہلکی پھلکی باتوں کے بعد جب میں واپس آنے لگا تو اس نے کہا، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں ۔میں نے صوبے دار سے کہا کہ مجھے ایک کنستر پانی اور کچھ لکڑیاں چاہۂں۔ اس اللہ کے بندے ، محمد صدیق صاحب نے ایک کنستر پانی اور لکڑیوں کا انتظام کردیا۔

نمک کی چائے

میں نے صبح ہی صبح چائے تیار کی اور فی پیالی ایک آنہ قیمت مقرر کی ۔ لوگوں کے لئے یہ ایک بالکل نئی چیز تھی لہٰذا اس کے حصول کے لئے لائن لگ گئی ، خوب چائے بکی۔

ایک کنستر میں پتا نہیں کتنی پیالی چائے نکل آئی ۔ اس دوران بعض لوگوں نے چائے کی رقم ادا کرکے بقایا لینے کا تکلف بھی نہیں کیا۔ جب میں نے پیسے گنے تو کئی روپے تھے۔ کیمپ سے باہر آنے جانے میں دشواری نہ ہونے کے باعث دو تین دن تک نمک کی چائے بنائی ۔ کچھ دنوں میں مزید لوگوں کو ’’پاس ‘‘ مل گئے تو ان میں سے کچھ نے دودھ کی چائے بناکر فروخت کرنا شروع کردی ۔ دودھ کی چائے نے مجھے ہوٹل کھولنے کا راستہ دکھا یا اور اگلے چند دنوں میں ہوٹل کھل گیا۔

گنگا رام

کیمپ میں ساڑھے تین مہینے گزار نے کے بعد اسپیشل ٹرین کے ذریعے میں لاہور پہنچا ۔ جو قافلے تقسیم پاک و ہند کے وقت ریلوں میں سفر کرکے آئے ہیں انہیں آج بھی یاد ہے کہ ریلوں کی چھتوں پر کس طرح یخ بستہ ہواؤں میں لوگوں نے سفر کیا تھا۔ جو جہاں گر گیا اسی جگہ مرگیا۔ بے گوروکفن لاشیں ریلوے لائن کے دونوں اطراف نظر آتی تھیں۔ پاک فوج ریلوں میں آنے والے قافلوں کی محافظ نہ ہوتی تو شاید وہاں سے ایک فرد بھی پاکستان زندہ نہ آتا۔ نہایت کسمپرسی کے عالم میں لاہور پہنچا تو دوران سفر، میں اپنے بھائی سے بچھڑ گیا تھا۔ لاہور میں کوئی جاننے والا نہیں تھا، ایک صاحب مجھے اپنے ہمراہ گھر لے گئے ،گھر پہنچے تو گھروالوں نے مجھے ٹھہرانے سے انکار کردیا۔ سخت سردی میں، میں نے ساری رات گھر کے قریب پرانے طرز تعمیر کی ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر گزاری ۔ دوسرے دن میں نے بھائی کی تلا ش شروع کی تو پتا چلا کہ وہ مقبوضہ خواتین کے کیمپ ’’گنگارام گرلز اسکول ‘‘ میں ہیں ۔ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچا اور دو تین دن وہاں رہا۔

صادق آباد

بھائی صاحب نے میری ملازمت کے سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر عبدالباری صاحب سے بات کی ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا تعلق پٹیالہ اسٹیٹ سے تھا۔ انہوں کہا کہ آپ کو پٹواری کی نوکری دلوادیتے ہیں۔مجھے یہ پیش کش پسند نہیں آئی اور میں ریاست بہاولپور کے شہرصادق آباد چلا گیا۔والد صاحب نے ۱۹۳۹ء میں صادق آباد میں ۱۵۰ روپیہ فی مربع کے حساب سے دو مربع زمین خریدی تھی اورمیں ان کے ہمراہ یہاں رہ چکا تھا۔

صادق آباد کے لئے ریل گاڑی اسٹیشنوں پر رکتی ہوئی ساڑھے تین دن میں منزل پر پہنچی۔ جب میں اسٹیشن پر اترا تو تین دن کا بھوکا تھا۔ اسٹیشن پر جوار اور گڑکے لڈو ایک پیسہ میں دو بک رہے تھے لیکن جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو پیسے نہ تھے۔ شاید دوران سفر گرچکے تھے۔ نقاہت سے آنکھوں کے سامنے اسٹیشن ہنڈولے کی طرح گھوم گیا اورمیں چکراکر بیٹھ گیا۔ طبیعت پر اس قدر بیزاری طاری ہوئی کی خودکشی کا فیصلہ کرلیا۔ سگنل کی طرف دیکھا تو وہ گرین تھا۔میںآہستہ آہستہ چلتے ہوئے پلیٹ فارم سے نکل آیااور ریلوے لائن پر بیٹھ گیا۔ ذہن میں آیا کہ بے کار زندگی کا کیا فائدہ ۔

نادیدہ ہاتھ

ریل گاڑی لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی ۔ریل کی گڑگڑاہٹ اور ہارن کی آواز سے دماغ شل ہونا شروع ہوگیا لیکن میں جم کر بیٹھ گیا ۔ اس سے پیشترکہ ریل میرے اوپر سے گزرتی ،مجھ کو نادیدہ ہاتھ محسوس ہوئے جنہوں نے مجھے پلک جھپکتے میں ریلوے لائن سے اٹھا کر دور پھینک دیا۔میں لڑھکتے ہوئے دور تک چلا گیا۔ اس خیال سے کہ آدمی اپنی مرضی سے مر بھی نہیں سکتا مجھ پر مایوسی طاری ہوگئی ۔

اس کرب اور بے اطمینانی کے عالم میں دادی اماں نے مجھ سے روحانی طور فرمایا ، بیٹا !انتظار کر تیرے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہوچکی ہے ۔ ایک عظیم بندہ تیر ے اوپرانسانی شماریات سے بہت زیادہ اپنی شفقتیں محیط کردے گا۔ تو میرا سورج ہے، تیری روشنی پھیلے گی ۔

تعارف کا عمل

میں وہاں سے والد صاحب کے دوست حاجی تاج الدین صاحب کی دکان(ان کی لکڑی کی دکان تھی ) پر پہنچا ۔ وہ حساب کتاب میں مصروف تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواباً کہا ،بھئی !معاف کرو۔ پھر کہا ،بھائی ! میں نے کہا معاف کرو ۔میں کھڑا رہا۔انہوں نے غور سے دیکھا اور پوچھا ’’شمس الدین ‘‘ ہو ۔میں نے اثبات میں جواب دیا تو مجھ سے لپٹ گئے اور کہایہ تو کس حال میں ہے۔

وہ مجھے اپنے گھر لے آئے ۔ پہننے کے لئے کپڑے دےئے ۔ سفرنے جسمانی اورذہنی طور پر تھکا دیا تھا لہٰذا پر سکون ماحول ملتے ہی میں سوگیا ۔ سو کر اٹھا تو میرے لئے نیا کرتا ، پاجامہ ، نئی ٹوپی اور نیا جوتا موجود تھا۔ کھانا کھانے بیٹھا تو نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترا۔ حاجی صاحب مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے کہاان کا گلا خشک ہوگیا ہے ، ان کے گلے سے کوئی چیز اتر نہیں سکتی ۔ انہیں لٹاکر دودھ میں بادام روغن یا زیتون کا تیل ملا کر حلق میں ڈالیں اور گلے کو سہلا ، سہلا کر اسے اتارنے کی کوشش کریں۔ اگر دودھ حلق سے اتر گیا تو یہ جئیں گے ورنہ یہ مرجائیں گے۔ گھر واپس آکر حاجی صاحب نے بھر پور کوشش کرکے دودھ کی کچھ مقدار حلق سے نیچے اتار دی۔ اس کامیابی پر حاجی صاحب بہت خو ش ہوئے ۔ کچھ عرصہ کے بعد میرا ذہن معاش کی طرف متوجہ ہوااور نوکری کی تلاش شروع کردی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے مجھے معاشی استحکام عطافرمایا۔ حالات نے پھر کروٹ لی اور مجھے صادق آباد چھوڑنا پڑا۔ تقریباً ڈھائی سال کے بعدجب میں صادق آباد سے کراچی کے لئے روانہ ہوا تو خالی ہاتھ تھا۔ فطرت اپنے غیر معمولی واقعات کو معمولی تعارف سے شروع کرتی ہے اورمیں بھی تعارف کے عمل سے گزرنے کے لئے تیار ہوچکا تھا۔


تذكره خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

خواجہ شمس الدین عظیمی

ایسالگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔ مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔