Topics

اولاد کی تربیت


ہم جب کائناتی نظام پر غور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔تو پورا ایک
Networkہمارے سامنے آ جاتا ہے۔اس Networkکی خصوصیت یہ ہے کہ اس نظام کے چلانے والے جتنے بھی کارکن ہیں ان سب کا آپس میں ذہنی اشتراک ہے۔

کائنات ایک اسٹیج ڈرامے کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔ڈرامے میں اگر مختلف کرداروں کا آپس میں اشتراک نہ ہو اور ہر ایکٹر اپنے کریکٹر کو ڈرامہ نویس اور پروڈیوسر کے مطابق پورا نہ کرے تو ڈرامہ فلاپ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

کائناتی نظام کے سلسلے میں کائنات کو ڈرامے سے تشبیہ دینا کوئی اچھی اور قابل تعریف بات نہیں ہے۔ لیکن نوع انسانی کی مجبوری ہے کہ اس کے پاس حقائق بیان کرنے کی Vocabularyاتنی کم ہے کہ تہی دامن ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے جن سے مضمون کا مفہوم واضح ہو جائے۔کائناتی Networkمیں بے شمار زمینیں۔۔۔۔۔۔ان زمینوں پر شماریات سے زیادہ سورج، چاند اور ستارے۔۔۔۔۔۔زمین کے اوپر خلاء میں۔۔۔۔۔۔زمین کی سطح پر۔۔۔۔۔۔زمین کے اندر تہہ در تہہ پرتوں میں۔۔۔۔۔۔تخلیقات کا ایک سلسلہ ہے جو کسی بھی طرح الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتا ہے۔۔۔۔۔۔تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں خود اس بندے کی راہنمائی کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔اور وہ نشانیاں بولتی ہیں۔۔۔۔۔۔کہ قدرت نے ہمارے اندر فلاں فلاں صلاحیتیں ودیعت کر دی ہیں۔

کائنات کا Networkان روشنیوں پر قائم ہے جو روشنیاں نظر نہیں آتیں۔۔۔۔۔۔لیکن ان روشنیوں کا تعامل انسان کو ادراک عطا کرتا ہے کہ روشنی Flowکرتی ہے یعنی چلتی ہے۔۔۔۔۔۔روشنی لطیف ہے۔۔۔۔۔۔روشنی بھاری ہے۔۔۔۔۔۔لطیف روشنی سے لطیف حواس تخلیق پاتے ہیں اور بھاری روشنی سے کثیف جذبات عمل میں آتے ہیں۔ یہ روشنیاں انسان کے اوپر یہ راز کھول دیتی ہیں کہ کائنات میں کوئی بھی مخلوق پہلے لطیف روشنی ہے اور کائنات میں ہر مخلوق اس لطیف روشنی کا عکس ہے لیکن لطیف روشنی کے عکس کے مظاہرے میں کسی نہ کسی حد تک کثافت داخل ہو جاتی ہے اور پھر اس کثافت میں مزید کثافت داخل ہو کر تعفن بن جاتا ہے۔
چند مخلوقات میں کثافت زیادہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔کچھ مخلوقات میں کثافت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اور کچھ مخلوقات لطیف روشنی کی تخلیق ہیں۔۔۔۔۔۔

کائناتی تخلیقی قوانین کے مطابق کائنات میں ہر شئے۔۔۔۔۔۔اس میں زمین کا چھوٹے سے چھوٹا کرّہ اور بڑے سے بڑا سیارہ شامل ہے اور ان کرّوں اور سیاروں میں مخلوقات بھی شامل ہیں۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسی قانون کے تحت پیدا ہونے، جوان ہونے، بوڑھا ہونے اور مرنے کی پابند ہے۔۔۔۔۔۔

ہم سب انسان ہیں!۔۔۔۔۔۔

انسانی تخلیق پر آج کی مجلس میں چند معروضات پیش کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔۔۔۔۔۔

جب ہم اولاد کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا شعور اس طرف متوجہ ہو یا نہ ہو لیکن ہم مجبور ہیں کہ یہ بات تسلیم کریں کہ ہم بھی چھوٹے بچوں کی طرح تھے۔۔۔۔۔۔جس طرح ہماری اولاد پیدا ہوئی ہے اسی طرح ہم بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جس طرح ہماری اولاد جوان ہو کر ماں باپ بنتی ہے اسی طرح ہم بھی ماں باپ بنے ہیں۔

کائناتی Networkکے قانون کے مطابق تمام دنیاؤں میں ایک ہی قانون نافذ ہے!۔۔۔۔۔۔یہ دنیائیں کتنی ہیں؟۔۔۔۔۔۔اس کا اندازہ سپر کمپیوٹر بھی نہیں لگا سکتا!۔۔۔۔۔۔جب خدائی Networkکا ذکر ہوتا ہے تو بتایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ایک کتاب المبین ہے۔۔۔۔۔۔

ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوحِ محفوظ ہیں!۔۔۔۔۔۔

ہر لوحِ محفوظ پر اسّی ہزار حضیرے ہیں!۔۔۔۔۔۔

ہر حضیرے میں بارہ کھرب غیر مستقل نظام ہیں اور ایک کھرب مستقل اور آباد نظام موجود ہیں۔ہر نظام میں ایک سورج کے گرد نو یا بارہ سیارے گردش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہماری زمین (ایک سیارہ) پر انسانوں کی آبادی چھ ارب بتائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
ذرا کرسی پر آ جایئے اور اپنا کمپیوٹر آن کیجئے۔۔۔۔۔۔اور حساب لگا کر بتایئے کہ کتنی
Trillionمخلوق بنتی ہے۔۔۔۔۔۔اگر کسی بہن بھائی یا بچوں نے کمپیوٹر میں حساب لگا کر ہمیں بھیج دیا۔۔۔۔۔۔تو ان کی خدمت میں بہترین انعام پیش کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔
ہماری دانست میں ایک زمین کے اوپر جو نوعیں آباد ہیں ان کی تعداد تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔

ہر بالغ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اولاد کی نعمت سے نوازے۔۔۔۔۔۔اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نعمت سے صرف والدین ہی خوش نہیں ہوتے، خاندان اور معاشرے میں بھی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔اولاد ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے لئے پیغمبروں نے بھی اللہ تعالیٰ سے التجا اور دعا کی ہے۔۔۔۔۔۔

حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی:

’’میرے رب تو اپنے پاس سے مجھے پاکباز اولاد عطا فرما بیشک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔

ّسورۃ آل عمران۔ آیت 38)

اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق متعین کئے ہیں اور بار بار ارشاد فرمایا ہے:

’’اور بے شک اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔

(سورۃ الحج۔ آیت 58)

جو لوگ اولاد کو ضائع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ضائع کرنے سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کی صحیح تربیت نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔وہ انتہائی سنگدل لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں اپنی حماقت سے موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
(سورۃ الانعام۔ آیت 140)

اولاد کی تربیت کے سلسلے میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا ارشاد ہے:

’’قیامت کے روز والدین سے اللہ تعالیٰ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے اپنی اولاد کو کیا کھلایا ہے۔۔۔۔۔۔کیا پلایا ہے۔۔۔۔۔۔اور کیسا لباس پہنایا ہے۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ والدین کے رزق کے ساتھ ساتھ اولاد کا رزق بھی عطا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ یہ پوچھیں گے کہ تم نے اولاد کی تربیت کیسی کی؟‘‘۔۔۔۔۔۔

اولاد کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ آپ اولاد کو بار بار ڈانٹنے، جھڑکنے اور بُرا کہنے سے گریز کریں۔۔۔۔۔۔ان کی شرارتوں، کوتاہیوں پر بیزار ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کے بجائے۔۔۔۔۔۔محبت کے ساتھ انہیں سمجھایئے کہ وہ اچھی باتیں اختیار کریں۔۔۔۔۔۔ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد سے جو کچھ چاہتے ہیں وہ تمام صفات والدین کے اندر موجود ہوں۔۔۔۔۔۔
جب ایک بیوی شوہر کے ساتھ خوش رہے گی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گی۔۔۔۔۔۔تو بچے خود بخود فرمانبردار ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔اور جب شوہر بیوی کے جذبات و احساسات کا خیال کرے گی اور اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرے گا، اس کے اندر عفو و درگزر کا جذبہ ہو گا تو یقیناً اولاد بھی سعادت مند ہو گی۔ اس کے اندر معافی کی صفات پیدا ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔

ایک مرتبہ اقرع بن حابس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے۔۔۔۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔اقرع کو دیکھ کر تعجب ہوا۔۔۔۔۔۔اور بولے:

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں!۔۔۔۔۔۔میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اقرع کی طرف دیکھا اور فرمایا:

’’اگر خدا نے تیرے دل سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘۔۔۔۔۔۔

(مسلم۔جلد سوئم۔ حدیث1530)

فاروق اعظمؓ کے دور میں حضرت عامرؓ ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے آئے۔ اس وقت حضرت عمرؓ لیٹے ہوئے تھے اور بچے ان کے سینے پر اُچھل کود کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔حضرت عامر رضی اللہ عنہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔۔۔۔۔۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ اعلیٰ درجے کے مردم شناس تھے۔۔۔۔۔۔حضرت عامرؓ کی ناگواری کو محسوس کر کے ان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔’’آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ کیا برتاؤ اور رویہ ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔

حضرت عامرؓ بولے:’’جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔سب خوف کے مارے دم سادھ کر چپ ہو جاتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔حضرت عمرؓ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا:

’’عامر! آپ امت محمدیہ کے فرزند ہوتے ہوئے یہ بھی نہیں جانتے کہ مسلمان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہئے‘‘۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہونے کیلئے والدین کو چاہئے کہ وہ اولاد کو اعلیٰ درجے کی تعلیم اور پاکیزہ تربیت سے آراستہ کریں۔۔۔۔۔۔تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’مومنوں بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے‘‘۔

(سورۃ التحریم۔ آیت6)

جہنم کی آگ سے بچنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ اولاد کی دین اور دنیا کی تعلیم اچھی ہو۔۔۔۔۔۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے‘‘۔

(مفہوم حدیث، مشکوٰۃ شریف، جلد سوم۔ حدیث354)

یاد رکھئے۔۔۔۔۔۔صالح اولاد ہماری روایات، تہذیب، دینی تعلیمات اور توحید کے پیغام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔۔۔
ماؤں کے اوپر فرض ہے۔۔۔۔۔۔

بچوں کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔۔۔۔۔۔انہیں پابندی کے ساتھ نہلائیں دھلائیں۔۔۔۔۔۔پاک صاف اور دیدہ زیب لباس پہنائیں۔۔۔۔۔۔
دوسروں کے سامنے بچوں کا عیب کبھی بیان نہ کریں۔۔۔۔۔۔جو کچھ کہنا ہے بچوں کو تنہائی میں کہیں، کسی کے سامنے بچوں کو برا کہنا، ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔

بچوں کو نبیوں کے قصے اور اولیاء اللہ کے واقعات سنایئے۔۔۔۔۔۔تمام مصروفیات کے باوجود بچوں کیلئے وقت نکالیں۔۔۔۔۔۔خوش الحانی کے ساتھ انہیں قرآن پڑھ کر سنائیں۔۔۔۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کے اوصاف ان کے سامنے بیان کریں۔۔۔۔۔۔

ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں سے غریبوں کو پیسے دلوائیں۔۔۔۔۔۔کھانا کھلوائیں۔۔۔۔۔۔بہن بھائیوں میں چیزیں تقسیم کروائیں۔۔۔۔۔۔تقریبات میں بہن بھائیوں سے آپس میں تحفوں کا تبادلہ کروائیں۔۔۔۔۔۔بچوں کے ساتھ کرخت آواز میں نہ بولیں اس لئے کہ کرخت آواز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

والدین کے اوپر فرض ہے کہ اولاد کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔۔۔۔۔۔لین دین میں ہمیشہ مساوات کا لحاظ رکھیں۔۔۔۔۔۔
ایک بار حضرت نعمانؓ کے والد حضرت بشیرؓ اپنے بیٹے کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس ایک غلام تھا۔۔۔۔۔۔میں نے وہ غلام اپنے لڑکے کو بخش دیا‘‘۔۔۔۔۔۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا۔۔۔۔۔۔

’’کیا تم نے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام بخشا ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔

بشیرؓ بولے:’’نہیں!‘‘۔۔۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’اس غلام کو تم واپس لے لو۔۔۔۔۔۔اور فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات کا سلوک کرو‘‘۔۔۔۔۔۔
حضرت بشیرؓ گھر واپس آئے اور نعمان سے غلام واپس لے لیا۔۔۔۔۔۔

(جامع ترمذی، جلد اول۔ حدیث1380)

ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچے سے یا بچے کے سامنے جھوٹ نہ بولیں۔۔۔۔۔۔بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں، وہی کچھ بولتے ہیں، وہی کچھ کرتے ہیں جو ماں باپ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

حضرت عبداللہؓ ابن عامر بیان کرتے ہیں ’’میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہاں آؤ میں تمہیں ایک چیز دوں گی‘‘۔۔۔۔۔۔
یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سن لی اور پوچھا:

’’تم بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔

وہ بولیں: ’’میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں‘‘۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’اگر تم اپنے بچے کو چیز دینے کا بہانہ کر کے بلاتیں اور بچے کو کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامے میں جھوٹ لکھ دیا جاتا‘‘۔۔۔۔۔۔
(مشکوٰۃ شریف، جلد چہارم۔ حدیث نمبر809)

ہمارے معاشرے میں یہ بات عام طور سے دیکھی جاتی ہے کہ بلکہ یوں کہئے کہ رائج ہو گئی ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی خوشی لڑکے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔

حدیث شریف میں ہے۔۔۔۔۔۔

’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں فرشتے بھیجتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں اے گھر والو۔۔۔۔۔۔تم پر سلامتی ہو۔۔۔۔۔۔اور یہ کہہ کر وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ کمزور جان ہے۔۔۔۔۔۔جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔جو اس لڑکی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کی شامل حال رہے گی‘‘۔۔۔۔۔۔

(حضرت نبیط بن شریطؓ۔ طبرانی الصغیر۔ 1/61حدیث 70۔ ض62)

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم دلوائی، تہذیب سکھائی۔۔۔۔۔۔بہترین تربیت کی، ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو بے نیاز کر دے (یعنی وہ اپنے گھر کی ہو جائیں)۔۔۔۔۔۔تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کر دی ہے‘‘۔

مجلس میں موجود ایک صاحب نے عرض کیا :

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم!۔۔۔۔۔۔اگر دو لڑکیاں ہوں؟‘‘۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے‘‘۔

(مشکوٰۃ شریف، جلد چہارم۔ حدیث 901)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔۔۔۔۔۔ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کے ساتھ میرے پاس آئی۔۔۔۔۔۔میرے پاس اس وقت ایک ہی کھجور تھی ۔۔۔میں نے اسے کجھور  دے دی  اور اس عورت نے آدھی آدھی تقسیم کردی ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ چلی گئی۔۔۔۔۔۔فوراً ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لے آئے۔۔۔۔۔۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتایا کہ ایک عورت آئی تھی۔۔۔۔۔۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری بات سن کر فرمایا:

’’جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے آزمائش میں کامیاب ہو۔۔۔۔۔۔تو یہ لڑکیاں اس کیلئے قیامت کے روز جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال بن جائیں گی‘‘۔۔۔۔۔۔

(مشکوٰۃ شریف، جلد چہارم۔ حدیث 875)

تاریخ کے صفحات پر جتنے بھی لوگ اعلیٰ مدارج پر فائز ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ان کے پیچھے والدین اور خصوصاً ماں کی تربیت کا عمل دخل ہے۔۔۔۔۔۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی والدہ کا نام حضرت بی بی زلیخاؒ ہے۔۔۔۔۔۔

محبوب الٰہی خواجہ نظام الدینؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔ایک روز گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، اماں نے کہا۔۔۔۔۔۔آج ہم اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ایک آدمی آیا۔۔۔۔۔۔اور اناج کی ایک بوری دے گیا۔۔۔۔۔۔یہ اناج اتنے دنوں تک چلا کہ طبیعت گھبرا گئی کہ یہ اناج ختم کیوں نہیں ہوتا؟۔۔۔۔۔۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ جب رشد و ہدایت اور خانقاہی امور میں بہت زیادہ مصروف ہو گئے تو آپؒ نے والدہ سے ملاقات کیلئے ہر ماہ کی چودہ تاریخ مقرر کی۔ ایک مرتبہ فرمایا: ’’نظام آنے والے مہینے میں کس کے قدموں پر سر رکھو گے؟‘‘۔۔۔۔۔۔نظام الدینؒ سمجھ گئے، روتے ہوئے عرض کیا:’’اماں جان! آپ مجھ غریب لاچار کو تنہا چھوڑ کر جا رہی ہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔

بی بی زلیخاؒ نے کہا:’’کل صبح بات ہو گی آج رات شیخ نجیب الدین متوکلؒ کے گھر آرام کرو۔‘‘صبح صادق کے وقت ملازم نے آ کر کہا کہ آپ کو بی بی صاحبہ بلا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا:’’کل تم نے کچھ پوچھا تھا میں اب تمہیں بتاتی ہوں‘‘۔۔۔۔۔۔اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:’’اے اللہ! اسے میں نے تیرے حوالے کیا‘‘۔۔۔۔۔۔اور ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کر لیں۔

قطب الدین علاؤالدین خلجیؒ نے جامع مسجد تعمیر کرائی اور حکم دیا کہ لوگ نماز جمعہ جامع مسجد میں ادا کیا کریں لیکن شیخ نظام الدین اولیاءؒ نے جامع مسجد میں جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا:’’ہمارے قریب کی مسجد زیادہ مستحق ہے‘‘۔ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ بادشاہ نے حکم جاری کر دیا کہ ہر ماہ کی چاند رات کو تمام مشائخ، علماء اور رؤسا نئے چاند کی مبارکباد پیش کرنے کے لئے بادشاہ کے حضور حاضر ہوں۔
حضرت نظام الدینؒ خود ان تقاریب میں نہیں گئے بلکہ اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیا۔ حاسدوں نے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اسے بادشاہ کی توہین قرار دیا۔۔۔۔۔۔بادشاہ نے جلال کے عالم میں حکم دیا کہ آئندہ ماہ کی پہلی تاریخ کو جو شخص حاضر نہیں ہو گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔۔۔۔۔۔یہ بات شیخ نظام الدینؒ کو معلوم ہوئی تو کچھ کہے بغیر اپنی والدہ بی بی زلیخاؒ کی قبر پر گئے اور عرض کیا:’’بادشاہ مجھے تکلیف دینا چاہتا ہے اور اگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا تو میں آپ کی زیارت کیلئے نہیں آ سکوں گا‘‘۔۔۔۔۔۔
اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو عجیب واقعہ پیش آیا کہ بادشاہ کے مقرب خرد خان نے بادشاہ کو قتل کر کے اس کی لاش محل سے باہر پھینک دی۔


وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!