Topics

انکشافات


انکشاف01
ہم سب جانتے ہیں کہ عمارت اینٹوں اور سیمنٹ سے بنتی ہے۔ اس عمارت میں دروازے، کھڑکیاں ہوتی ہیں۔ ہوا اندر آنے کیلئے اور ہوا اندر سے باہر جانے کیلئے راستے ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش اور دھوپ کی شدت سے گھر گرم ہو جاتا ہے اور ٹھنڈی ہوا سے گھر کا ٹمپریچر کم ہو جاتا ہے۔ گھر میں چھت ہوتی ہے اور چھت کے نیچے فرش ہوتا ہے۔

یہ اس عمارت کا ذکر ہے جو بجری، کرش، سیمنٹ اور لوہے سے مل کر بنتی ہے۔۔۔۔۔۔

جس طرح عمارت بنائی جاتی ہے، اسی طرح قدرت نے انسانی جسم کو بھی بیشمار خلیات سے بنایا ہے۔ خلیات کو انگریزی میں Cellsکہتے ہیں۔

یہ Cellsزندگی کو توانائی بخشتے ہیں اور اس توانائی سے زندگی قائم رہتی ہے۔ ان سیلز کی جسم انسانی میں شکست و ریخت ہوتی رہتی ہے۔ ہر Cellکے اندر بہت سارے اجزاء ہوتے ہیں اور انہی اجزاء سے زندگی قائم رہتی ہے۔ جس طرح Cellمیں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے، اسی طرح جسم میں بھی ہمہ وقت تعمیر و تخریب کا عمل ہوتا رہتا ہے۔

تعمیر و تخریب کا یہ عمل ایک طرف نشوونما میں اضافہ کرتا ہے تو دوسری طرف نشوونما کو ماضی میں ریکارڈ کرتا ہے اور تعمیر و تخریب کا یہ عمل انسانی وجود کو Growکرتا ہے۔نو مہینے کی یہ ٹوٹ پھوٹ تخلیق کو پورا کر کے بچہ کو عالم رنگ و بو میں لے آتی ہے۔
اس تخلیق میں مرد و عورت دونوں کا حصہ ہے۔ لیکن تخلیقی عمل میں مرد کے مقابلے میں عورت کا کردار زیادہ نمایاں ہے۔۔۔۔۔۔

*****

بتایا جاتا ہے کہ مرد اور عورت بہت پیچھے ماضی میں ایک تھے۔۔۔۔۔۔اور عورت مرد کے اندر اس طرح چھپی ہوئی تھی کہ آدم کے علاوہ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

آدم نے جنت میں اپنی مخالف جنس حور کو دیکھا۔۔۔۔۔۔حور کی اور آدم کی ساخت مختلف تھی۔۔۔۔۔۔تخلیقی اجزاء دونوں کے ایک سے تھے لیکن یکسر جدا جدا تھے۔۔۔۔۔۔جنس مخالف حور کو دیکھ کر آدم نے اپنے وجود کے اندر عورت کو یعنی حوا کو دیکھا تو حوا سے قربت کا اور حوا سے لمس کا تقاضہ پیدا ہوا۔۔۔۔۔۔اور یہ تقاضہ اتنا بڑھا کہ آدم کا ذہن اس نقطے پر مرکوز ہو گیا جہاں قانون قدرت کے تحت تخلیقی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور نتیجے میں حوا آدم کے وجو دسے باہر نکل آئی۔۔۔۔۔۔

یہی حوا عورت ہے!۔۔۔۔۔۔جو پوری نوع انسانی کی ماں ہے!۔۔۔۔۔۔

عجیب صورتحال یہ ہے کہ ماں کا وجود مرد کے وجود کے تابع ہے لیکن صلبی نظام کا پورا کنٹرول ماں کے ساتھ وابستہ ہے۔

ماں!۔۔۔۔۔۔تخلیق۔۔۔۔۔۔تغیر۔۔۔۔۔۔نشوونما۔۔۔۔۔۔تولید۔۔۔۔۔۔اور نومولود کے بقا کی ذمہ دار ہے۔۔۔۔۔۔

صورتحال یہ ہے کہ صلبی نظام میں عورت ہر اعتبار سے مرد پر فوقیت رکھتی ہے۔

تخلیق میں مرد کا عمل اتنا ہے کہ وہ اپنے جسم سے افزائش نسل کیلئے بیج فراہم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اس طرح مرد کے وجود کی اہمیت بلاشبہ اجاگر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اگر نطفے کو ماں کا رحم تخلیقی عمل میں آگے نہ بڑھائے تو تخلیق نہیں ہوتی!۔۔۔۔۔۔
اسی لئے ہم مرد و عورت، ماں اور باپ دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔


انکشاف02
زمین پر پیدا ہونے والا ہر باشعور فرد اس بات کا تجربہ رکھتا ہے کہ مرد انتقال نطفہ کے بعد اس طرح جدا ہو جاتا ہے کہ جیسے دونوں کا ملاپ جُز وقتی تھا۔۔۔۔۔۔

جبکہ عورت مستقبل کے خوش کن نتائج کے انتظار میں مسلسل ایثار کرتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔

عورت!۔۔۔۔۔۔ماں کے روپ میں دو کروڑ33لاکھ28ہزار لمحات ایک نئے انسان کے تصور میں گزار دیتی ہے، جو خود اسی کے جسم و جان کا ایک حصہ ہے!۔۔۔۔۔۔

نطفہ!۔۔۔۔۔۔یعنی بیج کو اگر Dieتسلیم کر لیا جائے تو اس Dieمیں انسانی وجود کے جتنے اعضاء ہیں وہ سب ماں کے خون سے تخلیق ہوتے ہیں۔

ایک کومل نرم و نازک اور خوبصورت بچے کے اعضاء کو دیکھا جائے تو ہر عضو ماں کے خون سے بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
صتحمند بچے کے اندر تقریباً بارہ کھرب سیلز
Cellsکام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور یہ سارے Cellsیا خلیے بچے کو ماں سے منتقل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
عورت!۔۔۔۔۔۔مرد سے حاصل کردہ ایک قطرے کو اپنے بطن میں قبولیت کے ساتھ جگہ دیتی ہے اور اپنے اندر کی حرارت سے اس میں تحریک و تغیر پیدا کرتی ہے۔

یہ تحریک ہی دراصل بچے کی نمو کا پیش خیمہ ہے!۔۔۔۔۔۔عورت!۔۔۔۔۔۔ماں ہے۔۔۔۔۔۔ماں اپنے خون سے بچے کو غذا فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔قدرت کی عطا کردہ قوت تخلیق سے اس کو بڑھاتی ہے اور یہ رقیق قطرہ منجمد صورت اختیار کر کے مضغہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔حجم بڑھتا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔عضلات ترتیب پاتے رہتے ہیں اور گوشت کا لوتھڑا انسانی نقش و نگار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔کم و بیش نو ماہ کے بعد یہ مولود اپنی ماں کے جسم سے الگ ہو کر اس دنیا میں برملا اپنے وجود کا اعلان کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
ابتدائے حمل سے وضع حمل تک۔۔۔۔۔۔یہ پورا عمل عورت کے اندر موجود تخلیقی قوتیں سر انجام دیتا ہے۔۔۔۔۔۔اس عمل میں ہر طرح عورت کی جسمانی توانائی صرف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔دیکھا جائے تو اس پورے عمل میں مرد کا حصہ صرف اتنا ہے کہ اس نے عورت کے بطن میں خود عورت کی قبولیت کے ساتھ بیج بو دیا۔۔۔۔۔۔


انکشاف03
وضع حمل کے بعد عورت کے فرائض ختم نہیں ہو جاتے۔ ولادت کے بعد نومولود کو سوا دو سال تک 19ہزار چار سو چالیس گھنٹے تک غذا بھی اپنے جسم سے فراہم کرتی ہے۔ جس میں چار مہینے ایسے ہیں کہ بچے کو مزید کسی قسم کی غذا کی ضرورت پیش نہیں آتی حتیٰ کہ پانی پینے کا تقاضہ بھی ماں کے دودھ سے پورا ہو جاتا ہے اور بارہ سال کی عمر تک ماں ہی بچے کی دیکھ بھال، موسمی اثرات سے بچاؤ اور حفاظت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔
غرض پرورش اور تربیت۔۔۔۔۔۔سب کی ذمہ داری عورت کے اوپر ہے۔۔۔۔۔۔ان مشاہدات اور تجربات کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہر صاحب عقل انسان ولادت کے مسئلے پر عورت کی فضیلت تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔عورت۔۔۔۔۔۔
ماں!۔۔۔۔۔۔


انکشاف04
تقریباً تمام تہذیبوں اور مذہب و تاریخ کے تذکروں میں درج ہے کہ نسل انسانی کی ابتدا آدم و حوا سے ہوئی ہے۔
قدیم روایتوں میں جہاں جہاں بھی انسانی زندگی کے آغاز کا ذکر ملتا ہے۔۔۔۔۔۔وہاں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے نر وجود میں آیا۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے وجود سے مادہ نے جنم لیا۔۔۔۔۔۔

یہ قدیم روایتیں اندھی تقلید کی طرز فکر کے تحت مذاہب کے پیروکاروں نے بھی اپنا لیں۔۔۔۔۔۔اور ان کے اثرات ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی قائم رہے۔۔۔۔۔۔حالانکہ آخری کتاب قرآن سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کہ آدم پہلے پیدا ہوئے اور پھر آدم کی پسلی سے حوا کی پیدائش ہوئی۔۔۔۔۔۔

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! بیان کرو اسماء، جب اس نے اسماء بیان کر دیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان اور زمین کے غیب کا علم رکھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا اور تکبر میں آ گیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری زوج جنت میں رہو اس میں سے کھاؤ بے روک ٹوک جہاں سے تمہارا جی چاہے۔ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں سے ہو جائے گا۔ پھر شیطان نے دونوں کو بہکایا اور جہاں وہ رہتے تھے وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہا اب تم سب نیچے اترو ایک دوسرے کے دشمن ہو کر اور تمہیں ایک وقت تک زمین پر ٹھہرنا ہے اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔ ہم نے کہا تم سب نیچے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے تو اسے کوئی خوف اور غم نہ ہو گا اور وہ لوگ جو کفر کریں گے اور میری نشانیوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں۔ انہیں ہمیشہ اس میں رہنا ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ آیت 33-39)

’’اور ہر پھل کے جوڑے دہرے بنائے۔‘‘

(سورۃ الرعد۔ 3)


’’اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعے ہر قسم کے اعلیٰ جوڑے پیدا کئے‘‘۔

(سورۃ لقمان۔ آیت 10)

’’پاک ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا جوڑوں میں، ان چیزوں میں جنہیں زمین اُگاتی ہے اور خود ان کے نفسوں میں، ان چیزوں میں جن کا وہ علم نہیں رکھتے۔‘‘

(سورۃ یٰسین۔ آیت 36)

’’اور ہم نے ہر چیز کو جوڑوں میں تخلیق کیا تا کہ تم سوچو اور یاد رکھو۔‘‘

(سورۃ الذریٰت۔ آیت 49)

’’تخلیق کیا تمہیں نفس واحدہ سے پھر اُسی سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘

(سورۃ الاعراف۔ آیت 189)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو تفکر کرتے ہیں‘‘۔

(سورۃ الروم۔ آیت 21)

ان آیات میں پیدائش کے متعلق یہ نظریہ کہ آدم کی پسلی سے حوا پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ثابت نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔جہاں جہاں آدم کا تذکرہ ہوا ہے وہاں آدم سے مراد اجتماعی تشخص ہے۔۔۔۔۔۔اور جہاں آدم کے علاوہ دوسرے فرد کا تذکرہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
’’اے آدم تم اور تمہاری زوج جنت میں رہو۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ آیت 35)

اس آیت میں عربی لفظ ’’زوج‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی جوڑے کے ہیں۔۔۔۔۔۔اس لفظ کو زوجہ تصور کر کے اس کا ترجمہ بیوی کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔

قرآن پاک میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد جوڑا ہے!۔۔۔۔۔۔بیوی نہیں۔۔۔۔۔۔


انکشاف05
تفکر رہنمائی کرتا ہے کہ آدم کے ساتھ حوا کی بھی تخلیق ہوئی۔۔۔۔۔۔ان کو بھی علم الاسماء منتقل ہوئے اور فرشتوں نے ان کی بھی علمی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے سامنے سجدہ کیا۔۔۔۔۔۔شجر ممنوعہ کے قریب جانے کا سہو دونوں سے ہوا۔۔۔۔۔۔
نہ حوا نے آدم کو بہکایا۔۔۔۔۔۔

نہ ہی آدم نے حوا کو۔۔۔۔۔۔

بلکہ دونوں شیطان کے وسوسوں کے شکار ہوئے اور جنت کی لامحدود فضا سے نکل کر پابند مادی دنیا میں آ گئے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت و نیابت کی منتقلی کا جہاں تذکرہ فرمایا ہے وہ تذکیر و تانیث کا ذکر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی نیابت و خلافت کے علوم آدم و حوا دونوں کو منتقل ہوئے۔

’’اے آدم! تم اور تمہاری زوج جنت میں رہو‘‘۔

(سورۃ البقرہ۔ آیت 35)


انکشاف 06

روحانی آنکھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔کہ ہر شئے دو رخوں سے مرکب ہے۔۔۔۔۔۔

اس قانون کے تحت مرد کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے اور عورت کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے۔۔۔۔۔۔

ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔۔۔۔۔۔ایک پرت ظاہر ہے اور دوسرا چھپا ہوا ہے۔

مرد ہو یا عورت دونوں دو رخوں سے بنے ہوئے ہیں۔

ایک ظاہر رُخ اور ایک باطن رُخ۔۔۔۔۔۔


انکشاف 07

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ایسے وقت میں ہوئی جبکہ فرعون بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کے قتل کا حکم صادر کر چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے گھروں میں چھاپے پڑ رہے تھے اور پیدا ہونے والے بچوں کو مارا جا رہا تھا۔

ایسے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور ان کے اہل خاندان سخت پریشان تھے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد فرعون کے سپاہیوں سے اسے کس طرح محفوظ رکھیں۔۔۔۔۔۔ہر طرف فرعون کے جاسوس پھیلے ہوئے تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور بہن کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے اِلقا کیا کہ تابوت کی مانند ایک ایسا صندوق بناؤ جس کے اندر پانی داخل نہ ہو سکے۔ پھر اپنے بچے کو اس میں لٹا دو اور اس کے بعد صندوق دریائے نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اس اِلقا کے متعلق کسی قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار کئے بغیر غیبی ہدایت پر عمل کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ نیل کے بہاؤ کے ساتھ کنارے کنارے چل کر صندوق کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ خدا اس کی حفاظت کس طرح کرتا ہے!۔۔۔۔۔۔

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’(اے موسیٰ) جب ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی کی‘‘۔

(سورۃ القصص۔ آیت7)

روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کیلئے کوہِ طور پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے موسیٰ! اب تم سنبھل کر آنا۔۔۔۔۔۔تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔جب تم ہمارے پاس آتے تھے تو تمہاری ماں سجدہ میں جا کر ہم سے دعا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔

اے سب جہانوں کے رب!۔۔۔۔۔۔

میرے بیٹے سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا۔۔۔۔۔۔


انکشاف08
وہ وقت قابل ذکر ہے جب فرشتوں نے مریم سے کہا۔۔۔۔۔۔اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے کلمے کی بشارت دیتا ہے اور اس کا پورا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا۔ وہ دنیا اور آخرت میں صاحب وجاہت اور ہمارے مقربین میں سے ہو گا۔ وہ لوگوں سے گہوارے میں پختہ عمر کے زمانے میں کلام کرے گا اور وہ نیکوکاروں میں سے ہو گا۔

مریم نے کہا۔۔۔۔۔۔میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ نہ لگایا۔۔۔۔۔۔

فرشتے نے کہا۔ اللہ تعالیٰ جب کچھ چاہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے۔ وہ جب کسی شئے کیلئے حکم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ہوجا۔۔۔۔۔۔اور وہ ہو جاتی ہے۔

’’اور اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور تورات و انجیل کا علم عطا کرے گا اور وہ بنی اسرائیل کی جانب اللہ تعالیٰ کا رسول ہو گا‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت 45-49)

جب دردِ زہ شروع ہوا تو تکلیف و اضطراب کی حالت میں کھجور کے تنے کا سہارا لے کر حضرت مریم علیہ السلام بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔

کاش کہ میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور لوگ مجھے بھول چکے ہوتے!۔۔۔۔۔۔

تب نخلستان کے نشیب سے فرشتے نے پکارا۔۔۔۔۔۔

مریم! غمگین نہ ہو۔۔۔۔۔۔تیرے پروردگار نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے اور تو اس درخت کے تنے کو ہلا۔۔۔۔۔۔تیرے اوپر تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔۔۔۔۔۔پس تو کھا اور پی۔۔۔۔۔۔اور اپنے بچے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔۔۔۔۔۔پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے تو اس سے کہہ دینا کہ میں نے رحمٰن کیلئے روزہ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔اس لئے آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی۔

حضرت مریم!۔۔۔۔۔۔وحئ الٰہی کے ان پیغامات سے مطمئن ہو کر بچے کو گود میں لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئیں۔۔۔۔۔۔جب شہر میں پہنچیں تو لوگوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔۔۔۔۔۔اور بولے۔۔۔۔۔۔

مریم! یہ تو نے کیا بھاری تہمت کا کام کیا ہے!۔۔۔۔۔۔اے ہارون کی بہن!۔۔۔۔۔۔تیرا باپ برا آدمی نہیں تھا اور نہ تیری ماں بدچلن تھی پھر تو یہ کیا کر بیٹھی؟۔۔۔۔۔۔

حضرت مریم علیہ السلام نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔جو کچھ پوچھنا ہے اس سے پوچھو۔۔۔۔۔۔میں آج روزے سے ہوں۔۔۔۔۔۔
لوگوں نے نہایت تعجب سے کہا۔۔۔۔۔۔

ہم کس طرح شیر خوار بچے سے کوئی بات پوچھ سکتے ہیں جو ابھی ماں کی گود میں ہے؟۔۔۔۔۔۔

مگر بچہ بول اٹھا۔۔۔۔۔۔

میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ اور اس نے مجھے مبارک بنایا خواہ میں کسی حال اور جگہ میں ہوں۔ اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک زندہ ہوں اور میرے پروردگار نے مجھ کو ماں کا خدمت گزار بنایا۔۔۔۔۔۔خود سر اور نافرمان نہیں بنایا۔۔۔۔۔۔


انکشاف 09

ایک غزوہ میں کسی عورت کا بچہ گم ہو گیا، محبت مادری کا یہ جوش تھا کہ کوئی بھی بچہ مل جاتا تو اسے سینے سے لگا لیتی اور اس کو دودھ پلاتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تو حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’کیا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ عورت خود اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے؟‘‘

لوگوں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کبھی نہیں!‘‘۔۔۔۔۔۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کئی گنا زیادہ محبت کرتے ہیں، جتنی محبت اس عورت کو اپنے بچے سے ہے‘‘۔

(بخاری، جلد سوم۔ حدیث 937)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے پیدا کیا‘‘۔

(سورۃ الاحقاف۔ آیت 15)

’’اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرنا۔‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت 23)


اقوال زریں

*۔۔۔۔۔۔ماں کی نافرمانی پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ (سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام)

*۔۔۔۔۔۔جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں روزہ رکھ کر جہاد کرنے اور رات بھر عبادت کرنے جیسا ثواب ملتا ہے۔ (سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام)

*۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کو پہچانو اور ماں کا حق ادا کرو۔ (حضرت آدم علیہ السلام)

*۔۔۔۔۔۔میں تم سے تمہاری ماں کے لئے سفارش کرتا ہوں جس نے تمہیں پیدا کیا۔ مدرسہ کی طرف رہنمائی کی۔ شب و روز تمہاری فکر میں لگی رہی۔ تمہیں کھلایا پلایا۔ اسے اس بات کا موقع نہ دو کہ وہ تم سے خفا یا مایوس ہو کر بددعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، یقیناً خدا اس کی شکایتوں کو سنتا ہے۔ (حضرت لقمان علیہ السلام)

*۔۔۔۔۔۔ماں کو اذیت پہنچانا قتل سے بڑا گنا ہے۔ (حضرت سلیمان علیہ السلام)

*۔۔۔۔۔۔پہلا حکم یہ ہے کہ اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری کرو۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)

*۔۔۔۔۔۔ماں کے قدموں سے چمٹے رہو، وہیں جنت ہے۔ (حضرت فاطمہ الزہرہؓ)

*۔۔۔۔۔۔اگر تو اپنی ماں کو کندھوں پر اٹھا کر ستر مرتبہ حج کروائے، پھر بھی ماں کا حق پورا نہیں ہوتا۔ (حضرت حسن بصریؒ )
*۔۔۔۔۔۔ماں کے چہرے پر محبت سے نظر کرنا بھی خدا کی خوشنودی کا موجب ہے۔ (حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ )
*۔۔۔۔۔۔میں تخت و تاج بچانے کیلئے بھی ماں کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ (رام چندر جی)

*۔۔۔۔۔۔سوتیلی ماں کی شان میں بھی برے کلمات نہ کہو کہ وہ تمہاری ماں ہے۔ (کرشن جی)

*۔۔۔۔۔۔اگر کوئی برگزیدہ ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے اپنی ماں کی خدمت کرے۔ (گوتم بدھ)







 


وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!