Topics

امانت

اللہ خالق ہے اور رب ہے یعنی ایسی ہستی جس نے زندگی کے تمام وسائل مہیا کر کے تخلیق کیا۔ اللہ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ پہچاننے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جو اللہ کو اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق پہچان سکے۔ اللہ نے پہچاننے کی دو طرزیں قائم فرمائیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ مخلوق جانتی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ پہچاننے کی دوسری طرز یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا اور ہماری تخلیق کا مقصد اور منشا کیا ہے۔ یہ بات کہ اللہ کریم نے مخلوق کو کیوں پیدا کیا؟ اللہ کا ایک راز ہے۔ قرآن پاک اس راز پر سے پردہ ہٹاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے جنات اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ اپنی بندگی اور عبدیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہمارے سامنے جھک جائیں اور بندگی کا اعتراف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ نے یہ اقرار کر لیا کہ میری اپنی ذاتی حیثیت کچھ نہیں۔ اصل حیثیت اس ذات عظیم کی ہے جس کے سامنے جھک رہا ہوں۔ یہ طرز عام طرز ہے اور اس طرز میں پوری کائنات، جنات، فرشتے، انسان، حیوانات و جمادات سب کے سب ہم رشتہ ہیں۔ تمام مخلوق اللہ کریم کی عبادت میں مصروف ہے۔ درخت بھی عبادت کرتے ہیں، پہاڑ بھی عبادت میں مصروف ہیں۔ پرندے بھی عبادت کرتے ہیں، جنات بھی عبادت کرتے ہیں، فرشتے بھی ہمہ تن عبادت میں مشغول ہیں۔ عبادت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہم علمی اعتبار سے یہ بات جانتے ہوں کہ ہمارا کوئی خالق ہے اور عبادت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم مشاہداتی طور پر دیکھتے ہوں، پہچانتے ہوں۔ خالق کی بات سنتے ہوں اور اللہ کریم کی ہدایات کو براہ راست قبول کر کے ان پر عمل پیرا ہوں۔

ہم نے یہ بتایا ہے کہ علم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک علم محض جاننا ہے اور علم کی دوسری حیثیت اس علم سے حاصل شدہ تجربات یا مشاہدات کا حاصل ہونا ہے۔ ایک علم یہ ہے کہ ہمیں ہمارے اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اللہ کریم کی عبادت کریں اور ان اعمال کو اختیار کریں جو اللہ کریم کے پسندیدہ ہیں۔ اس علم میں مشاہدہ کو دخل نہیں ہے۔ دوسرا علم وہ ہے کہ جس میں علم کی دونوں حیثیتیں قائم ہیں یعنی علم کی علمی حیثیت بھی ہوتی ہے اور علم کی تجرباتی حیثیت بھی قائم ہوتی ہے۔ تجرباتی حیثیت کو اللہ کریم نے اپنی امانت قرار دیا ہے۔

امانت کا تذکرہ آتا ہے تو انسان کی ایک منفرد حیثیت قائم ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے بتایا ہے کہ میں کون ہوں اور اس کائنات کی تخلیق میں میری صناعی کس طرح عمل کر رہی ہے اور کائنات کا قیام کن ضابطوں، قاعدوں اور فارمولوں پر قائم ہے۔ یہ علم کی وہ طرز ہے جو یقین بن کر مشاہدہ بن جاتی ہے۔ اللہ کریم نے قرآن پاک میں سورہ بقرہ کی پہلی آیات میں فرمایا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب کا یقین رکھتے ہیں۔ غیب کا یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشاہداتی نظر کے حامل ہوں۔ ان کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو غیب بین ہے۔ جب تک انسان کے اندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کے لئے کائنات تسخیر نہیں ہو گی۔ مسخر ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ زمین ایک قاعدے ضابطے کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے۔ ہم زمین پر مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حائل نہیں ہوتی۔ زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس کے اوپر چلیں تو گرنے لگیں۔ اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں۔

سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ ایک قاعدے اور ضابطے میں اپنی ڈیوٹی کو انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کر دی گئی ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری یا غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ایک تسخیر یہ ہے کہ آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے، سمندر سے، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے کام لے سکیں۔ تسخیر یہ بھی ہے کہ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہو اور اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضورﷺ انگلی سے اشارہ کر دیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔ حضرت عمر فاروقؓ دریائے نیل کو پیغام بھیج دیں:

‘‘اگر تو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آ جا ورنہ عمرؓ کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے۔‘‘

ایک صاحب نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی:

‘‘یا امیر المومنین! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، دانہ ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج سوکھ جاتا ہے۔ بہت پریشان ہوں۔‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا:

‘‘جب میرا اس طرف سے گزر ہو تو بتانا۔”

حضرت عمر فاروقؓ جب اس طرف سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔ حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا:

‘‘تو اللہ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جب کہ وہ تیری ساری ضروریات پوری کرتا ہے۔”

اور اس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہو گئی۔

مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بہت بڑا نجومی سیدنا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پتہ چلا کہ حضورﷺ اس وقت پہاڑ پر ہیں۔ نجومی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے اپنا تعارف کرایا اور کہا۔ یا رسول اللہﷺ! اگر آپﷺ کے پیر مبارک کے نیچے یہ پہاڑ موم ہو جائے اور پہاڑ کے اوپر پیر کا نقش آ جائے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا اور پہاڑ پر رکھ دیا۔ جیسے ہی حضورﷺ نے پیر اٹھا کر پتھر پر رکھا۔ نجومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر پہاڑ کی طرف نظر ڈالی۔ پہاڑ پر پیر کا نقش موجود تھا۔ اس طرح جیسے نرم مٹی پر نقش بن جاتا ہے۔ تسخیر کا یہ عمل دیکھ کر نجومی مسلمان ہو گیا۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے زمانے کا یکتا اور منفرد نجومی ہے۔ آسمان پر ایک ستارہ ہے۔ وہ ستارہ جب کسی آدمی کے سر پر براہ راست سایہ فگن ہوتا ہے تو اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ سخت مٹی نرم ہو جاتی ہے۔ میرے حساب سے اس ستارے کو اس جگہ جہاں حضورﷺ کھڑے ہوئے تھے کئی ہزار سال بعد آنا تھا۔ میں نے جب رسول اللہﷺ سے درخواست کی اور حضورﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ وہ ستارہ اپنی جگہ سے تیزی سے پلٹا اور لمحوں کے لئے حضورﷺ کے اوپر سایہ فگن ہو کر واپس چلا گیا۔

تسخیر کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آپ یہ جانتے ہوں کہ سونے میں کتنی روشنیوں کی مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر تانبے میں اتنی مقداروں کا اضافہ کر دیا جائے تو تانبا سونا بن جاتا ہے۔

اللہ کریم کی تخلیق میں کوئی تخلیق غیر متوازن نہیں ہے اور نہ کوئی ایسی صورت ہے کہ کائنات حادثاتی طور پر وجود میں آ گئی ہو۔ تخلیق کے تحت ہر شئے میں معین مقداریں کام کر رہی ہیں جہاں تک تخلیقی عمل کا تعلق ہے بکری بھی اسی طرح پیدا ہوتی ہے جس طرح انسان پیدا ہوتا ہے۔ بکری کو بھی اسی طرح بھوک لگتی ہے جس طرح انسان کو بھوک لگتی ہے۔ بکری کے اندر بھی پیاس کا تقاضا اسی طرح پیدا ہوتا ہے جس طرح آدمی کو پیاس لگتی ہے۔ بکری بھی اس طرح سوتی ہے جس طرح آدمی سوتا ہے اور بکری بھی اسی طرح بھاگتی دوڑتی ہے اور غذا تلاش کرتی ہے جس طرح انسان تلاش کرتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ تخلیق کرنے والی معین مقداریں ہر مخلوق میں الگ الگ کام کر رہی ہیں۔ کہیں معین مقداریں بکری بن جاتی ہیں۔ کہیں معین مقداروں سے گدھا بن جاتا ہے۔ کہیں معین مقداروں سے آدم بن جاتا ہے۔ کہیں معین مقداروں سے پہاڑ، کہیں فرشتے اور کہیں جنتیں بن جاتی ہیں اور کہیں دوزخ کا ایندھن بن جاتا ہے۔


پیراسائیکالوجی

خواجہ شمس الدين عظيمي