Topics
ہو جا۔
کیا ہو جا؟
ہو
جا کہنے والی ہستی کے ذہن میں جو پروگرام ہے وہ روحانی طور پر وجود میں آ جائے جب
یہ ہو جا روحانی مظاہرات اور خدوخال کی شکل میں وجود میں آ گیا تو لاعلمی کو علم
میں بدلنے کے لئے ہو جا کہنے والی ہستی نے خود کو روحانی مظاہراتی دنیا کے سامنے
پیش کر دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ نظر اس وقت کام کرتی ہے جب نظر کے لئے کوئی مرکزیت
ہو۔ اس دنیا میں آنے کے بعد مرکزیت میں تبدیلی واقع ہوئی لیکن قانون اپنی جگہ بحال
رہا۔ جس طرح حقیقت دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتی ہے اسی طرح عارضی حواس بھی دماغ
کی اسکرین پر منتقل ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ عارضی کیفیات ہمیں پابند حواس
میں قید رکھتی ہیں اور تصور شیخ کا مراقبہ اس امر کی کوشش ہے کہ کسی ایک ہستی کو
مرکزیت بنا کر بار بار دماغ کی اسکرین پر منتقل کیا جائے جتنا زیادہ ایک خیال دماغ
کی اسکرین پر منعکس ہوتا ہے اسی مناسبت سے دماغ میں ایک پیٹرن بن جاتا ہے اور یہی
پیٹرن تصوف کی اصطلاح میں ‘‘طرز فکر‘‘ ہے۔ ہم جب روحانی استاد یا شیخ کا تصور کرتے
ہیں تو ازلی قانون کے مطابق شیخ کے اندر کام کرنے والی اللہ کی صفات کا علم بار
بار ہمارے دماغ کے اوپر وارد ہوتا ہے اور جیسے جیسے شیخ کے اندر کام کرنے والی
روشنیاں سالک کے اندر منتقل ہوتی ہیں سالک کا ذہن شیخ کی روشنیوں سے منور ہو جاتا
ہے۔ یہاں تک کہ شیخ اور مرید ایک نقطے پر قائم ہو جاتے ہیں۔ تصوف میں اسی حالت کو
نسبت کہا جاتا ہے۔ روحانیت میں نسبت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ محبت اور عشق ہے۔ سالک
کے اندر جس حد تک محبت اور عشق کی لہریں موجزن ہوتی ہیں اسی مناسبت سے اسے شیخ کا
ذہن منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کے اندر کام کرنے والی
روشنیاں جو دراصل اللہ کی تجلیات ہیں سالک کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ سالک ان انوار
اور تجلیات سے متعارف ہو جاتا ہے۔ اس حالت یا کیفیت کو فنا فی الشیخ کہا جاتا ہے۔
شیخ کی روشنیاں اور شیخ کے اندر کام کرنے والے انوار و تجلیات شیخ کا اپنا ذاتی
وصف نہیں ہے۔ جس طرح ایک سالک اپنی تمام تر توجہ اور ذہنی ارتکاز کے ساتھ شیخ کے
علم اور شیخ کی صفات کو اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے۔ اسی طرح شیخ نے اپنی تمام تر
توجہ اور ذہنی ارتکاز کے ساتھ سیدنا حضورﷺ کے علم اور صفات کو اپنے اندر منتقل کیا
ہے۔
فنا
فی الشیخ کی حالت میں شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ صلاحیتیں سالک کے اندر بیدار
اور متحرک ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی بنیاد پر شیخ کے اندر سے سیدنا حضورﷺ کی
نسبت منتقل ہوتی ہے۔ اس ہی مقام کو فنا فی الرسول کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے
کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں مگر میرے اوپر وحی آتی ہے۔ بشریت کے دائرے سے باہر
ہو کر اگر دیکھا جائے تو حضور ختم المرسلینﷺ کی فضیلت یہ ہے کہ ان کے اوپر وحی
نازل ہوتی ہے۔ یہ وحی خدا کی طرف سے آتی ہے اور سیدنا حضورﷺ کے ذہن مبارک پر علوم
لدنی ، انوار اور تجلیات الٰہی منعکس ہوتی ہیں۔ فنا فی الرسول کے بعد کوئی سالک
قدم بہ قدم محبت، عشق اور گداز کے ساتھ حضورﷺ کے علوم کا عارف ہوتا رہتا ہے اور
ایک سعید وقت ایسا آتا ہے کہ حضورﷺ کے علوم سالک کو اس کی استعداد کے مطابق منتقل
ہو جاتے ہیں۔ جتنی استعداد کسی سالک کے اندر موجود ہے اس ہی مناسبت سے وہ حضورﷺ کی
صفات میں جذب ہو جاتا ہے اور حضورﷺ کی نسبت اور ہمت سے اس مقام میں جا ٹھہرتا ہے
جس مقام میں اس نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ‘‘جی ہاں‘‘ آپ میرے رب ہیں۔
اس
نسبت کو تصوف میں وحدت کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر توفیق ملے تو وہ مقامات کھلتے
ہیں جن کے بارے میں کچھ لکھنا یا بتانا شعوری سکت سے باہر ہے۔ یہ سب بیان کرنے کا
منشاء یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک اسکرین ہے جس کے اوپر بغیر وقفے کے عکس منتقل
ہوتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر عکس کی معنویت جدا جدا ہے۔ اگر عکس کی یہ
منتقلی علم حصولی کے دائرے میں ہے تو یہ علم مفروضہ اور فکشن ہے اور اگر اس علم کی
منتقلی علم حضوری کے دائرے میں ہے تو عکس کے اندر موجود علم حقیقت پر مبنی ہوتا ہے
لیکن قانون اپنی جگہ قانون ہے کہ جب تک ذہن انسانی پر کوئی نقش منتقل نہیں ہوتا
انسان کی نظر اور فہم کام نہیں کرتی۔