Topics
غزوہ بدرمیں حضرت
عکاشہؓ بن محض بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے کہ ان کی تلوار ٹوٹ گئی ۔ وہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی کی
چھڑی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چھڑی حضرت عکاشہؓ کو دے کر فرمایا ۔ عکاشہؓ
جاؤ جنگ جاری رکھو۔
حضرت عکاشہؓ نے چھڑی ہاتھ میں لی تو وہ
مضبوط ، چمکدار اور تیز دھار تلوار بن گئی ۔ حضرت عکاشہؓ نے جنگ بدر کی فتح تک اس
تلوار کو استعمال کیا ۔ اس تلوار کا نام "العون
" تھا۔
غزوہ بدر کے دوران ہی ایک اور صحابی
مسلمہ بن اسلم ؓکی تلوار ٹوٹ جانے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور
کی تازہ ٹہنی عنایت کی جو تیز دھار تلوار میں تبدیل ہو گئی۔
حضرت عبداللہ بن حجشؓ کی تلوارایک جنگ
کے دوران ٹوٹ گئی تو سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں طلب کر کے کھجور کی شاخ
عنایت کی اور دشمنوں پر حملہ کا حکم دیا ۔ کھجور کی ٹہنی تلوار بن گئی ۔ اس تلوار
کا نام "عرجون " ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔