Topics
سوال: روحانی علوم کے حصول کے لئے مراقبہ کرنا کیوں ضروری ہے۔ کیا مراقبہ کے بغیر بھی یہ علوم حاصل ہو سکتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے انواع و اقسام کی مخلوقات پیدا کیں اور ہر نوع کی تخلیق کا کچھ نہ کچھ مقصد رکھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بھی خاص مقصد کے تحت کی جب اللہ تعالیٰ تنہا تھا تو وہ ایک چھپے ہوئے خزانے کی طرح تھا اس نے چاہا کہ کوئی اسے جانے، کوئی اسے پہچانے، کوئی اس کی بزرگی کو مانے اور کوئی اس کی عظمت کا اعتراف کرے۔ اسی مقصد کے تحت اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا تا کہ انسان اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی نیابت کا بوجھ اٹھا لے۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو علم الاسماء سکھائے یعنی اپنی صفات کا علم عطا کیا تا کہ انسان نیابت کے فرائض با احسن طریق پورے کر سکے۔
آدمؑ نے نافرمائی کی تو جنت سے نکالے گئے۔ اس نافرمانی کے نتیجہ میں انہیں جو اللہ کی قربت اور عرفان حاصل تھا، وہ بھی متاثر ہوا۔ آدمؑ نے نافرمانی کی معافی مانگ لی اور اللہ تعالیٰ نے معاف بھی کر دیا مگر جنت سے نکالے جانے کی وجہ سے قربت اور عرفان جو متاثر ہوا تھا اس کا پوری طرح ازالہ نہ ہو سکا۔ یہی کیفیت نسل آدم کو ورثہ میں ملی۔
اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا ہی اس مقصد کے لئے کیا تھا کہ انسان اس کی ذات و صفات سے واقف ہو جائے۔ اس کا عرفان حاصل کر لے مگر نافرمانی کی وجہ سے اس وصف سے محروم ہو گیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو معرفت حاصل کرنے کا ایک پروگرام عطا کیا۔ اس پروگرام کے نتیجے میں انسان کی اللہ تعالیٰ تک رسائی ہونے لگی۔ اس پروگرام کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔ ’’قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ‘‘ اس پروگرام کے دو جزو ’’نماز اور زکوٰۃ‘‘ ہیں یہ روح اور جسم کا وظیفہ ہیں، وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کو قائم رکھنے کے لئے لازمی ہے۔ نبیکریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس ارشاد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں اعضاء کی حرکت کے ساتھ ساتھ ذہن کا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا بھی ضروری ہے۔ صرف قیام، رکوع و سجود ہی نماز نہیں بلکہ ذہن کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا اصل میں نماز ہے۔
اس طرح نماز دو قسم کی ہو گئی۔ ایک نماز تو ایسی ہو گئی جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے۔ جس کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے:
’’اور وہ لوگ جو نمازی ہیں اور اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں، ایسی نمازیں ان کے اپنے لئے ہلاکت اور بربادی بن جاتی ہیں۔‘‘
(سورۃ الماعون)
عام طور پر ہوتا ہی یہی ہے کہ ادھر نیت باندھی اور ادھر دماغ میں فلم چلنے لگی۔ جسم نماز کے لئے موجود ہوتا ہے مگر دماغ غیر حاضر رہتا ہے۔ دماغ ادھر ادھر کی باتیں سوچتا رہتا ہے اگر جماعت میں شریک ہے تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ امام نے کیا قرأت کی اور اگر تنہا پڑھ رہا ہے تو خود کیا پڑھا۔بعض دفعہ رکوع و سجود میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے کہ بندہ نماز میں ہوتے ہوئے بھی نمازوں سے غافل ہو تا ہے۔
ان ہی نمازوں کو انسان کے لئے ہلاکت و بربادی کہا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی نمازیں انسان میں بہت سے نقائص پیدا کر دیتی ہیں۔ مثلاً
ایسے نمازی کے ذہن میں یہ بات جم جاتی ہے کہ وہ چونکہ پابندی سے نماز پڑھتا ہے اس لئے اسے اللہ کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔
(2) اس کے ذہن میں یہ غرور پیدا ہو جاتا ہے کہ جو لوگ نمازی نہیں ہیں وہ اس سے کمتر ہیں۔
(3) ایسے نمازیوں پر شیطانی غلبہ زیادہ ہوتا ہے۔
(4) یہ لوگ جنس سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔
(5) ایسے لوگ قنوطیت کا شکار جلد ہو جاتے ہیں۔
(6) ان کے اندر ذہنی وسعت نہیں ہوتی۔ ذہن محدود دائرے میں بند ہوتا ہے۔
(7) ایسے لوگ اچھائی پر آمادہ دیر سے ہوتے ہیں اور برائی سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں۔
(8) غیر نمازی کتنے ہی اچھے کام کریں کتنی ہی نیکی کے کام انجام دیں ان کی نظر میں یہ لوگ برے ہی ہوتے ہیں۔
(9) غافل نمازی جب دعا مانگتے ہیں تو یہ سمجھ کر کہ چونکہ وہ نمازی ہیں اس لئے ان کی دعا قبول ہو جائے گی مگر عدم قبولیت کی صورت میں سارا الزام اللہ پر ڈالتے ہیں۔
مندرجہ بالا نماز ایسی نماز ہوتی ہے جسے نفس کی نماز کہنا چاہئے۔ ایسی نمازوں سے فائدے کی بجائے الٹے نقصانات ہوتے ہیں۔ دوسری نماز وہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اس کا ذمہ لے لیا ہے جو شخص ان پانچ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اس کو میں اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا۔‘‘
وہ نمازیں جو خشوع و خضوع اور حضوری کے ساتھ پڑھی جائیں اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی نمازوں کی ذمہ داری لی ہے اور ایسے ہی نمازیوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ ایسی نمازوں کو حق کی نمازیں کہنا چاہئے۔ جو لوگ حق کی نمازیں پڑھتے ہیں انہی کے لئے نماز رحمت کا سبب بنتی ہے۔ حق کی نماز پڑھنے والے آدمی کے بارے میں ہے کہ جب ایسا آدمی نماز کے لئے قیام کرتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ نمازی اور اللہ کے درمیان تمام پردے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسی ہی خضوع و خشوع اور حضوری نماز میں جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کا سر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ہوتا ہے۔ نہ صرف اللہ کی قربت کا احساس ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کا لمس بھی محسوس ہوتا ہے۔ ایسی ہی نماز کو مومنوں کی معراج کہا گیا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب نماز قائم کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے اوپر شدت سے رقت طاری ہو جاتی تھی اور گداز سے معمور فضا میں غیر مسلم عورتیں اور بچے بھی رونے لگتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قیام صلوٰۃ میں اتنے زور سے روتے تھے کہ رونے کی آواز پچھلی صف تک پہنچتی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران میں ایک تیر لگا اور آر پار ہو گیا جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو آپ کو بہت تکلیف محسوس ہوئی۔
کسی صحابی نے مشورہ دیا کہ تیر اس وقت نکالا جائے جب آپؓ نماز میں ہوں۔ چنانچہ آپ نے نماز کی نیت باندھی اور اس حد تک یکسو ہو گئے کہ گرد و پیش کی کوئی خبر نہ رہی۔ تیر کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال کر مرہم پٹی کر دی گئی اور آپؓ کو تکلیف کا قطعاً احساس نہ ہوا۔
حضرت زین العابدین ایک روز مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ یکایک مسجد کے چھپر میں آگ لگ گئی اور آناً فاناً بھڑک اٹھی لیکن آپ بدستور نماز میں مصروف رہے۔ یہ واقعہ دیکھ کر لوگ جمع ہو گئے۔ بہت شور مچایا لیکن آپ کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور باہر تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کی کہ حضرت ہم نے تو اتنی زور زور سے آوازیں دیں لیکن آپ نے پرواہ تک نہ کی۔ آپ نے فرمایا کہ تم مجھے دنیا کی آگ سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں اس وقت خدا کے دربار میں کھڑا تھا۔
حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ ایک دن خانہ کعبہ کے قریب قائم الصلوٰۃ تھے جب آپ سجدے میں گئے تو کسی دشمن نے پاؤں کی انگلیاں کاٹ دیں۔ سلام پھیرا تو خون پڑا ہوا دیکھا اور پھر پاؤں میں تکلیف محسوس کی۔ تب آپ کو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے انگلیاں کاٹ ڈالی ہیں۔
حضرت ابو الخیر اقطع رحمتہ اللہ علیہ کے پاؤں میں آکلہ تھا۔ طبیبوں نے مشورہ دیا کہ پاؤں کٹوا دینا چاہئے مگر وہ راضی نہ ہوئے آپ کے مریدوں نے طبیبوں سے کہا کہ نماز کی حالت میں ان کا پاؤں کاٹ دیا جائے کیونکہ اس وقت انہیں اپنی خبر نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ پاؤں کٹا ہوا تھا۔
ان واقعات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق کی نماز ادا کرنے والے کس طرح ذہنی یکسوئی، حضوری اور خضوع و خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری دیتے ہیں۔ اس وقت ان کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔
غافل نمازی نفس کی نماز پڑھنے والا کس طرح حق کی نماز ادا کرنے والے کے برابر ہو سکتا ہے۔ ایک آدمی امانت رکھتا ہے مگر خیانت کرتا ہے دوسرا آدمی نہ امانت رکھتا ہے نہ خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔
نماز میں جو خضوع و خشوع اختیار نہیں کرتا جس کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر دوسری طرف مصروف ہو۔ اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو معاف کرے گا وہ تو اللہ کا مجرم ہے اسے اللہ کی رحمت کس طرح حاصل ہو گی۔ ترک صلوٰۃ والے کو تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ معاف کر دے مگر غافل نمازی کی تو اپنی نمازیں ہی ہلاکت کا سبب بن جائیں گی۔
ذہنی یکسوئی کے لئے مراقبہ کی مشق کی جائے اور جب ذہنی یکسوئی کی عادت ہو جائے تو پھر وہ نماز آسانی سے ادا کی جا سکتی ہے جس کے ذریعہ عرفان حاصل کیا جا سکتا ہے اور غیب کی دنیا سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔