Topics

ناسوت کی غمگین وسعتیں

فکر اور غم ’’انر سیلف‘‘ (INNER SELF) کو ہر وقت پریشان رکھتا ہے۔ ہم صرف تھوڑی دیر کے لئے اسے بھولنا چاہتے ہیں اور اسی لئے ہنستے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت پر تفکر کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے افعال غیر انسانی ہیں۔ اگر ہمارے افعال انسانی ہوتے تو ہماری موجودہ حالت اس سے مختلف ہوتی۔ ہمیں ان سب باتوں کی چھان بین کرنی چاہئے۔ 

جس سے اصلیت صاف ہو جائے اور پردے کے پیچھے جو کچھ ہے وہ ہمارے سامنے آ جائے۔ اگر ہم اسی طرح بے پرواہ رہیں گے تو نتیجہ اچھا نہیں ملے گا۔

مثال کے طور پر ہماری سوچ کہ دنیا ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ دنیا میں انسان ایسے ہی چلا جاتا ہے۔ آرام اور رنج ساتھ رہتے ہیں، اس کے بغیر ایک دوسرے کا فرق نہیں ہو سکتا۔ ہم اس منطق سے اپنے ضمیر کو سمجھاتے ہیں مگر کیا ہم نافرمانی اور ظلم کر کے اور غیر انسانی افعال کر کے سکون پا سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ضمیر کو اس طرح سکون ملے گا؟ ہمارا ضمیر اس منطق سے الجھن میں نہیں پڑ جاتا؟ کیا آپ ضمیر سے پیچھا چھڑانے کے لئے نہیں بھاگتے؟ کیا آپ اس آگ سے اپنا دامن بچانے کی روحانی کوشش نہیں کرتے؟ کیا ضمیر کو جھٹلانے کے بعد بھی انسان وہی رہتا ہے جو پہلے تھا؟ کیا انسانیت میں کچھ فرق نہیں آتا؟ کیا آپ غیر انسانی کاموں کو رنگینیوں کے ذریعہ چھپانے کی کوشش نہیں کرتے؟ رنگینیوں سے مراد زبان پر کچھ ہو اور دل میں کچھ اور ہو۔ اس کے باوجود بھی آپ دوسروں کے ان افعال کا مذاق اڑاتے ہیں جو آپ خود کرتے ہیں کب یہ ٹھیک ہے؟

یہ تو جملہ قابل اعتراض تھا ویسے ہی بات میں بات آ گئی۔ اس لئے لکھا گیا اس کا مطلب کسی کے اوپر اعتراض کرنے کا نہیں ہے۔ادنیٰ اسپیس کی تفصیل ہو رہی تھی کیونکہ ادنیٰ اسپیس ہمارے دماغ کے بارہ کھرب GATESمیں موجود ہے۔ مگر اس کا رشتہ اعلیٰ اسپیس کے ساتھ بھی ہے۔ جب ہمیں کچھ معمولی سا وہم ہوتا ہے تو اس کی گہرائی میں دوسرا گیٹ ہے اور پھر تیسرا یعنی خیال اور احساس دونوں GATESاس کی گہرائی میں موجود ہیں اور دوسری گہرائی میں حرکت، عمل اور نتیجہ ہیں۔ یعنی کہ یہ تینوں GATESگہرائی اور اس کی گہرائی میں ہیں۔ آخری گیٹ ’’کن‘‘ کی اسپیس سے جا کر ملتا ہے۔ ہم وہم کو صرف وہم سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی گہرائی میں خیال اور احساس کے GATESہیں اور ہر گیٹ کے بعد گیٹ اس طرح نتیجہ تک پہنچ کر اعلیٰ اسپیس سے جا ملتے ہیں۔

ہم اکثر ایسا کہتے ہیں کہ ’’چھوڑو یہ وہم ہے۔‘‘ مگر اس کی گہرائی میں یقین، بھروسہ بھی ہے جو ’’کن‘‘ کی اعلیٰ اسپیس سے جا کر ملتا ہے۔ اگر ہم اسے بیچ میں چھوڑ دیں تو جس چیز کے بارے میں ہمیں وہم ہوا ہے وہ ادھورا رہ جائے گا یا کچھ گہرائی میں جا کر ہم اس خیال کو رد کر دیں گے جو اب تک وہم تھا یا احساس کے درجہ میں رد کر دیں گے یا حرکت یا عمل کے درجہ میں کسی نہ کسی طرح رد کر دیں گے۔ اگر سوچیں تو یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ ہماری ناکامی کی صرف یہی وجوہات ہیں۔ جب تک ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے وہم اعلیٰ اسپیس سے منسوب نہیں ہوتا۔ اور ’’کن فیکون‘‘ کی بات اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب اس آیت کا کام پورا ہو جائے۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:

اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ

یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ’’اذا ارادا شیئا‘‘ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی ایک چیز کا۔ زیادہ چیزوں کا نہیں۔ کتنی ہی چیزوں کا وہم یا خیال آتا ہے تو سارے GATESاوپن ہو جاتے ہیں۔ جو اشیاء سے منسوب ہیں آپس میں ٹکراتے ہیں، ٹکرانے کے معنی یہ کہ کوئی گیٹ اوپن رہتا ہے اور کوئی کلوز ہو جاتا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یہاں اللہ تعالیٰ خاص کر ’’امر‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ارادہ ہونا چاہئے ایک چیز کا نہ کہ بہت ساری چیزوں کا۔ اگر ایک ہی وقت پر ایک چیز خیال میں آئے تو اسے رد کرنے والی اور کوئی چیز نہیں آنی چاہئے۔ یعنی کہ پہلے ہاں کہنا، پھر نہ کہنا یہ اصول ہی غلط ہے۔ یہ دراصل قرآن پاک کے منافی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جو قانون بنایا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میری سنت میں تبدیلی اور تعطل نہیں ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف اللہ کی سنت جاری اور قائم ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ کو ان باتوں سے پتہ چل گیا ہو گا کہ ادنیٰ و اعلیٰ اسپیس میں ایک رشتہ ہے، ایک ربط ہے، ایک وابستگی ہے۔ ادنیٰ اسپیس، اعلیٰ اسپیس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ ہر ادنیٰ اسپیس، اعلیٰ اسپیس کے ساتھ منسوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میرے ہادی اور رہنما آئیں گے۔ اگر آپ ان کے کہنے کے مطابق عمل کریں تو آپ کو آپ کے آباؤ اجداد کا وطن واپس کر دیا جائے گا جو یقیناً جنت ہے۔ اس کی گہرائی میں یہی معنی چھپے ہوئے ہیں کہ ادنیٰ اسپیس، اعلیٰ اسپیس سے منسوب ہے یعنی کہ عالم ناسوت سے جنت میں جانے کا راستہ کوئی بھی ہو، چاہے علیین کا ہو چاہے محشر کا ہو ایک راستہ ہے، ایک رشتہ ہے اور ایک وابستگی ہے۔

عالم ناسوت ادنیٰ اسپیس ہے۔ جنت اعلیٰ اسپیس ہے۔ ان دونوں SPACESکی کیفیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اور جناب حوا نے نافرمانی کی تو ان کو احساس ہوا کہ وہ برہنہ ہیں۔

ادنیٰ اسپیس کے کچھ درجہ اعلیٰ اسپیس کے زیادہ قریب ہیں۔ یعنی حرکت، عمل اور نتیجہ۔ یہ تینوں حالتیں اعلیٰ اسپیس سے مقابلتاً قریب ہیں۔ نیز میرا منشاء یہ ہے کہ وہم، خیال اور احساس اعلیٰ اسپیس سے مقابلتاً دور ہیں۔ آخری تین حالتوں میں امید کی اسپیس پیدا ہو جاتی ہے۔ وہم، خیال اور احساس کی اسپیس عموماً شک کی اسپیس کے زیادہ قریب رہتی ہے۔ اس لئے وہم کے ساتھ ہی فوراً نتیجہ پر پہنچ جانا چاہئے۔ جو اعلیٰ اسپیس سے ملا ہوا ہے اور کامیابی کا یقین دلاتا ہے۔ مزید یہ کہ تینوں حالتیں یقین کی اسپیس کے قریب ہیں اور یقین کی ہی اسپیس ہے جو اعلیٰ اسپیس سے ملی ہوئی ہے۔

اب ادنیٰ اسپیس کے دو حصے ہو گئے۔ ایک حصہ شک اور وہم کی اسپیس کے قریب لاتا ہے اور دوسرا حصہ حق الیقین کے قریب لے جاتا ہے۔ اس لئے تصوف میں اس کے تین حصے متعین کئے گئے ہیں۔

حرکت سے انسان علم الیقین کی اسپیس میں داخل ہو جاتا ہے۔ عمل سے انسان عین الیقین کی اسپیس میں پہنچ جاتا ہے اور نتیجہ سے انسان حق الیقین کی اسپیس میں چلا جاتا ہے۔ یہ انسان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر ادنیٰ اسپیس کی ابتداء میں وہ وہم، شک میں پھنس جاتا ہے یا دونوں سے گزر کر احساس کی اسپیس تک پہنچتا ہے تو ادھر رک جانا اس کے لئے غضب ہے۔ اس لئے کہ احساس سے منسوب GATESفوراً کلوز ہو جائیں گے اور نتیجتاً اس کا دھیان کسی اور سمت میں چلا جائے گا۔ اور یہ انسان کی بہت بڑی ناکامی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ تفکر کرو، تدبر کرو، مگر جنت میں حضرت آدم علیہ السلام پر جو کچھ بیتی اسے پڑھ کر ہم ذرا بھی سوچتے نہیں ہیں اور پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلاَ مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَـذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَo 2/35

اے آدم! آپ اور آپ کی بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ جہاں سے چاہو خوش ہو کر مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

اس آیت میں کچھ باتیں قابل غور ہیں، کھاؤ جہاں سے چاہو مگر اس درخت کے قریب نہیں جانا۔ اس میں کچھ نہیں کہ وہ درخت کس چیز کا تھا۔ اور کیا تھا مگر حیث شئتما میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی اسپیس کی وسعت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کھاؤ جہاں سے چاہو، مگر جیسے ہی حضرت آدم علیہ السلام سے نافرمانی سرزد ہوئی اور انہیں برہنہ ہونے کا احساس ہوا۔ میں اس کی تفصیل پہلے بھی کر چکا ہوں کہ حضرت آدم علیہ السلام میں حس موجود تھی یعنی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اسپیس میں جو حس سو گئی تھی یا جاگ رہی تھی اس کے بارے میں کچھ کہ نہیں سکتے۔ البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نافرمانی کی اسپیس اس حس سے ضرور مخلوب تھی جس نے اس حس کو جگا دیا۔ دوسری بات یہ کہ نافرمانی کی اسپیس اتنی وسیع تھی کہ اس نے ادنیٰ اسپیس پر قابو پا لیا یعنی جب آدم علیہ السلام عالم ناسوت میں آ گئے پھر بھی نافرمانی کی اسپیس ساتھ رہی جس کا ثبوت آدم علیہ السلام کی نسل دے رہی ہے۔

نافرمانی کی اسپیس کی وسعت کے بارے میں آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عالم ناسوت میں ہر بھلائی کے سامنے ایک برائی موجود ہے۔ اب ہم یہ کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی بھلائی ہمارے ذہن میں آتی ہے تو ہمیں اس میں نہ کوئی لذت نظر آتی ہے اور نہ کوئی فائدہ نظر آتا ہے۔ وہ ہمیں ایک اجڑی ہوئی صورت میں نظر آتی ہے۔ نتیجتاً ہم اسے ایک نظر اٹھا کر بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اب ہم برائی کی طرف توجہ کرتے ہیں جس میں ہمیں لذت محسوس ہوتی ہے۔ دلچسپیاں لگتی ہیں اور ظاہری فوائد نظر آتے ہیں۔ یہی شئے ہمارے لئے پرکشش بن جاتی ہے۔ یہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ نافرمانی کی اسپیس غالب اور بھلائی کی اسپیس مغلوب ہوتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی بھلائی کے پردے میں جو فوائد ہیں ان کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ حقیقت میں نافرمانی کی اسپیس ہے اور برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے معنی ہم یہ کریں گے کہ نافرمانی کی اسپیس ہر قسم کی ادنیٰ اسپیس کے اوپر غالب ہے اور ہر قسم کی ادنیٰ اسپیس سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھلائی کی اسپیس چاہے کتنی ہی کم ہو ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اگر ہم اس کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو اس میں چھپے ہوئے فوائد کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ اس بات کی نزاکت کا اندازہ حس کے ذریعہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام اور جناب حوا نے خود کو برہنہ محسوس کیا۔ 

 یہ نافرمانی کی اسپیس کی اول طاقت ہے جو آدم علیہ السلام اور حوا کی ہر حس پر چھا گئی۔ اس لئے کہ اس وقت ان کے ذہن پر برہنہ پن کے علاوہ کوئی احساس باقی نہیں رہا تھا۔ اب یہ احساس کہاں سے آیا؟ کیسے پیدا ہو؟ میری منشاء یہ ہے کہ ہر اس چیز پر جو نافرمانی کی اسپیس پر وار کر سکتی ہے۔ پردہ پڑ گیا اور انہوں نے نے بالکل لاپروائی کے ساتھ نافرمانی کی اسپیس میں قدم رکھ دیا۔

اب آپ سوچیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ نافرمانی کی اسپیس کتنی خطرناک ہے جو ہمیں کسی بھی بھلائی کی طرف جانے سے روکتی ہے۔ زبردستی سے یا خوشی سے اگر ہم کسی بھلائی کی طرف دیکھنے کے لئے تیار بھی ہو جاتے ہیں تو نافرمانی کی اسپیس ہماری آنکھوں کو کچھ ایسا بتاتی ہے کہ ہم اس منظر سے ڈر جاتے ہیں یا کچھ بڑے سے بڑا نقصان پیدا ہونے کا خدشہ ہو جاتا ہے یا کوئی بڑے سے بڑے اندیشے میں آ کر ہمارے دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ 

اب آپ دیکھتے ہیں کہ نافرمانی کی اسپیس کے چھا جانے سے ہم کتنی بھلائیوں سے دور رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں کچھ خرچ کرنا پڑے تو اس سے روگردانی سکھاتی ہے، کہتی ہے کہ یہ زہد ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں، اس لئے یہ نکمی شئے ہے۔ اسی طرح ہمیں دوسروں کی ہمدردی کرنے سے دور رکھتی ہے۔ جو ہماری ہمدردی کے حقدار ہیں۔ ان سے ہمیں انجانا بتاتی ہے۔ حقیقت میں ہم کبھی سوچتے نہیں کہ جن باتوں کو ہم اللہ تعالیٰ کا حکم ہی نہیں مانتے تو ان باتوں کی نافرمانی کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو بڑے بڑے گناہوں کی جڑ بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسد، دشمنی کی جڑ ہے جو دوسروں کی بے جا مخالفت کے لئے تیار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بڑی سے بڑی بات کا عنصر بن جاتا ہے۔ ایسی سب باتیں اس اسپیس کی حرکت کا نتیجہ ہیں جو نافرمانی سے منسوب ہیں۔

جب ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں تو اس کی رحمت سے دور ہو جاتے ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور نہ ہو جائیں تو وہ ہمیں ان برائیوں سے دور رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کا مجھے اور آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو نافرمانی کی اسپیس کو کاٹ کر ختم کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہماری حفاظت کر سکتی ہے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعہ ہم صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ میرا مقصد تقریر کرنے کا نہیں ہے، حق بات کہنے کا ہے۔ ہر ایک فرد اپنے کاموں کی طرف دھیان تو دیتا ہی ہے، اگر تھوڑا سا دھیان اس بات پر دے تو بڑی سے بڑی خوبیاں پا سکتا ہے۔



قدرت کی اسپیس

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ


سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا