Topics
انسان کی ذات جبلت و فطرت
پر مشتمل ہے جب تک آدم جبلت کا قیدی رہتا ہے مادہ یا محدود شعور کا قیدی رہتا ہے۔ جیسے
کھانا، سونا، غصہ وغیرہ کھانے کا تقاضہ فطرت میں شامل ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں لیکن
کمی بیشی جبلت میں شامل ہے۔ انسان کا اتنا اختیار ہے کہ وہ کم کھائے یا زیادہ۔ وہ جبلت
کے اندر رہتے ہوئے خود مختار ہے کہ اس میں کمی و بیشی کرے۔ اس کے برعکس انسان کی بیشتر
صفات فطرت پر قائم ہیں ان میں کمی بیشی اس کے اختیار میں نہیں مثلاً بصارت۔۔۔۔۔۔کائنات
میں تمام مخلوقات پانی کو پانی ہی دیکھتی ہیں چاہے وہ انسان ہو، حیوان ہو یا نباتات۔
ایک محدود شعور یا جانبدارانہ ذہن پانی کے خواص میں غلط معنی تو پہنا سکتا ہے لیکن
اس صفت میں تغیر و تبدیلی کسی کے اختیار میں نہیں۔
آدم زاد جب جبلت و فطرت سے
علیحدہ علیحدہ روشناس ہو جاتا ہے اور جبلت کا محکوم نہیں رہتا اور فطرت سے ہم آہنگ
ہو جاتا ہے تو اسے کائنات کے اجتماعی شعور سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے اور مخلوقات میں
موجود پس پردہ ایک مخفی رشتہ اس کے سامنے آ جاتا ہے پھر وہ اس رشتہ کی بنیاد پر خالق
حقیقی کا تعارف حاصل کر لیتا ہے اور اسی ذات کے ذریعے دیگر مخلوقات سے اپنے تعلق کو
دیکھتا ہے۔
’’جو کچھ آسمانوں اور زمین
میں ہے اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔ اسی کی سلطنت ہے۔ آسمانوں
اور زمین کو وہی حیات دیتا ہے۔ وہی موت دیتا ہے۔ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ سب جانتا
ہے۔ جو زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو چیز اس سے نکلتی ہے۔ جو چیز آسمان سے اترتی
ہے اور اس میں چڑھتی ہے۔ وہ دانا اور بینا ہے۔ وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے۔ وہ ہر آن ہر
لمحے اپنی مخلوق کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
جب روح اس جسم کو چھوڑ دیتی
ہے تو یہ خوبصورت مورت کچھ ہی عرصہ بعد مٹی بن جاتی ہے۔ اب جو کوئی بھی مٹی تک محدود
رہتا ہے۔ وہ خسارے میں رہ جاتا ہے۔ اور جو کوئی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے اسی کے لئے
ابدی آرام و سکون ہے۔
یہ روح ہی ہے جو عالمین کا
سفر کرتی ہوئی اس دنیا میں مادی جسم کو اپنا لباس بناتی ہے اور کائنات میں بے شمار
انواع کے مظاہرے دراصل روح کے مختلف مظاہر ہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات، فرشتے، جنات
اور انسان سب باشعور مخلوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں:
’’ساتوں آسمانوں اور زمین
میں جتنی بھی موجودات ہیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو
حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ تحقیق
وہ ہے تحمل والا، بخشنے والا۔‘‘
’’اور ہم نے اپنی امانت پیش
کی آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر۔ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے کہا کہ ہم اس
امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
اب کسی باشعور مخلوق کو ہی
کوئی امانت پیش کی جا سکتی ہے جو سوچ و سمجھ رکھتی ہو اور پھر انکار بھی کرے۔
’’اور ہم نے ہر شئے کو معین
مقداروں سے تخلیق کیا ہے۔ اور ہر چیز کے جوڑے جوڑے بنا دیئے۔‘‘
(القرآن)
مادہ و جسم، شعور و لاشعور،
جبلت و فطرت اور روح و حقیقت کے اس تمام عمل میں صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو اس
Mechanismمیکانزم کو سمجھ
سکتی ہے جسے یہ علم عطا کیا گیا ہے جبکہ دیگر مخلوقات آگاہی کے اس شرف سے محروم ہیں
اور جو کوئی روح کی اس حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے وہ علم الاسماء کا حامل بن جاتا ہے
یہی آدم کا شرف ہے۔
آدمی اور انسان میں کیا فرق
ہے؟ جسم و روح کا کیا رشتہ ہے؟ کائنات میں کتنے عالمین ہیں؟ زمان و مکان کیا ہے؟ نیانت
و خلافت کسے کہتے ہیں؟ تسخیر کائنات سے کیا مراد ہے؟ عرفان ذات کیا ہے؟ عرفان الٰہی
کیسے حاصل کیا جائے؟ یہ سب باطنی یا روحانی علوم ہیں۔ جن کے لئے کہیں باہر نہیں اپنے
من میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام خزانے حتیٰ کہ اللہ کی ذات بھی انسان کے اندر ہے،
جسے وہ باہر تلاش کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔میں تمہارے اندر ہوں
تم دیکھتے کیوں نہیں؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔