Topics

سُفرا کی خصوصیات

اسلامی مملکت بنیادی طور پر ایک نظریاتی مملکت ہے ۔نظریہ کی اشاعت اور دنیا بھر میں پیغام حق اور اس کے قیام کے لئے جد وجہد مملکت اور ملت کا اہم ترین فریضہ ہے ،مملکت کے سُفرا کی ذمہ داریاں بہت اہم ہو تی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جن  افراد کو یہ منصب عنایت فرماتے تھے وہ با عمل ہو تے تھے ۔عملی زندگی کے ساتھ ساتھ اور صفات بھی دیکھی جاتی تھیں مثلاً وسیع علم رکھتے ہوں ،اپنے افکار و خیالات کے اظہار کاملکہ حاصل ہو اور اپنی بات کو مؤثر اورمدلل انداز میں پیش کر سکیں لو گوں کی نفسیا ت کو سمجھتے ہوں اور جس قوم یاجس ملک میں بحیثیت سفیر جارہے ہیں ،وہاں کے حالات اور اُن کی زبان سمجھتے ہوں۔

۶ھ ؁ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سفارتی وفود کثرت سے روانہ ہوئے صلح حدیبیہ کے بعدحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکمرانوں اور قبائل کے سرداروں کے پاس خطوط لکھ کر سفیروں کو روانہ کیا ، ایک دن میں چھ وفود مختلف ممالک کے حکمرانوں کے پاس روانہ ہوئے ،ان میں سے ہر فرد اس قوم کی زبان جانتا تھا جس قوم میں اسے بھیجا گیا تھا۔

حضرت زید بن ثابتؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عبرانی زبان سیکھنے کا اسی لئے حکم دیا تھا کہ وہ یہودیوں کے ساتھ مذاکرات اور سفارتی سر گرمیوں میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکیں ۔سفیر کی اہلیت کے بارے میں عبد الحئی کتانی نے اپنی مشہور کتاب التراتیب الاداریہ میں درج ذیل صفات کا ذکر کیا ہے ۔

۱۔ ا علیٰ فراست اورذہانت

۲۔ عمدہ زبان

۳۔ طرز ادا

۴۔ جاذب نظرشخصیت 

۵۔ علاقہ تقرری (کس علاقے پر مقررکیاگیا)

۶۔ طرز استدلال

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سُفرا کی روانگی سے قبل انہیں ہدایت فرماتے تھے ۔

۱۔ نرم اور اچھی گفتگو کریں۔

۲۔ رحم اور نرم دلی کا مظاہرہ کریں۔

۳۔ سختی اور سخت روی سے پرہیز کریں آسانی پیدا کریں۔

۴ ۔ اختلافات اور تصادم سے گریز کریں ۔ 

۵۔ خوشخبری سنائیں نفرت و عداوت سے اجتناب کریں۔

۶۔ رحمت اوراتفاق کا رویہ اپنائیں۔

مدینہ میں پہلا مسلمان سفیر

تبلیغ اسلام کے سلسلے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف حکمرانوں اور سرداروں کے پاس سفیر نہیں بھیجے بلکہ عام لوگوں سے بھی رابطہ رکھا۔ سفیر نبویؐ عام لوگوں میں جاتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرتے تھے۔بیعت عقبہ کے ساتھ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو اپنا نمائندہ بنا کر قبائل اوس و خزرج کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں میں دعوت دین اور اشاعت حق کا فریضہ انجام دیں اور جو لوگ دین اسلام کو قبول کرلیں ان کا تزکیہ نفس اور تربیت کریں تاکہ تقویٰ اور مکارم اخلاق کی بنیاد پر امت مسلمہ کے مہذب معاشرہ کی تشکیل ہو ۔

حضرت مصعبؓ بن عمیر مدینے میں پہلے مسلمان سفیر کی حیثیت سے گئے۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر کا اندازدعوت بہت اچھا تھا وہ نرمی کے ساتھ گفتگوکرتے دلائل کے ساتھ مخاطب کو قائل کرتے تھے۔حضرت مصعبؓ بن عمیر کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اوس اور خزرج کے سرداروں کو بھی جو مکمل سیادت و اقتدار کے مالک تھے ،دائرہ اسلام میں داخل کر لیا۔ اوس اورخزرج کے سرداروں اسید بن حضیرؓ اور سعد بن معا ذ ؓ کے قبول اسلام کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی مدینہ منورہ کے ان دو عظیم قبائل کے تقریباًتمام افراد مسلمان ہوگئے۔

مدینے میں سفارتی ادارہ

مدینے میں جب باقاعدہ اسلامی مملکت قائم ہو چکی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ادارہ کو خا ص طور پر متحرک بنایا اور دین اسلام کی اشاعت، امن و سلامتی کے قیام اور انسانیت کی فلاح کے لئے اپنے سُفرا کے ذریعہ اس وقت کی بڑی بڑی سلطنتوں کے حکمرانوں، ریاستوں کے امرا اور قبائل کے سرداروں کے ساتھ سفارتی رابطے قائم کئے اور انہیں دین کے پیغام سے آگاہ کیا اور یہ بات واضح کردی گئی کہ ان کی اور ساری انسانیت کی سلامتی کا راستہ صرف دینِ اسلام ہے۔

سفارتی رابطوں کے اثرات 

مختلف ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ سفارتی رابطہ قائم کرنے اور ان میں دعوت دین کے لئے کام کرنے کے بہت دوررس نتائج برآمد ہوئے۔۱۔ حکمرانوں اورقبائل کے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا اور دعوت اسلام میں بھی شریک ہوگئے ۔ ۲۔ معاشرہ کے ان اثرو رسوخ رکھنے والے طبقات کے اسلام قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی رعایا اور ان کے زیر اثر لوگ بھی دلچسپی اورجستجو کے ساتھ اسلام کی طرف متوجہ ہوگئے اور تھوڑے عرصے میں یہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے ۔

۳۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بے مثال عزم و استقامت نے ان حکمرانوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کردیا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام جس اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کی دعوت دے رہے ہیں،مستقبل میںیہ دین ضرورغالب وکامیاب ہوگا انہی وجوہات کی بنا پر بہت سے حکمرانوں نے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان سُفَرا کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اورحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی تحائف بھیجے تاکہ دوستانہ تعلقات قائم ہوجائیں ۔

۴۔ سفارتی رابطوں کا ایک فائدہ یہ ہو ا کہ حکمرانوں کے جوابات اور ان کے ردعمل نے ان کے مقاصد اور سیاسی رحجانات کو واضح کردیا جس کی روشنی میں مملکت اسلامیہ کے لئے ان کے ساتھ مستقبل کی پالیسی مرتب کرنا اور آئندہ تعلقات کی نوعیت متعین کرنا آسان ہو گیا ۔

سفیروں کی قدرو منزلت

زمانہ جاہلیت میں بھی یہ قانون موجود تھا کہ سفیروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور بد سلوکی اور ایذارسانی سے اجتناب کیا جائے لیکن اس قانون پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا تھا ۔سفیروں کے ساتھ غیر مہذب سلوک ،انہیں یرغمال بنانے اور قتل کرنے کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں اورخود مسلمان سفیروں کے ساتھ بعض حکمرانوں نے ناروا سلوک رکھا ۔حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعض نمائندوں کو قتل بھی کیا گیا۔۔۔ لیکن حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے سفارتی آداب کی تعلیم دی اور سفیروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے ۔جن سُفرا کو حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے مختلف حکمرانوں یا قبائلی سرداروں کے پاس بھیجا تھا ، انہیں تربیت دی گئی تھی کہ وہ لوگ اپنے مشن میں سفارتی آداب کا پورا خیال رکھیں۔ 

مدینہ منورہ میں آنے والے سُفرا اور وفود کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ اس رواداری کا مظاہرہ فرماتے تھے ان کی بہت سی نازیباگفتگو اور نازیبا حرکات کو بھی نظر انداز فرما دیتے تھے ۔

عرب کے وفود

جن لو گو ں نے مبلغین اسلا م کی دعو ت قبو ل کر لینے کے بعد خو د با ر گا ہ نبو ت میں جا کر اسلا م قبول کیا ارباب سیر ’’و فو د‘‘ کے عنو ان سے ان کا ذکر کر تے ہیں۔ اس قسم کے وفودکی تعداد بہت زیا دہ ہے ابن اسحا ق نے صرف پندرہ وفود کا حا ل لکھا ہے ۔

ابن سعد میں ستر وفو د کا تذکر ہ ہے ۔ دمیا طی ،مغلطا ئی، زین الد ین عراقی، بھی یہی تعداد بیا ن کر تے ہیں ۔ 

فتح مکہ کے سا تھ ہی ہر طر ف سے سفا ر تیں آ نی شر وع ہو گئیں اور بجز چند کے با قی جس قد ر سفا ر تیں آئیں انہو ں نے با ر گا ہ نبو ت میں پہنچ کر اسلام قبول کر لیا۔عر ب کے سب سے طاقتو ر قبیلے جن کا اثر دو ر تک پھیلا ہو ا تھا، بنو سعد، بنوحنیفہ، بنو اسد ،کندہ، سلا طین حمیر، ہمد ان ،ازداورطے تھے ۔ان قبا ئل کی سفارتیں ٗ در با رنبو ت میں آئیں۔جن کا مقصد صر ف یہ تھا کہ بحیثیت فا تح کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سا تھ معا ہدہ کر لیں لیکن اکثر اس غر ض سے آئیں کہ اسلا م قبول کرلیں۔ یہ وفو د زیا دہ تر فتح مکہ کے بعد ۸ھ ؁ اور ۹ھ ؁ میں آئے۔

نجران کا وفد

نجران کا ایک بہت بڑا وفد مدینہ منورہ آیا یہ وفد ساٹھ افراد پر مشتمل تھا اور اس کی قیادت عبدالمسیح کر رہا تھا، یہ لوگ مسجد نبوی میں ٹھہرے ۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا چاہی یہ لوگ عیسائی تھے اور بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے تھے ۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ اپنے مذہب کے مطابق اور اپنے قبلہ کی جانب منہ کر کے ہماری مسجد میں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روکناچاہا مگر حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے مسلمانوں کو منع فرمادیا اور ان مہمانوں کو اپنے مسلک کے مطابق نمازقائم کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی ،چنانچہ انہوں نے مسجد نبوی میں عیسائی طریقے کے مطابق نماز ادا کی ۔

ثقیف کاوفد

طائف سے قبیلہ بنو ثقیف کا وفد آیا تو اسے بڑے عزت و احترام کے ساتھ مسجد نبوی ؐمیں ٹھہرایا اورخاص طور پر ان کے لئے خیمے لگوائے ان لوگوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بعض فرمائشیں کیں اور عرض کیا کہ ہمیں نمازسے مستثنیٰ کر دیجئے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انکار کر دیا اور فرمایا اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہیں۔

مزینہ کاوفد

اس قبیلے کے چارسو افراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میںآئے اوراسلام قبول کرلیا مدینہ منورہ میں آنے والے سُفَرا اور وفود کے پاس اگر سفر خرچ نہ ہوتا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا انتظام فرمادیتے تھے ۔قبیلہ مزینہ کا وفد واپس جانے لگا توان کے پا س زادِ راہ نہیں تھا ، حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ ان کے لئے خوردنوش کا انتظام کر دیا جائے ۔

بنو تمیم کا وفد

بنو تمیم کے وفو د بڑی شا ن و شو کت سے آئے ٗ قبیلہ کے بڑے بڑے رؤسا مثلاً اقر ع بن حا بس، زبر قا ن، عمر وبن الا ہتم، نعیم بن یز ید سب اس سفا ر ت میں شا مل تھے ان سب لوگو ں نے اسلا م قبو ل کر لیا۔ 

بنو سعد کا وفد

بنو سعد نے ضما م بن ثعلبہ کو سفیر بنا کر بھیجا وہ جس طر ح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے در با ر میں آئے اور سفا رت ادا کی اس سے عرب کی آزادروی کا اند ازہ ہو سکتا ہے ۔حضرت انسؓ بن ما لک فرماتے ہیں کہ ہم لو گ در با ر سا لت میں حا ضر تھے ایک شخص اونٹنی پر سو ار آیا اور مسجد کے صحن میں آکر اونٹنی سے اُترا۔حاضرین سے پوچھا ’’محمدکس کا نا م ہے ۔۔۔؟‘‘ 

لو گوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طر ف اشا رہ کر کے کہا کہ ’’سامنے جو گو رے رنگ کے بزرگ بیٹھے ہیں یہ محمد ہیں ۔‘‘اس شخص نے قریب آکر کہا ’’اے عبد المطلب کے بیٹے! میںآپ سے چند سوا لا ت کر نا چاہتا ہوں آپ نا راض تو نہیں ہو ں گے ۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سوا ل پو چھنے کی اجا زت عطا فر ما ئی۔

وہ شخص بو لا کہ’’ اپنے خدا کی قسم کھا کر کہیں، کیا خدا نے آپ کو دنیا کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فر ما یا ۔ ’’ہاں‘‘

اس شخص نے کہاآپ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو خد ا نے پانچ و قت نما ز کا حکم دیا ہے ؟ اسی طر ح زکوٰۃ، روزہ ٗ حج کی نسبت پو چھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بر ابر ہا ں فر ما تے رہے ۔ جب سب احکا م سن لیے تو کہا کہ میر ا نام ضما م بن ثعلبہ ہے اور میں آ پ علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لاتا ہوں مجھے میری قوم نے بھیجا ہے ۔ میں جاکر اپنی قوم کو یہ سب بتادوں گا جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ اس کے بعد اس قبیلہ نے اسلام قبول کرلیا۔

اشعر یین کا وفد 

یمن کا ایک نہا یت معززقبیلہ اشعر یین کا تھا ۔ ابو مو سیٰ اشعر یؓ اسی قبیلہ سے ہیں ۔ان لو گو ں نے جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی خبر سنی تو 53افراد نے ہجر ت کا قصد کیا ۔صحیح بخا ری میں ہے کہ جب اشعر یو ں کا وفو د آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحا بہؓ سے فر ما یا کہ تمہارے یہا ں یمن سے لو گ آئے ہیں جو نہا یت رقیق القلب اور نر م دل ہیں۔

دوس کا وفد 

دوس عر ب کا ایک مشہو ر قبیلہ ہے ۔ اس قبیلہ کے مشہو ر شا عر اورر ئیس طفیلؓ بن عمرو تھے ۔ آپؓ ہجرت نبوی ؐسے پہلے مکہ گئے ۔ قر یش نے ان کو منع کیا تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پا س نہ جا ئیں لیکن ایک مرتبہ حر م میں گئے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نما زقائم کر ر ہے تھے ۔ قر آن کریم سن کر متاثر ہو ئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حا ضر ہو کرعر ض کیاحضور( علیہ الصلوٰۃ والسلام) مجھے اسلا م کی حقیقت سمجھا ئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں مذہب اسلا م کی آگہی دی اور قر آن کریم کی آیتیں سنا ئیں ۔ حضرت طفیلؓ نے نہا یت خلو ص سے اسلام قبول کرلیااور و طن جا کر لوگوں کو اسلا م کی دعوت دی لیکن ان لو گو ں نے ٹا ل مٹول سے کام لیا ۔ حضرت طفیلؓنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خد مت میں آکر یہ حقیقت بیا ن کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا فرما ئی کہ ’’یا اللہ تعالیٰ ‘ دوس کو ہد ایت دے ۔‘‘ پھرحضرت طفیلؓ کی تر غیب سے لو گو ں نے اسلا م قبول کیا اور اَسّی (80) خا ندان جن میں ابو ہر یر ہؓ بھی تھے ۔ ہجرت کر کے مد ینہ چلے آئے ۔

حا رث بن کعب کا وفد 

یہ نجر ان کا نہا یت معززخا ندان تھا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خا لدؓ کو ان کے پا س دعو ت اسلا م کے لیے بھیجا ۔ ان لوگوں نے نہا یت خلو ص کے سا تھ اسلا م قبول کر لیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان لو گو ں کو مد ینہ بلا یا۔ چنا نچہ قیس ابن الحصین و یزید بن عبد المدا ن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حا ضر ہو ئے چونکہ وہ اکثر معر کو ں میں عرب قبا ئل پر غا لب رہے تھے ٗ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا کہ’’ تمہارے غلبہ کے اسبا ب کیا تھے ؟ ‘‘انہوں نے جواب دیاہم ہمیشہ متفق ہو کر لڑتے تھے اور کسی پر ظلم نہیں کر تے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قیس کو ان کا امیر مقررفرما دیا ۔

عدی بن حا تم کا وفد 

عدی مشہو ر حا تم طا ئی کے بیٹے اور قبیلۂ طے کے عیسا ئی سر دار تھے۔ جس زما نہ میں اسلا می فو جیں یمن گئیں یہ بھا گ کر شام چلے گئے ۔ ان کی بہن گر فتا ر ہو کر مد ینہ میں آئیں ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کو بڑ ی عز ت و احترام سے ر خصت کیا ۔ وہ اپنے بھائی کے پا س چلی گئیں اور ان سے کہا کہ جس قدر جلد ہو سکے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی خد مت میں حا ضر ہو ۔ وہ پیغمبر ہو ںیا با دشاہ ہر حال میں ان کے پاس جا نا مفید ہے ۔غر ض عد ی مدینہ آئے اور اسلا م قبو ل کرلیا ۔ 

بنو فزا رہ کا وفد

یہ نہا یت سر کش اور زور آور قبیلہ تھا ۔ عیینہ بن حصین اسی قبیلہ سے تھا ۔ اس قبیلہ نے رمضا ن ۹ھ میں جب حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام تبوک سے وا پس تشر یف لا ئے ٗ اپنا وفد بھیجا اور اسلا م قبو ل کیا ۔

حمیر کی سفا رت 

حمیر میں مستقل سلطنت نہیں رہی تھی ۔ سلا طین حمیر کی اولا د نے چھو ٹی چھو ٹی ریا ستیں قا ئم کر لی تھیں اور بر ائے نا م با دشا ہ کہلا تے تھے۔ یہ لوگ خو د نہیں آئے ۔ لیکن قا صد بھیجے اسلا م قبو ل کر لیا ہے ۔سفیروں کے تحفظ اوران کے اعزازو احترام کا حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو اس قدر خیال تھا کہ اپنے آخری ایام میں جو وصیت فرمائی تھی اس میں بھی سفیروں کے ساتھ باعزت سلوک کرنے کا حکم دیا تھاحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ’’ سفیروں کی عزت و مدارت اسی طرح کرتے رہنا جس طرح میں کرتا ہوں۔‘‘

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان