Topics
صبح نماز فجر کے بعد مرشد
کریم نے اپنے مخصوص مدھر انداز میں نفی اثبات کا ذکر جہری کرایا اور بعد ازاں اجتماعی
مراقبہ ہوا۔ آج پانچویں روز کی مصروفیت اسلامیہ گرلز کالج میں ’’روحانی علوم اور خواتین
کا کردار‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار تھا۔ خواتین اور بچیوں کے اس اجتماع میں محترمہ
جبیں، پرنسپل اسلامیہ ڈگری گرلز ڈگری کالج نے مراقبہ کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔
الشیخ عظیمی نے بات کا آغاز
کرتے ہوئے فرمایا کہ بچوں میں وہی معصومیت اور بھولپن ہوتا ہے جو فرشتوں میں ہے۔ اور
میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن پر عمل کر کے آپ سب کا مستقبل روشن
ہو گا۔ انشاء اللہ
جہاں تک مرد اور عورت کا تعلق
ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق اس میں نہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے اور نہ عورت کو
مرد پر۔ قرآن حکیم میں دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر ہے۔
’’تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان
عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن پڑھنے والے مرد
اور قرآن پڑھنے والیاں اور سچ بولنے والے اور سچ بولنے والیاں اور عاجزی کرنے والے
اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات دینے والے اور خیرات دینے والیاں اور روزہ رکھنے والے
اور روزہ رکھنے والیاں اور نگہبانی کرنے والے شرم گاہ اپنی کے اور نگہبانی کرنے والیاں
اور یاد کرنے والے اللہ کے بہت اور یاد کرنے والیاں، تیار کیا ہے اللہ نے واسطے ان
کے بخشش اور اجر بڑا۔‘‘
(سورہ احزاب)
’’اے انسانو! تم سب کو اللہ
نے ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں اس لئے بنایا
تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو یقیناً اللہ کے نزدیک وہ شریف ہے جو پرہیز گار ہے۔‘‘
(سورہ الحجرات)
اللہ کے ہاں مرد اور عورت
دونوں کا اجر عظیم ہے۔ اگر فضیلت ہے تو وہ اس بناء پر ہے کہ عورت یا مرد کا اللہ سے
کتنا تعلق ہے۔
کائنات میں نسل انسانی کے
تخلیقی مراحل پر غور کیا جائے تو عورت کا جتنا کام ہے۔ مرد اس کا عشر عشیر بھی نہیں
کرتا۔ پیدائش تک ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق، پیدائش کا مرحلہ پھر بچے کی پرورش اور
دودھ پلانا۔ ان تمام مراحل پر عورت ہی تخلیقی رکن کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ماں بچے
کیلئے ساری ساری رات جاگ کر گزارتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میں اپنی مخلوق سے ستر ماؤں
سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔
اولیاء اللہ خواتین کیلئے
ہم نے تحقیق و تلاش کا سلسلہ قائم کیا ہے۔ اب تک دو سو پینتیس(235) اولیاء اللہ خواتین
کے حالات، کشف و کرامات اور فرمودات جمع ہو چکے ہیں۔
تاریخ میں اسلام سے قبل معاشرہ
میں عورت پردہ ستم ڈھائے گئے ہیں کہ اس کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر رہ گئی تھی۔ کنیزوں
جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر قید
و بند میں رکھا جاتا تھا۔ اور مال مویشی کی طرح عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں
آئی اور اللہ نے اپنے محبوب بندے اور رسولﷺ کو اس دنیا میں بھیجا۔ آپﷺ نے عورت کو اس
ظلم و ستم اور ذلت و رسوائی سے بچانے کیلئے قوانین بنائے اور لوگوں کو بنایا کہ عورت
اور مرد دونوں اللہ کی مخلوق ہیں۔
دین اسلام کی ترویج میں خواتین
کا بہت بڑا حصہ ہے۔ سب سے پہلی ہستی جو ایمان لائیں وہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ
عنہا ہیں۔ اسلام میں پہلی شہید بھی ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ مرشد کریم
الشیخ عظیمی نے اسلام کے فروغ میں خواتین کے عملی کردار پت تفصیل سے بات کرتے ہوئے
سیرت طیبہ پر اپنی تالیف کتاب محمد رسول اللہﷺ کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس کتاب
کے مطالعہ سے آپ کو معلوم ہو گا کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اسلام کی آبیاری
کے لئے نمایاں جدوجہد کی ہے۔
آپ غور فرمائیں تمام انبیاء
عورت سے ہی پیدا ہوئے۔ اللہ کے حبیب، رحمتہ اللعالمین جو تخلیق کائنات میں نور اول
ہیں۔ بی بی آمنہؓ ان کی والدہ ماجدہ ہیں۔ مرد اور عورت دونوں ہی واجب الاحترام ہیں۔
دونوں کے مساوی حقوق ہیں۔ ماں کا بہت بڑا مقام ہے۔ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ اسی طرح
میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ کیا کوئی ذی ہوش اپنے لباس کو نوچتا کھسوٹتا ہے؟
اگر میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول
کے احکامات سے آگاہ نہیں ہے۔ اگر مرد علم حاصل کر کے فضیلت حاصل کر سکتا ہے۔ تو عورت
بھی یہ فضیلت حاصل کر سکتی ہے۔ آپ نے حضرت رابعہ بصریؒ کے بارے میں سنا ہو گا۔ عجیب
ستم ظریفی ہے کہ ان کو آدھا قلندر کہا جاتا ہے۔ کیا عورت آدھی ڈاکٹر یا آدھی انجینئر
ہوتی ہے۔
عورت ہر میدان میں اگر وہ
چاہے تو فضیلت حاصل کر سکتی ہے۔ چاہے وہ سائنس ہو، دستکاری ہو، صنعت و حرفت ہو، بینکنگ
ہو، انجینئرنگ ہو، علم دین ہو یا روحانیت ہو۔ دنیائے اسلام میں سب سے زیادہ احادیث
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی کنیت اپنی بیٹی کے
نام سے اس لئے رکھی کیونکہ فقہی مسائل میں وہی ان کو مشورے دیا کرتی تھیں۔
آپ نے فرمایا۔
دور بدلتے رہتے ہیں۔ ایک دور
مسلمانوں کا تھا اور وہ ساری دنیا پر حکمران تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر دس ہزار سال بعد
دنیا کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ بصیرت کے تحت یہ بات کہی جا سکتی
ہے کہ آئندہ دور خواتین کا ہوگا۔ ان کو دنیا کا نظام چلانا ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ
مسلم عورت آگے آئے اور رسول اللہﷺ کے دین اور مشن کو اس طرح پھیلا دے کہ ساری دنیا
میں اسلام پھیل جائے۔ اگر خواتین اسلام کی تعلیمات کو سمجھ لیں، رسول اللہﷺ کے مشن
کو جان لیں۔ حضرت سمیہؓ کی طرح جانباز بن جائیں، حضرت رابعہ بصریؒ کی طرح اپنی روحانی
صلاحیتوں کو بیدار کر لیں تو مسلمان عورت ساری دنیا میں ذی احترام بن جائے گی۔
آخر میں مرشد کریم نے روحانی
آگاہی کے حصول کے لئے روح کے عرفان پر زور دیتے ہوئے مراقبہ کی اہمیت جامع اور دلنشین
انداز میں بیان کی اس کے بعد مراقبہ ہال کی ممتاز خواتین میں اعزازی اسناد تقسیم کی
گئیں۔ اس تقریب میں بشریٰ عظیمی، حمیرا قیوم، ڈاکٹر رابعہ اختر، صوفیہ، شازیہ، طیبہ
اور صدف نے نہایت خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دیئے اور اس طرح یہ تقریب اختتام
کو پہنچی۔
وادی کوئٹہ میں داخل ہونے
کیلئے صدیوں سے درۂ بولان استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پہاڑی سلسلوں کے درمیان سے گزرنے
والا تنگ راستہ ’’درۂ‘‘ کہلاتا ہے۔ درۂ بولان سبی کے راستے کوئٹہ کو پنجاب اور بالائی
سندھ سے ملاتا ہے۔ ٹرین کیلئے درۂ بولان کے پہاڑوں میں 21سرنگیں بنائی گئی ہیں جبکہ
دوسری جانب کوئٹہ کا اہم جغرافیائی رابطہ چمن کے ذریعے افغانستان سے قائم ہے جو ’’درۂ
خوجک‘‘ سے گزرتا ہے۔ ڈھائی کلومیٹر سرنگ درۂ خوجک میں ہے۔ جہاں سے ٹرین گزر کر چمن
پہنچتی ہے۔ تیسرا درۂ جو کوئٹہ کو قلات سے ملاتا ہے۔ لک پاس کہلاتا ہے۔ لک پاس سے گزر
کر ایک راستہ نوشکی کے ذریعے زاہدان، ایران چلا جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ آر سی ڈی
ہائی وے کے ذریعے کوئٹہ کو براستہ خضدار کراچی سے ملا دیتا ہے۔
محمد بن قاسم اور محمود غزنوی
بھی ہندوستان میں بلوچستان کے راستے ہی داخل ہوئے۔ بلوچستان میں انتہائی متضاد بلند
و زیریں علاقے شامل ہیں۔ ان میں سطح مرتفع سے لے کر انتہائی بلند و بالا پہاڑ کوہ سلیمان
بھی شامل ہے جو K-2پہاڑ کے سلسلے کے بعد ملک کا بلند ترین پہاڑ ہے۔
محمد بن قاسم اور محمود غزنوی
بھی ہندوستان میں بلوچستان کے راستے ہی داخل ہوئے۔ بلوچستان میں انتہائی متضاد بلند
و زیریں علاقے شامل ہیں۔ ان میں سطح مرتفع سے لے کر انتہائی بلند و بالا پہاڑ کوہ سلیمان
بھی شامل ہے۔ جو K-2پہاڑ کے سلسلے کے بعد ملک کا بلند ترین پہاڑ ہے۔
بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے
ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پاکستان کی صرف پانچ فیصد آبادی ملک کے 40فیصد رقبہ پر رہائش
پذیر ہے۔ 3لاکھ 47ہزار سکوائر کلومیٹر پر محیط یہاں کی آبادی صرف 65لاکھ ہے۔
یہاں سبی، نصیر آباد اور دالبندین
جیسے ملک کے گرم ترین خطے بھی ہیں جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 52ڈگری سینٹی گریڈ تک
جا پہنچتا ہے۔ اور کوئٹہ ، زیارت و قلات جیسے سرد ترین علاقے بھی موجود ہیں جہاں سردیوں
میں درجہ حرارت اکثر نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے اور موسم کی شدت میں منفی دس ڈگری
سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ وادی زیارت اور کان مہتر زئی کا علاقہ ہفتوں سفید برف کی
دبیز تہہ سے ڈھکا رہتا ہے اور پہاڑوں پر جمی شفاف برف سورج کی سنہری کرنوں کو منعکس
کرتی ہے۔
بلوچستان میں نصیر آباد کی
زرخیز زمین سے لے کر مکران و خاران کے دشت مشہور ہیں جہاں زمین صدیوں سے پیاسی ہے۔
اور یہ صحرا قطرہ قطرہ پانی کو ترستے ہیں۔ صوبہ میں 50لاکھ ٹن اجناس اور کئی لاکھ ٹن
پھل پیدا ہوتا ہے۔
560کلومیٹر پر مشتمل پاکستان
کی دوتہائی سے زائد ساحلی پٹی بلوچستان کے مکران ڈویژن میں واقع ہے۔ ان ساحلی شہروں
میں سونمیانی اور ماڑہ، پسنی، گوادر اور جیونی شامل ہیں۔ یہ ساحلی پٹی ایران کی سرحد
سے شروع ہو کر بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ واقع دریائے جب پر ختم ہوتی ہے۔ گہرے گرم پانی
کی قدرتی بندرگاہ گوادر جغرافیائی اہمیت کی حامل ہے جہاں سے وسطی ایشیاء کے ممالک تک
تجارت کے انتہائی اہم مواقع موجود ہیں۔
صوبہ کے قدرتی وسائل میں اہم
پیداوار قدرتی گیس ہے۔ جو پاکستان میں سب سے پہلے بلوچستان کے مقام سوئی سے دریافت
ہوئی تھی اور اسی نسبت سے سوئی گیس کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ
کی سالانہ پیداوار ہے۔ سنگ مر مر، کاپر، لوہا، سلفر، کرومیم یہاں کی دیگر پیداوار ہیں۔
ہم دن کے ڈیڑھ بجے مراقبہ
ہال سے وادی اوڑک روانہ ہوئے۔ کوئٹہ کے شمال مشرق میں واقع یہ وادی سیب، آڑو اور خوبانی
کے باغات کیلئے مشہور ہے۔ قد آدم جنگلی گلاب کے پودے سڑک کے ساتھ ساتھ باغات کے کنارے
نہایت بھلے لگتے ہیں۔ پھل اور پھول کی خوشبو وادی میں داخل ہونے والے افراد کو خوش
آمدید کہتی ہے۔ یہاں ولی تنگی ڈیم سے آنے والا قدرتی چشموں کا صاف، شفاف اور ٹھنڈا
پانی آبشار کی صورت میں گرتا ہے۔ پھلوں کے باغات اور قدرتی مناظر کے درمیان بہنے والا
یہ پانی وادی کے فطرتی حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس میں ون ڈش پارٹی کا اہتمام
تھا۔ سبھی میزبان اور مہمان تھے۔ ٹیرس پر قسم قسم کے کھانے سجے تھے اور بھوک بھی خوب
لگ رہی تھی۔ مرشد کریم کے ہمراہ ہر ساتھی نے کھانے کا دوہرا لطف محسوس کیا۔
کھانے سے فارغ ہو کر سب بہن
بھائی مرشد کریم کے ہمراہ ریسٹ ہاؤس سے اوپر آبنوشی کیلئے تعمیر کئے گئے ڈیم کی جانب
روانہ ہوئے۔ اونچے پتھریلے پہاڑوں، صاف شفاف فضاء اور ٹھنڈے موسم میں بہتے پانی کا
شور اور وادی کا حسن ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کئے ہوئے تھا۔ ہم سب ڈیم سے آگے بہتے
پانی کے کنارے ایک درخت کے نیچے مرشد کریم کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔
ایک سوال کے جواب میں مرشد
کریم نے فرمایا کہ روحانیت کا پہلا سبق مراقبہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر آدمی کی استعداد
مختلف ہوتی ہے۔ طالب کو زیادہ سے زیادہ وقت مراقبہ کو دینا چاہئے۔ تا کہ وہ روحانیت
کی دنیا میں قدم رکھ سکے۔ اگر کوئی شخص محنت نہیں کرتا اور روحانیت کو پھونکوں کا مرہون
منت سمجھتا ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہر سالک کو چاہئے کہ وہ سلسلے کا لٹریچر پڑھے تا
کہ اسے تھیوری کا علم حاصل ہو سکے اور پھر مراقبہ کرے تا کہ وہ عملی طور پر (پریکٹیکل
کر کے)روحانیت سیکھ سکے۔
اس محفل میں اب قدرتی مناظر
کی بجائے ہر کسی کی توجہ اس ہستی کی طرف مبذول و مرکوز ہو چکی تھی جو انہیں اپنے جلو
میں لئے وہاں آیا تھا اور محفل میں عرفان و آگہی کی روشنی الفاظ کی کرنوں کی صورت پھیلتی
جا رہی تھی جس سے شعور کی تاریکی دل و دماغ کی جلاء میں تبدیل ہو رہی تھی۔
آپ نے کہا!
ہمارا شعور ایک چراغ کی طرح
ہے۔ جس میں مرشد تیل ڈالتا ہے۔ جب تیل بھر جاتا ہے۔ مرشد دیا سلائی سے اس چراغ کو روشن
کر دیتا ہے۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ چراغ بننے کیلئے ضروری ہے کہ مرشد جو کہے
وہ کریں ذکر و فکر میں کوتاہی نہ کریں۔ یہ سب ٹیم ورک ہے ایک دوسرے کا بہت زیادہ احترام
کریں۔ دوسرے مذاہب کے افراد کو برا نہ کہیں۔ اولاد کی سرزنش کسی دوسرے کے سامنے نہ
کریں اور نہ ہی اولاد کی برائی کسے کے سامنے بیان کریں۔ اس طرح اولاد نافرمان ہو جاتی
ہے۔ خواتین قرآن کریم میں اپنے حقوق کا بغور مطالعہ کریں۔ غصہ سے بچیں۔ غصے کے وقت
سامنے سے ہٹ جائیں اور ٹھنڈے پانی پر یا ودود پڑھ کر پی لیں۔ خوش رہا کریں، دوسروں
کی غلطیوں کو نظر انداز کریں اور مناسب طریقہ سے سمجھائیں۔ اتنی زیادہ معافی دیں کہ
انا ٹوٹ جائے جہاں ضرورت ہو وہاں سرزنش بھی کریں۔ والدین کا بہت زیادہ ادب کریں۔ ان
کی خدمت کریں۔ وقت نکال کر ان کے پاس بیٹھیں ان کی دعائیں لیں۔
سلسلے کے قواعد و ضوابط کا
ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ سلسلہ کے اغراض و مقاصد اکثر پڑھتے رہنا چاہئے۔ ہفتے
میں کم از کم ایک بار ضرور پڑھیں۔ اللہ تک پہنچنے کا آسان راستہ دین و دنیا کو اعتدال
میں ساتھ ساتھ لے کر چلنا اور اس عمل پر استقامت ہے۔ معاش میں بھرپور جدوجہد کریں۔
لیکن دنیا کو مقصد حیات نہ بنائیں۔ جو کچھ استاد کہے اسے تسلیم کریں سمجھ میں نہ آئے
تو استاد سے پوچھیں۔
تعلیم میں محنت اور وقت کی
پابندی ضروری ہے۔ اپنی کم علمی اور دوسرے کی صلاحیت کو تسلیم کریں۔ اللہ نے جو مقام
آپ سے اوپر والوں کو دیا ہے اس کا احترام کریں۔ آپ کے افسر کے حقوق بھی آپ کے ذمے ہیں
اور ماتحت کے حقوق بھی آپ کے ذمے ہیں۔ پہلے خود کو اور اپنے گھر کو درست کریں۔ جو آپ
اندر ہیں وہ باہر رہیں۔ جو باہر ہیں وہ اندر ہونا چاہئے۔ منافقت آدمی کو دیمک بن کر
چاٹ جاتی ہے۔
اللہ تک رسائی حاصل کرنا ہمارا
فرض ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی ضروریات ہیں ان کو پورا کریں۔ دنیاوی علم حاصل کریں۔
باطنی علوم بھی سیکھیں۔ پیغام پہنچانے سے پہلے اپنے اندر صلاحیت بیدار کرنا ضروری ہے۔
وہ طرز فکر پیدا کریں جو اللہ تک پہنچاتی ہے۔ طرز فکر دو قسم کی ہوتی ہے۔ عارضی طرز
فکر اور مستقل طرز فکر۔ مرشد کی طرز فکر مستقل ہوتی ہے۔ اس کا رنگ کچا نہیں ہوتا۔ رسول
اللہﷺ کا ارشاد ہے:
’’مومن اللہ کے نور سے دیکھتا
ہے۔‘‘
دھیمے لیکن جاندار، پر اثر
اور مضبوط لہجے میں کہی گئی یہ تمام گفتگو وہاں موجود حاضرین کے اندر روشنی بکھیر گئی۔
سبھی ماحول سے بے خبر شیریں کلامی کی چاشنی میں کھوئے ہوئے تھے۔
شام کے ڈھلتے سائے اس محفل
پر چھا رہے تھے۔ سب واپس ریسٹ ہاؤس پہنچے لیکن تفریح و آگاہی کا یہ سفر ابھی جاری تھا۔
چائے کے دوران ایک صاحب نے شکوہ سنج لہجے میں کہا کہ ان سے کسی صاحب نے کہا ہے کہ مشاہدہ
ہونا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اس پر آنے نہایت مدلل انداز و مشفقانہ لہجے میں فرمایا۔
’’اگر ایک مقدمہ قتل میں گواہ
عدالت کو بتائے کہ میں نے دیکھا تو نہیں لیکن فلاں سے سنا ہے کہ اس طرح قتل ہوا ہے۔
تو کیا عدالت سنی سنائی بات پر گواہی تسلیم کرے گی؟ گواہی کیلئے لازم ہے کہ گواہ نے
اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے
سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو بلا مشاہدہ گواہی کیسے قابل قبول ہو گی۔‘‘
قرآن حکیم میں ارشاد ہے
کہ یہ جاہل اور گنوار لوگ
کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور مومن بن گئے بھلا یہ مومن کیسے بن سکتے ہیں جبکہ ایمان
تو ابھی ان کے قلوب میں داخل ہی نہیں ہوا۔ ہاں یہ مسلمان ضرور ہو گئے ہیں۔
ایمان کا تعلق دل کے مشاہدے
اور گواہی سے ہے اور گواہی تب ہی قبول اور معتبر ہے جب آپ نے کچھ دیکھا ہو۔ یہ امر
تو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ مشاہدہ ہو سکتا ہے۔
اسی بات کو دوسری طرح سمجھاتے
ہوئے فرمایا کہ ہماری روح عالم ارواح میں روز ازل اللہ کو دیکھ چکی ہے اللہ سے ہم کلام
ہو چکی ہے۔
اس کے رب ہونے کا اقرار کر
چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہو جائیں۔ جب ہم اپنی روح سے واقف
ہو جائیں گے تو ہم ضرور اس مشاہدے کو حاصل کر لیں گے جو روح پہلے کر چکی ہے۔ نماز مغرب
جماعت سے ادا کی گئی اور مراقبہ کے بعد واپسی ہوئی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔