Topics

کیا آپ کو اپنا نام معلوم ہے

یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ میرا نام کب اور کیوں رکھا گیا البتہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر نام کے نہیں ہے اور نام دراصل کسی شئے کی شناخت کے لئے ضروری ہے۔ جس طرح دنیا میں لاکھوں کروڑوں چیزوں کے نام ہیں اور یہ نام ان چیزوں کی شناخت کراتے ہیں اسی طرح میرا نام بھی رکھا گیا۔ لاکھوں کروڑوں سال سے میں اسی نام سے جانا پہچانا جاتا ہوں۔ نام جس طرح انسانوں کی شناخت کے لئے مجبوری ہے اسی طرح پرندوں، چرندوں، درندوں، حشرات الارض اور درختوں کی شناخت کے لئے بھی مجبوری ہے۔

دیکھئے نا! ایک جگہ بادام، انار، امرود، ناشپاتی، چیکو، سنگترہ، کیلا، آم اور لیچی پڑے ہوئے ہوں اور الگ الگ نام نہ ہوں تو ہم بادام کو بادام نہیں کہہ سکتے۔

یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ جس طرح کبوتر کے انڈے سے کبوتر اور مرغی کے انڈے سے مرغی نکلتی ہے، بادام کے درخت پر بھی بادام لگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بادام کے درخت سے آم اور آم کے درخت پر امرود لگے ہوں۔ چوپائے اور دو پیروں پر چلنے والے افراد میں بھی نسلی سلسلہ تسلسل سے قائم ہے۔ دو پاؤں پر چلنے والے آدمی کے بچے دو ہی پیروں پر چلتے ہیں اور چار پیروں پر چلنے والے چوپائے کے بچے چار پیروں پر چلتے ہیں۔ دو پیروں پر چلنے والے آدمی کی جڑ اوپر ہوتی ہے جبکہ درختوں کی جڑیں نیچے زمین میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ درخت اور آدمی کا تجزیہ کیا جائے تو اس بات سے انکار کی مجال نہیں کہ آدمی ایک درخت کی طرح ہے۔

درخت ہی کی طرح نشوونما ہوتی ہے۔ درخت ہی کی طرح آدمی کی نسل چلتی ہے۔

میری کہانی کا آغاز یہ ہے کہ میں جنگل میں بے شمار درختوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میں پیدا ہوا اور جوان ہوا۔ جوان ہونے کے بعد میری نسل کا سلسلہ شروع ہوا۔ آدمی کی نسل تو ایک ایک کر کے پھیلتی ہے۔ مگر میری نسل کے پیچ ایک وقت میں ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ آدمی کے اندر ریڑھ کی ہڈی دراصل ایک تنا ہے جس پر آدمی کا سراپا قائم ہے اور درخت میں یہی ریڑھ کی ہڈی درخت کا تنا بن جاتی ہے۔ جوانی میں جب تناور ہوا تو سینکڑوں شاخوں پر لاکھوں پتے نکل آئے جیسے انسانوں کے چہرے اور جسم پر بال آ جاتے ہیں اور پھر میری ان شاخوں پر پھل آ گئے، پھل لگ گئے تو چڑیوں کے لئے راشن کا بندوبست ہو گیا۔ نہیں معلوم کہاں کہاں سے پرندے آتے اور میرے دسترخوان پر سے خوب سیر ہو کر کھاتے اور اڑ جاتے۔

ایک من موہنی چھوٹی سی چڑیا آئی۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھایا اور پھر سے اڑ گئی۔ فضا میں معلق اڑتی رہی اور ہزاروں میل دور جا کر اسے آدمی کی طرح رفع حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ فراغت کے بعد میرا ایک پیچ زمین پر گرا تو زمین نے اسے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ زمین کی گود میں حرارت و برودت سے میرے اندر ایک نئی زندگی دوڑ گئی اور بالکل اس طرح جس طرح آدمی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے میں نے بھی زمین کی کوکھ سے جنم لیا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ جیسے آدمی کے بچے کو اس کی ماں سردی گرمی سے بچاؤ کے لئے کپڑے رکھتی ہے میرے پاس نہیں تھے۔ بھوک پیاس رفع کرنے کے لئے زمین کے سینے میں دودھ نہیں تھا۔ مجھے بھوک پیاس کا تقاضا پورا کرنے اور سردی گرمی سے حفاظت کے لئے خود ہی انتظام کرنا تھا۔ میں نے یہ بات جان لی تھی کہ درخت کی ماں صرف بیج پیدا کرنے تک ماں ہوتی ہے۔ پیدائش کے مراحل سے گزر کر درخت کو خود اپنے ایک پیر پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ میں نے مردانہ وار نہیں اس لئے کہ مرد ایک عضو ضعیف ہے، درختانہ وار بارش، آندھی، طوفان کا مقابلہ کیا اور ایک درخت بن گیا۔

جس کے نیچے ایک دو دس بیس نہیں پچاس آدھی دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لئے میرے سائے میں ٹھہرتے تھے، بیٹھتے تھے اور آرام کرتے تھے۔

میں خوش تھا کہ میں اس حیثیت میں آدمیوں سے افضل ہوں کہ کوئی درخت کسی آدمی کے سائے میں نہیں رہتا۔ میں نے ابھی جوانی کی پوری بہاریں بھی نہ دیکھی تھیں کہ ایک مکروہ شکل آدمی آیا اور بغیر کسی قصور کے پے در پے کلہاڑی کے وار کئے میں بہت چیخا، بہت شور مچایا۔

میں نے کہا:

’’اے میرے دوست آدمی! میں نے آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ کر کے خود کو اس قابل بنایا ہے کہ تو اور تیری اولاد، میرے سائے میں رہے اور تو میرے خون جسے تو پانی کے برابر بھی نہیں سمجھتا، سے بنے پھل کھائے اور ان کے رس سے اپنی توانائی میں اضافہ کرے۔‘‘

لیکن اس ظالم آدمی نے میری کسی التجا پر کان نہیں دھرا، میری کوئی بات نہیں سنی۔ میرے اندر کلہاڑی سے پڑنے والے گھاؤ میں سے رسنے والے خون سے وہ اتنا بھی متاثر نہیں ہوا کہ اس کی آنکھ سے ایک ہی آنسو ڈھلک پڑتا۔ وہ دیوانہ وار میرے وجود کو تیز دھار کلہاڑی سے زخمی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ میں روتا بلکتا زمین پر گر گیا۔ آدم زاد نے اس پر بھی بس نہیں کیا میری بڑی بڑی شاخوں کو جو میرے جسم میں ہڈیوں کے قائم مقام تھیں اس بے رحم آدمی نے الگ الگ کر کے چولہے میں جھونک دیا اور مجھے خاکستر کر دیا۔

میری اولاد بھی زندہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انسان سے انتقام نہیں لے گی اس لئے کہ انتقام جیسی بدہیت عادت تو آدمی ہی کو زیب دیتی ہے۔

میں ایک درخت ہوں۔ میرا اصل مسکن جنگل ہے۔ جہاں درندے بھی رہتے ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا کہ درندے نے کسی درندے کو پھاڑ کھایا ہو، کسی درندے نے کسی درندے کو قتل کر دیا ہو۔ یہ بدنمائی آدم زاد کے ہی حصے میں آئی ہے کہ وہ اپنے بھائی آدم کو قتل کر دیتا ہے۔ جب آدم خود اپنا قاتل بن گیا تو اس سے شکوہ شکایت کوئی کیا کرے۔۔۔۔۔۔اور کیوں کرے؟

میرا کام خدمت ہے، محبت ہے، میرے بچے درخت اسی وصف کو قائم رکھیں گے۔

اے اشرف المخلوقات آدمی!

یاد رکھ!

محبت زندگی ہے،

انتقام عقوبت ہے۔

ظلم ہلاکت ہے،

حلم عافیت ہے،

قتل پاپ اور بزدلی ہے۔

معاف کر دینا بہادری ہے۔

فقط
آدمیوں کا جاں نثار دوست

ایک درخت

 


اسم اعظم

خواجہ شمس الدین عظیمی