Topics

کن فیکون

سوال: قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے مخاطب ہو کر کہا، کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا؟ مخلوق نے اقرار کیا کہ بے شک آپ ہمارے رب ہیں۔ اس آیت کی روحانی تفسیر کیا ہے؟

جواب: جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میری عظمت اور میری ربوبیت اور میری خالقیت کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جب یہ بات آئی کہ میری عظمت کا اظہار ہو تو یہ بات خود بخود سامنے آ جاتی ہے کہ عظمت کو پہچاننے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کو جاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی کوئی ایسا ذہن ہے جو اللہ تعالیٰ کی صناعی کو سمجھ اور دیکھ سکے۔

اب یہ بات اس طرح سمجھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں پہچانا جاؤں۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا یا ہے اس کی تخلیق کے لئے یہ ضروری تھا کہ کوئی ضابطہ و قاعدہ موجود ہو۔ اور ہر تخلیق کے جداگانہ فارمولے مرتب کئے جائیں۔ یہ ضابطے، قاعدے اور فارمولے بھی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو پروگرام تھا اس کو ’’کن‘‘ کہہ کر ظاہر فرمایا۔

جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’کن‘‘ تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں تھا وہ قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل و صورت کے ساتھ عالم وجود میں آ گیا جو کچھ عالم وجود میں آ گیا اس کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندانوں کا نام ہے جس میں بے شمار نوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جیسے ہی کن فیکون بنا تمام نوعیں وجود میں آ گئیں۔

ان نوعوں میں جنات، فرشتے، انسان، جمادات و نباتات، حیوانات، زمینیں، سماوات اور بے شمار کہکشانی نظام ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ساری نوعیں ایک کنبے کی حیثیت سے قیام پذیر ہیں۔ کوئی نوع یہ نہیں جانتی کہ میں کیا ہوں، کون ہوں، میری تخلیق کا منشاء کیا ہے؟

تخلیق کے پہلے مرحلے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جب ان تمام نوعوں کو شعور بخشا تو نظر وجود میں آئی۔ جب اللہ نے کہا، میں ہوں تمہارا رب تو کائنات میں موجود تمام نوعیں اس آواز کی طرف متوجہ ہو گئیں اور نوعوں نے دیکھا کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ قانون یہ ہے کہ شعور اس وقت متحرک ہوتا ہے جب صاحب شعور یہ جانتا ہو کہ میری اپنی ایک ہستی ہے اور میرے علاوہ دوسری ہستی بھی ہے۔

تخلیق کا دوسرا مرحلہ یہ بنا کہ کائنات نے جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز سنی اس کے اندر شعور کی دو صلاحیتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک سننے کی صلاحیت، دوسری دیکھنے کی صلاحیت۔ مخلوق نے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھا تو شعور کے اندر تیسری صلاحیت ’سمجھنا‘ پیدا ہو گئی۔

سننے، دیکھنے اور سمجھنے کے بعد چوتھی صلاحیت اپنے علاوہ دوسرے کو پہچاننے کی پیدا ہو گئی۔ پہچاننے کی صلاحیت کے بعد پانچویں صلاحیت یہ پیدا ہوئی کہ نوعوں نے خود کو پہچان لیا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ کسی عظیم اور بابرکت ہستی نے مجھے پیدا کیا ہے اور یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔

کائنات نے اس بات کا اقرار کیا کہ ’’جی ہاں، ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں، آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس عالم میں کائنات (انسان) نے اللہ کو دیکھ لیا اور پہچان لیا۔

سوال: تصوف میں بیان کردہ لوح اول اور لوح دوئم کیا ہیں؟

جواب: جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ساری کائنات موجود تھی اور ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات کی موجودگی مظہر بن گئی۔ اس عالم میں موجود کوئی نوع جب اپنی ہستی کے اند ردیکھتی ہے تو اسے پوری کائنات نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عالم میں جو نظر کام کر رہی ہے وہ نظر اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود کائنات کے عکس کو دیکھ رہی ہے۔ اس عالم کا نام لوح محفوظ ہے۔ لوح محفوظ پر کائنات کے نقش و نگارجب(Display) ہوتے ہیں تو ہر نوع الگ الگ خود کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس عالم کا نام لوح دوئم ہے۔

اسی بات کو بہت آسان اور عام فہم زبان میں مثال سے بیان کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ایک پروگرام یا ڈرامہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس ڈرامے کو اسٹیج کیا جائے۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے ارادے کے ساتھ ’کن‘ فرمایا ڈرامے کے سارے کردار موجود ہو گئے لیکن ابھی ان کرداروں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ ہمارے ذمے کون سا کام ہے یا اس ڈرامے میں ہماری کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کرداروں کو یہ بتایا کہ تمہاری یہ ڈیوٹی ہے، تمہارا یہ کام ہے۔ جب یہ کردار خود سے واقف ہو گئے تو ان کے سامنے وہ عظیم ہستی آ گئی جس نے ڈرامے کو اسٹیج کیا تھا۔ جس عالم میں کائنات کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں وہ لوح محفوظ ہے اور جس عالم میں لوح محفوظ پر بنے ہوئے نقش و نگار (Display) ہو رہے ہیں وہ لوح دوئم ہے۔

سوال: علم حقیقت کیا ہے؟

جواب: جب ہم علم کی ہیئت، اصلیت اور حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل وصورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔ جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔

جاننے کی تین طرزیں ہیں۔ ایک جاننا یہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی اطلاع فراہم کی جائے اور ہم اس اطلاع کو یقین کے درجے میں قبول کر لیں۔ علم کی دوسری قسم یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور علم کی تیسری قسم یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی چیز کے اندرصفات کو نہ صرف یہ کہ محسوس کر لیں بلکہ اس کا باطنی آنکھ سے مشاہدہ بھی کر لیں۔

اس علم کو روحانی سائنس دانوں نے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ علم الیقین

۲۔ عین الیقین

۳۔ حق الیقین

علم الیقین یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اطلاع ملی کہ سائنس دانوں نے ایک ایسا ایٹم بم ایجاد کیا ہے جو ایک لمحہ میں لاکھوں جانیں ہلاک کر سکتا ہے۔ حالانکہ ہم نے ایٹم بم دیکھا نہیں ہے لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ایٹم بم موجود ہے۔ علم کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اطلاع ملی کہ ایک ایسی مشین یجاد ہوئی ہے کہ ہزاروں میل دور تصویریں اس مشین کی مدد سے اسکرین پر نمودار ہو کر نظر آتی ہیں۔ چونکہ ہم ہزاروں میل کے فاصلے سے چلی ہوئی تصویریں ٹی وی پر منعکس دیکھ لیتے ہیں لہٰذا اس علم کا نام عین الیقین ہو گا۔ ہمیں یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ کائنات کی بنیاد اور کائنات کی بساط میں جو کچھ موجود ہے وہ دراصل روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ چونکہ وہ روشنیاں ہمارے سامنے نہیں ہیں اور نہ ہی ان روشنیوں کی ماہیت سے ہم واقف ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ ہمیں حق الیقین حاصل نہیں ہے۔ اسے ہم مختصر طریقہ سے اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کسی نے کہا آگ جل رہی ہے۔ ہم نے اس کے کہنے پر یقین کر لیا کہ وہاں آگ ہے۔ اسے علم الیقین کہیں گے۔ جب ہم آگ کے قریب گئے اور اسے دیکھ لیا تو ہمیں عین الیقین حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نے آگ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تپش محسوس کی۔ اس تجربے کا نام حق الیقین ہے۔

روحانی انسان جب کسی علم کا تذکرہ کرتا ہے یا کائنات میں موجود کسی شئے کا تجزیہ کرتا ہے تو اس کے سامنے علم کے یہ تینوں درجے ہوتے ہیں۔ روحانی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کو اگر کوئی چیز دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہے تو وہ علم ہے، ایسا علم جو اللہ تعالیٰ نے آدم کے لئے مخصوص کر دیا ہے اور کسی دوسری نوع کو یہ علم عطا نہیں کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے آدم کو نیابت اور علوم کا تذکرہ کیا ہے اس آیت میں تفکر کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علوم فرشتوں کو بھی حاصل ہیں اور علوم آدم کو بھی حاصل ہیں۔ لیکن آدم کو وہ مخصوص علوم حاصل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھی نہیں سکھائے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم آپ نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کا شرف دراصل اس کا علم ہے اور یہ وہ علم ہے جو دوسری مخلوقات کو حاصل نہیں ہے۔

ایک چڑیا زندگی گزارنے کے سارے تقاضے رکھتی ہے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کے علم سے بھی باخبر ہے لیکن وہ ہوائی جہاز نہیں بنا سکتی، ایٹم بم نہیں بنا سکتی، ریڈیو یا ٹی وی نہیں ایجاد کر سکتی اور آدمی یہ تمام چیزیں بنا لیتا ہے اور اس کے علاوہ نئی نئی اختراعات کرتا رہتا ہے۔ اس علم کو ہم وہ علم نہیں کہتے جو علم اللہ تعالیٰ نے بطور خاص آدم کے لئے مخصوص کیا ہے۔ اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل سے ہے یا یہ باالفاظ دیگر عقل نئی نئی ایجادات تخلیق کرتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی ٹی وی بنا لیتا ہے اور چڑیا ٹی وی نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح چڑیا آسمان کی وسعتوں میں اڑتی ہے جب کہ آدمی اڑ نہیں سکتا۔ آدم زاد میں بھی سب لوگ ایسے عاقل، بالغ اور باشعور نہیں ہوتے کہ جن سے ایجادات ظہور میں آتی ہوں۔ عقل کی کمی یا زیادتی کی بنیاد پر اختراعات کا وجود قائم ہے۔ لیکن ایک علم ایسا ہے جو عقل کی حدود اور دائرے سے باہر ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک بندہ چڑیا کی طرح اڑ سکتا ہے۔ اولیائے کرام کے ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ انہوں نے فضا میں پرواز کی ہے۔ ہزاروں میل دور کی چیز کو بغیر کسی دوربین کے دیکھ لیا ہے، لاکھوں سال پہلے کی آوازوں کو سنا ہے، سمجھا ہے اور یہ سب کچھ ظاہری وسائل کے بغیر ہوا ہے۔ عقل سے جو علم سیکھا جاتا ہے اس کا نام علم حصولی ہے اور جو علم وجدان سے حاصل ہوتا ہے اس کا نام علم حضوری ہے۔

سوال: علم حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے؟

جواب: علم کی دو طرزیں متعین ہیں۔ ایک طرز علم حضوری اور علم کی دوسری طرز کو روحانی سائنس میں اکتساب کہتے ہیں یعنی ایسا علم جو عقل کے استعمال سے سیکھ لیا جائے۔ جتنا زیادہ عقل کا استعمال ہو گا اس ہی مناسبت سے اس علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

علم حصولی ایک ایسا علم ہے کہ آدمی اپنی کوشش، محنت، جدوجہد اور صلاحیتوں کے مطابق ظاہر اسباب میں رہ کر کوئی علم سیکھے اور اس علم میں مادی وسائل بروئے کار آئیں۔ اکتسابی علوم آدمی کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اور عقل کے استعمال کے ذریعے بتدریج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی جس علم میں جتنی زیادہ عقل استعمال کیا جائے اسی مناسبت سے یہ علم اس بندے کے لئے روشنی بنتا چلا جائے گا۔ بات اس میں عقل کے استعمال کی ہے۔ عقل بندر میں بھی ہوتی ہے، عقل انسان میں بھی ہے۔ بندر کی عقل کے مطابق اسے علوم سکھائے جائیں وہ بھی سیکھ لیتا ہے۔ ایک آدمی لوہار بننا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے تین چیزیں ہیں۔ ایک لوہا، دوسری وہ صلاحیت جو لوہے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتی ہے اور تیسری صلاحیت کا استعمال۔ اب وہ صلاحیت کو استعمال کرتا ہے تو صلاحیت کے مطابق لوہے سے بے شمار چیزیں بنتی چلی جاتی ہیں۔

کسی علم کو سیکھنے کے لئے (Common Factor) نیت ہے یعنی وہ علم کس لئے سیکھا جا رہا ہے۔ اس علم کی بدولت جو چیزیں تخلیق پا رہی ہیں ان چیزوں میں تخرب کا پہلو نمایاں ہے یا اس کے اندر تعمیر پنہاں ہے۔ لوہا ایک دھات ہے۔ لوہے کو مختلف چیزوں میں ڈھال دینا ایک صلاحیت ہے لیکن یہ چیزیں کس مقصد اور کس کام کے لئے بنائی گئی ہیں یہ بات تعمیری یا تخریبی پہلو ظاہر کرتی ہے۔ لوہے سے ایسی چیزیں بھی بنتی ہیں جن کے اوپر انسان کی فلاح و بہبود کا دارومدار ہے مثلاً چمٹا، پھونکنی، توا، ریل کے پہیے، ریل کے ڈبے، ہوائی جہاز اور دوسری بے شمار چیزیں۔ اگر اگر نیت میں تخریب ہے تو یہی لوہا راکٹ اور بم وغیرہ میں تبدیل ہو کر نوع انسانی کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

علم حصولی ایک ایسا علم ہے جو وسائل کے یقین کے ساتھ سکھایا جاتا ہے۔ وسائل ہوں گے تو یہ علم سیکھا جا سکتا ہے۔ وسائل نہیں ہونگے تو یہ علم نہیں سیکھا جا سکتا۔ قلم ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل ہو گی۔ قلم نہیں ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل نہیں ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ قلم وسیلہ ہے اس بات کے لئے کہ تحریر کو کاغذ پر منتقل کیا جائے۔ علم حصولی کے لئے وسائل کے ساتھ ساتھ استاد کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ ایسا استاد جو گوشت پوست سے مرکب ہو جو زمان و مکان میں بند جسمانی خدوخال کے ساتھ شاگرد کے سامنے ہو نیز استاد یہ بتانے کے لئے موجود ہو کہ قلم اس طرح پکڑا جاتا ہے اور قلم سے الف، ب،ت، اس طرح لکھی جاتی ہے۔
علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب کی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی حیثیت براہ راست ایک اطلاع کی ہے۔ یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آجاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آنے سے مراد یہ ہے کہ حافظے کے اوپر ایک نقش ابھرتا ہے مثلاً اگر علم حضوری سکھانے والا کوئی استاد کبوتر کہتا ہے تو حافظے کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ سا بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا ہے تو حافظے کی اسکرین پر روشن اور دمکتا ہوا ستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنت سے متعلق ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنت ایک ایسا باغ ہے جس میں خوبصورت پھول ہیں، آبشاریں ہیں، دودھ کی طرح سفید پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔

علم حضوری ایک ایسا علم ہے جو مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس علم کو سیکھنے کے لئے کاغذ، قلم، دوات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جس طرح حصولی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح حضوری علم کو سیکھنے کے لئے روحانی استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ علم ٹائم اور اسپیس کی حدود سے باہر ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ استاد مادی خدوخال اور دوسری مادی وسائل کے ساتھ بھی شاگرد کے سامنے موجود ہو۔ علم کے طالب کو شاگرد کہا جاتا ہے اور علم سکھانے والے کو استاد کا نام دیا جاتا ہے۔ علم حضوری سیکھنے والے طالب علم کا اصطلاحی نام مرید ہے اور علم حضوری سکھانے والے کا اصطلاحی نام مراد ہے۔
علم حضوری میں استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ طالب علم کو صلاحیتوں کا استعمال سکھا دے۔ ایک آدمی تصویر بنانا چاہتا ہے یا تصویر بنانے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد کو یہ بتا دے کہ تصویر اس طرح بنتی ہے کہ اگر گراف کے اتنے خانے کاٹ دیئے جائیں تو ناک بن جائے گی۔ گراف کے اتنے خانوں پر پینسل پھیر دی جائے تو کان بن جائے گا۔ گراف کے اندر اتنی تعداد میں خانے کاٹ دیئے جائیں تو آنکھیں بن جائیں گی۔ پینسل کو اس زاویے سے گھما دیا جائے تو چہرہ بن جائے گا۔ طالب علم استاد کے بتائے ہوئے اس طریقے پر عمل کرتا ہے تو وہ تصویر بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس کی اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہوتی ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا تھا کہ اس نے تصویر بنانے کا قاعدہ سمجھا دیا۔ جتنی مشق کی جاتی ہے اسی مناسبت سے تصویر کے خدوخال بہتر اور خوبصورت ہوتے جاتے ہیں۔

اس کے متضاد علم حضوری میں مراد مرید کے اندر اپنی صلاحیتیں منتقل کر دیتا ہے مرید جب تصویر کشی کر لے گا تو اس تصویر میں مراد کی صلاحیت کا عکس نمایاں ہو گا۔ صلاحیتوں کا منتقل کرنا مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ صلاحیتوں کو قبول کرنے کے لئے اور مراد کی طرز فکر اپنے اندر منتقل کرنے کے لئے صرف اور صرف ایک بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مرید خور کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ مراد کے سپرد کر دے اور اپنی ذات کی اس طرح نفی کر دے کہ اس کے اندر بجز مراد کے کوئی چیز نظر نہ آئے۔

جیسے جیسے یہ طرز مرید کے اندر مستحکم ہوتی رہتی ہے اسی مناسبت سے مراد کی طرز فکر مرید کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہے۔

حضرت اویس قرنیؒ اور سیدنا حضور اکرمﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حضرت اویس قرنیؒ سیدنا حضور اکرمﷺ سے کبھی نہیں ملے لیکن محبت اور قربت کا یہ عالم تھا کہ حضور اکرمﷺ شام کی طرف رخ فرماتے تھے تو چہرہ مبارک خوشی سے تمتما جاتا تھا۔ اور فرماتے تھے شام سے مجھے بوئے دوست آتی ہے۔

آدمی کے اندر دماغ دراصل ایک اسکرین ہے بالکل ٹی وی کی طرح۔ کہیں سے کوئی چیز نشر ہوتی ہے۔ ہزاروں میل کے فاصلے سے بغیر کسی وقت کے وہ تصویر ٹی وی اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہے۔ وہ تصویر بنتی ہے، وہ تصویر بولتی بھی ہے، وہ تصویر ہنستی بھی ہے، وہ تصویر روتی بھی ہے حالانکہ یہ علم حصولی ہے کہ لوگوں نے وسائل کو کام میں لا کر اتنی زیادہ کوشش کی کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے انہوں نے آدمی کو لہروں میں تبدیل کر کے دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیا یہی نہیں ہے کہ ایک تصویر صرف ایک جگہ نظر آئے بلکہ ٹی وی اسٹیشن سے نکلی ہوئی ایک تصویر ہزاروں لاکھوں جگہ بیک وقت نظر آتی ہے۔

اسی طرح جب کوئی مراد اپنے مرید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے اندر ٹائم اور اسپیس کو حذف کرنے والی صلاحیتیں مرید کے دماغ کے اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے یہ صلاحیتیں منتقل اور متحرک ہوتی رہتی ہیں، مرید کے اندر ذہنی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مرید کی طرز فکر مراد کی طرز فکر بن جاتی ہے۔ مراد کی صلاحیتیں مرید کی صلاحیتیں بن جاتی ہیں۔ اور جب یہ عمل اپنے عروج پر پہنچتا ہے۔ تو مراد اور مرید ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں کی گفتگو ایک ہو جاتی ہے، دونوں کی شکل وصورت ایک ہو جاتی ہے، دونوں کا طرز کلام ایک ہو جاتا ہے۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ مراد کے سر میں درد ہوا تو مرید نے بھی اسی طرح درد کی کسک محسوس کی اور اپنی   پٹی باندھ لی۔ مراد کو بخار ہوا تو مرید بھی بخار میں تپنے لگا۔

جب کہ مرید اور مراد دونوں کے درمیان فاصلہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تھا۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا دونوں ایک ہی وقت بخار میں مبتلا ہوئے۔ اگر مرید کے اندر جذبۂ صادق ہے اور مراد سے عشق کے دریچے میں محبت کرتا ہے، اپنی ذات کی نفی کر کے سب کچھ مراد کو سمجھتا ہے تو پھر دور دراز کے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں اور مرید ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی اپنے مراد اور پیر و مرشد نے فیض یاب ہو سکتا ہے۔

ایسا صرف علم حضوری ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یہ علم منتقل ہوتا ہے سکھایا نہیں جاتا۔ علم حصولی اور علم حضوری میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مرید یا شاگرد دونوں طریقوں سے یہ علم سیکھتا ہے مگر علم حصولی میں مرید یا شاگرد کو اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جب کہ علم حضوری میں مراد اپنی صلاحیتوں مرید کی روح کے اندر انڈیل دیتا ہے۔

سوال: روح کیا ہے اس کو تفصیل سے بیان کریں۔

جواب: قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے۔’’اے رسولﷺ! تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘

قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی ہے۔ یہ بولتا، سنتا، سمجھتا، محسوس کرتا انسان بن گیا۔ بات سیدھی اور صاف ہے کہ انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح نے اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کے تمام اعمال و حرکات کو متحرک کیا ہوا ہے۔ ہم روزمرہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی مر جاتا ہے تواس کا پورا جسم موجود ہونے کے باوجود اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

یعنی حرکت تابع ہے، روح کے۔ درحقیقت روح زندگی ہے اور روح کے اوپر ہی تمام اعمال و حرکات کا انحصار ہے۔ روح کی ہر حرکت میں مقداریں کام کرتی ہیں اور یہ معین مقداریں استعمال کر کے روح مختلف حیثیتوں اور رنگ و روپ میں اپنا تعارف پیش کرتی ہے۔ روح جب ان معین مقداروں کے تانے بانے کے ساتھ لباس تیار کرتی ہے۔ جس کو ہم درخت کہتے ہیں۔ تو روح ہمیں درخت کی شکل میں نظر آتی ہے اور روح جب وہ مقداریں پیش کرتی ہے تو بکری میں ہوتی ہیں تو وہ ہمیں بکری نظر آتی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح جتنی نوعیں اور ان نوعوں کی شکل وصورت ہم دیکھتے ہیں یا ایسی نوع جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔ وہ روح کے لباس کی ہر لمحہ بدلتی ہوئی تصویریں ہیں۔ روح جب ملاء اعلیٰ کے لباس میں خود کو پیش کرتی ہے تو ملاء اعلیٰ ہے۔ ملاء اعلیٰ میں گروہ جبرئیلؑ ، میکائیلؑ اور اسرافیلؑ شامل ہیں۔ روح ہی کی تخلیق حاملان عرش، ملائکہ سماوی، ملائکہ ارضی اور ایسے سیارے ہیں جن میں اربوں کھربوں انسان، جنات اور دوسری مخلوق آباد ہیں۔

روح ہمیشہ پردے میں رہتی ہے اور خود کو کسی نہ کسی لباس یا حجاب میں ظاہر کرتی ہے۔ روح کے بارے میں جتنے تذکرے ملتے ہیں اور جن لوگوں نے روح کی تعریف بیان کی ہے انہوں نے روح کو کسی نہ کسی شکل وصورت میں بیان کیا ہے مثلاً روشنی، نور وغیرہ وغیرہ۔ روشنی بھی ایک شکل ہے اور نور کی بھی ایک تعریف ہے۔ فی الواقع روح کیا ہے، اس کی ماہیت کیا ہے اس کو واضح طور پر بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ (Vacublary) نہیں ہیں۔

روح جس نوع کا لباس اختیار کرتی ہے اس نوع کو زندہ رہنے کے لئے تمام ضروری حواس بخشتی ہے۔ یہ حواس ہی ہیں جو الگ الگ مقدار رکھتے ہیں۔ زمان و مکان کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ حواس ذیلی تحقیق ہیں یعنی روح کی تخلیق۔ اس طرح جیسے انسان ہوائی جہاز بناتا ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ انسان ہوائی جہاز کا خالق ہے حالانکہ ہوائی جہاز کی تخلیق میں درجہ بدرجہ تمام تحریکات موجود ہیں جو روح سے انسان کو منتقل ہوئی ہیں۔

جب کوئی انسان تخلیقی مقداروں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس حد تک آزاد ہو جاتا ہے کہ روح کا بنایا ہوا لباس یا اپنے لئے روح کے متعین کردہ میڈیم کی نفی ہو جاتی ہے تو وہ ایک حد تک جتنا اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں روح سے وقوف حاصل کر لیتا ہے اور یہ وقوف انسان کو تمام فاصلوں اور تمام حد بندیوں سے گزار کر دیتا ہے۔

اس دنیا کی تمام چیزیں جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یا جن چیزوں کو ہم دیکھ رہے ہیں، بشمول سورج، چاند، ستارے ہم روح کی معرفت دیکھ رہے ہیں۔ یعنی روح کی اطلاعات یا روح کا علم مختلف شکل و صورت اور مختلف لباسوں میں نظر آ رہا ہے۔ جس طرح انسان کے اندر روح کام کر رہی ہے یا جس طرح روح نے انسان کو لباس بنا کر خود کے سامنے اور دوسری نوعوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسی طرح چاند اور سورج بھی ایک علم ہے جس کی اطلاع متواتر اور مسلسل روح ہمیں بہم پہنچا رہی ہے۔ ایک اندھا آدمی جو چاند، سورج اور ستاروں کو نہیں دیکھ سکتا مگر چاند کی روشنی، ستاروں کی ٹھنڈک اور سورج کی تپش سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جیسے آنکھ رکھنے والا کوئی انسان متاثر ہوتا ہے۔ بہت زیادہ سوچنے کی بات ہے کہ اندھے کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ یہ دھوپ ہے لیکن وہ دھوپ کی تپش محسوس کرتا ہے اور اسے یہ علم ہے کہ یہ دھوپ ہے ایک آدمی پانی کو دیکھتا ہے۔ اس نے ابھی پانی میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ اس کا ہاتھ ابھی بھیگا بھی نہیں، ہاتھ بھیگنے سے دماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے لیکن وہ پانی کو دیکھ کر پانی کہہ دیتا ہے۔ ایک آدمی کی آنکھیں بند ہیں، کوئی شخص اس کے ہاتھ پر لوہے کو ٹکڑا رکھ دیتا ہے۔ وہ آدمی دیکھ نہیں رہا کہ ان کے ہاتھ پر لوہا رکھا ہوا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ لوہے کا ٹکڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پانی میں ہاتھ بھیگا ہے اور  بھیگنے کو دیکھا نہیں تو اس نے یہ کیسے کہہ دیا کہ یہ پانی ہے، یہ لوہا ہے۔ زبان سے ادا نہ ہونے کے باوجود محبت بھری نظروں کے اثرات خوش کن ہوتے ہیں اور غضبناک نظریں ہراساں کر دیتی ہیں۔ گونگے بہرے آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ ان اشاروں کو جو وہ الفاظ کی جگہ استعمال کرتے ہیں آپس میں اس طرح سمجھتے ہیں جس طرح ہم کسی بات کو الفاظ میں کہتے اور سمجھتے ہیں۔
اب ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ روح کے لئے الفاظ اس وقت اہمیت رکھتے ہیں جب وہ خیال کو الفاظ کے اندر بند کر کے اس کی ایک شکل وصورت بنا دے یا خیالات کو لباس پہنا دے۔ اگر وہ علم کو الفاظ کے جامے سے آزاد رکھے تب بھی ہم مفہوم سمجھنے پر اسی طرح قدرت رکھتے ہیں جس طرح لفظ اور آواز سن کر سمجھتے ہیں۔ 


اسم اعظم

خواجہ شمس الدین عظیمی