Topics
حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک بار کوہ نبیر پر تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ تھے۔کوہ نبیر ہلنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر لڑھک کر دامن کوہ میں جا گرے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کوہ نبیر کو ٹھوکر لگا کر فرمایا، اے نبیر ! ساکن رہ ، تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان سنتے ہی کوہ نبیر ساکت ہو گیا۔
زمین کی تخلیق سے متعلق دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق زمین ابتدا میں سورج کا حصہ تھی ، جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر سورج سے علیحدہ ہو گئی ۔ دوسرا نظریہ بگ بین کی تھیوری ہے ۔ دونوں نظریا ت کے مطابق زمین نے رفتہ رفتہ بیضوی شکل اختیار کر لی ہے۔
قطبین اور خط استواپر کرہ ارض کا ڈایا میٹر الگ الگ ہے۔ خط استوا پر زمین کا ڈایا میٹر ۶۳۷۸کلو میٹر ہے اور قطبین پر زمین کا ڈایا میٹر ۶۳۵۶کلو میٹر ہے۔ زمین ۵۔۲۳ ڈگری زاویے پر جھکی ہوئی ہےاور تقریبا ۲۴ گھنٹوں میں گھوم جاتی ہے۔ اس گردش سے دن رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد ایک چکر ایک سال میں پورا کرتی ہے اور اس حرکت سے موسم تبدیل ہو تے ہیں۔ زمین کی ساخت ، جھکائو ، پھیلاو، گردش اور ترتیب و توازن ، قدرت معین کردہ مقداروں کا بہترین شاہکار ہے۔ سائنس دانوں کے خیال میں اگر زمین کا جھکاؤ ۲۵ ڈگری پر ہوتا تو قطبین پر جمی ہوئی برف پگھل کر سمندروں میں آ جاتی اور اگر جھکاؤ ۲۲ ڈگری ہوتا تو یورپ قطب شمالی کی طرف سے ڈھک جاتا ۔ زمین محوری گردش ۲۴گھنٹے میں پوری کرتی ہے۔ اگر زمین محوری گردش ۳۰ گھنٹوں میں پوری کرتی تو تیز ہوائیں چلتیں اور ان طوفانی ہواؤں سے زمین صحرا میں تبدیل ہو جاتی۔ اگر محوری گردش کا دورانیہ ۲۴ گھنٹوں کی بجائے۲۰گھنٹے ہوتا تو زمین خشک اور بنجر بن جاتی ۔ زمین کے اندر ایک سیال مادہ ہے۔ جس کے ارد گرد مختلف اقسام کی ٹھوس تہیں ہیں۔ زمین کے قطر کا اکثر حصہ پگھلی ہوئی دھاتوں اور چٹانوں پر مشتمل ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین پر ہر سال کم و بیش دس لاکھ زلزلے آتے ہیں۔ زیادہ زلزلے غیر آباد علاقوں میں آتے ہیں ۔ تقریباچالیس ہزار زلزلے سائنسی آلات کے بغیر انسان محسوس کر سکتا ہے۔
آتش فشانی زلزلے زمین کے نیچے ابلتے ہوئے سیال مادے کے باہر نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ گرم لاوا دہانے کے گرد مخروطی شکل کا تودہ بنا دیتا ہے ۔ اسے آتش فشاں پہاڑ کہتے ہیں۔ زمین کے اندر گرم سیال مادہ زمین کی اوپری سطح کی طرف آتا رہتا ہے۔ جب کسی طرح سے پانی اس مادہ تک پہنچ جائے تو وہ بھاپ بن جاتا ہے ۔ آتش فشاں سے نکلنے والے بخارات میں سب سے زیادہ کثرت بھاپ کی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاپ ہی وہ بنیادی اور متحرک قوت ہے جو دوسرے مادوں اور گیسوں کو زور سے باہر دھکیلتی ہے۔ ان مادوں میں کلورین گندھک ، پگھلا ہوا لوہا اور گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ عام ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زلزلہ کی آمد سے قبل ارضی تہوں میں لہریں اور آوازیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جو انسان نہیں سن سکتا ۔ جانور مثلا چوپائے ، پرندے ، مچھلیاں اور حشرات الارض سن لیتے ہیں اور ان کے رویوں میں غیر معمولی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں ۔ زلزلے کی قوت اور تباہ کاری کے پیمائش سیز موگراف یا زلزلہ نگار نامی آلے سے کی جاتی ہے۔ یہ آلہ زلزلہ کے مرکز سے چاروں جانب پھیلنے والی لہروں کو ریکارڈ کرتا ہے ۔ ایک درجہ زلزلہ کا جھٹکا صرف چند لوگ محسوس کر سکتے ہیں جبکہ بارہ درجے کا زلزلہ انتہائی شدیداور تباہ کن ہوتا ہے فلک بوس عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں ۔ بھاری بھر کم اجسام ہو امیں گیند کی طرح اچھلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ زمین پر اس جھٹکے کی لہر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
نقصان کے ساتھ ساتھ زلزلوں کے روشن پہلو بھی ہیں ۔ گرم پانی کے معدنی چشمے زلزلوں کا تحفہ ہیں ۔ شفا بخش اثرات کے حامل ان چشموں کا پانی بہت سے مریضوں کے لئے آب حیات ثابت ہوا ہے۔ زلزلوں سے معرض وجود میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں سے چٹانوں کے نشیب و فراز بدل جاتے ہیں اور آبشار اور جھرنے زمین کی رونق میں اضافہ کرنے لگتے ہیں ۔ زلزلوں سے زمین کے اندر سے بہت سی کار آمد معدنیات سطح زمین پر ظاہرہو جاتی ہیں۔
سورہ رحمن میں ہے۔
اے گروہ جنات اور گروہ انسان ! تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاو ’ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔
سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہے ۔ کوئی انسان زمینی شعور میں رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے۔آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے سات مزید شعوروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب انسان ان سات شعوروں کی پہچان کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی صفات کا عارف بن جاتاہے۔ صفات کا عرفان حاصل کرنے کے لئے سالک تیرہ شعوروں سے گزرتا ہے۔
شعور کی طاقت کا دارو مدار زمان پر ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بورڈ کے اوپر گھڑی بنی ہوئی ہے، گھڑی کے درمیان سوئی لگی ہوئی ہے ۔ گھڑی میں بارہ ہندسے بنے ہوئے ہیں ۔ ایک سے بارہ تک ہندسے اسپیس ہیں اور گھڑی کا گھومنا ٹائم ہے ۔ اگر سوئی کو اتنی رفتا ر سے گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے چھ کے ہندسے پر پہنچ جائے تو زمین پر موجود شعور جو اسپیس میں بند ہے ، پردے میں چلا جائے گا اور انسان کو وہ سلطان حاصل ہو جائے گا جس سلطان کے ذریعہ وہ زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے اور جب سوئی کو اس طرح گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے کے وقت سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو انسان کو وہ سلطان حاصل ہو جائے گا جس ے ذریعہ وہ زمین اور آسمان کے کناروں سے باہر نکل جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر سوئی جو بارہ پر قائم ہے ۔ اچھل کر ایک پر آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسے وہ شعور حاصل ہو گیا جو وہ پیدائش سے لے کر موت تک استعمال کرتا ہے ۔ اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے بہ یک وقت دو پرآ جائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے۔ اگر سوئی بہ یک وقت بارہ سے اچھل کر تین پر آجائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہو جاتا ہے اگر سوئی بہ یک وقت چار پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں اور وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی ۔ اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی اتنی تیزی کے ساتھ حرکت کرے کہ وہ ایک دم پانچ پر آ جائے تو انسان کے اوپر کشف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اگر یہی سوئی یکدم چھ پر آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے جس کو قرآن نے سلطان کہا ہے ۔ یعنی اب انسان زمین کے کناروں سے باہر دیکھ سکتا ہے ۔ زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے حامل سالک کے اندر اگر بارہ پر قائم سوئی بہ یک وقت سات پر آ جائے تو اس کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہو جاتا ہے اعلی ہذا القیاس اسی طرح سات آسمانوں کو وہ دیکھ لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہو جاتا ہے ۔ اللہ کریم نے فرمایا ہے :
ترجمہ :
ہم نے آسمان اور زمین کو تہہ درتہہ بنایا ہے۔
سورہ الطارق میں ارشاد ہوا ہے:
ترجمہ:
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے۔
سورۃ المومنون آیت نمبر ۱۷ میں ہے:
ترجمہ:
اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ۔ تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔
تہہ در تہہ سے مراد دراصل وہ شعوری صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہیں ۔ سات تہوں والے آسمانوں یا زمین سے مراد یہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر نظام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ ایسا ضابطہ حیات جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا ۔ ان سب کا رشتہ خالق کائنات کے ساتھ قائم ہے۔ تمام چیزیں جو سات آسمانوں میں اور زمینوں میں ہیں سب اللہ کی حمدوثنا بیان کرتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمد ثنا بیان کرتی ہیں اور شکر اد اکرتی ہیں۔ اربوں کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے انحراف کرے تو نظام میں خلل واقع ہو جائے گا ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔
قانون یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ماضی سے آتا ہے اور جب وہ دوبارہ ماضی میں پلٹتا ہے تو سوئیوں کی گردش (Reverse) ہو جاتی ہے۔ جب تک انسان چھ دنیاوی شعور یا چھ دائروں میں رہتا ہے اسکے اوپر مکانیت (Space) کا غلبہ رہتا ہے اور جب انسان چھ شعوروں سے نکل کر ساتویں شعور میں داخل ہوتا ہے تو گیارہویں شعور تک اس کے اوپر زمانیت (Time) کا غلبہ رہتا ہے ، مکانیت مغلوب ہو جاتی ہے۔
زمین آسمان میں موجود ہر شے شعور رکھتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہے کہ رحمۃ اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کائنات کی ہر شے محکوم ہے۔ پہاڑ کے اوپر جیسےہی سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے تو محکوم پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری و ساری حاکمیت کے رعب سے ملنے لگا۔ یعنی اس پر زلزلہ آگیا ۔ زلزلہ کے معنی ہیں زور سے ہلا دینا۔
ترجمہ:
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔( الزلزال)
ترجمہ:
جب وہ ہونے والاواقعہ پیش آ جائے گا ۔ تو کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہو گا ۔ وہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت یکبارگی ہو گی ۔ زمین اس وقت ےکبار گی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ ہو جایں گے جیسے ازتا ہو ا غبار ۔ ( الواقعہ)
پہاڑ میں شعور ہے ۔ قرآن پاک اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
ترجمہ:
اور ہم نے اپنی امانت پیش کی آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر ، سماوات ، ارض اور پہاڑون نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
کسی چیز کے بارے میں انکار یا اقرار اس بات کی علامت ہے کہ اس شے کے اندر شعور ہے ۔ جس طرح کوئی ایک فرد اپنے شعور کو نہیں دیکھ سکتا اور شعور کی مزاحمت یا شعور کی پسندیدگی کا وزن محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح ہم پہاڑوں کو وزنی اور جما ہوا دیکھتے ہیں۔
ترجمہ:
تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئےہیں۔ حالانکہ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔
یعنی پہاڑ کثیف مادے پر قائم نہیں ہے۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ سے مخاطب ہو کر فرمایا، ٹھہر جا تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں تو پہاڑ نے حکم کی تعمیل کی ۔ اور وہ ہلنے اور لرزنے سے رک گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔