Topics

واقعہ معراج

پیغمبراسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں اپنے حضور طلب فرمایا۔ جب روئے زمین پر ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ جاں نثار بیوی اور شفیق چچا بھی دنیا میں نہیں تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیشتر وقت عبادت اور غور و فکر میں گزرتا تھا۔ مکہ میں نہ صرف یہ کہ اسلام کے فروغ کے لئے مشکلات تھیں بلکہ جو لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے ان کے لئے آزادانہ عبادت اور اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی آزادی نہیں تھی۔

’’پاک ہے وہ جو لے گیاایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے ۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔‘‘(سورۃبنی اسرائیل۔آیت 1) 

رجب کی ستائیسویں شب کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی چچازاد بہن ام ہانی ؓ بنت ابوطالب کے گھرتشریف لے گئے۔

جبرائیل امین ؑ 

وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آرام فرمارہے تھے کہ گھر کی چھت شق ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا جبرائیل ؑ امین فرشتوں کے ہمراہ تشریف لائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زم زم کے کنویں کے پاس لے گئے۔ وہاں جبرائیل ؑ نے سینہ مبارک کھول کر دل نکالا اور آبِ زم زم سے دھونے کے بعد دوبارہ سینے میں رکھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام براق پر سوار جبرائیل ؑ کے ساتھ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ مسجد اقصیٰ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انبیاء علیھم السلام کی امامت فرمائی۔ اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں دودھ اور شراب کے پیالے پیش کیے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دودھ پسند فرمایا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا:

’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فطرت کو اختیار کیاہے۔ ‘‘

انبیاء کرام ؑ سے ملاقات


حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیت المقدس سے عالمِ بالاکی طرف لے جایا گیا۔ آسمانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلیل القدر پیغمبروں سے ملاقات کی۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استقبال کیا۔ 

پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دوسرے آسمان پر لے جایاگیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریاؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کاجواب دیا ، مبارکباد دی ۔

پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہاں حضرت یوسف ؑ کو دیکھا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا، مبارکباد دی۔ 

پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا ۔ وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ادریس ؑ کو دیکھا اور انہیں سلا م کیا۔

پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا ۔ وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ہارون ؑ بن عمران کو دیکھا اور سلام کیا۔

پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملاقات حضرت موسیٰ ؑ سے ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سلام کیا انہوں نے مرحبا کہا اور اقرارِ نبوت کیا۔ 

اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ساتویںآسمان پر تشریف لے گئے۔ وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملاقات حضرت ابراہیم ؑ سے ہوئی۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خوش آمدید کہا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کا اقرار کیا۔ 

وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’بیت المعمور ‘‘دیکھا۔ ساتویں آسمان کے بعد سدرۃالمنتہیٰ تک حضرت جبرائیل ؑ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ رہے۔ 

اسکے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالقِ کائنات کی تسبیح و تقدیس فرمائی۔ 

دوکمانوں سے کم فاصلہ


پھر اللہ جل جلالہ کے دربار میں حاضرہوئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ سے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلہ رہ گیا۔

’’قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا۔ تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے، اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔ جو بڑا صاحب حکمت ہے۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ وہ اُفقِ اعلیٰ پر تھا، پھر قریب آیااور اوپر معلق ہوگیا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلہ رہ گیا۔تب اس نے اللہ تعالیٰ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی وحی اسے پہنچانی تھی۔ نظر نے جو دیکھا، دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اب کیا تم اس چیز پراس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟‘‘(سورۃ النجم۔ آیت 1تا12) 

معراج میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زمین پر سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کیا اور لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر آسمان کی حدود میں داخل ہوئے۔ فرشتوں کی حد سے آگے تشریف لے گئے اور خدائے کریم سے ہم کلام ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر سولہ احکام نازل فرمائے۔ جو زیادہ جامع ہیں اور نہایت عمدہ ضابطۂ حیات کی عکاسی کرتے ہیں ۔

’’۱۔ تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔

۲۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں، بوڑھے ہوں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان کے ساتھ احترام سے بات کرو اور نرمی اور رحم سے ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘

۳۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسابندہ سب کے لئے درگزر کرنے والا ہوتا ہے، ایسا بندہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوکر بندگی کی طرف پلٹ آتا ہے ۔

۴۔ رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو۔

۵۔ فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکراہے۔

۶۔ اگر تم حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کی حاجت پوری نہیں کرسکتے تو انہیں نرمی سے جواب دو۔

۷۔ نہ اپنے ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل ہی کھلا چھوڑدوکہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔

۸۔ تیرا رب جس کے لئے چاہتا ہے۔ رزق کشادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔

۹۔ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کروہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔

۱۰۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو۔وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ۔

۱۱۔ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو، جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہواس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیاہے۔ پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے۔ اس کی مدد کی جائے۔

۱۲۔ یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ 

۱۳۔ عہد کی پابندی کرو،بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔

۱۴۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو، ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔

۱۵۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگوجس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقیناًآنکھ ، کان اور دل سب کی باز پرس ہوگی۔

۱۶۔ زمین میں اکڑ کر نہ چلو ،تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت23تا37)

بارگاہِ رب العزت میں

معراج شریف میں بارگاہ ربّ العزت سے انعامات و عطیات مرحمت کئے گئے۔ مفسرین نے تین اکرامات کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔

۱۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیات جن میں اسلام کے رہنما اصول بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔امت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بخشش کا وعدہ، مگر جو لوگ شرک کے مرتکب ہوں گے وہ اس انعام سے محروم رہیں گے۔
۳۔پانچ وقت فرض نماز کی تاکید۔

مناظرِ جنت 

روایت ہے کہ معراج کے سفر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آسمانوں میں حیرت انگیز مناظر دیکھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنت کی سیر کی اور دوزخ کے طبقات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملاحظہ فرمائے۔ نیک او ر بدلوگوں کا مقام دیکھا اور ان مقامات پراعمال کی جزا اور سزا کا مشاہدہ کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنت کے داروغہ رضوان سے ملاقات کی اور جنت کے باغوں کا معائنہ فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ


’’
مومن مردوں اورعورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ عطا فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کیلئے پاکیزہ قیام گاہیں ہونگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی ۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘(سورۃ التوبہ ۔ آیت 72)

جنت کے پھل

’’متقی لوگوں کیلئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے۔ یہ انعام ہے متقی لوگوں کیلئے اور منکروں کیلئے دوزخ ہے۔ ‘‘(سورۃالرعد۔ آیت 35)

سونے کے کنگن

’’ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا ۔ ‘‘(سورۃفاطر۔ آیت 33)

دل پسند


’’
جنت میں داخل ہوجاؤ تم اور تمہاری زوج (بیگمات) ، تم شاد کئے جاؤگے۔ ان کے سامنے سونے کی طشتریاں اور سونے کے پیالے پیش کئے جائیں گے اور ان میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لئے لذت بخش ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔‘‘ (سورۃالزخرف۔ آیت70تا71)

شراباً طہورہ 


’’
متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔ لطف لے رہے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کا رب انہیں دے گا، اور ان کا رب انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ (ان سے کہا جائے گا) کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) ان کے ساتھ ملادیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہیں دیں گے، ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ہم ان کو ہر طرح کے پھل اور گوشت، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا خوب دیے چلے جائیں گے۔ ان کے درمیان ایسی شراب کے پیالوں کے تبادلے ہورہے ہوں گے جو لغویت اور گناہ سے پاک ہوگی۔ ‘‘(سورۃالطور ۔آیت 23)


شہد کی نہریں


’’
متقیوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی (مقطّر)کی، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے ذائقے میں ذرا فرق نہیں آیا ہوگا۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہوگی، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی، اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔‘‘ 

( سورۃمحمد ۔ آیت15) 


اہل جنت


’’
بے شک اہل جنت آج اپنی دلچسپیوں میں مگن ہوں گے وہ اور ان کے زوج سایوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھیں گے اور اس میں ان کے لئے میوے ہوں گے اور ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ طلب کریں گے، رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے۔‘‘ (سورۃےٰسین۔ آیت55تا58)


چاندی کے برتن


’’
اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے۔ شیشے، چاندی کی طرح ہوں گے۔ ان کو انہوں نے نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجایا ہوگا۔ (سورۃالدھر ۔ آیت 15تا16)

حوریں


’’
ان نعمتوں کے درمیان باحیا حوریں ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوا نہیں ہوگا۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے۔ ان میں نیک سیرت اور خوبصورت حوریں ہوں گی۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے۔ حوریں، خیموں میں رہنے والیاں۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے۔ ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو چھوا نہ ہوگا۔

(سورۃالرحمن ۔آیت56،57،70تا74)

اہلِ دوزخ پرعذاب


روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معراج کی شب دوزخ کے داروغہ سے ملاقات کی اور دوزخ کے عذاب میں مبتلا لوگوں کے حالات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کودکھائے گئے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھاکہ 

چغل خور


۱۔کچھ لوگوں کو ان کے اپنے بدن کا گوشت کاٹ کاٹ کے کھلایا جارہا تھا۔ یہ چغل خور اور غیبت کرنے والے لوگ تھے۔

’’اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات۔آیت 12)

انگارے


۲۔ کچھ لوگ جن کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور انکے منہ میں پتھروں کے انگارے ٹھونسے جارہے تھے ۔ یہ یتیموں کا مال ہضم کرنیوالے لوگ تھے۔

’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘(سورۃ النساء۔آیت 10)

۳۔ سود خوروں کے پیٹ میں سانپ بھرے ہوئے تھے، ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے ۔(سنن ابن ماجہ ۔ جلد دوئم۔ حدیث430)

’’سود خوروں کے گروہ کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھا کہ وہ خون کی ندی میں تیر رہا تھاجب تیرتے ہوئے کنارے تک آیا لوگ اس کو پتھر مارتے اور وہ واپس پلٹ جاتا تھا۔‘‘

(صحیح بخاری۔ جلد اول۔ حدیث 1957)

’’اور سود جس سے منع کیا گیا تھا اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم نے ان کے لئے الم ناک عذاب مہیا کررکھا ہے۔‘‘ 

(سورۃ النساء۔ آیت 161)

۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دکھایا گیاکہ ناجائز دولت کمانے والے متعفن اورسڑاندسے بھراہوا گوشت کھارہے ہیں ۔

۵۔اور چند لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اور زبانیں کاٹی جارہی ہیں۔ زبان اور ہونٹ صحیح ہوجاتے اور دوبارہ تکلیف دہ عمل شروع ہوجاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبتایا گیاکہ یہ بے عمل منبر نشین ، خطیب واعظ اور عالم ہیں جو دوسروں کو نصیحت کرتے تھے اور خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ 

۶۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک چھوٹے سے پتھر سے ایک بہت بڑے بیل کو نکلتے دیکھا جو کہ دوبارہ پتھر میں داخل ہونے کی کوشش میں لگ جاتاتھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتا یاگیا کہ یہ حال ا س شخص کا ہے جوبڑی بات منہ سے نکال کر شرمندہ ہوتا ہے لیکن اسے واپس لینے پر قدرت نہیں رکھتا ۔

۷۔ کچھ ایسے لوگ دیکھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہرے کو کھرچ رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو غیبت کرتے ہیں اور لوگوں کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ 

(مشکوٰۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 970)

 

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تصدیق


معراج میں پیش آنے والے واقعات سن کردل کے اندھے کفارِ مکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذاق اڑانے لگے ۔ کچھ مسلمان جن کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا،مرتد ہوگئے۔ حضرت ابو بکرؓ سے کفار مکہ نے کہا:’’ نبوت کے دعویدار تمہارے ساتھی کا کہناہے کہ وہ رات ہی رات میں بیت المقدس ہو آئے ہیں۔‘‘تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب میں کہا :’’اگر حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں تو یہ درست ہے، میں تو اس سے بھی زیادہ ان پر ایمان رکھتا ہوں کہ فرشتے ان کے پاس آتے ہیں۔ ‘‘

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان