Topics
اس کے برعکس کائنات میں جاری
و ساری راست، مثبت اور اجتماعی طرز فکر فطرت کی علامت ہے۔ قدرت کی پیدا کردہ نشانیوں
پر غور و فکر کیا جائے تو اس کے عطا کردہ وسائل سب کے لئے یکساں طور پر مہیا ہیں۔ مثبت
طرز فکر کا حامل انسان خلوص، محبت اور ایثار کا پیکر ہوتا ہے۔ جس کے دل و دماغ سے سکون
اور اطمینان کی روشنی پھوٹتی ہے۔ یہ سوچ ایسے خیالات کو جنم دیتی ہے جس سے وہ خوش و
خرم رہتا ہے۔
یہ فکر سلیم ایسی طرز فکر
ہے جو انسان کو اس کی روح سے قریب کرتی ہے اور اس کا رشتہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے
قائم ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پسندیدہ طرز فکر کو کیسے حاصل کیا
جائے؟
فطرت و حقیقت کی عملی تفسیر
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی پر غور و فکر کیا جائے تو آپﷺ کی حیات
مبارکہ کی بنیاد راست بازی پر قائم نظر آتی ہے حتیٰ کہ آپﷺ کے دشمن بھی آپﷺ کی صداقت
و امانت کی تائید کرتے تھے۔
اس طرز فکر کے حصول اور روحانی
علوم کی آگاہی کیلئے محدود شعور و حواس کی وسعت بنیادی امر ہے۔ فلسفہ اور منطق کی حدود
جہاں ختم ہوتی ہے، روحانیت کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بار
بار انسان کو یکسو ہو کر اپنی نشانیوں پر تفکر کی دعوت دی ہے۔
’’کیا ان لوگوں نے آسمان و
زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے، آنکھیں
کھول کر نہیں دیکھا اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کو زندہ رہنے کی
جو مہلت دی گئی ہے اس کے پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
غار حرا میں عارضی طور پر سب سے الگ تھلگ ہو کر اللہ کی نشانیوں اور نظام کائنات پر
غور و فکر فرماتے تھے۔ تمام ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر مرتکز کر دینا تفکر
ہے۔ جس سے ذہن کے بند دریچے کھلتے ہیں۔ اسی تفکر کو ’مراقبہ‘ کہا جاتا ہے۔
’’اپنے پروردگار کے نام کا
ذکر کر اور ہر طرف سے بے تعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔‘‘
(المزمل)
امام سلسلہ عظیمیہ، ابدال
حق، قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی روحانیت پر بے مثال تصنیف’ لوح و قلم‘ کی
شرح میں مرشد کریم، حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں:
’’روحانی علوم کی سند قرآن
پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر رحمت العالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوپر
اپنی نعمتیں پوری کر دیں۔ تمام نعمتیں تخلیق کائنات سے متعلق اسرار و رموز، کائنات
کے تسخیری فارمولے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس نعمت کو جو اللہ نے ان پر
پوری فرما دی ہے، تمام کی تمام قرآن میں بیان فرما دی ہے۔
ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے نسبت چاہتے ہیں تو ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرنا
ہو گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق حسنہ پر عمل کرنا ہو گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے اللہ تعالیٰ سے دوستی کے ضمن میں تفکر کیا ہے۔ ابھی نبوت سے سرفراز نہیں کئے گئے
تھے، حضرت جبرائیل امین سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن تفکر کا یہ عالم تھا کہ میلوں دور
غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور اللہ کی نشانیوں پر غور فرماتے تھے۔ مراقبہ کرتے
تھے۔‘‘
غار حرا میں قیام کے دوران
حضرت جبرائیل ؑ نے آپﷺ کو منصب نبوت سے آگاہ فرمایا اور غار حرا میں نزول قرآن شروع
ہوا۔
حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرز
فکر کے تحت وہ تمام علوم نوع انسانی کو منتقل کر دیئے جن علوم کو سیکھ کر کوئی بندہ
حضورﷺ اور اللہ سے دوستی کر سکتا ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی بعثت سے قبل کی زندگی، نبوت و دعوت کی صبر آزما تکالیف اور کٹھن مشکلات، میدان جنگ
کے مشکل مراحل یا فتح کے پر مسرت جذبات، خانگی امور، معیشت اور معاشرت کے معاملات۔۔۔۔۔۔ان
تمام میں آپﷺ کا اخلاق حسنہ اللہ کی نسبت اور اس طرز فکر کی نشاندہی کرتا ہے جو اللہ
کی پسندیدہ ہے۔
اس طرز کو اپنانے کیلئے ہمیں
ایسے بندے کا دامن تھامنا ہو گا جو حقیقی معنوں میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے علوم کا وارث ہو، آپﷺ کے اخلاق حسنہ کا عکس اس میں نظر آتا ہو اور اس کے ذہن کی
نسبت اللہ سے جڑی ہو۔
حضرت قلندر بابا اولیاء رحمتہ
اللہ علیہ نے ایسے بندے کی یہ نشانی بتائی ہے کہ اس کی صحبت میں ذہنی انتشار ختم ہو
کر یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے اور دل و دماغ کی مرکزیت ’اللہ‘ سے قائم ہو جاتی ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے علوم کا وارث، مرشد کامل سالک کی ایک ایک قدم پر نگہبانی و راہنمائی کرتا ہے۔ جس
سے سالک ان مقامات پر لاحق خدشات اور خطرات سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی کیفیات و مشاہدات
میں ظلمت کی آمیزش نہیں ہو پاتی۔
کسی بندے کو اللہ کی معرفت
نصیب نہیں ہوتی جب تک سید الوجود سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت
حاصل نہ ہو جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت کے حصول کیلئے شیخ کی
ذات استاد، رہنما یا مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔
چشم ما روشن
۔۔۔ دل ماشاد میں اللہ کے ایسے ہی ایک
دوست کا تعارف ہے جو علم و آگاہی، فکر سلیم اور اخلاق حسنہ کے اوصاف کے حامل ہیں۔ جن
کی صحبت میں ذہنی انتشار معدوم اور دل و دماغ یکسو ہو کر ’اللہ‘ کی قربت کو محسوس کرتا
ہے۔
’’اللہ کا رنگ۔۔۔اور اللہ
سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘(البقرہ)
اولیاء اللہ ان علوم کے ایسے
چراغ ہیں جو نہ صرف خود روشن ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روشنی مہیا کرتے ہیں۔ یہ قدرت
کے ایسے دست و بازو ہیں جن میں معرفت و ہدایت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل
ہوتی رہتی ہے اور جن کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ میں ان کی آنکھ، کان اور زبان
بن جاتا ہوں، پھر وہ میرے ذریعے دیکھتے، سنتے اور بولتے ہیں۔ اللہ کے دوستوں کو نہ
خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔
اس روحانی مشن کیلئے مرشد
کریم کی 33سالہ (بارہ ہزار ایام) پر مشتمل شب و روز کی مصروفیات و معمولات میں سے صرف
9ایام کی ایک جھلک پیش خدمت ہے جو سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا عکس ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے سے مرشد کریم کی نسبت اور فیض ہم پر محیط فرما
دے۔
آمین
محمد طارق
15رمضان المبارک1420ہجری
15دسمبر
1999ء
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔