Topics
جب اللہ تعالیٰ کے ماسوا
کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں ایسی مخلوق پیدا کروں جو مجھے
جانے اور پہچانے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے فارمولے اپنے ذہن میں کیا بنائے وہ خود
جانتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ بات چاہی اور پسند کیا کہ کائنات کو تخلیق
کیا جائے۔ چنانچہ کائنات کو پورے خدوخال اور عمل و حرکت کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کے
ذہن میں موجود تھی۔ کن کہہ کر وجود کا لباس پہنا دیا۔ کائنات (بشمول انسان اور
جنات) وجود میں آ گئی لیکن کسی کو یہ علم نہ تھا کہ وہ کون ہے؟ کیوں ہے؟ کیا ہے
اور کس لیے ہے؟ اس مرحلے پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں، جنات، فرشتوں اور پوری کائنات
کو ان کی حیثیت سے آگاہ کیا۔ یعنی انہیں یہ علم بخشا کہ تماہرا ایک وجود ہے۔
چنانچہ فرمایا ’’الست بربکم‘‘ (میں ہوں تمہارا رب) مخلوق کے دماغ کے پردے پر دو
باتیں وارد ہوئیں۔ ایک یہ کہ اسے اپنی موجودگی کا احساس ہوا۔ دوسرے اسے یہ علم
حاصل ہوا کہ میرے علاوہ مجھے پیدا کرنے والی کوئی اور ہستی بھی ہے۔
مخلوق نے جب اللہ تعالیٰ
کی آواز سنی تو اس کے اندر فہم و ادراک اور نظر پیدا ہو گئی اور وہ دریائے حیرت سے
نکل کر آواز کی طرف متوجہ ہوئی۔ جیسے ہی توجہ آواز دینے والی ہستی پر مرکوز ہوئی
اسے نظر مل گئی۔ نظر کی مرکزیت اللہ تعالیٰ قرار پائے۔ دیکھنے کے بعد مخلوق نے
کہا۔۔۔۔۔۔’’قالو بلیٰ‘‘ جی ہاں! ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔
تفکر کرنے سے یہ بات
سامنے آتی ہے کہ تخلیق کے پروگرام سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اسے جانا اور
پہچانا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پہچاننے کے بے شمار راستے متعین کیے ہیں اور
مختلف نوعوں کو پہچاننے کی مختلف صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ حاملان عرش ملائکہ سماوی،
کروبی، ملائکہ عنصری سب ہی اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھتے ہیں۔ جنات کو بھی اللہ تعالیٰ
کے عرفان کی صلاحیت دی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کرداروں میں سب سے زیادہ
باصلاحیت کردار انسان کو بنایا۔ یعنی انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتیں
ودیعت کر دی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کی تمام مخلوق سے زیادہ قریب سے
پہچان سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ایک کردار جس کو آدم کہا گیا اپنے خصوصی
عرفان کے لئے منتخب کیا اور اسے اپنی صفات کا براہ راست علم بخشا اور یہ علم عطا
فرمانے کے بعد اس بات کو بھی ظاہر فرما دیا کہ صفات کا یہ خصوصی علم صرف انسان کو
حاصل ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور ہم نے آدمؑ کو اسماء(صفات) کا علم سکھایا، پھر ان اسماء کو فرشتوں کے سامنے
پیش کیا اور کہا اگر تم اس علم کو جانتے ہو تو بیان کرو۔‘‘
فرشتوں نے جواب دیا:
’’ہم آپ کی پاکی بیان
کرتے ہیں اور اس علم سے بے خبر ہیں۔‘‘
بات بالکل واضح ہے کہ آدم
کو اللہ تعالیٰ نے وہ خصوصی علم عطا کیا ہے جو اللہ کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’تم ہماری سماعت سے سنتے
ہو، ہماری بصارت سے دیکھتے ہو، ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔‘‘
’’جہاں تم ایک ہو وہاں
دوسرا اللہ ہے، جہاں تم وہ ہو، وہاں تیسرا اللہ ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات
ہے جس نے تمہارا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘
آدمؑ کی یہ کتنی حرماں
نصیبی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے وہ
اپنے اختیاری عمل سے اللہ تعالیٰ سے دور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عرفان کا خصوصی علم اس
کے اندر موجود ہے اور وہ پوری پوری صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ
تعالیٰ کے علم کے پیمانے سے محروم ہے۔ یہی بات بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک
لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرؑ مبعوث فرمائے اور سب نے یہی بات بتائی کہ تمہارا رشتہ
اللہ تعالیٰ سے قریب ترین ہے۔ مگر نوع انسان نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروںؑ کی
بات نہیں مانی اور ایک شیطان کی بات پر برابر لبیک کہہ رہی ہے۔
اولیاء اللہ نے بہت سے
ایسے طریقے بتائے جن پر چل کر آدمی اپنی بدنصیبی اور محرومی کو ختم کر کے اللہ
تعالیٰ کا عرفان حاصل کر سکتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ مراقبہ بھی ہے۔
علم یا سائنس کو دو حصوں
میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک مادی علم یا مادی سائنس اور دوسرا غیر مادی علم یا
روحانی سائنس۔ مادی علوم کو حاصل کرنے یا سمجھنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا
ہے وہ بالواسطہ ہے یعنی ہم راہ راست کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم ایک میڈیم
بناتے ہیں اور اس کے ذریعہ چیزوں کی حقیقت معلوم کرتے ہیں۔ مثلاً انسان نے خوردبین
بنائی اور پھر اس کے ذریعہ اپنی مادی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے ذریعہ جو چیز نظر
آتی ہے ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حاصل ہے۔
روحانی علوم میں اس کے
برخلاف براہ راست تجربہ اور مشاہدہ کرنے کے لیے آدمی کسی میڈیم کے بغیر اپنے ذہن
کو استعمال کرتا ہے وہ ذہن پہلے جس کو خوردبین پر استعمال کیا گیا پھر خوردبین نے
اس چیز کو دکھایا۔ اب روحانیت میں خوردبین یا میڈیم درمیان سے ہٹ گیا۔ ذہن نے براہ
راست اس چیز کو دیکھا۔ مادی علوم اور روحانی علوم میں جو اہم فرق ہے وہ یہی ہے کہ
روحانی علوم میں براہ راست مشاہدہ ہوتا ہے جبکہ مادی علوم میں براہ راست مشاہدہ
نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کہا جائے گا کہ مراقبہ چونکہ براہ راست مشاہدہ اور براہ راست
تجربہ ہے۔ اس لئے اس کا روحانیت سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ روحانیت اور
مراقبہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ روحانیت یا
روحانی سائنس کا مطلب ہے اپنے ذہن کو بطور آلہ استعمال کرنا یعنی براہ راست تجربات
و مشاہدات روحانی سائنس کا بنیادی عنصر ہے۔ اور براہ راست مشاہدے کے روحانیت میں
جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس کا نام مراقبہ ہے۔
مراقبہ نبی کریمﷺ کی غار
حرا والی سنت ہے۔ نبی کریمﷺ شہر چھوڑ کر غار حرا میں جا کر بیٹھ جاتے تھے حالانکہ
اس زمانے میں آج کل کی طرح نہ شور و غل تھا نہ اس قسم کے ہنگامے تھے۔ شہر پر سکون
تھا۔ گھر میں بیٹھ کر بھی وہی عمل کیا جا سکتا تھا جو غار حرا میں کیا جاتا تھا
مگر قدرت بندوں کو ایک راستہ اور ایک اصول بتانا چاہتی تھی۔ جو رہتی دنیا کے لئے
ایک مسلمہ اصول بن جائے۔ نبوت سے پہلے آپﷺ کئی کئی دن لوگوں سے دور رشتہ داروں اور
عزیز و اقارب سے الگ تھلگ تنہائی میں بیٹھ جاتے تھے اور کائناتی طور پر تفکر کرتے
تھے۔ سورۂ مزمل کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل کا ذکر کیا ہے۔
ترجمہ: ’’اور ذکر کیا کرو
اپنے رب کے نام کا۔ اور سب سے قطع تعلق کر کے اسی طرف متوجہ رہو۔ ‘‘
یہ آیت ہمیں مراقبہ کا
اصول اور طریقہ بتاتی ہے۔ مراقبہ کے لئے دو باتیں بڑی واضح طور پر بتائی گئی ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور سب سے قطع تعلق ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا۔
نماز بھی مراقبہ ہی ہے۔ اس میں ہم سب قطع تعلق کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو
کر اس کے ذکر میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:
’’من عرف نفسہٰ فقد عرفہ
ربہٗ‘‘
جس نے اپنے نفس کا پہچانا
اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ یہاں نفس سے مراد روح ہے۔ جو اپنی روح سے واقف ہو جاتا
ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو
جاتا ہے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ سے کیا چاہتا ہے اور اس
کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ ایسے بندہ کو اللہ تعالیٰ کی توجہ حاصل ہو جاتی ہے۔ بندہ
کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیارات منتقل ہو جاتے ہیں۔ کائنات اس کے تابع ہو جاتی
ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں (۷۵۰)
ساڑھے سات سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں
میں تفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی
نشانیوں میں تفکر کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی مخفی حکمتیں منکشف ہوتی چلی جاتی
ہیں۔ دنیا کی تمام تر ترقی کا دارومدار اسی تفکر یعنی ’’Research‘‘ پر ہے۔ کائنات کے راز ان ہی لوگوں پر کھل رہے ہیں جنہوں نے تفکر
کو اپنا لیا ہے۔
تفکر ہی کے نتیجہ میں ریل
گاڑی، ہوائی جہاز، موٹر کار، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر وغیرہ وجود میں آئے
ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون سب کے لئے ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا اسے فوائد
حاصل ہو جائیں گے مسلم اور غیر مسلم کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔