Topics

صادق اورامین


مکہ میں رہنے والے دوطریقوں سے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتے تھے۔

۱۔  تجارت کے ذریعہ۔          ۲۔  مویشی اور بطورِ خاص اونٹوں کی پرورش کے ذریعے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب جوان ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی تجارت کو ذریعہ معاش بنانا پسند فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قوم میں سب سے زیادہ خوش اخلاق اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے والے، نہایت حلیم،بردبار، سچے، امانت داراور بے ہودہ گوئی سے پاک تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔

زمانہ جاہلیت میں عبداللہ بن سائب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شریک تجارت تھے۔ جب وہ مدینے میں آئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

عبداللہ مجھے پہچانتے ہو؟

انہوں نے عرض کیا:

میں آپ کو خوب پہچانتا ہوں، آپ تجارت میں میرے شریک تھے اور بہت اچھے دوست اور سا تھی تھے۔ نہ کسی بات کو ٹالتے اورنہ کسی بات پرالجھتے تھے۔

سوداگر قیس بن زید اپنا سامان تجارت حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے سپرد کر دیتا تھا تاکہ وہ اسے فروخت کرنے کے لئے دوسرے شہر لے جائیں۔حساب کتاب میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہواحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اشیائے تجارت کی فروخت کیلئے سفر پر روانہ ہوتے تو مکہ کے دوسرے تاجر یہ خواہش کرتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ان کا سامانِ تجارت بھی لے جائیں۔

حضرت خدیجہؓ   عرب کے شریف خاندان کی رئیس خاتون تھیں۔ آپ  ؓ کی شرافت اور پاک دامنی کی وجہ سے لوگ آپ ؓ   کوطاہرہ کہتے تھے۔ قریش جب تجارت کیلئے قافلہ روانہ کرتے تو حضرت خدیجہ ؓ  بھی اپنا مال بطور مضاربت بھیج دیتیں۔حضرت خدیجہؓ   کا سامان تجارت قریش کے کل سامان کے برابر ہوتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر مبارک جب پچیس سال کی ہوئی تو گھر گھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امانت اوردیانت داری کا چرچہ تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیغام بھیجا کہ اگر   حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میرا مالِ تجارت لے کر شام تشریف لے جائیں تو میں دوسروں کی نسبت    حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نفع زیادہ دوں گی۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خدیجہ ؓ کی پیشکش قبول فرمائی اور حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ساتھ مالِ تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہوگئے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خرید و فروخت میں مشغول ہوگئے۔ ایک شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جھگڑنے لگا اور اس نے کہا:

آپ (علیہ الصلوٰۃ والسلام)  لات و عزیٰ کی قسم کھائیں۔

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

میں نے کبھی لات و عزیٰ کی قسم نہیں کھائی۔

یہ سن کر اس شخص نے کہا:”آپ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) صادق اور سچے ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تجارت میں نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ ؓکے غلام میسرہ نے آپؓ  کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن اخلاق، بلند پایہ کردار، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق سے آگاہ کیا۔

حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح

حضرت خدیجہؓ کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کی خاندانی شرافت، عزت و توقیر اور اعلیٰ کردار کی بنا پر مکہ کے بڑے بڑے رئیس اور سردار ان سے شادی کرنا چاہتے  تھے لیکن حضرت خدیجہ ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پسند کیا اور نکاح کا پیغام بھیجا۔

حضرت ابو طالب نے خطبہئ نکاح پڑھا۔ نکاح کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر مبارک پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ  ؓ کی عمر چالیس سال تھی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام اولادوں کی امّاں حضرت خدیجہ ؓ ہیں۔ آپؓ سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک قاسم جن کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ دوسرے عبداللہ اور چار لڑکیا ں پیدا ہوئیں۔ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تیسرے صاحبزادے ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہؓ  قبطیہ ہیں۔تینوں صاحبزادے بچپن ہی میں انتقال فرماگئے تھے۔

تعمیر کعبہ

روایت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر پانچ مرتبہ ہوئی ہے:

۱۔  پہلی مرتبہ حضرت آدم ؑ نے اس کی تعمیر فرمائی۔ روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو حضرت آد م ؑ کے پاس بھیجا اور بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ جب تعمیر مکمل ہوئی تو حکم ہوا کہ اس گھر کا طواف کرو۔

روایت ہے کہ جب حضرت نوح  ؑکے زمانے میں طوفان آیا تو بیت اللہ شریف بھی زیر آب آگیا۔

۲۔  حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بیت اللہ دوبارہ تعمیر کریں۔ روایت ہے کہ بیت اللہ کی نشانی بھی باقی نہیں رہی تھی۔ حضرت جبرائیل ؑ نے حضرت ابراہیم  ؑخلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اعانت سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔

۳۔  تیسری بار بعثت نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام سے پانچ سال قبل جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر 35سال ہوئی قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ اس وقت خانہ کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ دیواروں کی بلندی زیادہ نہیں تھی۔ زمانے کی نشیب و فراز سے دیواریں بوسیدہ ہوگئی تھیں۔ خانہ کعبہ نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی اندر بھر جاتا تھا۔

متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ:

بیت اللہ کی تعمیر میں جو خرچ کیا جائے وہ کسبِ حلال ہو صرف حلال مال خانہ کعبہ کی تعمیر میں خرچ کیاجائے۔“ بیت اللہ کی تعمیر کو مختلف قبائل میں تقسیم کردیاگیا۔دروازہ بنو عبد مناف اور بنو زہرہ کے حصے میں آیا اور حجرِ اسود اور رکنِ یمانی کا درمیانی حصہ بنو مخدوم اور قریش کے دوسرے قبائل کے حصے میں آئے اور بیت اللہ کی پشت بنو جمح اور بنی سہم کے حصے میں آئی اور حطیم کی تعمیربنو عبد الدار،بنو اسد اور بنو عدی کے حصے میں آئی۔

اسی دوران قریش کو خبر ملی کہ ایک تجارتی جہاز، جو طوفان سے ٹکرا گیا ہے، جدہ کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا ہے۔ ولید بن مغیرہ جدہ پہنچا اورجہا ز کے تختے بیت اللہ کی چھت کیلئے خرید لیے۔ اس جہاز میں باقوم نامی ایک معمار بھی تھا۔ ولید بیت اللہ شریف کی تعمیر کیلئے اسے بھی ساتھ لے آیا۔ جب قدیم عمارت منہدم کرنے کا وقت آیا تو کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ بیت اللہ کی دیواریں گرائے۔ بالآخر ولید بن مغیرہ نے پھاوڑا لے کرعرض کیا: ”یا اللہ! ہم صرف خیر اور بھلائی کی نیت رکھتے ہیں۔ یا اللہ! آپ دانا اور بینا ہیں۔ ہماری نیت بری نہیں ہے اور نہ ہم بے ادب اور گستاخ ہیں۔یہ کہہ کرولید بن مغیرہ نے رکن یمانی کی طرف سے بیت اللہ کی دیوار گرانا شروع کی۔ اہلِ مکہ نے متفق ہو کر کہا کہ انتظار کریں کہ ولید پر کوئی آسمانی آفت تو نازل نہیں ہوئی۔ اگر صبح تک ولید پر کوئی آفت نازل ہوئی تو ہم بیت اللہ کو اس کی موجودہ حالت میں برقرار رکھیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ولید کی مدد کریں گے۔

اگلے روزصبح ولید بن مغیرہ دوبارہ حرم میں داخل ہوا اور لوگوں نے سمجھ لیاکہ اللہ تعالیٰ راضی ہیں اور سب مل کر دل وجاں سے خانہ کعبہ کی تعمیر میں شریک ہوگئے۔ اتنی کھدائی کی کہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنائی ہوئی بنیادیں ظاہر ہوگئیں۔

ایک قریشی نے بنیاد پر جب پھاوڑا چلایا تو دفعتاً ایک دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے کھدائی روک دی گئی اور جو بنیادیں ظاہر ہوئیں تھیں ان پر تعمیر شروع کردی۔

حجرِ اسود کی تنصیب

 جب تعمیر مکمل ہوگئی اور حجرِ اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو آپس میں اختلاف ہوگیا۔ لوگ    قتل و غارت پر آمادہ ہوگئے۔ اسی طرح پانچ روز گزر گئے اور کوئی بات طے نہ ہوئی۔ابو امیہ بن مغیرہ مخرومی نے جو قریش میں سب سے عمررسیدہ بزرگ تھے،یہ رائے دی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجدالحرام میں داخل ہوگا اس کو اپنا حاکم بنالو۔ اگلے روز صبح جب لوگ مسجدالحرام میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے آنے والے شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر سب لوگوں نے بے ساختہ کہا ”یہ تو محمد امین ہیں،ہم ان کو حاکم بنانے پر راضی ہیں،یہ تو محمد امین ہیں،ہم ان کو حاکم بنانے پر راضی ہیں“۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک چادر منگوائی اور اس چادر میں حجرِ اسود کو رکھ کر فرمایا:

ہر قبیلے کا سردار اس چادر کو پکڑلے تاکہ اس سعادت سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے۔

یہ فیصلہ سب نے پسند کیا اور سب نے مل کر چادر اُٹھا ئی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار پر نصب کردیا۔

۴۔  چوتھی بار حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے بیت اللہ کی ازسر نوتعمیرکروائی۔

۵۔  پانچویں بار حجاج بن یوسف نے بیت اللہ شریف کی تعمیرکروائی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب پینتیس سال کے ہوئے تو اس وقت بیت اللہ شریف میں لاتعداد بت رکھے ہوئے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تفکر کیاکہ

 ”خود اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بُت کو خدا کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

زید ابن عمرو ابن نوفل حضرت عمرؓ کے رشتے دار تھے۔ انہوں نے بت پرستی ترک کردی تھی اور بتوں پر نذر کی جانے والی قربانی کا گوشت حرام سمجھتے تھے۔ زید ابن عمرو ابن نوفل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریبی دوست تھے اور مذہبی اور روحانی امور پر تبادلہئ خیال کرتے تھے۔مذہب کے معاملات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تجسس بڑھا تو رمضان کا پورا مہینہ غارِ حرا میں گزارنے کا فیصلہ فرمایا۔ غار ِ حرا جس پہاڑ پر واقع ہے اس کا نام ”جبل نور“ہے۔حرا کے معنی ”تحقیقات“ اور جبل نور کے معنی ”روشنی کا پہاڑ“ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہلیہ حضرت بی بی خدیجہ ؓ    کھانے پینے کاسامان غارِ حرا میں بھیج دیتی تھیں۔ ایک ماہ غار حرا میں غور و فکر کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام واپس تشریف لائے، انہوں نے پہلے کعبہ کا سات بار طواف کیا اور پھر گھر تشریف لے گئے۔

وحی کا نزول

غارِ حرا میں قیام سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غارِ حرا میں جانا اپنا معمول بنا لیا۔ وقفہ وقفہ سے متواتر پانچ سال تک غارِ حرا تشریف لے جاتے رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیشتر وقت عبادت اور غور و فکر میں گزرتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو محسوس ہوتا تھا کہ پشت کی طرف سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپکار رہا ہے۔ مُڑ کر دیکھتے تو کوئی نظر نہیں آتا تھا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غارِ حرا میں جاتے ہوئے پانچ سال ہوگئے تھے اور ماہِ رمضان کے آخری دن تھے کہ رات کے وقت غارِ حرا میں ایک فرشتہ ملاقات کیلئے حاضر ہوا۔ فرشتے کے پاس ایک دستاویز تھی۔

فرشتے نے کہا:”اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم!میں جبرائیل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے مجھے معمور کیاہے۔ اسے پڑھیے!“

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:         ”میں اُمّی ہوں۔

یہ سن کر حضرت جبرائیل ؑنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دونوں بازوؤں میں لے لیا اور زور سے دبایا اور چھوڑدیا۔ حضرت جبرائیل ؑنے دوبارہ کہا اسے پڑھیے! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا ”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“حضرت جبرائیل ؑنے پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بازوؤں میں لیکر پہلے سے زیادہ شدت سے دبایا اور کہا:

پڑھ، اپنے رب کے نام سے، جو خالق ہے کائنات اور انسان کا، جس نے پیدا کیا انسان کوجمے ہوئے خون سے۔ آپ کا رب بہت کریم ہے جس نے قلم سے علم سکھایا، سکھایا آدمی کو جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔“(سورۃ العلق۔ آیات 1تا5)

 اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گھر تشریف لائے۔ جسم اطہر پر کپکپی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا،”مجھے چادر اڑھادو، مجھے چادر اڑھادو“۔

 کچھ دیر بعدجب کپکپی دور ہوگئی توحضرت خدیجہ ؓ سے پورا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے عرض کیا:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہرگز نہ گھبرایئے، اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رسوا نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صلہ رحمی کرتے ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سچ بولتے ہیں، لوگوں کی مدد کرتے ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام امین ہیں، ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صادق اور امین ہیں۔“ (صحیح بخاری۔ جلد اول۔ کتاب الوحی۔ حدیث 3)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رات کو غارِ حرامیں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچتے رہتے تھے اور صبح گھر تشریف لے آتے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی کبھی حضرت جبرائیل ؑکی آواز سنتے تھے:

”……یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم!آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ جبرا ئیل ؑ ہوں۔

یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم!آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ جبرائیل ؑ ہوں۔

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان