Topics
ایک دوپہر حضرت
عثمان غنی سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت حضرت ابو بکر
صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی وہاں موجود تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے
دریا فت فرمایا ، تجھے کیا چیز ےیہاں لائی ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ
اور رسول کی محبت اس سے قبل حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر
فاروقؓ بھی سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کے استقسار پر یہی جواب دے چکے تھے ۔ اسکے
بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سات یا نو کنکریا ں ہاتھ میں لیں تو ان کنکریوں
نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درست مبارک میں تسبیح پڑھی جس کی آواز شہد کی
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کنکریاں علیحدہ
علیحدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھوں میں دیں
تو کنکریوں نے سب کے ہاتھوں میں تسبیح پڑھی۔
٭٭٭
آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں ۔ آواز
آپس میں رابطے کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے ۔ آواز کی بدولت
ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ درختوں
میں بیٹھی چڑیوں کی چہچہاہٹ، پنگوڑے میں کھیلتے بچوں کی کلکاریاں ، گلی میں پھیری
والے کی صدا ، کارخانے میں متحرک مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور لا تعداد دوسری آوازیں
ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں ۔ لیکن بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں سنائی
نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے ماورا ہیں۔
پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج ، صنعت و
حرفت اور تحقیق و تلاش کے لئے الٹرا ساونڈ ویوز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔
صدائے باز گشت کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ
لہریں مادے کی مختلف حالتوں کے درمیان امتیاز کر سکتی ہیں ۔
سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی
سماعت کا دائرہ ، بیس ہرٹز سے بیس ہزار
ہرٹز (20 Hertz)فریکوینسی تک محدود ہے ۔ جبکہ ورائے صوت موجوں کی فریکوینسی بیس ہزار ہرٹز(Hertz) سے دو کروڑ ہرٹز(Hertz) تک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہماری کان
ان آوازوں کو نہیں سن سکتے۔
موجوں کی دو بڑی اقسام ہیں ۔ ایک وہ جن میں ذرات سکڑتے اور پھیلتے ہوئے آگے
بڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتی ہیں ۔ موجوں کی
اقسام کی تقسیم فریکوینسی اور طول موج کی بنیاد پر کی گئ ہے۔
موج مخصوص فاصلہ کو اوپر نیچے حرکت کرتے
ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول موج کہلاتا
ہے ۔ طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی
ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اوایک مرتبہ نیچے ، دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر(Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے
جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں ۔ وہ موج کی فریکوینسی کہلاتی ہے ۔ طول موج زیادہ ہو تو
فریکوینسی کم ہوتی ہے ۔ جبکہ طول موج کم ہونے کی صورت میں فریکوینسی زیادہ ہوتی
ہے۔
ریڈیائی لہریں کم فریکوینسی کی برق
مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں اور ٹی وی نشریات زیادہ فریکوینسی کی برق مقناطیسی لہریں
ہوتی ہیں ۔ برق مقنا طیسی لہروں کو آواز کی موجودں کی طرح سفر کرنے کے لئے کسی
واسطے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔یپ پانی اور ہوا کے بغیر بھی آگھے بڑھتی رہتی ہیں اور
خلا میں آگے بڑھنے میں انہیں دقت پیش نہیں آتی۔
فریکوینسی اگر بہت بڑھ جائے تو موجیں
شعاعیں بن جاتی ہیں ۔ جو سیدھی چلتی ہیں ۔ کم طول موج اور زیادہ فریکوینسی ہونے کی
وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمدو ثنا بیان کرتی ہے ۔ یعنی کائنات میں موجودہ ہر شے
بولتی ، سنتی اور ایک دوسرے کو پہنچانتی ہے۔
ترجمہ:
ساتوں
آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین
میں ہیں ۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی
حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو ۔ ( بنی
اسرائیل )
کائناتی قانون کے مطابق ہر چیز بولتی ہے
۔ سنتی ہے اور محسوس کرتی ہے ۔ کنکریوں نے جب کلمہ پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ
کنکریا ں اس بات کا شعور و شہود رکھتی ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نبی
برحق ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور عالمین میں موجود ہر شے کے لئے رحمت ہیں ۔
رحمت اللعالمین ہونے کی حیثیت سے کائنات کا ہر ذرہ اس بات سے واقف ہے کہ ہماری بقا
کا انحصار سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت کے اوپر ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔