Topics
سوال: اے گروہ جنات اور انسان اگر تم نکل سکتے ہو تو آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان کے ساتھ۔ سلطان کیا ہے اور ہم اس کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: اے گروہ جنات اور اے انسانوں کے گروہ تم اگر زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل کر دکھاؤ۔ اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر جا سکتے ہو تو جا کر دکھاؤ تم نہیں جا سکتے تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان کے ذریعہ مطلب یہ ہے کہ آپ اگر سلطان حاصل کر لیں تو آپ زمین اور آسمانوں کے کناروں سے باہر جا سکتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایک صورت اور ایک صلاحیت انسانوں کے اندر ایسی ہے کہ اگر وہ اس صلاحیت کو تلاش کر لیں اور اپنے اورا کو بیدار اور متحرک کر لیں تو انسان غیب کی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر انسان کو سلطان حاصل ہو جائے تو وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ آسمان اور زمین کے کناروں سے تم نکل سکتے ہو آسمانوں کے کناروں سے نکلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ صورت حال یہ یہ کہ کناروں سے باہر خلا ہے۔
جو چیز نظر نہیں آتی یا جس چیز کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے وہ غیب ہے جب زمین کے کناروں سے باہر اور آسمانوں میں ہیں غیب میں سات آسمانوں کے کناروں کے بعد عرش ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ اگر وہ سلطان حاصل کر لے تو زمین اور آسمانوں کے کناروں سے نکل جائے تو عرش اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ عرش پر اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ اس کا مفہوم یہ نکلا کہ ہر بندہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے۔ کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام بھی نہیں دیکھ سکے جب کوہ طور پر اللہ تعالیٰ کی تجلی کا نزول ہوا تو موسیٰ علیہ السلام تجلی دیکھ کر بیہوش ہو گئے، نہیں دیکھ سکے تو ایک عام آدمی کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے کچھ نہیں دیکھا تو وہ بیہوش کیسے ہوگئے۔ بہت زیادہ غور طلب بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ا للہ تعالیٰ کو دیکھا ضرور لیکن موسیٰ علیہ السلام کا شعور اس کو برداشت نہیں کر سکا۔ اس لئے وہ بیہوش ہو گئے۔ موسیٰ علیہ السلام کا بیہوش ہونا اس بات کی علامت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے تجلی کا دیدار تو کیا لیکن برداشت نہیں کر سکے۔
آپ 100واٹ کا بلب دیکھتے ہیں اور دیکھنے کے عادی ہیں اور ایک دم آپ کے سامنے 5000واٹ کا بلب روشن کر دیا جائے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ جائے گا۔ لیکن پھر وہی بلب اگر آپ بار بار دیکھیں گے تو آپ عادی ہو جائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام جب بھی اللہ تعالیٰ سے بات کرتے تھے تو وہ کو طور پر تشریف لے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سنتے تھے لوگوں کے پیغام لے جاتے تھے لوگوں کے لئے جوابات لاتے تھے۔ 40رات اور 40دن انہوں نے کوہ طور پر قیام کیا اور تورات کتاب لائے اس بارے میں قرآن کریم کی آیات:
ترجمہ: اے گروہ جنات اور اے گروہ انسان کیا تم اس بات کی استطاعت رکھتے ہو کہ تم نکل جاؤ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو اس آیت میں نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پہلے نہیں کہا حالانکہ بات زمین پر ہو رہی ہے لیکن اللہ پہلے سماوات کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ کیا تم آسمانوں کے کناروں سے اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو۔
پہلے آسمان ہے اور پھر زمین ہے تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان کے ذریعے سلطان کیا ہے۔ سلطان انسان کے اندر اس کی اپنی روح ہے جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ پیدا کرنے کے بعد خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو انسان سے متعارف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا۔ ’’الست بربکم‘‘ میں تمہارا رب ہوں۔ جب انسانوں کے ذہن میں یہ آواز پڑی کہ میں تمہارا رب ہوں تو سارے انسانوں کے ذہن اس طرف متوجہ ہو گئے کہ یہ بولنے والی ہستی کون ہے یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے جب انسان اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ان کے سامنے موجود ہے تو انہوں نے دیکھ کر کہا۔ ’’قالو بلیٰ‘‘ جی ہاں، آپ ہمارے رب ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالم ارواح میں ہماری روح نے اللہ تعالیٰ کی آواز بھی سنی اور اللہ تعالیٰ کو دیکھا بھی اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار بھی کیا۔ پس ثابت ہوا کہ ہماری روح اللہ تعالیٰ کو پہلے سے دیکھے ہوئے ہے اور پہلے سے جانتی ہے اگر ہم اس روح کو تلاش کر لیں جس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا، اللہ تعالیٰ کی آواز سنی تھی اور اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا تھا تو ہمارے اندر وہ صلاحیت منتقل ہو جائے گی اور اس صلاحیت ہی کا نام تو اللہ تعالیٰ نے سلطان رکھا ہے۔ سلطان سے مراد یہ ہے کہ اگر تم اپنی روح کو تلاش کر لو اور اس روح کو جس روح نے عالم ارواح میں ہماری ربوبیت کا اقرار کیا ہے تو تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔