Topics

زمانیت اور مکانیت کا قانون

آدم زاد یا کوئی بھی مخلوق اوپر سے نیچے اترتی ہے۔ روح یا امر ربی اپنے اظہار کے لئے اور اپنی جلوہ نمائی کے لئے گوشت پوست کا جسم تخلیق کرتی ہے۔اس کے بعد فکر انسانی تنزل کرکے صعود کرتی ہے اور پہلی حس سے یا پہلے حواس سے دور ہونے لگتی ہے۔

دوری سے مراد یہ ہے کہ پیدا ہونے والا ایک دن کا بچہ جب دوسرے دن میں داخل ہوتا ہے تو پہلادن زندگی کے نزول کا رد عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن کا بچہ جب دو دن کا ہوتا ہے تواس حالت کا نام نزولی کیفیت ہے۔ یہی رد عمل مکانیت اور زمانیت کااحساس دلاتاہے۔ 
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے میں بچہ کی تمام صفات ، اعضاء اور حواس میں تغیر واقع ہوجاتاہے یہی تبدیلی زمانیت اور مکانیت ہے۔

بچہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کو سمجھتاہے، یہ بات اس کے شعور میں ریکارڈ ہورہی ہے کہ میں ایک لمحے سے گزر کر دوسرے لمحے میں ، ایک گھنٹہ ،ایک دن ، ایک ماہ ، ایک سال سے دوسرے سال میں داخل ہوگیاہوں۔ زندگی کا یہ سفر زمانیت اور مکانیت پر قائم ہے یعنی ٹائم اینڈ اسپیس ہمیں اس بات کا علم دیتا ہے کہ ابھی ہم جس چیز کے قریب تھے ایک معین مقدار اور توازن کے ساتھ رفتہ رفتہ اس سے دور ہورہے ہیں ۔ یہ قرب اور دوری زندگی پرمحیط ہے۔مفہوم یہ ہے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور دیکھتی سنتی ہے۔ جس کی ایک مثال خواب ہے۔مکانیت چھوٹے وقفوں کا نام ہے ۔ مکانیت میں وقفے ہوتے ہیں جیسے ایک منٹ ،دو منٹ۔ یعنی ایک اور دو منٹ میں وقفہ چھپا ہوا ہے۔زمانیت میں وقفہ نہیں ہوتا ۔ زمانیت مسلسل اور متواتر بساط ہے۔ 

مثال

اسکی مثال یہ ہے کہ آدمی سڑک پر چل رہا ہے ۔سڑک کو اگر ہم زمانیت تصور کریں تو سڑک زماں اور چلنے والافردمکاں ہے۔ چلنے والا آدمی جب ایک قدم اٹھاتا ہے اس کے بعد دوسرا قدم اٹھاتا ہے،چلنے میں ایک دو دس بیس قدم اٹھا نا زمانیت ہے اور بساط پر قدم رکھنا مکانیت ہے۔ 

روح کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو تخلیق کیا تو ’’کن ‘‘ فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات اپنے نقش و نگار ، خدوخال ، صفات اور اپنے تعارف کے ساتھ تخلیق ہوگئی یعنی روحیں وجود میں آگئیں۔ روحوں کو اتنا ادراک تھا کہ ’’میں ‘‘ ہوں ۔ اس ادراک میں اُس وقت اضافہ ہوا یا ادراک کی تکمیل اُس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘(سورۃ الاعراف ۔آیت 172)

اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر روحیں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کی خالقیت اوراللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ اور کائنات نے کہا جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔

انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ چکاہے

اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ’’کن‘‘ فرمانے کے بعد کائنات عالم حیرت میں تھی اور اس کے اوپر گمشدگی کا عالم تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ 

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘ 

(سورۃ الاعراف۔ آیت 172)

جب اللہ تعالیٰ نے کائنات سے مخاطب ہو کر ان سے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو کائنات نے گمشدگی کے عالم سے نکل کر اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا اور عرض کیا:جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔

کائنات عالم حیرت میں تھی کہ کائنات کی سماعت سے آواز کی لہریں ٹکرائیں، جیسے ہی سماعت میں حرکت واقع ہوئی تو مخلوق میں قوت سماعت منتقل ہوگئی۔ مخلوق نے آواز دینے والے کی طرف دیکھا۔ جیسے ہی دیکھنے کا عمل صادر ہوا مخلوق کو نظر حاصل ہوگئی۔ جب مخلوق نے اللہ تعالیٰ کی آواز سن لی اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا تو قوت گویائی حرکت میں آگئی ۔مخلوق کی فہم میں یہ بات آگئی کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے اور اس ہستی نے ہمیں تخلیق کیاہے۔ اسکے بعد موجودات نے اپنے علاوہ دوسری موجودات کو دیکھا۔اس دیکھنے کو تصوف میں عالم مثال کہتے ہیں۔

تفکر؟

کسی بات کو سمجھنے اور اس کی حقیقت تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی طرف تمام تر ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ متوجہ ہوں اوراس بات سے متعلق جتنے عوامل ہیں جتنے محرکات ہیں ان سے آگاہی حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعارف ہونے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کو جاننے اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے آگاہ ہونے کیلئے کائنات میں تفکر کرنا ضروری ہے۔ 

’’اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے جو لوگ غور کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں ۔‘‘(سورۃ الانعام ۔126)

’’ پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؛ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟‘‘(سورۃ النحل ۔آیت 17)

’’کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کیلئے پیدا کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔‘‘ ( سورۃ الروم ۔ آیت8)

’’ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیوں کر بنایا اور سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ ‘‘(سورۃ ق ۔ آیت6)

مصور کوہم اس وقت مصور کہتے ہیں جب اس کی تخلیقات ہمارے سامنے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کوپہچاننے اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے وقوف حاصل کرنے کیلئے مخلوق کا پہچاننا اور تخلیقی فارمولوں سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم جب کائنات کے بارے میں تفکر کرتے ہیں تو دو بنیادی باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کائنات کے اندر زندگی رواں دواں ہے۔ دوسرا یہ کہ زندگی کسی کے تابع ہے۔ افراد کائنات کو زندہ رکھنے والی شے جب تک فرد کو زندگی منتقل کرتی رہتی ہے فرد متحرک رہتا ہے اور جب یہ شے فردسے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام افراد کائنات میں جاری وساری ہے۔

’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذہن سے نکلا ہوا ایک لفظ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ لامتناہی ہیں اور غیر متغیر ہیں، شکست وریخت سے ماورا ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا لفظ بھی لاتغیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امر مسلسل حرکت میں ہے۔ازل تا ابد حرکت میں رہے گا۔ کائنات ایک حرکت ہے۔ کائنات میں موجود تمام افراد ایک نظام کے تحت ایک دوسرے سے وابستگی کے ساتھ مسلسل حرکت میں ہیں۔

مثال

انسانی زندگی کا تجزیہ ہے کہ ہر انسان میں دو دماغ ہیں۔ جب انسان شعور میں ہوتا ہے تو اسکی کیفیات الگ ہوتی ہیں اور جب انسان لاشعور میں زندگی بسر کرتا ہے تو کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن حرکت کسی وقت ساقط نہیں ہوتی۔ اسلئے مخلوق شعوری کیفیات میں ہو یا لاشعوری کیفیات میں ہو مسلسل حرکت میں ہے۔ 

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان