Topics

روشنی قیدنہیں ہوتی

اس دنیا میں ہر آدمی ایک ریکارڈ ہے اور اس کی ساری زندگی فلم ہے۔ گھما پھرا کر بات کی جائے تو کہا جائے گا کہ عالم ناسوت کا ہر باسی ایک ڈرامہ ہے۔ ایک کہانی ہے۔ کہانی، مختصر ڈرامہ ہے۔۔۔۔۔۔اور ڈرامہ زندگی میں کام آنے والے کرداروں کو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے۔ ایسے کردار جو کسی ایک شخص کی انفرادی زندگی کو بھی نمایاں کرتے ہوں اور اس کے ماحول میں جو کچھ ہے اسے بھی منظر عام پر لے آتے ہوں۔ جب ہم ڈرامہ لکھتے ہیں ہمارے سامنے زندگی میں بسنے والے سارے کردار ہوتے ہیں۔ اور جب ہم ڈرامہ دیکھتے ہیں تو ہم خود زندگی کے ان کرداروں میں کھو جاتے ہیں جن سے ہم گزر چکے ہیں یا گزر رہے ہیں۔ عجیب کھیل تماشہ ہے۔ عمر رفتہ کے کسی بھی دور میں جب کوئی جھانکتا ہے تو ہر شخص کی کہانی ایک جیسی نظر آتی ہے۔ ہر آدمی مادی وجود میں اس زمین پر قدم رکھتا ہے اور ہر شخص دھیرے دھیرے، لمحہ بہ لمحہ مادی وجود سے دور ہوتا رہتا ہے۔ مادی وجود سے دوری اپنی جگہ مسلم۔

لیکن۔۔۔۔۔۔

مادی وجود جس بساط پر نمودار ہوتا ہے۔ جس بساط پر آگے بڑھتا ہے اور جس بساط پر منظر سے غائب ہو جاتا ہے وہ سب کیلئے ایک ہے۔

ابھی تک سائنسی دنیا میں کوئی ایسا علم مظہر نہیں بنا جو اس بات کی تشریح کر دے کہ بساط کیا ہے۔

کوشش لوگوں نے بہت کی کہ بساط پر سے پردہ اٹھ جائے مگر پردہ تو جب اٹھے گا جب کہیں پردہ ہو گا۔ اگر کہیں کسی کو پردے کے بارے میں کوئی خبر مل گئی ہے تو وہ خبر بھی خود پردہ ہے۔ نقاب رخ الٹ دیا جائے تو بڑی سے بڑی دانشورانہ بات بعد میں بات بن کر ایک نہ سلجھنے والی گتھی بن جاتی ہے۔ ایسی گتھی جو سلجھتی نہیں۔ اگر شعور، لاشعور اور ورائے شعور کو بھاری اور مشکل اصطلاحات کا سہارا لے کر کچھ عرض کیا جائے تو وہ بات بے پردہ ہو جاتی ہے۔ جس پر انسانی ارتقاء کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔

ارتقاء کیا ہے؟

ارتقاء یہ ہی تو ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدمی اپنی برائیوں، کمزوریوں کوتاہیوں کو چھپاتا ہے۔

اور خود کو دوسروں سے اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میں بھی کائنات کے ایک کنبے کا فرد ہوں وہ کنبہ جو زمین پر آباد ہے۔ مفت خوری جس کا طرۂ امتیاز ہے۔

پیدا کوئی کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے ماں نے پیدا کیا۔ کفالت کوئی کرتا ہے کہا جاتا ہے باپ نے پرورش کی۔ عقل و شعور پتہ نہیں کہاں سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حجروں اور مدرسوں سے شعور ملا ہے۔ زمین پر دندناتا پھرتا ہے۔ زمین کے بطن کو اپنے نوکیلے خنجروں سے چیرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں دانہ ڈالتا ہے اور زمین سے خراج وصول کرتا ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ زمین کا بھی کوئی حق ہے۔

جس نے زمین دی جس نے ایک پھوٹی کوڑی لئے بغیر پانی دیا، ضرورت سے بہت زیادہ وافر مقدار میں ہوا دی اس کا تذکرہ آ بھی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بے کار بات کی جا رہی ہے۔ بڑا ہو، چھوٹا ہو، کم عقل ہو یا دانشور، غریب ہو یا دولت کا پجاری قارون سب مفت خورے ہیں۔ نہ صرف مفت خورے ہیں احسان فراموش بھی ہیں۔

یہ بات میں نے (جب کے میں بھی مفت خوروں کی فہرست میں اول نمبر پر ہوں) اس وقت جاننے کی کوشش کی تھی جب میری دادی اماں زندہ تھیں، میری دادی اماں پوپلے منہ کی نہایت حسین و جمیل خاتون تھیں۔ کبھی مجھے لگتا کہ دادی اماں کا چہرہ چاند ہے اور اس چاند کی روپہلی کرنیں صحرا میں ریت کے ذرات میں چمک منتقل کر رہی ہیں۔ کبھی مجھے دادی اماں گلاب کا پھول نظر آتیں۔

دادی اماں کی عینک کے موٹے بھاری گلاس کے نیچے مجھے ان کی آنکھیں غزال چشم نظر آتیں۔ اور جب میں دادی اماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان کی آنکھوں میں اتر جانے کا سپنا دیکھتا تو دادی اماں مجھے سینے سے چمٹا کر اتنا پیار کرتیں کہ میرے اوپر خمار چھا جاتا اور میں ان کی گود میں دودھ پیتے بچے کی طرح سو جاتا۔

چھوٹا منہ، بڑی بات!

ایک دن میں نے دادی اماں سے پوچھا۔۔۔۔۔۔

میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔میری ماں ساتھ کھڑی تھیں۔ انہوں نے سنا تو لگا کہ ان کی آنکھیں پھیل گئیں اور مجھے دادی اماں کے پاس سے گھسیٹ کر اپنے وجود میں سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

اے لڑکے! تو یہ کیسی باتیں کرتا ہے۔ کیا تیرے اوپر کوئی۔۔۔۔۔۔تو نہیں ہے۔

بہو! خدا کے غضب سے ڈرو۔ ایسی بات کبھی زبان سے نہیں نکالتے۔

میری ماں بولی!

تائی جی۔ دیکھو تو سہی۔ لڑکا کیا بول رہا ہے۔ پوچھتا ہے میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔

اس کی عمر تو دیکھو، اے اللہ تو اس کو حفظ و امان میں رکھ۔

دوسرے دن دادی اماں کے نرم و گرم۔ دادی اماں کی خوشبو سے مہکتے لحاف میں پھر میں نے یہی سوال دہرا دیا۔
دادی اماں نے مجھے ایک ایسی کہانی سنائی۔ کہانی سنتے سنتے نیند کی دیوی مجھے آسمانوں میں اڑا کر لے گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اتنا یاد رہ گیا۔

بیٹا! تیرا نام میں نے رکھا ہے۔ تو میرا سورج ہے۔

جیسے جیسے ماضی پردے میں غائب ہوتا رہا۔ حال سے پنجہ کشی جاری رہی۔ حال کی ہر  سیڑھی چڑھتے وقت دماغ کے کسی گوشے سے یہ آواز آتی۔

بیٹا تو میرا سورج ہے۔

میں سوچتا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج روشنی ہے۔

سورج زندگی ہے۔

سورج ہر فرد کے لئے توانائی ہے۔

میں سورج کس طرح ہوں۔ میرا وجود تو خود توانائی کا محتاج ہے۔ میرے وجود میں اندھیرے عفریت بن گئے ہیں۔ میری زندگی اسپیس میں بند ہے۔ روشنی تو قید نہیں ہوتی روشنی کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ افتاں و خیزاں ماہ و سال گزرتے رہے۔ بھوک اور افلاس نے منہ چڑایا تو آسمان سے نعمتوں کی بارش برسی، اپنوں نے دکھ دیئے تو غیروں نے زخموں کو مندمل کرنے کے لئے پھوئے رکھے۔

بے سر وسامانی میں وحدت کا جلوہ دیکھا۔ خوشحالی میں خود کو کبر کی تصویر بنتے دیکھا۔

خادنانی وقار سے دوسرے لوگ بونے نظر آئے مگر ہر قدم پر اور ہر برائی کے وقت دادی اماں کے یہ الفاظ میرے اندر گونجتے(Echo) رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹا تو میرا سورج ہے۔

یہ الفاظ کبھی مجھے برائیوں کی تمازت سے جھلس ڈالتے اور کبھی دادی اماں کی روح میرے اوپر سایہ فگن ہو جاتی ۔

ایک روز جب میں دریائے ہلاکت و تاریکی میں ڈوب کر مر جانا چاہتا تھا۔ دادی اماں کی روح نے مجھے سہارا دیا اور کہا۔

بیٹا انتظار کر۔۔۔۔۔۔!

تیرے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہو چکی ہے۔

انسانی شماریات سے بہت زیادہ ایک عظیم بندہ تیرے اوپر اپنی شفقتیں محیط کر دے گا اور بیٹا!

تو میرا سورج ہے۔

تیری روشنی پھیلے گی۔

دادی اماں کے الفاظ

’’بیٹا تو میرا سورج ہے۔‘‘

بھول کے خانے میں جا پڑے۔ لیکن دادی اماں کے یہ الفاظ عظیم بندہ بنے گا۔

میرے خون کے ساتھ میرے اندر مسلسل گونجتے رہے۔ میں نے

سجدے میں گر کر اللہ کے حضور دعا کی، التجا کی:

اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔

اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔

اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔

اور اللہ کا وہ فرستادہ عظیم بندہ مجھے مل گیا۔

جس کا نام اسم گرامی حضرت محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاءؒ ہے۔

میرے اندر کی آتما کو قرار آ گیا۔ تاریک زندگی روشن ہو گئی۔ مجھے اجالا مل گیا۔ ایسا لگا کہ یوم ازل میں اس عظیم بندہ پر میری روح قربان ہو گئی تھی۔ دھیرے دھیرے میرے اندر کا سورج جو شک اور بے یقینی سے گہنا گیا تھا، افق سے باہر آیا اور اس سورج نے نیئر تاباں بننے کے لئے سفر شروع کر دیا۔

حضرت محمد عظیم سے راہ و رسم بڑھی، جذبات و احساسات محبت بن گئے۔ پھر محبت نے عشق کا روپ دھار لیا اور عشق مجازی سراپا عقیدت کی تصویر بن گیا۔

۱۹۵۰ء جنوری کی ایک صبح ایک دوست کی تلاش میں اخبار ڈان کے دفتر میں گیا تو وہاں ایک صاحب سے دعا سلام ہوئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا پرسکون چہرہ دیکھ کر دل اتھل پتھل ہو گیا۔ شگفتہ شاداب اور پرسکون چہرہ، آنکھوں میں کیف و مستی کا خمار، مردانہ وجاہت کی تصویر۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آیا کہ اس زمانہ میں کسی بندے کو اتنا سکون میسر آ سکتا ہے۔ سریلی شیریں مگر مردانہ بھاری آواز میں بندہ نے کہا:

’’تشریف رکھیں کیا کام ہے؟‘‘

اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ اس وقت بھرپور جوانی کے منہ زور گھوڑے کی رکابیں میں نے مضبوط ہاتھوں سے تھام رکھیں تھیں۔۔۔۔۔۔عظہم بندہ نے میری عمر اور میرے جذبات کی مناسبت سے دو شعور سنائے۔ آنکھوں میں چمک اور خمار کے سرخ ڈورے میری آنکھوں میں دیکھ کر عظیم بندہ نے دل پر نشتر رکھ دیا۔

محبت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔میں گم سم ہو گیا۔ ایک حجاب تھا جو میرے اوپر چھا گیا۔۔۔۔۔۔پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔۔۔۔۔۔میرے اندر کا چور پکڑا گیا۔

محبت کرتے ہو، بے وفائی کے ساتھ

بے وفا بننا، محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے

میں بوجھل قدموں سے اٹھا سلام کیا۔ کہا، پان تو کھاتے جایئے۔ میں جس دوست کی تلاش میں گیا تھا وہ نہیں ملا۔ مگر مجھے مستقبل کا دوست مل گیا۔ ایسا دوست جو پہلی ہی ملاقات میں میرے دل میں اتر گیا۔

نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ ہندوستان سے آنے والے لوگ اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ شہزادیاں ٹاٹ کے پردوں میں بندرروڈ کے فٹ پاتھوں پر حیات و زیست کے معاملات میں الجھی ہوئی تھیں۔ کبر و نخوت کی بڑی بڑی تصویریں آرام باغ کی پتھریلی زمین پر شب بسری پر مجبور تھیں۔۔۔۔۔۔جن خواتین کا کسی نے آنچل نہیں دیکھا تھا وہ حوائج ضروریہ کے لئے قطار در قطار کھڑی نظر آتی تھیں۔ جن مردوں و خواتین نے کبھی ناک پر مکھی کو نہ بیٹھنے دیا تھا۔۔۔۔۔۔وہ بھیک کے بڑے بڑے پیالے لے کر ناشتہ اور دوپہر کی روٹی کے لئے انتظار کرتے تھے۔ زیادہ لوگ ایسے تھے جو خورد و نوش اور رہائش کے لئے فکر مند تھے۔ ہر طرف ہر آدمی پریشانی کا پیکر تھا۔

میں بھی انہی میں سے ایک فرد تھا۔

میں نے پاکستان کی تخلیق میں کیا کچھ نہیں دیکھا ہے؟

بڑے شہر میں ایک گھر سے جب کیمپ میں جانے کے لئے باہر نکلے تو سڑکوں پر مسلمانوں کی لاشیں دیکھیں، سڑک پار کرنے کے لئے مجھے سوچنا پڑا کہ میں اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کی زخمی سربریدہ لاشوں پر سے کیسے گزروں مگر جب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔۔۔۔۔۔توپنجوں کے بل گزر گیا۔

دیکھا کہ چوباروں سے خون ٹپک ٹپک کر جم گیا ہے۔ نالیوں میں پانی کے ساتھ خون بہہ رہا ہے۔ قرآن پاک کے مقدس اوراق سڑک پر بکھرے پڑے ہیں۔ میں اللہ کی کتاب کے نورانی اوراق اٹھاتے اٹھاتے اور لمبے کُرتے کے دامن میں جمع کرتے کرتے شیراں والا دروازہ میں سے باہر نکل آیا۔ وہاں غیر مسلم فوجی کھڑے تھے۔ مجھے ایک فوجی نے وارننگ دی اور بندوق میری طرف تان لی۔ میں نے اس سے اس ہی کی زبان میں کہا۔

اگر گرنتھ صاحب کے اوراق اس طرح زمین پر ہوتے تو کیا تم انہیں نہ اٹھاتے؟

فوجی بندوق پر ہاتھ مار کر اٹینشن ہو گیا اور دونوں ایڑیوں پر گھوم گیا۔

میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور میں سوچنے لگا مسلمان اتنا بے حس ہو گیا ہے کہ اسے یہ بھی نظر نہیں آتا کہ قرآن کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔

جو قافلے ریلوں میں سفر کر کے آئے ہیں انہیں آج بھی یاد ہے کہ ریلوں کی چھتوں پر یخ بستہ ہواؤں میں انہوں نے سفر کیا ہے ۔ جو جہاں گر گیا وہ وہاں مر گیا، بے گور و کفن لاشیں ریلوے لائن کے دونوں اطراف نظر آ رہی تھیں۔ ہماری پاک فوج ریلوں میں آنے والے قافلوں کی محافظ نہ ہوتی تو شاید وہاں سے ایک فرد بھی پاکستان زندہ نہ آتا۔

ان حالات میں کیسے کسی کے چہرے پر سکون مل سکتا ہے۔ میں ایک ٹوٹا ہوا ریزہ ریزہ بکھرا ہوا انسان تھا۔ مستقبل کی روشنی اتنی مدہم تھی کہ بے یقینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اطمینان قلب لگتا تھا تقدیر سے نکل گیا ہے۔

ایسے میں ایک بندہ ملا جو پرسکون تھا، خوش تھا۔ گو کہ لباس بہت معمولی تھا، گو کہ ایک جھونپڑا تھا، گو کہ بظاہر مالی وسائل محدود تھے، مگر یہ بندہ خوش تھا۔ فکر فردا سے آزاد تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ جدوجہد جاری رہی اور اتنا زیادہ منہمک ہو گیا۔ سکون نام کی کوئی شئے قریب نہیں رہی۔ دنیاوی رنگ و دو اور حرص و ہوس میں عظیم بندے کا عظیم چہرہ بھی دھندلا گیا

دادی اماں کی بات

۔۔۔۔۔۔بیٹا انتظار کر۔۔۔۔۔۔

بھی ذہن سے نکل گئی۔

جب میں دنیا میں اچھی طرح لتھڑ گیا، کثافت میرے جسم کا میل بن گئی، وسوسوں نے زندگی کو بے کیف کر دیا۔ خوف نے لقمہ تر سمجھ کر مجھے نگل لیا۔ جھوٹی انا اور پر فریب وقار کے جال میں بے دست و پا ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ۔۔۔۔۔۔

ایک بزرگ مجھے شفاف چشمے کے پانی سے نہلا رہے ہیں۔ جسم میں تعفن اٹھ رہا ہے۔ ایسا تعفن جس کو سونگھ کر بار بار قے ہو رہی ہے۔

بزرگ نے مجھے نہلا دھلا کر سفید چادر میں لپیٹا اور کہا:

دادی کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ کانوں میں دادی اماں کی آواز آنے لگی۔

بیٹا! تو اتنا بودا اور کمزور ہے کہ سب بھول گیا۔

تو اللہ کی دی ہوئی نعمت کو بھی بھول گیا۔

ظہر کی نماز کے وقت سے مغرب کی نماز تک مسجد میں بیٹھنا میرا معمول بن گیا۔ ایک ہی بات ورد زبان تھی۔

‘‘اے اللہ !اپنا فرستادہ عظیم بندہ ملا دے۔‘‘

اللہ سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگتا تھا۔ آہ و زاری کرتا تھا اللہ کو پکارتا تھا۔

’’اے اللہ! عظیم بندہ کہاں ڈھونڈوں؟‘‘

تلاش میں پیر تھک گئے۔ دل ڈوب گیا، آنکھیں پتھر بن گئیں۔ نیند روٹھ گئی۔

بھوک و پیاس نے منہ موڑ لیا۔

یاد میں فراق میں اور فریاد میں دن رات گزرتے رہے۔

دوستوں نے کہا وظیفوں کی رجعت ہو گئی۔۔۔۔۔۔عاملوں کاملوں نے اشارہ کیا۔ آسیب لپٹ گیا ہے۔۔۔۔۔۔کوئی جادو ٹونے کا چکر ہے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ میں اپنی آگ میں جلتا رہا۔ قریب تھا کہ مادی وجود جل کر کوئلہ بن جائے کہ

عصر کے بعد اور غروب آفتاب سے پہلے

یہ خبر کانوں میں رس گھول گئی۔۔۔۔۔۔

بھائی عظیم نقاد کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔

افتاں و خیزاں رھڑکتے دل کے ساتھ محبوب کے حضور حاضری ہوئی۔ پہلی مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوا۔

اسرار و رموز سے بھرے ہوئے سینے سے مجھے چمٹا لیا۔

پیشانی پر بوسہ دیا، آنکھوں کو چوما۔۔۔۔۔۔عید ہو گئی۔

آندھی، برسات، گرمی، سردی روزانہ شام کے وقت دو سال تک محبوب کا دیدار ہوتا رہا اور پھر محبوب نے اپنے قدموں سے چل کر میرے گھر کو اپنے نور سے منور کر دیا۔ گھر میں رونق آ گئی۔ طویل عرصہ تک شب و روز محبوب کے قدموں میں زندہ رہا۔ کوتاہ بینی سے کبھی محبوب کی نظر میں اپنائیت نہیں دیکھتا تھا تو میں موت کے گلے لگ جاتا۔

موت اور زندگی کی لڑائی میں محبوب نے کبھی موت کی فتح کو قبول نہیں کیا۔

دماغ آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ محبوب کون ہے، میں یا میری زندگی؟

عنایات خسروانہ اور لطف و کرم یہ بتاتا ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ عظیم بندہ کو اپنا محبوب کہوں۔ عظیم بندہ خود ہی محب ہے اور خود ہی محبوب۔

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔

ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔

دوسری طرز فکر انبیاء کی طرز فکر ہے۔ جس میں محبت، اخوت، خلوص، صدق مقال، ایثار ، اللہ کی مخلوق سے محبت اور خود اپنی روح سے محبت کے تقاضے ہیں۔ جو بندہ اللہ کی محبت سے آشنا ہو جاتا ہے اسے اللہ اپنا دوست بنا لیتا ہے اور جو بندہ تعصب، تفرقہ اور خود نمائی کے خول میں بند رہتا ہے اسے شیطان اپنا دوست بنا لیتا ہے۔

 


اسم اعظم

خواجہ شمس الدین عظیمی