Topics

خسرو پرویز

ہجرت کے ساتویں سال کے آغاز میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عرب سربراہان حخومت کو دعوت اسلامی کے خطوط ارسال فرمائے تھے ۔ شاہ ایران خسرو پرویز کے پاس سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کا نامہ مبارک پہنچا تو خسرو پرویز نے خط کو چاک کر دیا ۔ 

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جب خط چاک کرنے کی اطلاع پہنچی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔ نامہ مبارک کو چاک کرنے کے بعد خسرو پرویز نے یمن کے حاکم باذان کو گستاخانہ حکم دیا ،  تو اس مدعی نبوت کے پاس جا اور اس سے کہہ دے کہ اپنے دعوے سے باز آجائے ورنہ اس کا سر قلم کر کے میرے پاس بھیج دے ۔  باذان نے اپنے دو مصاحب اس غرض سے مدینہ بھیجے کہ وہ جا کر مدی نبوت سے ملیں اور اطلاع دیں ۔ وہ دونون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور حقیقت حال عرض کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ آج تم آرام کرو ، کل میرے پاس آنا ۔ اگلے روز جب وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کل رات اللہ تعالی نے کسری(خسرو پرویز) کو قتل کروا دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا ہے ، میری طرف سے باذان کو یہ خبر دے دو اور یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت ایک روز کسری کے ملک کی حدود تک پہنچ جائے گی اور اسے یہ بھی بتادو کہ اگر تم اسلام لے آو گے تو تمہارا ملک تمہیں دے دیا جائے گا۔ قاصدوں نے واپس جا کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اس کے گوش گزار کر دئیے۔ 

زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ شیرویہ کی طرف سے باذان کے نام خط آیا ۔ اس خط میں لکھا تھا میں نے اپنے باپ خسرو پرویز کو قتل کر دیا ہے کیونکہ وہ معززین ایران کے قتل کو روا رکھتا تھا ۔ تم رعایا سے میری اطاعت کا عہد لو اور اس مدعی نبوت سے تعرض نہ کرو میرے باپ نے جس کی گرفتاری کا حکم دیا تھا ۔ باذان مسلمان ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی یمن میں بقیم ایرانی بھی ایمان لے آئے ۔


Topics


محمد رسول اللہ ۔ جلد دوم

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔