Topics
واقعۂ معراج کے بعد سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے تبلیغ کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا انتخاب کیا۔ آپؐ طائف تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ کے دادا عبدالمطلب کا چچا زاد بھائی ’’ عبدیالیل‘‘سکونت پذیر تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے طائف کے سرداروں سے ملاقات کی اور انہیں حق و صداقت کا پیغام دیا۔ لیکن انہوں نے حق و صداقت کا پیغام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آپؐ کے پیچھے وہاں کے اوباش لڑکوں کو لگا دیا۔ جو آپؐ پر آوازیں کستے، تالیاں پیٹتے اور گالیاں دیتے تھے۔ انہوں نے اتنے پتھر مارے کہ آپ ؐ کی نعلین مبارک خون میں بھر گئیں ۔ جبرائیل امین حاضر ہوئے اور کہا کہ اگرآپ ؐ اجازت دیں تو بستی والوں پر پہاڑ الٹ دیئے جائیں۔
رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا:
’’ میں مخلوق کے لئے زحمت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے بندے پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘
زخموں سے چور آپؐ نے ایک باغ میں پناہ لی۔ اس باغ کے مالک دو بھائی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ تھے۔ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو لہولہان دیکھ کر انہوں نے اپنے نصرانی غلام کے ہاتھ آپؐ کی خدمت میں انگور کا خوشہ بھیجا۔ آپؐ نے بسم اللہ کہہ کر انگور لے لیا۔ مسیحی غلام نینوا کا باشندہ تھا۔ اس نے آپؐ سے ان کلمات کی بابت دریافت کیا ۔ آپؐ نے فرمایا۔ تم میرے بھائی یونس بن متیٰ کے شہر کے رہنے والے ہو۔وہ بھی میری طرح خدا کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر ابن ربیعہ کا غلام ’’ عداس‘‘ آپؐ کے قدموں میں جھک گیا۔ عداس نے کہا ، ’’ اگرچہ میرے آقا عتبہ نے مجھے یہ کہا ہے کہ آپؐ کو انگور پیش کروں لیکن میں جانتا ہوں کہ آپؐ کو اس باغ میں پناہ نہیں دے گا۔ میں اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ لوگوں کی نظروں سے بچا کر آپؐ کو طائف سے باہر لے جاؤں۔
مسیحی خدمت گار عداس نے اپنے وعدے پر عمل کیا اور جیسے ہی رات گہری ہوئی پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو طائف کے شہر سے باہر لے آیا اور بولا،’’ خدا کے برگزیدہ بندے! اس شہر سے دور نکل جایئے کہ یہاں کے لوگ آپ کی جان کے دشمن ہیں‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صحرا میں پیدل چلتے ہوئی ایک ایسی جگہ پہنچے جسے ’’ بطن نخلہ‘‘کہتے تھے۔ رات کا سماں تھا اور ساری کائنات خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ وہاں پہنچ کر پیغمبر اسلا م حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انتہائی سوز و گداز کے ساتھ قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔ جنات نے جب سوز و گداز سے بھر پور نورانی آواز میں قرآن سنا تو ان کی ایک جماعت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کیا۔ قرآن پاک کی چھیالیسویں سورۃ میں ارشاد ہے:
ترجمہ :
’’اور وہ وقت آن پہنچا جب ہم نے جنوّں کی ایک جماعت کو تمہاری جانب بھیجا تا کہ وہ قرآنی آیات کو سنیں اور جب وہ حاضر ہو گئے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموش ہو کر سنو۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف عذاب سے ڈرانے والے بن کر پلٹے‘‘ ۔
(احقاف ۔ ۲۹)
زخم زخم جسم، بھوک سے نڈھال اور خستہ حال محمدؐ طائف کے شہریوں سے مایوس ہو کر مکہ لوٹ آئے۔ حضورؐ نے یہ جان لیا تھا کہ طائف مسلمانوں کی پناہ گاہ نہیں بن سکتا، لیکن کسی قبیلے سے منسلک ہونا ضروری تھا۔ لہٰذا انہوں نے قبیلہ زہرہ کے سربراہ’’ اخنس بن شریق‘‘ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ اس سے حقِ جوار چاہتے ہیں ۔ اخنس بن شریق نے جواب بھجوایا کہ اگرچہ اس کی یہ خواہش ہے کہ وہ محمد ؐ کو جوار (پناہ) دے لیکن وہ ایسا کرنے سے معذور ہے کیونکہ اس نے قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے سہیل بن عمرو کو پیغام بھجوایا اور اس سے کہا کہ وہ انہیں اپنے قبیلے میں جگہ دے۔ سہیل بن عمرو قبیلہ قریش سے دور پرے کا تعلق رکھتا تھا۔ لہٰذا اس نے بھی حضور ؐ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا۔
مطعم بن عدی نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پیغام کا مثبت جواب دیا اور اپنی قوم کو جمع کر کے ہتھیا رباندھے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ میں داخل ہوئے اور مسجد الحرام میں حاضر ہو کر طواف کیا۔ معطم بن عدی اپنی سواری پر سوار تھا ۔ اس نے اعلان کیا ،’’قریش کے لوگو ! میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پناہ دے دی ہے‘‘ ۔ مطعم بن عدی اور اس کے لڑکوں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے گرد حلقہ بنا رکھا تھا ۔ کعبہ میں حاضری کے بعد آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔