Topics

حق آیا اور باطل مٹ گیا

۱۰ رمضان المبارک آٹھ ہجری کو اسلامی لشکر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ 

سپاہیوں نے الگ الگ الاؤ روشن کئے جس سے تمام صحرا روشن ہو گیا۔

قریش کو اسلامی لشکر کے پڑاؤ کی خبر ملی تو ابو سفیان ، بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام کے ساتھ جائزہ لینے کے لئے مرالظہران پہنچے تو محافظ دستہ نے انہیں گرفتار کر لیا۔ رحمت اللعالمین ؐ نے انہیں معاف کر دیا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق ، رحمت و اخلاص سے متاثر ہو کر یہ تینوں مسلمان ہو گئے۔

حضرت عباسؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ ابو سفیان چونکہ اسلام میں داخل ہو گیا ہے اسے اعزاز سے نواز دیں۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔

جو مسجد الحرام میں داخل ہو جائے۔۔۔۔۔۔ اسے امان ہے۔جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے۔۔۔۔۔۔ اسے امان ہے۔ جو اپنا دروازہ بند کر لے۔۔۔۔۔۔ اسے امان ہے۔

مکہ میں داخل ہونے والے پہلے دستہ کی قیادت حضرت علیؓ نے کی ان کے ہاتھوں میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا مخصوص پرچم لہرا رہاتھا۔ دوسرا دستہ زبیر بن عوامؓ کی قیادت میں مغرب کی جانب سے مکہ میں داخل ہوا۔سعد بن عبادہ انصاریؓ مشرق کی طرف مکہ میں داخل ہونے والے تیسرے دستے کی سربراہی کر رہے تھے۔ چوتھے دستے کی قیادت خالد بن ولیدؓ نے کی جو جنوب سے مکہ میں داخل ہوا۔ سعد بن عبادہؓ جب مکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بے اختیار ہو کر یہ بانگ لگا دی۔ ’’آج کا دن حملہ کا دن ہے اور آج حرمت ختم ہو گئی‘‘ ۔جب یہ خبر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ، کہ سعد بن عبادہؓ نے غلط کہا ہے آج کا دن کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے اور سعد بن عبادہؓ کو دستے کی سربراہی سے ہٹا کر ان کے بیٹے قیسؓ بن سعد کو سپہ سالاری کے فرائض سونپ دیئے۔ سپاہِ اسلام کے سارے دستے کسی مزاحمت کے بغیر مکہ میں داخل ہو گئے۔البتہ خالد بن ولیدؓ کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی لشکر کے چاروں دستے خانہ کعبہ کے سامنے ایک دوسرے سے آملے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سفید اونٹنی پر سوار ظاہر ہوئے اور آپؐ نے سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کیا اور خانہ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ کو امر کیا کہ وہ کعبہ کا دروازہ کھول دے۔ اس روز پانچ مسلمان خانہ کعبہ میں آئے۔


۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام

۲۔ حضرت علیؓ 

۳۔ عثمان بن زیدؓ 

۴۔ حضرت بلالؓ

۵۔ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہؓ

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر خطاب کیا ۔ خطبے کے الفاظ یہ ہیں: 

’’ اے مکہ کے باشندو ! تم لوگ جنگ کے قانون سے آگاہ ہو اور جانتے ہو کہ عہد شکنی کی سزا کیا ہوتی ہے۔ اب جبکہ تم ہمارے مغلوب ہو مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ تم سب کو تہہ تیغ کر ڈالیں یا اپنا غلام بنا لیں لیکن آج میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تم سب کی بخشش فرما دی ہے چنانچہ تم لوگ آزاد ہو اور تمہاری جان و مال پر کوئی تعرض نہیں ہے۔اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کوایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے انہیں ایک دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے لحاظ سے۔ خدا کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں لہٰذا دور جاہلیت کے وہ تمام اعزازات جو حسب و نسب اور قبیلہ و منصب کی بالا دستی پر قائم تھے آج منسوخ کئے جاتے ہیں۔‘‘

جب پیغمبر اسلام ؐ خطبے سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے ’’حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل نے مٹ جانا تھا‘‘ کا ورد کرتے ہوئے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے سب سے بڑے بت کو گرا دیا۔ پھر حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے کہا کہ تمام بتوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دیں اور خانہ کعبہ کی اندرونی اوار بیرونی تصویروں کو مٹا دیں۔

فتح مکہ کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اور اسلام کے سخت دشمنوں کے مقابلے میں انتہائی نرمی اور فراخدلی کامظاہرہ کیا اور انہیں عفو و بخشش سے نوازا۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخص عکرمہ بن ابو جہل تھا جو مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنی جان کے خوف سے بھاگ گیا تھا۔عکرمہ کی بیوی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور اپنے شوہر کے لئے امان طلب کی۔ 

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے عکرمہ کی جان بخش دی۔

اسلام کے انتہائی خطرناک دشمنوں میں ایک ابو سفیان کی بیوی تھی۔ اس عورت نے اسلام کے نامی گرامی سردار حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ ہندہ کو بھی رسول اللہ ؐ نے معاف کر دیا۔

اسلام کا ایک بڑا دشمن صفوان بن امیہ عفو و درگزر سے بہرہ ور ہوا۔

فتح مکہ کے تیسرے دن سیدنا الصلوٰۃ السلام نے کچھ مسلمانوں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مکہ کے مضافات میں جائیں اور جہاں بھی بت نظر آئیں انہیں توڑ دیں۔انہی لوگوں میں خالد بن ولیدؓ بھی شامل تھے جنہیں یہ حکم ملا کہ نخلہ جا کر وہاں کے بتوں کا صفایا کر دیں۔ 

جزیرۃ العرب کا مشہور و معروف بت ’’ عزیٰ‘‘ نخلہ میں نصب تھا۔ قبیلہ ہوازن اور اہل مکہ ایک دوسرے کے قدیمی اور خاندانی دشمن تھے۔ جب ہوازن نے دیکھا کہ مسلمان ان کے بتوں کو توڑ کر درحقیقت ان کے عقائد کی جڑیں کاٹ رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ وادی حنین میں سخت مقابلے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔



محمدرسول اللہ ۔ جلد اول

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔