Topics

حضرت عزیر علیہ السلام

بنی اسرائیل نے جب حضرت یرمیاہ ؑ کی تعلیمات کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو حضرت یرمیاہ ؑ نے بنی اسرائیل کی غلامی کی پیشین گوئی کی۔ بخت نصر نے ارض مقدس پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں بیت المقدس کو شدید نقصان پہنچا اور بنی اسرائیل کا مالی اور جانی بہت زیادہ نقصان ہوا۔ توراۃ کے تمام نسخے جلا کر راکھ کردئیے گئے۔ اسرائیلیوں کو قید کرکے بابل لے جایا گیا۔ ان قیدیوں میں کم سن حضرت عزیر ؑ بھی شامل تھے حضرت عزیر ؑ کی ابتدائی تربیت بابل میں ہوئی۔ حالت اسیری میں حضرت دانیال ؑ نے تربیت کی۔

بابل شہر

بخت نصر نے اسرائیلی اسیروں میں سے صاحب علم و دانش افراد کو شاہی دربا ر سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی نظر انتخاب چار افراد پر پڑی۔ حضرت دانیالؑ ، خنیاہ، میسا ایل اور حضرت عزیرؑ ۔ ان چاروں افراد کو کلدانی زبان سکھائی گئی۔ شاہی خلعت دی گئی اور شاہی دسترخوان پر کھانے کا انتظام ہوا۔ لیکن شاہی غذا میں غیر شرعی اشیاء بھی شامل تھیں۔لہٰذا ان لوگوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ بخت نصر کو جب اس کا علم ہوا تو ان چاروں افراد کو دربار میں طلب کرکے ان سے گفتگو کی۔ حضرت عزیر ؑ نے اخلاق و آداب پر تقریر کی۔ بخت نصر حضرت عزیر ؑ کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوا اور آپ ؑ کو بابل کا گورنر بنادیا۔حضرت عزیر ؑ نے گورنر بنتے ہی بت پرستی کی باطل رسم ختم کرنے کا اعلان کیا۔ بخت نصر کو جب علم ہوا تو آپ ؑ کو دربار میں بلا کر باز پرس کی۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ عبادت کے لائق صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں۔جواب سن کر بخت نصر غضبناک ہوگیا اور حکم دیا کہ آپ ؑ کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت حضرت عزیر ؑ کیساتھ تھی لہٰذا آپ ؑ پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور آپ ؑ آگ میں سے زندہ سلامت نکل آئے۔ یہ دیکھ کر بخت نصر پکار اٹھا، 
’’
عزیر ؑ کا خدا مبارک ہو، جس نے اپنا فرشتہ بھیج کر رہائی بخشی۔واقعی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

(دو شہاب کتاب مقدس، پرانا عہدنامہ ۔ دانی ایل باب ۳۔ آیت ۲۰ سے ۲۸)

حضرت عزیر ؑ کو ایک بار پھر بابل کا گورنر بنادیا گیا۔

چونکہ تورات کے تمام نسخے تلف کر دئیے گئے تھے۔ اسرائیلی ۷۰ سال کی غلامی سے نجات پانے کے بعد توراۃ کو دوبارہ مدوّن کرنے کے لئے حضرت عزیر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

دو شہاب

روایت ہے کہ آسمان سے دو ’’شہاب‘‘(وہ ستارہ جو آسمان سے گرتے ہوئے نظر آئے) اترے اور حضرت عزیر ؑ کے سینے میں سماگئے اور آپ ؑ نے توراۃ لکھوا دی۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں حضرت عزیر ؑ کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہوگئی ۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی اس قدر و منزلت نے گمراہی کی شکل اختیار کرلی اور انہوں نے حضرت عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔

’’اور یہودی کہتے ہیں کہ عزیر ؑ اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ اللہ کی مار ان پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھاتے ہیں۔‘‘
(سورۃ توبہ۔ آیت30)

حیات و ممات

ایک دفعہ کسی بستی میں سے حضرت عزیر ؑ کا گزر ہوا۔ بستی ویران پڑی تھی۔ اس کی تباہ حالی اور بربادی دیکھ کر ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ اس تباہ حال بستی کو کس طرح دوبارہ آباد کریں گے؟

حضرت عزیر ؑ نے گدھے کو ایک درخت سے باندھا۔ کھانا سرہانے رکھا اور درخت کے سائے میں لیٹ گئے۔ نیند آگئی اور سوگئے۔ اس ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیا کہ عزیر ؑ کی روح قبض کرلے۔ حضرت عزیر ؑ سو سال تک سوتے رہے۔ حکم ربی سے آپ ؑ کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔ 

اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ سے پوچھا:

’’اے عزیر ؑ ! کتنی دیر تک سوتے رہے؟‘‘

آپ ؑ نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کچھ کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا!

’’ نہیں تم سو سال تک مردہ پڑے رہے ہواور اپنے گدھے اور کھانے کو دیکھو۔‘‘

کھانا ویسا ہی تازہ تھا جیسا رکھا تھا لیکن گدھا مرچکا تھا اور اس کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ حضرت عزیر ؑ بہت حیران ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کے سامنے آپ ؑ کے گدھے کو دوبارہ زندہ کیا۔ آپ ؑ کی نظر جب بستی پر پڑی تو اور زیادہ حیران ہوئے کہ بستی پوری طرح آباد اور پررونق شہر بن گئی تھی۔ 

آپ ؑ اللہ تعالیٰ کی قدرت کودیکھ کر سجدے میں گر گئے اور کہا،

’’ یا اللہ ! تو قادر مطلق ہے۔‘‘

’’اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا، جس گا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی پڑی تھی۔ اس نے کہا یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے اسے اللہ دوبارہ کس طرح زندگی بخشے گا؟ اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ 
پھر اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا، ’بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا، ’’ایک دن یا کچھ کم۔‘‘ فرمایا ،
بلکہ تم سو برس اسی حالت میں رہے۔ اب ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ اور پھر اپنے گدھے کو دیکھ (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔) اور یہ ہم نے اسلئے کیا ہے کہ تمہیں لوگوں کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست کس طرح اس پر چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا میں یقین کرتا ہوں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قاد ر ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔آیت259)

تشریح

تقریباً ہر گھر میں ڈیپ فریزر اور فرج موجود ہے۔ ہمیں اس با ت کا مسلسل مشاہدہ ہے کہ چیزیں جب ٹھنڈی ہوکر منجمد ہوجاتی ہیں تو سڑتی گلتی نہیں ہیں۔ مخصوص گیسیں انہیں محفوظ رکھتی ہیں۔جس طرح ہر تخلیق کا ہر فرد روشنی کے مفرد اور مرکب جال کے غلاف میں بند ہے۔ اسی طرح گیسس پر بھی روشنی کے جال کا غلاف ہے۔ اور ہر گیس کی ماہیت اور مقدار کا تعین اسی روشنی کے غلاف سے ہوتا ہے۔ فرد کی حیات و ممات معین مقداروں پر قائم ہے۔ اس سارے نظام پر ایک اللہ حاکم ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ اس کی حاکمیت کے تابع ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے برگزیدہ بندے حضرت عزیر ؑ پر حیات و ممات کی حقیقت کو ظاہر کرے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نے ان کو یکجا کردیا جس کے ذریعہ اشیاء ٹھنڈی ہوکر خراب نہیں ہوتیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے ایجاد کرنے کا خیال آتا ہے پھر مسلسل ریسرچ کے بعد ایجاد کا مظاہرہ ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایجاد خیال آئے بغیر اپنا مظاہرہ کرے۔ سائنس کی کوئی ایجاد ہو، کچھ بھی ہو پہلے سے عالم غیب میں موجود ہے۔

قانون

جب کسی ایک نقطے پر ذہن مرکوز ہوجاتا ہے تو اس نقطے میں مخفی خدو خال وجود کی شکل میں سامنے آجاتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں کھانے کو دو طریقوں سے محفوظ کیا جاتا ہے۔

۱۔ کھانے کو فریز کیا جاتا ہے۔

۲۔ اس کو ویکیوم یعنی ہوا کے بغیر پیک کیا جاتا ہے۔ جس سے کھانا گلنے سڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کھانوں کے سالموں کی حرکت تیز ہوتی ہے جبکہ فریزر میں درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے سالموں کی حرکت کم ہوجاتی ہے۔ مالیکیولز کی حرکت تیز ہونے سے ہوا سے Contact بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کم درجہ حرارت پر کیمیکل ایکشن کم ہوتا ہے اگر کسی بھی طریقے سے سالموں کی حرکت کم یا بہت کم کردی جائے جیسا کہ فریزر میں فری اون گیس (Free On Gas) کے ایکشن کی وجہ سے ہوتا ہے تو شئے کے مالیکیولز ایک دوسرے میں جذب ہوکر منجمد ہوجائیں گے اور شے میں Foreign Bodies داخل نہیں ہو ں گے۔

حضرت یونس علیہ السلام

حضرت یونس ؑ نینوا کی طرف مبعوث کئے گئے۔ 

حضرت سلیمان ؑ کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر کفر و شرک، بت پرستی اور نافرمانی میں مبتلا ہوگئے، جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں رہا اور قوم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی میں مبتلا ہوگئی تو قانون قدرت حرکت میں آگیا بنی اسرائیل پر بخت نصر کا غلبہ ہوگیا۔بخت نصر کے لشکر نے بیت المُقدس میں خون ریزی کا بازار گرم کردیا، اسرائیلی تہہ تیغ کر دیئے گئے اور بہت بڑی تعداد میں قیدی بن گئے۔ رومیوں نے ارض مقدس پر حملہ کردیا اور ایک مرتبہ پھر یہ ناشکری قوم عذاب میں مبتلا ہوگئی۔اشوریوں کے دور حکومت میں جب شہر ’’اشور‘‘ دارالحکومت تھا اس زمانے میں دجلہ کے کنارے نینوا ایک چھوٹی سی بستی تھی اشور کے کسی بادشاہ نے اپنے دیوتا کے نام پر نینوا میں ایک مندر بنوایا، رفتہ رفتہ دوسرے بادشاہوں نے بھی مندر اور عمارتیں بنانا شروع کردیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہ چھوٹا سا گاؤں اشوریہ کا دار الخلافہ بن گیا۔ نینوا کے وسط میں مندر اور شاہی محل تھے جہاں سے بادشاہ نینوا کے پر رونق بازاروں، گلیوں اور تفریح گاہوں کا نظارہ کرتا تھا۔شمال کی طرف بلند و بالا عمارتیں تھیں ۔ مغرب میں ہرے بھرے لہلہاتے کھیت تھے پورا شہر درختوں، بل کھاتی بیلوں، پھلوں اور خوبصورت باغات سے سر سبز و شاداب تھا، جگہ جگہ چوراہوں پر فوارے عوام کو دعوت نظارہ دیتے تھے۔ پتھر تراش اشوری مختلف جانوروں اور دیوتاؤں کی تصاویر بنانے میں یکتائے فن تھے، اہل نینوا کی زبان سامی تھی، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے یہ انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی۔ ظلم و ستم اور سنگدلی میں بھی یہ قوم اپنی مثال آپ تھی، جب انہیں کسی ملک پر غلبہ حاصل ہوتا تو اس کا نام و نشان مٹادیتے تھے، سپاہی رعایا کو قتل کردیتے تھے اور ہر سر کے بدلے سپاہی کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔

’’اشوریہ دیوتا‘‘ ان کا سب سے بڑا دیوتا تھا، سیاسی اور انتظامی امور دیوتا کا نام لے کر انجام دئیے جاتے تھے، یہ لوگ بادشاہ کو خدا کا درجہ دیتے تھے۔

آگ کی بارش

حضرت یونس ؑ نینوا تشریف لے گئے اور بادشاہ ’’پول‘‘ کو پیغام حق سنایا اور بادشاہ کو حکم دیا کہ اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کردے، شاہ نینوا غضبناک ہوکر آپ ؑ کی جان کا دشمن بن گیا۔حضرت یونس ؑ اس کوشش میں مصروف رہے کہ بادشاہ آپ ؑ کی بات اور آپ ؑ کے پیغام کو قبول کرلے لیکن جب کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو حضرت یونس ؑ عوام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں توحید کی دعوت دی، شرک و بت پرستی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے منع فرمایا لیکن اہل نینوا نے حضرت یونس ؑ کی تبلیغ اور تعلیمات کا مذاق اڑایا۔ حضرت یونس ؑ نے جب دیکھا کہ لوگ کسی طرح راہ راست پر آنے کے لئے تیار نہیں تو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا اس پر بھی لوگ نہ مانے تو آپ ؑ نے بادشاہ وقت اوراہل نینوا کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’اگر تم نے چالیس دنوں کے اندر بت پرستی اور شرک سے توبہ نہیں کی اور ایک اللہ تعالیٰ کی پرستش نہیں کی اور اسرائیلیوں کو قید سے آزاد نہیں کیا تو تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا، پورا شہر تباہ و برباد ہوجائے گا۔‘‘

لوگوں نے آپ ؑ کا مذاق اڑایا اور کہا:

’’تمہارے رب کی طرف سے عذاب کے منتظر رہیں گے۔‘‘

ایک مہینہ کے بعد حضرت یونس ؑ شہر سے دس بارہ کوس دور چلے گئے۔ پینتیسویں دن نینوا دھویں کی لپیٹ میں آگیا اور آگ کی بارش شروع ہوگئی یہ صورتحال دیکھ کر اہل نینوا پریشان اور خوف زدہ ہوگئے، عورتوں بچوں اور بوڑھوں امرا و غربا نے بوسیدہ لباس پہنا اور ایک وسیع میدان میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کی اورصدق دل سے حضرت یونس ؑ کی پیروی کا اقرار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور عذاب ٹل گیا۔

ٹاٹ کا لباس

توریت میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:

اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز بعد نینوا تباہ ہوجائے گا۔ تب نینوا کے باشندوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر روزے کی منادی کی اورادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوا کے بادشاہ تک پہنچی اور وہ اپنے تخت سے اٹھا اور شاہی لباس اتار کر ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ نے نینوا میں یہ منادی کروادی کہ کوئی انسان یا حیوان کھانا نہ کھائے پوری رعایا ٹاٹ پہنے گی، اپنے جانوروں پر بھی ٹاٹ کے جھول ڈال دئیے جائیں، سب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کریں، ہر شخص بری روش اور ظلم سے باز رہنے کا عہد کرے، شاید اللہ تعالیٰ رحم کریں اور اپنا ارادہ بدل دیں اور اس کے شدید عذاب سے ہمیں نجات مل جائے۔جب اللہ تعالیٰ نے انکی یہ حالت دیکھی کہ وہ بری روش سے باز آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل نہیں کیا۔

(یوناہ: باب ۳ آیت ۴۔ ۱۰)

’’کہا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اسکا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو، یونس ؑ کی قوم کے سوا وہ قوم جو ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اسکو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا تھا۔‘‘(سورۃ یونس ۔آیت98)

حضرت یونس ؑ شہر سے باہر نینوا کی تباہی کے منتظر تھے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل نینوا کی توبہ استغفار پر انہیں معاف کردیا تھا اس لئے چالیس روز گزرنے کے بعد عذاب نازل نہیں ہوا تو حضرت یونس ؑ یہ سوچ کر شہر میں نہیں گئے کہ اہل شہر انہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ حضرت یونس ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کئے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ روایت کے مطابق آپ ؑ نے روم کی طرف سفر کیا۔ آپؑ کے ساتھ آپؑ کی زوجہ محترمہ اور دو بچے بھی تھے۔ دوران سفر ایک مقام پر حضرت یونس ؑ اپنی بیگم اور بچوں کو چھوڑ کر کسی کام سے گئے تو اسی دوران وہاں سے کسی بادشاہ کا گزر ہوا اس نے جب بیابان میں ایک حسین و جمیل عورت کو دیکھا تو اُنہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔حضرت یونس ؑ جب واپس تشریف لائے تو اس واقعہ کو مشیت الٰہی سمجھ کر خاموش ہوگئے اور بچوں کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کردیا راستے میں ایک ندی پار کرنی تھی حضرت یونس ؑ ایک بیٹے کو ندی کے کنارے چھوڑ کر دوسرے بیٹے کو کندھے پر سوار کرکے ندی پار کرنے لگے۔

حضرت یونس ؑ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ایک بیٹے کو دوسرے کنارے اتار کر واپس آکر دوسرے بیٹے کو لے جائیں گے، جب آپ ؑ ندی کے درمیان میں پہنچے تو ایک تیز لہر آئی اور بچہ پانی میں گر گیا، پانی کی تیز و تند لہریں بچے کو بہا کر لے گئیں، حضرت یونس ؑ نے اس کو بھی مشیت الٰہی سمجھا اور کنارے پر آگئے لیکن ندی کے کنارے پہنچنے سے پہلے بچہ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا۔حضرت یونس ؑ سفر کرتے ہوئے دریائے فرات کے کنارے پہنچے، ساحل پر مسافروں سے بھری ہوئی ایک کشتی تیار کھڑی تھی آپؑ اس میں بیٹھ گئے راستے میں کشتی طوفان کی زد میں آگئی اس وقت لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ جب کوئی مفرور غلام کشتی میں سوار ہوتا ہے تو کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے، کشتی کے ناخدا (Captain) نے مسافروں سے کہا کہ اس وقت کشتی میں جو شخص مفرور غلام کی حیثیت سے سفر کررہا ہے وہ دریا میں کود جائے ورنہ سارے مسافر ڈوب جائیں گے۔

مچھلی 

حضرت یونس ؑ نے جب یہ سنا تو یاد آیا کہ آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نینوا سے چلے آئے ہیں۔ حضرت یونس ؑ نے (Captain) سے کہا:’’میں اپنے آقا کی مرضی کے بغیر اور اس کے حکم کا انتظار کئے بغیر چلا آیا ہوں لہٰذا میں ہی وہ غلام ہوں جس کی وجہ سے کشتی طوفان میں آگئی ہے۔‘‘Captianنے ان کی پروقار شخصیت کو دیکھ کر پانی میں کودنے کی اجازت نہیں دی، جب طوفان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہونے لگا تو فیصلہ کیا گیا کہ قرعہ اندازی کی جائے قرعہ اندازی میں جس کا نام نکلے اس کو پانی میں پھینک دیا جائے، قرعہ اندازی میں حضرت یونس ؑ کا نام نکلا، تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور ہر بار حضرت یونس ؑ کا ہی نام نکلا، لوگوں نے مجبوراً آپ ؑ کو دریا میں پھینک دیا، دریا میں گرتے ہی ایک بڑی مچھلی نے آپؑ کو نگل لیا۔

’’اور یقیناًیونس بھی رسولوں میں سے تھا یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور نکلا خطاوار پھر مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔ ‘‘(سورۃالصٰفٰت۔آیت 139تا142)

حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ کی تاریکی میں اپنی بھول کا احساس ہوا اور آپؑ اپنی بھول پر نادم اور شرمسار ہوئے، اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے معافی طلب کی رحیم و کریم ہستی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کی اور آپ ؑ کو اس تکلیف سے نجات عطا کی۔
’’
اور مچھلی والے (یونس ) کو یاد کرو جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر)غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیاکہ اسے پکڑ نہیں سکیں گے۔آخر وہ اندھیروں کے اندر سے اللہ کو پکارنے لگا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بے شک میں قصور وار ہوں تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے ان کو نجات بخشی اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچالیا کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ انبیاء۔آیت 87تا 88)

سایہ دار درخت

کتاب یوناہ باب ۲ حضرت یونس ؑ کی دعاؤں پر مشتمل ہے جو آپ ؑ نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کے حضور احساس ندامت کے تحت مانگی تھیں، توریت کے مطابق آپ ؑ مچھلی کے پیٹ میں تین دن اور تین رات رہے بالآخر مچھلی نے آپ کو اللہ کے حکم سے خشکی پر اگل دیا، گرمی کی شدت اور دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک سایہ دار درخت اگا دیا۔

’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روز قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا آخر ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا اور اس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔ ‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔143تا 146)

دیمک

بتایا جاتا ہے کہ یہ بیل دار درخت کدو کا درخت تھا، مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے حضرت یونس ؑ کا جسم کسی نومولود پرندے کے جسم کی طرح نرم و نازک اور ملائم ہوگیا تھا۔ رفتہ رفتہ آپؑ کی صحت بحال ہوگئی اور آپ ؑ اس مقام پر جھونپڑی بنا کر رہنے لگے، چند ہی روز گزرے تھے اس بیل کے درخت کی جڑ کو دیمک نے کھالیا، حضرت یونس ؑ درخت سوکھ جانے پر پریشان ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم اس درخت کے اجڑنے پر رنجیدہ ہو لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ نینوا جو ایک لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل شہر ہے، کیا مجھے اس کے برباد ہونے پر ناگواری نہیں ہوگی؟‘‘

(’’پرانا عہد نامہ‘‘ ۔یوناہ۔ باب ۴۔ آیت ۱۰،۱۱ ۔کتاب مقدس)

استغفار

حضرت یونس ؑ نے بارگاہ الٰہی میں توبہ استغفار کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ دوبارہ اپنی قوم کی ہدایت و رہبری کے لئے نینوا جاؤ۔ حضرت یونس ؑ اپنی قوم میں پہنچے تو اہل نینوا نے آپ ؑ کا پرجوش استقبال کیا اور پوری قوم آپ ؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئی۔

’’ اسکے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا اور وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقت خاص تک انہیں باقی رکھا۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔آیت 147تا148)

آپ ؑ کی زوجہ اور بچے جو دوران سفر آپ ؑ سے جدا ہوگئے تھے آپ ؑ کو دوبارہ مل گئے حضرت یونس ؑ نے باقی عمر نینوا میں گزاری اور موصل کے قریب دفن ہوئے۔

بھاگے ہوئے غلام

آج کے دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے یہ واقعہ نشان عبر ت ہے، چشم بینا دیکھتی ہے کہ زمین اس وقت فساد سے بھر گئی ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی عنوان سے اللہ تعالیٰ کے راستے سے انحراف کررہا ہے یعنی ہم سب آزاد ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سب بھاگے ہوئے غلام ہیں حضرت یونس ؑ کا واقعہ درس عبرت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے پیغمبروں کے حالات پر تفکر کرکے حضرت محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیمات پر عمل کریں ۔

حضرت لقمان علیہ السلام

حضرت لقمان ؑ پیغمبرانہ صفات کے حامل ایک صاحب حکمت اور برگزیدہ بندے ہیں۔ آپ ؑ کے نام سے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ’’سورۃ لقمان‘‘ نازل کی ہے۔ تاریخ میں آپ ؑ کی شخصیت اور زمانے کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض مورخین کے مطابق حضرت لقمان ؑ کا تعلق قوم عاد سے تھا اور آپ ؑ یمن کے بادشاہ تھے۔ لیکن اکثریت کی رائے میں آپ ؑ حبشی النسل تھے اور سوڈان کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔یہ بھی روایت ہے کہ آپ ؑ حضرت داؤد ؑ کے ہم عصر تھے اور قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ شواہد ملتے ہیں کہ ’’صحیفہ لقمان‘‘ کے نام سے آپ ؑ کے اقوال کا ایک مجموعہ حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں موجود تھا۔قرآن حکیم نے حضرت لقمان ؑ کو مواحد اور حکیم بیان کیا ہے۔

’’اور ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ وہ اللہ کا شکر گزار ہو۔‘‘(سورۃ لقمان۔آیت 12)

حضرت لقمان ؑ کی تعلیمات

حضرت لقمان ؑ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ،

’’اے بیٹا! جب کسی صحبت میں جاؤ تو لوگوں کو سلام کرکے بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں تو ٹھہر جاؤ اور اگر کسی اور کے ذکر میں مصروف ہوں تو ان کی صحبت چھوڑ دو اور دامن جھاڑ کر کھڑے ہوجاؤ۔‘‘

’’اے بیٹا برے لوگوں سے پناہ مانگتے رہو اور جو اچھے ہیں ان کی صحبت اختیار کرو۔ دنیا میں نہ پھنسو اور اپنے دل کو اس میں نہ لگاؤ۔ کیونکہ تم دنیا کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔‘‘

’’اے بیٹا جو کوئی دوسروں پر رحم کرتا ہے، خود اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ جو خاموش رہتا ہے، امن میں رہتا ہے۔ جو اچھی بات کہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے، گنہگار ہے۔ جو زبان اپنے قابو میں نہیں رکھتا، وہ نادم ہوتا ہے۔ اے بیٹا! برگزیدہ علماء کی صحبت میں گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ اور ان کی خدمت میں خاموش بیٹھ کر ان کی باتیں سنو۔ اس لئے کہ علماء کے نور سے دل اس طرح زندہ ہوجاتا ہے جس طرح مردہ زمین آسمان کی بارش سے (زندہ) ہوجاتی ہے۔‘‘

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’اور ہم نے لقمان کو عقلمندی دی کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے۔ اور جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو اللہ تو بے نیازاور حمید ہے۔ اورلقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اے میرے پیارے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بلاشبہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔اے میرے پیارے بیٹے ! چاہے کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو اور وہ کسی چٹان میں یا آسمانوں میں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ اسے ضرور اپنے سامنے حاضر کریں گے۔ بے شک اللہ ہر چھپی سے چھپی چیز کو دیکھنے والا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔اے میرے پیارے بیٹے ! نماز قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور بری باتوں سے روک دے اور جو کچھ مصیبت تجھ پر پڑے سب کو جھیل بے شک ہمت کے کام یہی ہیں اور دیکھ لوگوں کے سامنے اپنا منہ مت پھلانا اور زمین پر اترا کر مت چلنا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کو اترانے والے اور خود اپنی بڑائی جتانے والے لوگ پسند نہیں ہیں۔ اور اعتدال کی چال چلنا اور اونچی آواز سے بات نہیں کرنا۔ بلاشبہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت12تا19)

شکر کا مفہوم ’’استعمال ‘‘ ہے

حضرت لقمان ؑ کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو علم نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ حضرت لقمان ؑ نے ایک ہزار برس کی عمر پائی۔ حضرت لقمان ؑ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جڑی بوٹیوں میں خاصیت کا علم عطا کیا تھا اور جڑی بوٹیاں انہیں اپنی اپنی خاصیت سے آگاہ کرتی تھیں۔ حضرت لقمان ؑ نے علمِ طب کی تدوین کی۔ دواؤں کی خاصیت اور ان کے استعمال کے طریقے بتائے۔ حضرت لقمان ؑ کے قصے سے اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ شکر کا مفہوم استعمال ہے اگر حضرت لقمان ؑ حکمت و دانائی کو استعمال نہیں کرتے اور لوگوں تک علم منتقل نہیں کرتے اور صرف زبان سے یا اللہ تیرا شکر یا اللہ تیرا شکر کرتے رہتے تو شکر کا تقاضہ پورا نہ ہوتا۔

مثال

اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین لباس عطا فرماتے ہیں اور آپ اسے الماری میں سجا کر رکھدیں، زیب تن نہ کریں تو شکر کا مفہوم پورا نہیں ہوگا۔ لباس کو پہنیں، آرام پائیں، خوش ہوں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہی شکر ہے۔حضرت لقمان ؑ کا بیٹا اور حضرت خضر ؑ 
حضرت لقمان ؑ سے کسی نے قرض لیا۔ بہت دنوں کے بعد اس شخص نے حضرت لقمان ؑ کو پیغام بھجوایا کہ مجھے کاروبار زندگی سے فرصت نہیں ہے اور کوئی معتبر آدمی ملتا نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ صاحب زادے کو بھیج دیجئے تاکہ میں قرض واپس کردوں۔ حضرت لقمان ؑ نے اپنے بیٹے کو قرض وصول کرنے کے لئے بھیج دیا۔ جاتے وقت بیٹے کو تین نصیحتیں کیں۔ فرمایا!

۱۔ پہلی منزل پر راستے میں ایک برگد کا درخت ہے اس کے نیچے نہیں سونا۔

۲

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان