Topics

حضرت ابراہیم علیہ السلام

ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی ولادت کسدیوں کے قدیم شہر ’’اور‘‘(UR) میں ہوئی جو جنوبی عراق میں فرات کے کنارے بابل اور نینوا سے پہلے آباد تھا محل وقوع کے اعتبار سے یہ مقام آج کل ’’تل العبید‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس ملک میں ستارہ پرستی کی جاتی تھی ارواح پرستی بھی ان کے عقائد میں شامل تھی اللہ پر ان کا اعتقاد تھا لیکن ستاروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتے تھے۔تین وقت ستاروں کی پوجا کی جاتی تھی اس قوم کا عقیدہ یہ تھا کہ ہرستارے میں ایک روح آباد ہے اور روحیں نیک یا بری ہوتی ہیں بری روحوں کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ نذر و نیاز، چڑھاوے اور بھینٹ دینے سے خوش ہوتی ہیں، نیک روحوں کو خوش کرنے کے لئے رقص وسرود اور گانا بجانا ان کا معمول تھا، بہت زیادہ معبود اور بت مندروں میں رکھے ہوئے تھے، روزی دینے، بارش برسانے، اولاد دینے، تندرستی عطا کرنے اور مختلف حاجات کے لئے الگ الگ بت تھے۔

برٹش میوزیم اور فلاڈلفیا یونیورسٹی امریکہ کے میوزیم کی مشترکہ ٹیم نے اس شہر کے آثار دریافت کئے ہیں، وہاں سے ملنے والے کتبات کے مطابق تقریباً پانچ ہزار بتوں کے نام ملے ہیں، ہر شہر کا محافظ ایک خدا تھا جو دوسرے معبودوں سے زیادہ محترم سمجھا جاتا تھا ’’اور‘‘ کا خدا چاند دیوتا تھا، شماش (سورج دیوتا) دار الحکومت کا محافظ بت تھا، بادشاہ کو سورج دیوتا کا بیٹا سمجھا جاتا تھا، لوگ اپنی آمدنی کے علاوہ غلہ اور دوسری چیزیں مندر میں نذر کرتے تھے، باغ، مکانات اور زمینیں مندر کے لئے وقف تھیں۔ پجاری کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے بادشاہ کی پرستش کی جاتی تھی اور دربار شاہی میں سجدہ کیا جاتا تھا (نعوذ باللہ)۔

حضرت ابراہیم ؑ کی ولادت سے پیشتر بادشاہ نمرود نے خواب دیکھا کہ’’ آسمان میں ایک بڑا اور روشن ستارہ چمک رہا ہے۔‘‘ شاہی نجومیوں نے تعبیر بتائی کہ مملکت میں اس سال ایسا بچہ پیدا ہوگا جو سلطنت کے لئے خطرہ بن جائے گا بادشاہ نے شاہی فرمان کے ذریعے ملک بھر میں عورت اور مرد کے اختلاط پر پابندی لگادی اور حکم جاری کیا کہ جو بھی بچہ پیدا ہو اُسے قتل کردیا جائے۔روایات کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کی والدہ ’’اوشہ‘‘ شہر سے باہر ایک غار میں روپوش ہوگئیں۔ وہیں حضرت ابراہیم ؑ کی ولادت ہوئی اور بچپن گزرا۔حضرت ابراہیم ؑ جب سن شعور کو پہنچے تو ہر طرف بت پرستی اور ستاروں کی پرستش ہورہی تھی، انہوں نے سوچا کہ پتھر کی مورتیاں میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور جس طرح اس کا دل چاہے ناک، کان، آنکھیں اور دیگر اعضاء تراش لیتا ہے پھر یہ بت مندروں میں چھوٹے سے اونچے چبوترے پر رکھ دئے جاتے ہیں جہاں بادشاہ اور ارباب اقتدار ان بے جان مورتیوں کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں انہیں سجدہ کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ اس بات سے بہت زیادہ فکر مند تھے کہ لوگ کیوں بے جان مورتیوں اور بے حس و حرکت مجسموں کی پرستش کرتے ہیں؟ اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نور فراست سے نوازا تھا۔ آپ ؑ جانتے تھے کہ بت سنتے نہیں، دیکھتے نہیں اور کسی کی بات کا جواب نہیں دیتے کسی کو نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

ایک روز حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی ماں سے پوچھا: ’’ماں تیرا خدا کون ہے؟‘‘

’’میرے بیٹے تیرا باپ میرا خدا ہے، جو مجھے کھانے کو دیتا ہے۔‘‘ ماں نے جواب دیا۔

’’میرے باپ کا خدا کون ہے؟‘‘ ماں کے جواب سے بیٹے کی تشفی نہیں ہوئی، ماں نے بتایا کہ ’’آسمان پر چمکنے والے ستارے تیرے باپ کے خدا ہیں۔‘‘ بیٹا اب بھی اپنی ماں کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا اس نے پھر پوچھا: ’’ماں ستارہ کون ہے۔‘‘

رات کی تاریکی

’’پھر جب رات کی تاریکی چھاگئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا، پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے ، سو جب وہ غروب ہوگیا تو فرمایا اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں، پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ ؑ نے فرمایا اے قوم ! بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں، میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(سورۃ انعام۔76تا79)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اوپر اپنے راستے کھول دیتے ہیں کے مصداق اللہ تعالیٰ نے مطالعہ فطرت میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس عمل کو اپنی جانب منسوب کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کے عجائبات دکھائے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔‘‘(سورۃ انعام۔آیت 75)

حضرت ابراہیم ؑ کے اندر تفکر کا پیٹرن متحرک تھا انہوں نے سوچا کہ جو شے اپنی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی، ہل جل نہیں سکتی اس سے یہ امید وابستہ کرنا کہ یہ مجھے فائدہ پہنچائے گی یا کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ وقت کا ضیاع ہے حضرت ابراہیم ؑ خود ساختہ بتوں کو کسی بھی طرح پرستش کے لائق نہیں سمجھتے تھے وہ تفکر کرتے تھے کہ اتنی بڑی کائنات کا نظام کیسے چل رہا ہے؟ ہر شے ایک قاعدے اور ضابطے کے ساتھ حرکت میں ہے کون ہے جو مقررہ وقت پر دن طلوع کردیتا ہے؟ کون ہے جو دن کے اجالے کو رات کی تاریکی میں بدل دیتا ہے؟ وہ ہستی کون ہے جو درختوں پر پھل پھول اگاتی ہے؟ کون ہے جو بارش برساتا ہے؟ زمین کی کوکھ سے کھیتیاں اگاتا ہے؟ قادر اور محیط ذات کون ہے جس کے اشاروں پر کائنات کا ہر فرد، کائنات کا ہر جزاور ذرہ اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک ہے؟
یہ کیسا مستحکم نظام ہے کہ کہیں بھی اختلاف واقع نہیں ہوتا اور کوئی نظام دوسرے نظام سے ٹکراتا نہیں ۔

سوال جواب

آذر کو جب پتہ چلا کہ ابراہیم ؑ ستاروں کی پرستش اور خود ساختہ خداؤں کے خلاف جذبات رکھتا ہے تو اس نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا: ’’ابراہیم ؑ کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے جواب میں استفسار کیا:

’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے نہ کام آئے تیر ے کچھ۔‘‘

(سورۃ مریم۔آیت42)

’’بت تراش‘‘ آذر حضرت ابراہیم ؑ کا سوال سن کر سہم گیا اور حیرت اور استعجاب سے انہیں دیکھنے لگا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دوبارہ استفسار پر آذر نے یہ کہا کہ یہ میرے آباؤ و اجداد کا راستہ ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے کہا:

’’ اے میرے باپ! مجھے ایسی بات کا علم ہوگیا ہے جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے، ہدایت و بھلائی کی طرف آئیے اور شیطان کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ دیجئے، یہ صریح گمراہی ہے۔‘‘

آذر نے یہ سنا تو غضب ناک ہوکر بولا: ابراہیم میرے معبودوں کا انکار نہ کر یاد رکھ! اگر تو ان باتوں سے باز نہیں آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ وحدہ لاشریک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا:

میں صرف اس ہستی کو معبود مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ جو مجھے کھلاتا، پلاتا اور رزق دیتا ہے اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور جو میری زیست اور موت دونوں کا مالک ہے اور اپنی خطاکاری کے سبب جس سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بخش دیگا اور میں اس کے حضور میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ! مجھ کو فیصلے کی قوت عطا کر اور مجھے نیکوکاروں کی صف میں داخل کر۔(الشعراء۔آیت 78تا83)

حضرت ابراہیم ؑ کی جرات بے باکانہ سے آذر کو شدید دھچکا لگا اور غصے سے ہذیان بکنے لگا۔ اس نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہا:
’’
تیری خیر اسی میں ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا۔‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے کہا:

’’میں اپنے اللہ سے آپ کی بخشش کی دعاکرونگا وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے میں آپ کو اور ان بتوں کو جن کو آپ پوجتے ہیں چھوڑ کر اپنے اللہ کو پکارتا ہوں جو مجھے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘

ایک روز حضرت ابراہیم ؑ نے قوم کے دانشمندوں کو جمع کیا اور ان سے چند سوالات کئے۔ آپؑ نے ان سے پوچھا:

’’تمہارے عقیدے کے مطابق ستارے کو اگر ربوبیت کی قدرت حاصل ہے تو ستاروں میں تغیر کیوں ہوتا ہے؟ یہ جس طرح چمکتے نظر آتے ہیں اسی طرح چمکتے کیوں نہیں رہتے؟ ستاروں کی روشنی کو مہتاب نے کیوں ماند کردیا ہے؟ اور مہتاب کے رخ روشن کو آفتاب نے کیوں چھپا دیا ہے؟‘‘

اے قوم! میں ان مشرکانہ عقائد سے عاجز ہوں اور شرک کی زندگی سے بیزار ہوں بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اس ایک اللہ کی طرف کرلیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔

(سورہ انعام۔ 78تا79)

ستارہ پرست اور بت پرست قوم حیران تھی کہ اس روشن دلیل کا کیا جواب دے؟ صدیوں سے باطل خداؤں پر یقین اس قدر پختہ ہوگیا تھا کہ حقیقت کی روشنی ان کے اندر داخل نہیں ہوتی تھی، وہ جھگڑنے لگے اور حضرت ابراہیم ؑ کو فرضی معبودوں کے قہر و غضب اور انتقام سے ڈرانے لگے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی عقل و شعور پر پڑے ہوئے پردوں کو دیکھ کر فرمایا:

’’تمہارے پاس گمراہی کے سوا کوئی روشنی موجود نہیں ہے مجھے تمہارے معبودوں کی ذرّہ برابر پروا نہیں۔ میرا رب جو چاہے گا وہی ظہور میں آئے گا لکڑی اور پتھر سے تراشے ہوئے بت خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو دوسروں کی حفاظت کس طرح کرسکتے ہیں؟‘‘
شہر کے باہر ایک مذہبی تہوار میں شہر کی آبادی شریک ہوئی، حضرت ابراہیم ؑ بڑے دیوتا کے ہیکل میں چلے گئے، قوم کا سب سے مقدس دیوتا باطل خداؤں کا سردار مانا جاتا تھا حضرت ابراہیم ؑ نے دیکھا کہ وہاں موجود پتھر اور لکڑی سے بنائے گئے دیوتاؤں کے سامنے پھل، کھانوں اور مٹھائیوں کے خوان رکھے ہوئے تھے جو لوگوں نے چڑھاوے کے طور پر نذر کئے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان مورتیوں کو مخاطب کرکے کہا:
’’
یہ سب تمہارے لئے رکھا ہے تم کھاتے کیوں نہیں؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے دوبارہ فرمایا:

’’میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے ہتھوڑے سے ان کو توڑ دیا اور بڑے بت کے کندھے پر ہتھوڑا رکھ کر واپس چلے گئے۔ لوگ تہوار سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے لکڑی اور پتھر سے بنائے ہوئے معبود منہ کے بل زمین پر گرے ہوئے ہیں۔ کسی کا سر غائب ہے تو کسی کی ٹانگ نہیں ہے اور کسی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اپنے معبودوں کی یہ درگت دیکھ کر کاہن اور سردار بدحواس ہوگئے اور چیخ و پکار آہ و بکا سے پورا ہیکل لرز گیا کچھ لوگوں نے کہا ہم نے ابراہیم ؑ کی زبانی بتوں کو برا بھلا کہتے سنا ہے، ہو نہ ہو یہ بے ادبی اسی نے کی ہے۔
بادشاہ وقت نمرود تک جب بات پہنچی تو اس نے کاہنوں اور درباریوں کو جمع کیا اور ان کی موجودگی میں حضرت ابراہیم ؑ کو دربار میں طلب کیا۔ دربار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ رعب اور وقار کے ساتھ دربار میں داخل ہوئے اور شاہی پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے نمرود کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

حضرت ابراہیم ؑ کا یہ عمل جہاں صاحب اقتدار لوگوں اور خود نمرود پر بجلی بن کر گرا وہیں اس عمل سے عوام الناس کے دلوں میں حضرت ابراہیم ؑ کی جرات اور حوصلے کی دھاک بیٹھ گئی۔ مذہبی پیشواؤں نے پر رعب آواز میں پوچھا:

’’اے ابراہیم ؑ ! ہمارے بتوں کی توہین کس نے کی ہے؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے جواب میں فرمایا۔

’’ہتھوڑا بڑے بت کے کندھے پر ہے اس سے پوچھو کہ یہ سب کس نے کیا ہے؟‘‘

پجاری ندامت اور شرمندگی سے سرجھکا کر بولے:

’’ابراہیم ! تو خوب جانتا ہے کہ پتھر کی مورتیاں بولتی نہیں ہیں۔‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا:

’’جب یہ بولتے نہیں، حرکت نہیں کرسکتے، اپنا دفاع نہیں کرسکتے، تو تم ان سے نفع پہنچانے کی امید کیوں رکھتے ہو؟ اور نقصان ہونے کا اندیشہ کیوں کرتے ہو؟ تم پر افسوس ہے کہ تم کائنات کے مالک اللہ کو چھوڑ کر جھوٹے معبودوں کو پوجتے ہو کیا تم عقل و شعور نہیں رکھتے؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ کی تقریر بت پرستوں کے عقائد پر ایسی کاری ضرب تھی کہ نمرود نے اپنی خود ساختہ خدائی کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ نمرود چالاک آدمی تھا اس نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا:

’’اے ابراہیم! تواپنے باپ، دادا کے دین کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟توان مقدس بتوں کومعبود ماننے سے کیوں منکر ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ ساری کائنات کے تنہا مالک ہیں ہم سب اس کی مخلوق ہیں، پتھروں اور لکڑیوں سے بنائے ہوئے بت خدا نہیں ہیں یہ تو اپنی سلامتی اور حفاظت کے لئے بھی دوسروں کے محتاج ہیں پرستش کے لائق وہ ہستی ہے جو کسی قسم کی احتیاج نہیں رکھتی اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے۔‘‘

یہ سن کر نمرود بولا’’اگر میرے علاوہ کوئی رب ہے تو اس کا ایسا وصف بیان کر جس کی قدرت مجھ میں نہ ہو۔‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا:

’’میرا رب موت و حیات پر قادر ہے۔‘‘

نمرود بولا:

’’زندگی اور موت تو میرے قبضۂ قدرت میں بھی ہے۔‘‘

اس نے ایک قیدی کو جس کی موت کی سزا کا حکم ہوچکا تھا، جان بخشی کردی اور دربار میں موجود ایک شخص کی گردن ماردینے کا حکم صادر کردیا۔

حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود سے کہا:

’’کائنات کا ہر ذرّہ میرے رب کا محتاج ہے۔ سورج اس کے حکم سے ہر روز مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے۔ تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔‘‘

مذہبی پیشواؤں اور بادشاہ کے عقائد کی تکذیب نے ایوان نمرود میں دراڑیں ڈال دیں ارباب اقتدار نے شور و غوغا بلند کیا کہ ابراہیم ؑ ہمارے دیوتاؤں کی توہین کا مرتکب ہوا ہے اور باپ دادا کے مذہب کو جھٹلاتا ہے اس کی سزا یہ ہے کہ اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔
سزا پر عمل درآمد کے لئے ایک جگہ بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا۔ کئی روز تک آگ کو دہکایا گیا یہاں تک کہ آگ کی تپش سے ارد گرد موجود چیزیں خاکستر ہوگئیں، پرندوں نے ہوا میں اڑنا چھوڑ دیا، آس پاس کے درخت جھلس کر کوئلہ بن گئے، پھر حضرت ابراہیم ؑ کو ایک منجنیق میں رکھ کر آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔ابلیسی طرز فکر کے حامل لوگوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال دیا۔ لیکن خالق کائنات نے حکم دیا:

’’اے آگ ! ٹھنڈی ہوجا سلامتی کے ساتھ ابراہیم پر۔‘‘(سورۃ الانبیاء۔آیت69) 

اور آگ حضرت ابراہیم ؑ کے لئے گلزار بن گئی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کو ہجرت کا حکم ہوا اور وہ شام کی طرف ہجرت کرگئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ ہجرت کے وقت آپؑ کے ہمراہ تھے۔ ملک شام وہ بابرکت زمین ہے جس کا وعدہ آپ ؑ سے اور آپ ؑ کی اولاد سے کیا گیا تھا اس لئے اسے ’’وعدہ کی زمین‘‘ بھی کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہا کہ اپنی آنکھ اٹھا (آنکھیں کھول) اور جس جگہ تو ہے وہاں سے شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب کی طرف نگاہ کرکیونکہ یہ تمام ملک جو تو دیکھ رہا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو دونگا اور میں تیری نسل کو خاک کے ذروں کی مانند بناؤں گا ایسا کہ اگر کوئی شخص خاک کے ذروں کو گن سکے تو تیری نسل بھی گن لی جائے ۔ اٹھ! اور اس ملک کے طول و عرض میں سیر کر کیونکہ میں اسے تجھے دوں گا اور حضرت ابراہیم ؑ نے اپنا ڈیرہ اٹھالیا اور حبرون میں جاکر رہنے لگا اور وہاں اللہ تعالیٰ کے لئے ایک قربان گاہ بنائی۔(عہد نامہ قدیم و جدید۔ کتاب باب پیدائش۔ باب ۱۳۔ آیت ۱۴۔ ۱۸)
حام بن نوح کی اولاد میں سے بنی کنعان کے لوگ اس علاقے میں آباد تھے، اس بنا پر یہ علاقہ کنعان کہلاتا تھا۔ آپ ؑ نے یہاں دومقامات پر قربان گاہ بنوائیں ان میں سے ایک ’’سکم‘‘ (موجودہ بابلس) کے مقام پر تھی اور دوسری قربان گاہ ’’بیت ایل‘‘ میں تعمیر کی گئی۔ روایات کے مطابق شام کے بادشاہ کی لڑکی سے آپؑ کی شادی ہوگئی اور جب کنعان کے پورے علاقے میں زبردست قحط پڑا تو حضرت ابراہیم ؑ نے قریبی زرعی ملک مصرکی طرف ہجرت کی۔ مصر میں ہیکسوس فراعنہ کا دور تھا، پیشہ کے اعتبار سے یہ چرواہے تھے اور سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ سامی بادشاہ کو جب ایک سامی النسل خاندان کے آمد کی خبر ملی تو اس نے بہت آؤ بھگت کی اور اپنے قدیم خاندان سے تعلق استوار کرنے کے لئے بی بی سارہ سے نکاح کا پیغام دیا۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ بی بی سارہ شادی شدہ ہیں تو اسے افسوس ہوا اور اس نے اپنی بیٹی ہاجرہ حضرت ابراہیم ؑ کی خدمت میں پیش کرکے تعلق استوار کرلیا اور بہت سارا مال و مویشی آپ ؑ کے ہمراہ کردئیے۔

حضرت ابراہیم ؑ ۸۵ سال کے تھے لیکن ابھی تک لاولد تھے۔ 

حضرت ابراہیم ؑ نے بارگاہ رب العزت میں صاحب اولاد ہونے کی دعا کی:

’’اے میرے رب! بخش مجھ کو کوئی نیک بیٹا۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔آیت100)

اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔

اشموئیل

’’              پھر ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔آیت 101)

حضرت ہاجرہ ؑ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا، حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کا نام عبرانی زبان میں اشموئیل رکھا جو بعد میں کثرت استعمال سے اسمٰعیل ہوگیا۔ حضرت اسمٰعیل ؑ سے حضرت ابراہیم ؑ کو بہت پیار تھا وہ ذراسی دیر کیلئے بھی انہیں نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے، گود میں لئے رہتے تھے اور اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے۔

یاد گار عمل

حضرت ابراہیم ؑ کی عمر ۹۹ سال تھی۔ آپ ؑ کو خواب میں حکم ملا کہ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں انہوں نے یہ خواب اپنے لخت جگر کو سنایا، حضرت اسمٰعیل ؑ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں سرجھکادیا۔اس وقت ان کی عمر ۱۴ برس تھی۔تاریخ شاہد ہے کہ تسلیم و رضا، تابعداری اور فرماں برداری کا یہ عملی نمونہ اُمت مسلمہ کیلئے یادگار بنادیاگیا ہے۔جس وقت قربانی کا حکم ملا اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی اور کوئی اولا د نہیں تھی حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کا عملی اقدام بارگاہ رب العزت میں قبول ہوا۔
’’
اور ہم نے ندا (آواز) دی کہ اے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ،یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی۔‘‘ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کیلئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناًوہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور ہم نے اسے اسحٰق کی بشارت دی ایک نبی صالحین میں سے۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔آیت 105تا112)

آیت مقدسہ میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ آزمائش میں جب پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا قربانی کی سنت نہ صرف یہ کہ رہتی دنیا میں جاری کردی گئی بلکہ اکلوتے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے لئے قربان کردینے کا جذبہ اس قدر پسند آیا کہ دوسرے بیٹے کی ولادت اور منصب نبوت پر سرفرازی کی خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ نے دی۔

تکوین
حضرت اسحٰقؑ حضرت ابراہیم ؑ کے دوسرے فرزند اور حضرت اسمٰعیل ؑ کے چھوٹے بھائی ہیں، حضرت اسحٰقؑ کی پیدائش کی خوشخبری جس وقت حضرت ابراہیم ؑ کو سنائی گئی اس وقت آپ کی عمر سو سال تھی اور حضرت سارہؓ کی عمر نوے (۹۰) سال تھی۔ قرآن پاک میں بشارت سے متعلق واقعہ کی تفصیل یہ ہے۔حضرت لوطؑ کی قوم پر عذاب نازل کر نے کے لئے فرشتوں کی جماعت سدوم جانے سے قبل حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئی۔ حضرت ابراہیم ؑ نہایت سخی اور مہمان نواز تھے انہوں نے آنے والوں کے لئے دسترخوان پر بھنا ہوا گوشت رکھا لیکن مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا حضرت ابراہیم ؑ کو فکر ہوئی کہ یہ کون لوگ ہیں؟

فرشتوں نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ قوم لوط ؑ پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں پھر انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی حضرت سارہؓ کو حضرت اسحٰق کی پیدائش کی بشارت دی۔ فرشتوں کی زبانی بشارت سن کر انہیں حیرت ہوئی کہ آخری عمر میں بانجھ عورت کے اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حضرت سارہؓ کی حیرت دیکھ کر فرشتوں نے کہا:

’’وہ بولے یوں ہی تیرے رب نے کہا وہ جو ہے وہی ہے حکمت والا خبردار۔‘‘

( سورۃالذٰرےٰت۔آیت30)

اسحٰق اصل تلفظ کے اعتبار سے یضحق ہے یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ہنستا ہوا‘‘۔

مکفیلہ

حضرت ابراہیم ؑ نے تین شادیاں کیں پہلی بیوی حضرت سارہؓ سے حضرت اسحاق ؑ پیدا ہوئے۔حضرت اسحاق ؑ بنی اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں۔انبیائے بنی اسرائیل کا سلسلہ حضرت اسحاق ؑ سے قائم ہوا دوسری بیوی حضرت ہاجرہؓ سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے ۔خاتم النبین حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیل ؑ سے ملتا ہے۔

حضرت سارہؓ نے کنعان (جبرون) میں 127 سال کی عمر میں وفات پائی حضرت ابراہیم ؑ نے حُطّی قوم کے ایک فرد عفرون بن صحر سے مکفیلہ نامی غار اور اس سے متصل کھیت چاندی کے چار سو مثقال میں خریدا اور اپنی بیوی سارہؓ کو اس میں دفن کردیا۔حضرت سارہؓ کی وفات کے بعد تیسری بیوی حضرت قطورہؓ حضرت ابراہیم ؑ کی زوجیت میں داخل ہوئیں ۔حضرت

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان