Topics

تعارفی تقریب۔I

روحانی مشن’’

 

آپ کے پہلے روز کے پروگرام میں سلسلہ کے افراد سے تعارف اور شام کے وقت کوئٹہ کی مشہور ہنہ جھیل کی سیر اور وہاں ایک علمی نشست شامل تھی۔ جہاز کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے اس وقت صرف سلسلہ کی بہنوں سے تعارف ممکن ہوا۔ مرشد کریم نے فرمایا کہ ’’ہمارا یہ مشن انبیاء کرام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن ہے اور اولیاء کرامؒ کا مشن ہے۔ لیکن اس کام اور طرز فکر کو عالم اسلام میں اس طرح فراموش کر دیا گی اہے کہ اگر روحانی علوم کا ذکر کیا جاتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ روحانیت کیا ہے؟ حالانکہ روحانی علوم ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اللہ تعالیٰ سے اس کا کیا تعلق ہے؟ جب اسلام میں روحانیت کی اہمیت کم ہوئی اور تفرقہ بازی کا دخل زیادہ ہوا تو مسلمان قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔ مسلمان قوم غیر مسلم اقوام کی غلام بن گئی ہے۔ رسول پاکﷺ کے مشن کو فروغ دینے کیلئے اور ساری دنیا میں توحید کا پرچار کرنے کے لئے اللہ نے ہمارے اوپر ذمہ داری ڈالی ہے۔ ہم سب ایک ٹیم کی طرح ہیں۔ جس طرح ایک مشین میں تمام چھوٹے بڑے پرزے اہم ہوتے ہیں۔ چھپائی کی مشین میں ہزاروں من وزنی رولر کو روکنے کیلئے آدھی چھٹانک کی ایک پن لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح قافلے میں بھی تمام قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور سالار قافلہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ٹیم ورک میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ ہر فرد کے کام کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ اللہ نے بھی اپنا نظام ٹیم ورک پر تشکیل دیا ہے۔ انبیاء، اولیاء، فرشتے، سورج، چاند، ستارے، بارش، کھیتی اور تمام مخلوق کے افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

یوں آپ نے ٹیم ورک کی اہمیت و افادیت سمجھائی اور متحد ہو کر مشن کے لئے کام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے سب کا شکریہ ادا کیا۔

اور فرمایا:

’’میں آپ سب کی محبت اور قابل قدر کوشش دیکھ کر اور آپ سب کے درمیان خود کو پا کر بہت خوش ہوں۔‘‘

تقریباً 4بجے اراکین سلسلہ عظیمیہ مرشد کریم کے ہمراہ ہنہ جھیل روانہ ہوئے۔ ہنہ جھیل کوئٹہ سے شمال مشرق میں 10کلومیٹر پر واقع ہے۔ کوئٹہ چھاؤنی کے صاف، سرسبز اور خوبصورت علاقے سے گزرتے ہوئے آپ نے یہاں لگے ہوئے گلاب کے پودوں کی بہت تعریف کی۔ موسم بہار میں گلاب کے رنگ برنگ پھول ماحول کو خوشگوار اور رنگین بنائے ہوئے تھے بلامبالغہ کوئٹہ کینٹ کو وادی گلاب کہا جا سکتا ہے۔ جہاں ہزاروں انگلش قلمی گلاب کے پودے لگائے گئے ہیں۔ کینٹ کے آخر میں ہم کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے پاس سے گزرتے ہوئے ہنہ کی جانب بڑھے۔ میں نے آپ کو پاکستان آرمی کے اس قابل فخر پیشہ ورانہ کالج کا تعارف کرایا جو کہ آفیسرز کی تربیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا معیار تربیت اتنا بلند ہے کہ دوست اسلامی و افریقی ممالک کے علاوہ یورپ کے آفیسرز بھی تربیت کے لئے یہاں آتے ہیں۔

وادئ ہنہ اُوڑک

 

وادئ ہنہ اوڑک کوئٹہ کی خوبصورت تفریح گاہ ہے۔ پھلوں کے باغات میں قدرتی چشموں کا بہتا پانی علاقہ کو قدرتی حسن بخشے ہوئے ہے جو سیاحوں کیلئے بہت کشش رکھتا ہے۔ وادی اوڑک کوئٹہ سے 21کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سیب کے باغات علاقے کے لوگوں کی اس محنت و جفاکشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو انہوں نے پتھریلی زمین کو باغات کے لئے موزوں بنانے کے سلسلے میں کی ہے۔ وادی اوڑک کا اصل حسن ڈیم سے آگے ’’ولی تنگی‘‘ کا علاقہ ہے جہاں پہاڑی راستے میں پتھریلی سڑک پر جیپ سفر کا واحد ذریعہ ہے۔ ولی تنگی میں چشموں اور برف کا پانی ایک بڑی جھیل میں جمع کیا جاتا ہے۔ اور یہاں سے سپن کاریز کی جھیل، اوڑک کے باغات اور کینٹ میں آبنوشی کیلئے پانی تقسیم کیا جاتا ہے۔ موسم گرما میں بھی یہ صاف و شفاف پانی نہایت ٹھنڈا اور شیریں ہوتا ہے۔

پھلوں کی اقسام کے لحاظ سے کوئٹہ کو بجا طور پر ’’فروٹ باسکٹ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان پھلوں میں سیب اور انگور کی اقسام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دنیا کا بہترین شیریں اور خستہ سیب ’’طورکلو‘‘ یہاں پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح انگور، چیری، آڑو، خوبانی، انار، خربوزہ، گرما، سردا، آلوبخارا، آلوچہ اور تربوز تازہ پھلوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جبکہ خشک میوہ جات میں پستہ، بادام، کشمش، انجیر وغیرہ شامل ہیں۔ صرف کوئٹہ میں تازہ پھلوں کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ ٹن ہے۔

ہنہ جھیل آبی گزرگاہ کو بند باندھ کر آبپاشی کے مقصد کے لئے بنائی گئی تھی۔ جو اب تفریحی مقام میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کوئٹہ کے شمال مشرقی پہاڑی سلسلوں سے بارش اور چشموں کا پانی یہاں جمع ہوتا ہے۔

ہم تھوڑی دیر میں ہنہ جھیل پہنچ گئے اور جھیل کے عقب میں پہاڑوں کے درمیان نشیب و فراز سے گزرنے والے راستے کو اختیار کیا جو ریسٹ ہاؤس پہنچنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہاں پہاڑوں پر بے شمار درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ علاقہ نہایت خوبصورت ہے۔ افریقی قبائل کی طرز پر تعمیر کردہ خوبصورت ریسٹ ہاؤس ہماری منزل تھا۔ اس کی گول مخروطی چھتیں جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں اور باہر دیواروں پر بانس کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ جو جنگل کی طرز معاشرت کو ظاہر کرتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کی بڑی اور روشن کھڑکیوں سے نیلگوں جھیل اور سرخی مائل پہاڑ نہایت بھلا منظر پیش کر رہے تھے۔ مرشد کریم نے اس جگہ کو بہت پسند فرمایا۔

مراقبہ ہال کوئٹہ کی سالگرہ کی مناسبت سے چائے کا پرتکلف اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک سال اتنی تیزی سے گزر گیا کہ پتہ ہی نہ چلا۔ مرشد کریم نے فرمایا وقت فکشن ہے۔ قرآن کریم میں روز قیامت کا ذکر ہے۔ جس میں وہ پوری دنیاوی زندگی کو دو تین دن ہی خیال کرے گا۔ روحانیت میں جب حواس کی وسعت بڑھ جاتی ہے۔ تو سالک بتدریج زماں و مکاں سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس لمحہ حقیقی کا ادراک کر لیتا ہے۔ جو ہے تو ایک لمحہ لیکن ازل تا ابد محیط ہے۔


چشم ماروشن دل ماشاد

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔