Topics

تصور شیخ

سوال: تصوف میں تصور شیخ کے مراقبہ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ تصور شیخ کرنے والے بندے کو اس عمل سے کیا روحانی فائدہ پہنچتا ہے؟ تصوف کے آئینے میں اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: ہم جب اپنے شیخ کا تصور کرتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ شیخ کے اندر کام کرنے والی لہریں ہمارے دماغ کے اوپر منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے تصور میں انہماک بڑھتا ہے اسی مناسبت سے لہروں کی منتقلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک بات یہاں بہت زیادہ غور طلب ہے کہ جب ہم شیخ کا تصور کرتے ہیں تو ہماری نیت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں شیخ کا وہ علم حاصل ہو جائے جس علم سے اللہ تعالیٰ کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ نیت کے اوپر ہر عمل کا دارومدار ہے جب ہم اس نیت کے ساتھ تصور کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا وہ علم حاصل ہو جائے جو ہمارے شیخ کو حاصل ہے تو نتیجہ میں شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ لہریں جن سے اس نے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کیا ہے ہمارے اندر منتقل ہو جاتی ہیں۔ شروع شروع میں لہروں کی منتقلی سے ہمارے دماغ کی صفائی ہوتی ہے۔ صفائی ہونے کے بعد وہ علوم جن کا دارومدار بے یقینی اور شک پر ہے ذہن سے نکلتے ہیں اور بالآخر ذہن پاک صاف اور آئینہ کی طرح شفاف ہو جاتا ہے۔ اب وہ علم منتقل ہونا شروع ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’تم ہماری بصارت سے دیکھتے ہو، ہماری سماعت سے سنتے ہو اور ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔‘‘

مراقبہ کرنے سے پہلے جن چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ یہ ہیں۔ ذہن منتشر خیالات سے آزاد ہو۔ نشست ایسی ہو کہ جس میں جسم اور اعصاب کے اوپر بوجھ اور وزن محسوس نہ ہو۔ ماحول ایسا ہو جیسا کہ سونے کے لئے موزوں ہوتا ہے یعنی اندھیرا ہو اور شوروغل نہ ہو۔ اس مخصوص ماحول میں آرام سے بیٹھنے کے بعدبہت آہستہ آہستہ اور گہرے سانس لینے کے بعد سینے میں رو کے بغیر منہ کے راستے آہستہ آہستہ خارج کرنے چاہئیں۔ اس طرح گہرائی میں سانس لینے سے ذہن بڑی حد تک یکسو ہو جاتا ہے جب ذہن یکسو ہو جائے تو تصور شیخ کیا جائے۔ تصور شیخ سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے یہ دیکھا جائے کہ شیخ ہمارے سامنے بیٹھا ہے اور شیخ کی شکل و صورت ایسی ہے۔ تصور سے مراد یہ ہے کہ ذہن کو شیخ کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔ اگر ذہن میں یہ بات ہے کہ شیخ کی صورت ایسی ہے، ناک ایسی ہے، آنکھیں ایسی ہیں وغیرہ وغیرہ تو ذہن چونکہ دیکھنے میں مصروف ہو گیا اس لئے یکسو نہیں ہوا۔ آدمی جیسے بے خیال ہو جاتا ہے اس طرح ذہنی طور پر بے خیال ہو جائے۔



توجیہات

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔