Topics

باضمیرلوگ

حضرت حمزہ  ؓ

ایک دن کچھ لوگ ابوجہل کے اکسانے پرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پتھر مار رہے تھے۔ تو ایک شخص حضرت حمزہؓ کے پاس پہنچا۔حضرت حمزہؓ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا تھے اور مشہورپہلوان تھے۔ (آپؓ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔) حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آرہے تھے۔ اس شخص نے آواز دے کر کہا:

اے حمزہؓ!تیری غیرت کو کیا ہوا؟ لوگ تیرے بھتیجے کو پتھر ماریں، برا کہیں اور گالیاں دیں۔ لوگ تجھے بہادر اور شہزور کہتے ہیں۔

حضرت حمزہ  ؓکو اس وقت تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب انہوں نے یہ سنا کہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پتھر مارتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دشنام بھی دیتے ہیں تو ان کی حالت دگرگوں ہوگئی اور انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ میرے بھتیجے کوجو دشنام دیئے جاتے ہیں وہ کیا ہیں؟ اس شخص نے چندایسے الفاظ دہرائے جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن ان کے لئے استعمال کرتے تھے توحضرت حمزہ  ؓ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔

عرب زبان سے نکلی ہوئی ہربات کو انتہائی اہمیت اور وقعت دیتے تھے۔ عرب قبائل میں دشنام گوئی کرتے وقت قریبی رشتہ دار کا نام لینا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا تھا۔ کسی قبیلے کے کسی فرد کو برا کہنا ایسا تھا جیسے پورے قبیلے کی توہین کی گئی ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قبیلے کے تما م ارکان آپس میں خون کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں۔  حضرت حمزہؓ اسی حالت میں ابوجہل کے گھر گئے۔ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پتھر پھینکنے والوں اور انہیں دشنا م دینے والوں کا سرغنہ ابوجہل ہے۔ وہا ں پہنچ کر ابوجہل کی بری طرح پٹائی کردی اور کہا:

اے ابوجہل! تو سمجھتا ہے کہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)بے آسرا ہیں اور ان کا کوئی نہیں اس لئے تو پتھر مارتاہے اور گالیاں دیتا ہے۔ لیکن اب تو یہ جان لے کہ میں آج سے محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دین میں داخل ہوگیا ہوں اور آج کے بعد کوئی بھی محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو گالی دے گا تواس کی خیر نہیں۔

حضرت حمزہؓ   کا مسلمان ہوجانا اسلام کے لئے بڑا خوش آئند ہوا اور اس سے مسلمانوں کو تقویت پہنچی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے کے بعد کچھ اور لوگ بھی مسلمان ہوگئے اور یوں مسلمانوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہوگئی۔

حضرت عمرفاروق  ؓ

مکہ میں رہنے والے اور خاص طور پر قبیلہ قریش کے افراد اسلام کو پھیلتا دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے دارالندوۃ میں جمع ہوکر مشورہ کرنا شروع کردیا کہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے دین کو (نعوذ باللہ) کس طرح ختم کیاجاسکتاہے۔ لیکن وہ لوگ مذاکرات سے کوئی خاص نتیجہ اخذ نہ کرسکے۔ جب دارالندوۃ کا اجلاس ختم ہوا تو عمر بن خطاب نے اعلان کیا:

میں خودہی محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو قتل کرکے اہلِ مکہ کو اس مشکل سے نجات دلادوں گا۔

راستے میں حضرت نعیمؓ بن عبداللہ نے عمر کو تیز تیزقدموں سے جاتے دیکھا توپوچھا: ”اے عمر! کہاں جارہے ہو؟

عمر نے کہا:

کسی نے ہمارے اجداد کی اتنی توہین نہیں کی جتنی محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) نے کی ہے۔ اس شخص نے اپنے نئے دین کی وجہ سے تمام اہلِ مکہ کا چین و آرام حرام کردیا ہے۔ ہمارے بزرگوں کے دین کو باطل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں اپنے معبودوں کی پرستش چھوڑ دینی چاہیئے۔ میں جارہا ہوں تاکہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا قصہئ تمام کردوں۔

حضرت نعیم ؓ نے کہا:

عمر تمہارے دو قریبی عزیز بھی مسلمان ہیں۔ ان میں سے ایک تمہاری بہن فاطمہ  ؓ اور دوسرا اس کا شوہر سعیدؓ بن زیدہیں۔۔

یہ خبر سن کر عمر کے اوسان خطا ہوگئے۔ آگے بڑھنے کے بجائے اپنے بہنوئی کے گھر کا رُخ کیا۔

 جب عمر گھرمیں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھاکہ ان کی بہن حضرت فاطمہ ؓ، ان کے شوہر حضرت سعیدؓ بن زید اور ایک دوسرے مسلمان حضرت خباب ؓ  قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں۔ عمر غصہ میں لال ہوگئے اور اپنی بہن اور ان کے خاوند کو اتنا زدو و کوب کیا کہ ان کے جسم سے خون بہنے لگا۔ عمر نے اپنی بہن کو حکم دیاکہ محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)کادین چھوڑدے۔

حضرت فاطمہ ؓ نے کہا:

اگرتم اتنے کوڑے مارو کہ میری جان نکل جائے پھر بھی میں حضرت محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دین کو نہیں چھوڑوں گی اور اگر تم بھی قرآن کی تلاوت کرو تو جان جاؤ گے کہ یہ دین سچا اور برحق ہے۔

عمر نے اپنی بہن سے کہا مجھے بھی قرآن سناؤ۔ عمر کی بہن نے سورۃ طہٰ کی چند آیات  (1تا10)آیتیں سنائیں۔

حضرت عمر  ؓ قرآن سن کر غوروفکر میں ڈوب گئے اور کہا:

مجھے محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے پاس لے چلومیں بھی مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔

حضرت خبابؓ نے کہا:

اے عمر! خوش ہوجاؤ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا تمہارے حق میں قبول ہوگئی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعافرمائی تھی:

اے قادرِ مطلق! میرا کام کوشش کرناہے اور کامیابی دینا آپ کا کام ہے۔ اسلام کے دو بدترین دشمنوں عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابوجہل) میں سے کسی ایک کو نورِ ایمان عطافرمائیں،تاکہ کمزور مسلمانوں کوہمت حاصل ہو۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت دارِ ارقم میں اپنے جان نثاروں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ دار ارقم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک صحابیؓنے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر ؓبن خطاب نظرآئے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کواطلاع دی گئی۔ حضرت امیر حمزہ ؓ نے جو تین دن قبل ایمان لائے تھے، کہا:

دروازہ کھول دو اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے اور اگر برے ارادے سے آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کردیں گے۔“حضرت عمر ؓنے اسلام قبول کرلیا اور خوشی میں صحابہ کرام ؓ نے اتنی زور سے نعرہ لگایا کہ اسکی آواز مسجد الحرام تک پہنچی۔

حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں:

جب حضرت عمرؓ    مسلمان ہوئے تو جبرائیل امین بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے پر آسمان کے سارے رہنے والوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا ہے۔

حضرت عمر ؓ نے مسلمانوں کی دوصفیں بنائیں ایک میں حضرت حمزہؓ اورایک میں حضرت عمر ؓ تھے۔ سب لوگ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زیرِ سایہ مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوئے۔حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ کے ساتھ پیغمبرِ اسلام اور ان کے ساتھیوں کو دیکھا تو قریش میں کہرام مچ گیا۔ اس موقع پر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عمرؓ     کو”فاروق“(حق وباطل میں فرق کرنے والا) کے لقب سے نوازا۔

حضرت عمر ؓ اس کے بعد دشمنِ اسلام ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے۔ ابوجہل باہر آیا اور خوش خبری سننے کے اشتیاق میں کہنے لگا۔

خوش آمدید، خوش آمدیدکیسے آنا ہوا؟

حضرت عمرؓنے فرمایا:

میں تمہیں بتانے آیاہوں کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لے آیا ہوں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو کچھ لائے ہیں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔

ابوجہل کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور دروازہ بندکرتے ہوئے بولا:

اللہ تیر ابرا کرے اور جو کچھ تو طے کر آیا ہے وہ بھی برا ہو۔

حضرت عمر ؓ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کی خبر جمیل بن مغمر کو دی جو کسی بات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مشہور تھاتو اس نے چیخ چیخ کر لوگوں کو بتانا شروع کردیا۔”لوگو سنو! خطاب کابیٹا بے دین ہوگیا ہے۔

حضرت عمر ؓ اس کے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ انہوں نے فرمایا:”یہ جھوٹ بولتا ہے۔میں مسلمان ہوگیا ہوں۔

 لوگ اگرچہ حضرت عمر  ؓکی عزت و قوت،شرف اور زورِ بازو سے خائف رہتے تھے۔ لیکن اس وقت بہت بڑی تعدادنے انہیں زد و کوب کرنا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ   بھی لوگوں کو مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمرؓ   تھک کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے کہا:

جو چاہے کرلو۔ اللہ کی قسم!اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکہ میں تم رہتے یا ہم رہتے۔

حضرت عمر ؓ کے خلاف انفرادی طور پر کوئی شخص کچھ کرنے سے گھبراتا تھا۔ وہ جلوس کی شکل میں جمع ہوئے اور حضرت عمرؓ کے گھر پر حملہ کر دیا تاکہ انہیں جان سے مار دیں۔ اس دوران قبیلہ سہم جو حضرت عمر  ؓ کا حلیف قبیلہ تھا، سے تعلق رکھنے والے ابو عمروعاص بن وائل سہمی آگئے۔ حضرت عمرؓ نے ان سے اپنے قبول اسلام اور قو م کے دشمن ہوجانے کا تذکر ہ کیا۔ ابوعمر و عاص بن وا ئل یہ سن کر باہر نکلے اور لوگوں کی بھیڑ سے پوچھا:”کیا ارادہ ہے؟“  لوگوں نے کہا:”خطاب کا بیٹامطلوب ہے جو بے دین ہوگیا ہے۔

ابو عمر ونے کہا: ”تم لوگ اس تک نہیں پہنچ سکتے وہ میری پناہ میں ہے۔

لوگ یہ سن کر مایوس ہوئے اور واپس چلے گئے۔

Topics


باران رحمت

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان