Topics

اسپیس کی تقسیم

قدرت نے جب کائنات کو بنایا تو میرا خیال ہے کہ سب سے اول قدرت نے کاربن (CARBON) کو بنایا۔ جسے قرآن پاک میں دخان کا نام دیا گیا ہے۔ مگر یہ دخان وہ دھواں نہیں جسے ہم دھواں کہتے ہیں مگر ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔

اگر قدرت اس دھوئیں کو نہ بناتی جسے ہم کاربن کہتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شاید کائنات نہ ہوتی اور دوسری بات یہ ہوتی کہ قدرت شاید کائنات کی بنیاد کسی اور چیز سے ڈالتی۔ بہرحال یہ بات قدرت کو ہی معلوم ہے کہ اس نے کائنات کی بنیاد کے لئے کاربن کو کیوں پسند کیا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس کی ایسی جالی بنتی ہے جو جالی باقی جتنے ایٹم ہیں ان کو پھیلا کر الجھا دیتی ہے۔ کاربن کی ہی جالی ہے جس میں تمام ایٹم جمع ہو جاتے ہیں، کاربن کے علاوہ کوئی ایٹم ایسا نہیں ہے جو اکیلا (INDIVIDUAL) نہ ہو اور الگ الگ نہ رہے۔ اٹیم الگ الگ رہنے کے یہ معنی ہوئے کہ کائنات کی کوئی صورت، کوئی شاخ، کوئی شکل باقی نہ رہتی۔ صرف چھٹے ایٹم یعنی کاربن نے دیگر ایٹموں کو جمع کر کے مختلف شکلیں بنائیں۔ اسی سے ہی الیکٹرون یا اس سے بھی چھوٹا حصہ اگر ہے تو وہ بھی جمع ہوا اور اس طرح جتنے بھی الیکٹرون یا پروٹان جو کچھ ہوں سب کو کاربن ہی جمع کر کے رکھتا ہے۔ کاربن کے علاوہ کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو کائنات کو اکٹھا رکھے اور کائنات کی ساخت میں کام کرے۔ یہ نہ بھولیں‘ یہ بات میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایٹم صرف ایک (BEHAVIOUR) ہے جو کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔ اسے واقعہ (EVENT) بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی کہ درخت کا سامنے ہونا بھی ایک واقعہ ہے۔ کسی پہاڑ کا قدرت میں وجود پانا بھی ایک واقعہ ہے۔ کسی انسان یا جانور کا موجود ہونا بھی ایک واقعہ ہے۔کسی ستا رہ یا کہکشاں کا نظا م ، سیا روں کا نظا م کا موجود ہونا بھی ایک واقعہ ہے۔

قدرت نے کائنات کی بناوٹ میں کاربن کو ہی کیوں استعمال کیا؟ اس کا علم قدرت کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح قدرت کے کروڑوں بھید چھپے ہوئے ہیں۔ جن کو نہ انسان جانتا ہے نہ سمجھتا ہے۔

موجودہ حالات کے مطابق جو کچھ بھی موجود ہے۔ اس کی بنیادکاربن کے اوپر ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں ایٹم کو نسمہ (NASMA) کہتے ہیں۔ میں اسے ایٹم ہی کہوں گا اس لئے کہ نسمہ ہر فرد کی سمجھ میں نہیں آتا۔

جب کاربن کے ایٹم نے جال کی شکل اختیار کی تو کائنات کی بنیاد پڑی جسے سائنس دان نبیولا(NEBULA) کہتے ہیں۔ وہ درحقیقت کاربن ہی کا بنا ہوا ہے۔ جس قسم کے بھی ایٹم ہوں اور جتنے بھی ہوں۔ سب اسی کے اثر کے تحت ہیں، اس کاربن سے ایک نورانی شعاع نکلتی ہے جو کاربن سے الگ ہے۔ مگر کاربن کی وہ نورانی شعاع جسے سائنس دان فوٹان (PHOTON) کہتے ہیں۔ 

اس کا مخرج اور خاصیت ایک ہی ہے مگر اس کے راستے الگ الگ ہیں۔ کاربن جب نبیولا سے پھیلتا ہے تو مختلف قسم کے ایٹم بناتا جاتا ہے۔ اب یہ ایٹم اینڈرومیڈا (ANDROMIDA) تک فوٹان سے الگ نہیں ہوتے۔ مگر فوٹان کے ساتھ رہتے ہیں اور فوٹان میں اور ان میں فرق نہیں ہو پاتا۔ اینڈرومیڈا کی اسٹیج گزر جانے کے بعد ایٹم اور فوٹان الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات آپ کو بتائی جا چکی ہے کہ تصوف میں ایٹم کو نسمہ کہتے ہیں اور تصوف میں فوٹان کو جو نام دیا گیا ہے وہ ’’عارض‘‘ ہے۔ یہ دونوں نام آپ کے کانوں پر اس لئے لائے گئے ہیں کہ آپ کو ساتھ ساتھ علم ہو جائے کہ تصوف میں یہ دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جن کے معنی فوٹان اور ایٹم پورے نہیں کر سکتے۔ مگر مثال دینے کے لئے مجبوراً فوٹان اور ایٹم استعمال کئے گئے ہیں۔ نسمہ ایٹم سے قریب تر ہے۔ تفصیل اس بات کی یہ ہو رہی تھی کہ انڈرومیڈا تک فرق نہیں نکالا گیا تھا کہ ایٹم اور فوٹان الگ الگ ہیں۔ فوٹان کے خواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ڈائی مینشن نہیں ہوتے اور وہ اتنے تیز رفتار ہوتے ہیں کہ جہاں سے رواں ہوئے پل بھر میں کائنات کا چکر لگا کر واپس وہیں آ جاتے ہیں۔ یہ حقیقت میں عارض کی خاصیت ہے۔ فوٹان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ سائنس دانوں نے کیا فیصلہ کیا ہے، مگر عارض کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ وہ جس جگہ سے جس پل میں چلتا ہے اسی پل میں کائنات کا دورہ پورا کر کے اپنی جگہ پہنچ جاتا ہے۔ فوٹان کی تعداد سے پوری کائنات بھری پڑی ہے۔ اب نسمہ کی بات کریں جسے ایٹم بھی کہتے ہیں وہ جب نبیولا سے چلتا ہے تو اپنے خواص ساتھ لے کر چلتا ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ کائنات میں جتنے بھی ایٹم ہیں سب اس کے (BEHAVIOUR) ہیں یا یہ بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام ایٹم کاربن کی تقسیم سے بنتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھئے!

قرآن میں کاربن کی جگہ دخان لفظ استعمال ہوا ہے۔ دخان کو تصوف میں ’’روفان‘‘ کہتے ہیں، یہ سب کچھ میں نے لکھا ہے اسپیس کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ جب کاربن سے دیگر سینکڑوں ایٹم بنتے ہیں تو ان کے خواص بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔ مگر اس بات کا خیال رہے کہ وہ ایک ہی زنجیر کی کڑی ہیں جسے دخان کہا گیا ہے یا کاربن کہتے ہیں یا روفان کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہی ایٹم کائنات کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔

یہاں یہ فرق پھر بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فوٹان میں ڈائی مینشن نہیں ہوتے۔ فوٹان ہر شئے کے آر پار گزر جاتا ہے۔ چاہے وہ چیز کتنی ہی ٹھوس کیوں نہ ہو یا پھر چاہے وہ پتھر ہو، دھات ہو، پانی ہو یاکیچڑ ہو، ہر چیز سے گزر جاتا ہے۔ اس راستے میں کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

عارض کے اقسام بھی ہیں۔ کچھ اقسام میں بتا دیتا ہوں جو ضروری ہیں۔ ایک عارض وہ ہے جو کاربن سے الگ ہو کر نبیولا سے ملتا ہے۔ ایک عارض وہ ہے جو کاربن کو چھوتا ہے اور چھو کر الگ ہو جاتا ہے پھر اس کی لہر دوسری ہو جاتی ہے اور وہ دوسرے راستے کے اوپر چلتا ہے۔ جو بار بار کاربن کو چھوئے وہ تیسری لہر ہے اور اس کا راستہ بھی الگ ہے مگر وہ اس دائرے میں چلتا ہے جس دائرہ میں اول اور دوسری لہر کے عارض چلتے ہیں۔ ایک چوتھی قسم کے عارض بھی ہوتے ہیں جو کاربن کے ساتھ ہی چلتے ہیں اور ان کا کوئی راستہ معین نہیں۔ وہ اسی راستہ پر جائیں گے جس راستہ پر کاربن جائے گا۔

اب آپ کاربن کی تقسیم اور اس کی کچھ ذمہ داریوں کے بارے میں خیال کریں۔ کاربن سے جتنی قسم کے ایٹم بنیں گے وہ اس ہی نسمہ کی پیداوار ہیں جس کی تفصیل آ چکی ہے۔ اس کے جتنے بھی ایٹم بنیں گے سب کے ڈائی مینشن الگ ہوتے ہیں، پھر چاہے ان کی تعداد کچھ بھی ہو۔ سینکڑوں میں ہوں یا اس سے زیادہ۔ مگر ان میں ڈائی مینشن ضرور ہوں گے اور ان کے (BEHAVIOUR) کردار بھی الگ ہوں گے۔ صرف (BEHAVIOUR) ہی نہیں کیفیات (خواص اور اثر) بھی الگ ہوں گے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سب کاربن کی وجہ سے جمع ہوتے ہیں۔ کاربن اتنا حساس (SENSITIVE) ہوتا ہے کہ اپنی کشش کے لحاظ سے جیسے چاہے اور جتنے چاہے ایٹم جمع کر لیتا ہے۔ ان سے ایک شکل بن جاتی ہے اور وہ شکل بھی ڈائی مینشن رکھتی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ کاربن کے پیچھے قدرت کا ہاتھ نہیں ہے، کاربن قدرت کے ارادے کے ماتحت کام کرتا ہے۔



قدرت کی اسپیس

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ


سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا