Topics

ابو طالب کی گھاٹی

ابو طالب قریش کی ریشہ دوانیوں سے با خبر تھے۔ قریش انہیں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت وپشت پناہی سے دست بردار ہونے پر مجبور کر رہے تھے۔ ابو طالب نے اپنے جد اعلیٰ عبدالمناف کے دو صاحبزادوں ہاشم اور مطلب کے خاندانوں کو جمع کیا اور انہیں آمادہ کیا کہ اپنے بھتیجے محمد ؐ کی حمایت و حفاظت کا جو کام اب تک وہ تنہا انجام دیتے رہے ہیں سب مل کر اس کام کو انجام دیں۔

عربی حمیت کا تقاضا تھا کہ اہل خاندان اس بات پر راضی ہو جائیں سب افراد خاندان اس تجویز سے متفق ہوئے اور انہوں نے ابو طالب کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن ابو طالب کے بھائی ابو لہب نے مشرکین قریش کا ساتھ دیا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کا قبول اسلام اور قبیلہ بنی ہاشم و بنی مطلب کا محمد ؐ کی حمایت کے لیے عہدوپیمان کفار کو پسند نہیں آیا۔ حبشہ کے بادشاہ نے بھی درخواست مسترد کر دی تھی۔مشرکین جمع ہوئے اور بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف عہدو پیمان کیا کہ ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کر لیا جائے نہ ان سے خریدو فروخت کی جائے نہ ان سے شادی بیاہ کریں ۔ تا وقتیکہ محمدؐ کو قتل کرنے کے لیے ہمارے حوالے نہ کر دیں۔

اس معاہدہ پر تمام سرداران قریش نے دستخط کئے اور خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر دیا۔

محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسرے تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا گیا۔ اس موقع پر بنو ہاشم نے حضرت محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت ترک نہ کی اور وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکل آئے۔ ان میں پیغمبر اسلام سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وہ عزیز بھی شامل تھے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ابو طالب کی غیرت اور حمیت نے گوارہ نہ کیا کہ وہ اپنے بھتیجے کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیں۔

(۱) سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے اہل خاندان کے ہمراہ جس گھاٹی میں پناہ گزین تھے وہ ابی طالب کی ملکیت تھی۔ جو گھاٹی درماندہ لوگوں کی پناہ گاہ تھی اس میں ابی طالب اور خاندان کے دیگر افراد قیام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

(۱)قریش کے دس قبیلوں میں سے ہر قبیلہ مکہ کے گرد و نواح میں پھیلی ہوئی پہاڑیوں میں قدرتی طور پر بن جانے والے دروں اور گھاٹیوں میں سے کسی ایک کھائی یا درہ کا مالک تھا۔ ان گھاٹیوں کو شعب کہتے ہیں جب کوئی اجنبی شخص قریش کے کسی قبیلے سے پناہ مانگتا تو قبیلہ اس کے ٹھہرنے کا بندوبست اپنی مخصوص شعب یا گھاٹی میں کرتا تھا۔

قریش نے مسلمانوں کو اشیائے ضرورت کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ شعب ابی طالب کسی قافلہ کی گزرگاہ بھی نہیں تھی۔ جس سے کھانے پینے کی چیزیں مہیا ہو سکتی۔ مسلمانوں نے شعب ابی طالب میں انتہائی دردناک مصیبتوں اور بھیانک پریشانیوں میں وقت گزارا۔ انہی دنوں جب مسلمان شعب ابی طالب میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ایک دن حضرت خدیجہؓ کا بھتیجااپنی پھوپھی کے لیے کچھ اشیائے ضرورت لے کر باہر نکلا۔ قریش کے افراد نے جو نگرانی کر رہے تھے حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے کو مکہ سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا انہوں نے سامان ضبط کر کے اسے اتنا زدوکوب کیا کہ وہ تین دن تک بستر سے نہیں اُٹھ سکا۔ ان دنوں میں مکہ کے کچھ بزرگوں نے مصالحت کی کوشش کی اور قریش سے کہا کہ وہ اجازت دیں کہ محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ساتھی واپس چلے آئیں۔ لیکن قریش کے بزرگوں نے جواب دیا کہ اگر محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دین سے دستبردار ہو جائیں تو مکہ واپس آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو پھر وہیں پر اپنی موت کا انتظار کریں ہم انہیں مکہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام اور ان کے ساتھیوں نے تین سال تک تنگی ترشی اور سختی کو برداشت کیا۔ شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے پاس گھریلو سامان نہیں تھا اور مکہ کی سب سے زیادہ مالدار خاتون حضرت خدیجہؓ کے پاس صرف ایک ہانڈی اور مٹی کا پیالہ رہ گیا تھا اور ایک دن وہ پیالہ بھی ٹوٹ گیا۔ شعب ابی طالب میں مسلسل رنج و الم اور دائمی بھوک کے علاوہ ایک اور حادثہ بھی رونما ہوا وہ یہ تھا کہ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ حضرت خدیجہؓ عسرت اور تنگدستی کے باعث بیمار ہو گئیں اور چو نکہ علاج معالجہ کے لئے ضروری دوا اور مناسب غذا موجود نہ تھی لہٰذا سیدنا علیہ الصلوۃ و السلام کی زوجہ سن ۶۱۹ عیسوی میں انتقال فرما گئیں(۱)۔

(۱) مسلمانوں نے اس سال کو عام الحزن کا نام دیا ہے۔

جب حضرت خدیجہؓ نے زندگی کو خیرباد کہا تو ان کی عمر ۶۵ برس تھی اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے پچاس سال گزر چکے تھے۔ جب حضرت خدیجہؓ نے شعب ابی طالب میں زندگی کو الوداع کہا تو ان کے لئے کفن بھی نہ تھا۔ لہٰذا حضرت خدیجہؓ کو’’ صوقعہ‘‘(۱) میں لپیٹ کر سپرد خاک کر دیا گیا۔

(۱) صوقعہ دراصل ایک ایسی لمبی چادر کو کہتے تھے جسے عرب خواتین اپنے سر ڈھانپنے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے دو دن بعد مسلمانوں کو دوسرا صدمہ پہنچا اور پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا’’ ابی طالب ‘‘نے چھیاسی سال کی عمر میں دارفانی کو چھوڑ دیا۔ انہی دنوں کعبہ میں لٹکے ہوئے بائیکاٹ کے فرمان کو دیمک نے چاٹ لیا قریش نے جب یہ دیکھا کہ دیمک نے حضرت محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے مسلمانوں کو شہر بدر کرنے کے فرمان کو چاٹ لیا ہے اور صرف’’ خدا‘‘کا نام باقی رہنے دیا ہے تو ان پر انجانا خوف طاری ہو گیا۔ قبائل قریش ہی میں سے چند حلیم الطبع افراد نے آواز بلند کی کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کر کے بنو ہاشم کو محاصرہ سے باہر لایا جائے۔ سوائے ابو جہل کے کسی نے اس کی مخالفت نہ کی۔ جب مسلمان شعب ابی طالب سے واپس لوٹے تو مسلسل فاقہ کشی، بھوک اور پیاس کے باعث بے حد کمزور ہو چکے تھے۔ ان کے چہرے ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے تھے اور ان کے بدن کی کھال سورج کی تمازت سے بُری طرح جھلس گئی تھی۔

ایک دن ابی لہب نے بنو ہاشم کے تمام افراد کو ایک ضیافت میں شرکت کی دعوت دی اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی مدعو کیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو ابی لہب نے حضرت محمدمصطفی ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،’’ میں چاہتا ہوں کہ بنو ہاشم کے تمام افراد کے سامنے تجھ سے تیرے جد عبدالمطلب کے بارے میں سوال کروں اور پوچھوں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ مشرکین جہنم میں جائیں گے تو تمہارے خیال میں عبدالمطلب جنت میں ہیں یا جہنم میں؟ ۔‘‘

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب میں قرآن کی یہ آیت تلاوت کی۔

ترجمہ:

پیغمبر اور وہ لوگ جو ایمان لائے خدا سے مشرکوں کے لئے مغفرت طلب نہ کریں چاہے وہ لوگ ان کے اقرباء میں سے ہوں۔ 

(توبہ ۱۱۴)

اس کے بعد ابی لہب نے ابی طالب کے بارے میں پوچھا اور کہا آیا میرا بھائی ابی طالب بخش دیا گیا ہے یا نہیں۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ ابی طالب جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مسلمان نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے اجداد کے دین کو نہیں چھوڑا تھا لہٰذا ان کا معاملہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

پھر ابی لہب نے کچھ اور بڑوں کا نام لیا جو محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اجداد میں سے تھے۔ ابی لہب نے پوچھا۔ یہ لوگ بخش دیئے جائیں گے یا نہیں۔ جواب میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم قطعی ہے ۔ اور اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ 

قبیلے کے سربراہ ابی لہب نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ آیا مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ محمدؐ کو قبیلہ بنی ہاشم سے باہر نکال دوں؟ 

سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ قبیلہ کے سردار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ محمدؐ کو قبیلہ بدر کردے۔ ابی لہب نے اسی وقت اعلان کر دیا کہ میں نے محمد ؐ کو اپنے قبیلے سے نکال دیا ہے اور آج کے بعد ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔جزیرۃ العرب میں جب کسی کو قبیلے سے نکال دیا جاتا تو اس کی حیثیت اتنی نا چیز ہو جاتی تھی کہ اسے قبائلی جرگہ میں انصاف کی درخواست کرنے کا حق بھی نہیں رہتا تھا۔ جزیرۃالعرب میں قبیلہ سے خارج ہونے والا شخص تمام سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہو جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔



محمدرسول اللہ ۔ جلد اول

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔