Topics
’’ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات
وضاحت سے بیان کردی گئی ہے۔‘‘ (سورۃ القمر۔ آیت53)
قرآن کریم نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کی وضاحت فرمائی ہے۔
انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے۔ انسان کوایسی صفات پر پیدا
کیا گیاہے کہ جہاں وہ حیوانی تقاضے پورے کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر
ایسی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں کہ وہ ’’احسن تقویم ‘‘ ہے۔
قرآن کریم میں تخلیقی علوم وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’(اے پیغمبر)بے شک حضور
اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر ہیں۔‘‘(سورۃ القلم۔آیت4)
’’ (اے پیغمبر)اللہ تعالیٰ
کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب
آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔ ‘‘ (سورۃآل عمران۔آیت159)
’’(مسلمانو) تمہارے پاس
اللہ کا رسول آگیاہے، جو تم میں سے ہے۔ تمہارارنج و کلفت میں پڑنا اس پر شاق گزرتا
ہے۔ وہ تمہاری بھلائی چاہتا ہے۔ مومنوں کے لئے نہایت شفیق و رحیم ہے۔‘‘(سورۃ توبہ
۔آیت128)
انسان کی گھریلو زندگی اور معاشرتی زندگی اس کے اخلاق و کردار کو
پرکھنے کیلئے سب سے بڑی کسوٹی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اہل خانہ کے
ساتھ حسن سلوک کیسا تھا اس کا اندازہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد مبارک
سے ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’تم سب لوگوں میں اچھا وہ ہے جو اپنے اہلِ
خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اہلِ خانہ کے ساتھ حسن
سلوک سے پیش آتا ہوں۔‘‘
قرآنِ کریم معراج انسانیت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے
کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر
تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک
نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔
اور عاجزی اور محبت کیساتھ ان کے سامنے توازن رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے
پروردگار! ان(میرے ماں باپ) پر رحم فرما جیسے انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ بچپن
میں میری پرورش کی ہے۔‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت23تا24)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت نرم مزاج اور خوش اخلاق تھے۔ چہرہ
مبارک روشن اور پُر کیف تھا۔ ایک ایک جملہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، سواری پر ہوتے
اور کوئی بزرگ سامنے آتے تو اُنہیں سوار کرلیتے اور خود سواری سے اُتر جاتے
تھے۔ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ میں بچپن میں انصار کے نخلستان میں چلا جاتا تھا
وہاں پتھر مار کر کھجوریں گراتا تھا۔ لوگ مجھے پکڑ کر خدمت اقدس میں لے گئے۔حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’زمین پر گری ہوئی کھجوریں کھالیا کرو ،
پتھر نہ مارا کرو۔‘‘
پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دُعا دی۔
ایک مرتبہ حالتِ قحط میں ایک صاحب نے باغ سے کھجور کے خوشے توڑ کر
کھائے اور کچھ دامن میں رکھ لئے۔ باغ کے مالک نے اسے مارا اور کپڑے اتروالئے، پھر
شکایت لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پہنچا۔ کھجوریں توڑنے والا
بھی ساتھ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باغ کے مالک سے فرمایا’’یہ جاہل تھا،
اسے تعلیم دینی چاہیئے تھی۔ بھوکا تھا کھانا کھلانا چاہیئے تھا۔‘‘
یہ فرماکر کپڑے واپس دلائے اور اسے ساٹھ صاع غلہ اپنے پاس سے دیا، جو
ہمارے حساب میں تین من، تیرہ سیر اور دو چھٹانک ہوتا ہے۔
مجلس نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتی تو آنے
والے کیلئے چادر مبارک بچھا دیتے تھے۔ سلام میں پہل فرماتے۔ راستے میں جو سامنے
آتا اسے سلام کرتے۔
حسن اخلاق کی اہمیت
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
۱۔تم میں سب سے اچھا وہ
ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔
۲۔ایمان کامل اس مومن کا
ہے، جو اخلاق میں اچھا ہو۔
۳۔قیامت کے روز اعمال کی
ترازو میں حسن اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی۔
۴۔انسانوں کو قدرت کی
طرف سے جو چیزیں عطا ہوئی ہیں ان میں سب سے بہتر چیز اچھا اخلاق ہے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک
بندوں میں سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔
۶۔ آخرت کی زندگی میں
میرے لئے سب سے پسندیدہ شخص وہ ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہیں اور وہی مجھ سے قریب تر
ہوگا۔
۷۔کسی نے سوال کیا :’’یا
رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام !مومنوں میں افضل کون ہے؟‘‘
فرمایا: ’’جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہو۔‘‘
اہلِ ایمان کے اوصاف و خصائل
قرآن کریم کی وہ آیتیں جن میں اجتماعی زندگی کا تذکرہ ہے:
’’مومن وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور
باہمی معاملات درست رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو ان کے دل گدازہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا کلام سنایا جائے توان کے ایمان زیادہ ہوجاتے ہیں۔ وہ ہر حال میں
اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں، نمازقائم کرتے ہیں، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں
دے رکھا ہے، اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی حقیقی مومن ہیں۔‘‘
(سورۃ الانفال۔آیت 2تا 4)
’’بلاشبہ ایمان والے کامیاب ہوئے نمازیں خشوع
و خضوع سے ادا کرتے ہیں۔ لغو باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ عفت و
عصمت کی نگہداشت سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔‘‘(سورۃ المومنون۔آیت1تا5)
’’امانتوں اور وعدوں کا انہیں پاس رہتا ہے۔
نمازوں میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ‘‘ (سورۃ المومنون۔آیت8تا9)
’’اللہ تعالیٰ کے بندے زمین پر دبے پاؤں یعنی
عجز و انکساری سے چلتے ہیں۔ جب جاہل یعنی کم عقل اور بے ادب لوگ ان سے بات کرتے
ہیں تو نرم بات کرکے اور صاحب سلامت کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ رات کا وقت اپنے
پروردگار کے لئے قیام اور سجو د میں گزارتے ہیں اور کہتے ہیں: یااللہ ہمیں دوزخ کے
عذاب سے محفوظ فرماکیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے
کے لحاظ سے بد ترین جگہ ہے۔ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی
کرتے ہیں۔وہ کسی بے گناہ کا خون نہیں بہاتے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کررکھا ہے
اور بدکاری سے بھی دور رہتے ہیں جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے۔ کسی کی لغو بات
سنتے ہیں توسنجیدگی اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔‘‘(سورۃ الفرقان۔آیت63تا68 )
’’(اہل ایمان) پروردگار پر
بھروسہ رکھتے ہیں،بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے دور رہتے ہیں۔ جب غصہ آئے
تو معاف کردیتے ہیں اپنے رب کا حکم مانتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اپنے معاملات
باہمی مشورے سے پورا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس میں
سے خرچ کرتے ہیں۔ جب ان پر کوئی زیادتی ہوتو بدلہ لیتے ہیں ، برائی کا بدلہ ویسی
ہی برائی ہے۔ پھر جو کوئی معاف کردے اور نیکی کرے، اس کا اجراللہ تعالیٰ کے ذمہ
ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں فرماتے، جوکوئی مظلوم ہوکر بدلہ لے تو اس پر
کوئی ملامت نہیں۔ ملامت تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق
فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے دردناک عذاب ہے اورصبر سے کام لے اور معاف کردے تو یہ
بڑی اعلیٰ ہمت کا کام ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ۔آیت37تا43)
حضرت امام حسینؓ نے حضرت علیؓ سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اخلاق
و عادات کے متعلق سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نرم خو اور مہربان تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی پیشانی کشادہ تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سخت مزاج نہیں تھے۔ کوئی
بات ناپسند ہوتی تو اس کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
مزاج گرامی میں تین باتیں بالکل نہیں تھیں:
۱۔ بحث و مباحثہ سے پرہیز فرماتے تھے۔
۲۔ ضرورت سے زیادہ بات
نہیں فرماتے تھے۔
۳۔ جو بات مطلب کی نہ ہو
، اس سے اجتناب فرماتے تھے۔
دوسروں کے متعلق بھی تین باتوں سے پرہیزفرماتے تھے:
۱۔ کسی کو برا نہیں کہتے
تھے۔
۲۔ کسی کی عیب جوئی نہیں
کرتے تھے۔
۳۔ کسی کے اندرونی حالات
کی ٹوہ میں نہیں رہتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام وہی بات کرتے تھے جن سے کوئی مفید نتیجہ
نکلتا ہو۔ کوئی دوسرا بات کرتا تو جب تک بات ختم نہ کرلیتاخاموشی سے سنتے تھے۔ لوگ
جب باتوں پر ہنستے،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام محض مسکرادیتے تھے۔ کوئی بہت بے باکی
سے گفتگو کرتا توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تحمل فرماتے تھے۔ دوسروں کے منہ سے اپنی
تعریف سننا پسند نہیں فرماتے تھے۔(شمائل ترمذی۔ جلد اول ۔ حدیث 329)
حضرت عائشہؓ کا بیان
حضرت عائشہؓ نے ہجرت سے قبل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے
بعض اہم واقعات بھی دیکھے تھے اور مدنی زندگی میں حضرت عائشہؓ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی رفیقۂ حیات بن گئی تھیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ کا
آخری ہفتہ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گزرا۔ حضرت عائشہؓ کے حجرے کو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی آخری آرام گاہ کا شرف حاصل ہواہے۔حضرت عائشہؓ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی حیات مبارک میں سے چند روشن پہلو بیان فرماتی ہیں:
۱۔جب بھی حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کو دو باتوں میں اختیار دیا جاتا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان
میں سے وہ اختیار فرماتے جو آسان ہوں۔
۲۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے اپنی ذات کیلئے کبھی کسی کو سزا نہیں دی اور کبھی بدلہ نہیں لیا۔
۳۔عادت شریف یہ تھی کہ
برائی کے بدلے میں کبھی برائی سے کام نہیں لیا۔ ہمیشہ درگزر فرماتے تھے۔
۴۔کوئی ہنسنے کی بات ہو
تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف مسکراتے تھے۔
۵۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے کبھی اپنے کسی خادم، کسی کنیز، کسی غلام، کسی عورت اور کسی جانور پر
ہاتھ نہیں اُٹھایا۔
۶۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے کبھی کسی کی جائز درخواست کو رد نہیں فرمایا۔
۷۔گھر میں تشریف لاتے تو
مسکراتے ہوئے آتے، باتیں ٹھہر ٹھہر کے کرتے تھے۔
۸۔ایک بدو آیا اور
کہا،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بچوں کو پیار کرتے ہیں، میں نے بچوں کو کبھی پیار
نہیں کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحم نکال دیا
تومیرا کیا اختیار ہے؟‘‘
(صحیح مسلم۔ جلد سوئم۔ حدیث 1530)
۹۔ حضرت اسودؓ نے حضرت
عائشہؓ سے پوچھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گھر میں مصروفیت کیاتھی؟ حضرت
عائشہؓ نے جواب دیا: ’’ گھروالوں کے کام آتے تھے، نماز کا وقت ہوتاتو نماز کے لئے
مسجد تشریف لے جاتے تھے۔‘‘
۱۰۔اگر کسی کی کوئی حرکت
پسند نہ ہوتی تو اس کا نام لیے بغیر اس کام سے منع فرمادیتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان