Topics
کتاب قلندر شعور کی ابتدائی تین سطروں میں جو سب سے اہم لفظ ہے وہ ”کُن‘‘ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ذہن میں مَوجود کائناتی پروگرام کو شکل و صورت کے ساتھ وُجود میں لانا چاہا تو کہا”کُن‘‘۔ کوئی دس سال سے کوئی پانچ سال سے کوئی تین سال سے کوئی مہینوں سے یہ پڑھ رہا ہے…. سن رہا ہے…. تو جب اللہ میاں نے کہا…. کُن…. ہوجا…. اور ساری کائنات بن گئی․․․․․ سوال یہ ہے کہ لفظ…. کُن…. ہوجا…. تو سمجھ میں آگیا…. پھر مزید پڑھنے کی…. لکھنے کی…. مراقبہ کرنے کی…. سمجھنے کی…. کیا ضرورت تھی؟
”کُن‘‘…. اللہ نے کُن کہا…. اللہ جو چاہتے تھے…. اُس کا وہ مظاہرہ ہو گیا…. مظہر بن گیا…. بس….!!
اب یہ مزید پڑھنا، لکھنا، اور جناب پشاور سے یہاں تک آنا اور گوجرانوالہ سے آنا اور اپنا وقت ضائع کرنا…. کیا ضرورت تھی اس کی؟
جب پتہ ہے کہ “اللہ نے کہا کُن…. کائنات…. ہوجا! اور وہ ہوگئی۔ وہ تو ٹھیک ہے…. لیکن اس کا مطلب یہ ہُوا کہ…. کُن…. محض کُن سننا…. اورکُن کےمعنی کا پتہ چل جانا…. کُن کی تشریح نہیں ہے۔
استاد کا کام یہ ہے کہ:
1. یہ بتائے کہ کُن کا مطلب ہے…. ہوجا! اور
2. یہ بھی بتائے کہ کُن کیا چیز ہے اور کیوں ہوگئی؟
کاف۔ نون۔(ک۔ن) کُن! ان دو حرفوں میں ایسی کون سی طاقت ہے ایسا کون سا فارمولہ ہے ایسی کون سی (Equation)ہے کہ دو حرف…. ک… ن…. کُن! …. تو پوری کائنات کا ایک ایسا مربوط سسٹم بن گیا کہ اس میں چاند بھی آگئے، سورج بھی آگئے، ستارے بھی آگئے فرشتے بھی آگئے ان کی پوری پوری زندگیاں آگئیں، زمین آگئی، سات آسمان آ گئے۔
ہے لفظ….
ک+ن = کُن۔
مطلب میرا عرض کرنے کا یہ ہے کہ آدابِ مجلس کا خیال رکھنا ہر جگہ ضروری ہے۔ لیکن رُوحانی آدمی اگر آداب مجلس کا خیال نہیں رکھتا اور اس سے کسی کی دل آزاری ہوجاتی ہے تو وہ بہت بڑی غلطی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے جو آپ کے اغراض و مقاصد بیان کئے ہیں سلسلے کے، اس میں بھی آپ نے پڑھا ہے اور وہ یاد بھی ہونے چاہئیں کہ
(i) – اگر دانستہ یا نادانستہ تم سے کسی کی دل آزاری ہوجائے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اس سے معافی مانگ لیں۔
(ii) – اگر تمہاری دل آزاری کسی سے ہوجائے تو اس کیلئے آپ کے اَندر انتقام کا جذبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو فوراًمعاف کردینا چاہئے۔
تو دونوں باتوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صبر اور تحمل سے کام لیں۔ اپنے اَندر برداشت پیدا کریں۔ اگر کوئی خلافِ ضابطہ بات ہوئی تو مجلس میں نہیں، مجلس سے باہر جو بھی بڑے ہیں ان کے سامنے رکھ کر اُس کوٹھیک کرا لینا چاہئے یا آئندہ کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتّب ہونا چاہئے۔
اب قلندر شعور کی پہلی تین سطریں بلکہ اڑھائی سطریں اِس وقت ہماری توجّہ کا مرکز ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب اپنے ذہن میں مَوجود کائناتی پروگرام کو شکل و صورت کے ساتھ وُجود میں لانا چاہا تو فرمایا…. کُن! اُن کے ذہن میں کائناتی پروگرام ایک ترتیب اور تدوین کے ساتھ وُجود میں آ گیا۔
بات تو سمجھ میں آگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قادرِ مطلق ہستی ہیں کہ جو کائنات کے وُجود سے پہلے ہیں۔ اللہ تعالیٰ درمان ہیں، بینا ہیں، سنتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو اپنی صفتِ خالقیت کو اپنی صفتِ کاملیت کو اور قادرِ مطلق ہونے کی صفت کو جب متعارف کروانا چاہا تو ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میرے علاوہ بھی کوئی ہونا چاہئے تاکہ میری وحدانیت اور خالقیت کا اعتراف کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ایک مربوط، مستحکم اور مرتّب پروگرام مَوجود تھا اور اس پروگرام کو نشر کرنے کیلئے، اس پروگرام کو مظاہراتی شکل و صورت میں… وُجود میں لانے کیلئے “کُن”کہا! یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے کو حرکت دی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتے تھے، چاہتے ہیں یا جس طرح کائناتی خدو خال اللہ تعالیٰ کے ذہن میں مَوجود تھے یا ہیں ان کو اپنے اَندر سے باہر مظاہراتی شکل وصورت میں ظاہر کردیا۔
اس کی مثال ناقص ہے لیکن بہر حال مثال، مثال ہوتی ہے۔ ہم ایک ڈرامہ نویس سے مثال کو بیان کر سکتے ہیں۔
ایک رائٹر(Writer)، ایک ڈرامہ نویس، ڈرامہ لکنےک والا جب ڈرامہ لکھتا ہے تو اس ڈرامے کے کردار، اس ڈرامے کے اَندر تفصیلات، اس ڈرامے کا پلاٹ پہلے سے ڈرامہ نویس کے ذہن میں مَوجود ہوتے ہیں، ڈرامہ نویس جب کوئی ڈرامہ لکھتا ہے تو سب سے پہلے وہ کرداروں کا تَعیّن کرتا ہے۔ ان کرداروں میں رحم بھی ہوتا ہے، ظلم بھی ہوتا ہے، معافی بھی ہوتی ہے، الجھن، بیزاری، پریشانی، رونا دھونا اور غم ناک آوازیں بھی ہوتی ہیں۔ اور سکون و راحت اور اطمینان کی کیفیت بھی ہوتی ہیں۔ لیکن جب تک ڈرامہ نویس دماغ کے اَندر سے ڈرامہ کاغذ پر منتقل نہ کردے تو ڈرامے کی تشکیل نہیں ہوتی۔
مطلب یہ ہوا کہ ہ، جو ڈرامہ دیکھتے ہیں وہ ڈرامہ، ڈرامے کے اَندر مناظر، پس منظر، ماحول، حالات، فضا، اسٹیج سے پہلے ڈرامہ نویس کے دماغ میں مَوجود تھیں۔ ڈرامہ نویس کا کردار یہ ہوا کہ دماغ کے اَندر جس طرح ڈرامے کے کردار مَوجود تھے انہیں کاغذ پر منتقل کر دیا۔یہ ایک چھوٹی سی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ناقص مثال ہے لیکن انسان ہے ہی ناقص․․․․․ اس کا شعور ہے ہی بہت کمزور، جس طرح ڈرامہ نویس کرداروں کے باہر ڈرامہ نہیں لکھ سکتا اور ڈرامہ کے کردار مکمل نہیں ہوتے جو اس کے دماغ میں ہیں، اسی طرح کائناتی پروگرام، کائناتی سسٹم(System)اللہ تعالیٰ کے ذہن میں مَوجود تھا۔ اللہ نے اسے کُن کہہ کر ظاہر فرمادیا۔ اور ان کو الگ الگ لکھ کر اگر آپ کاف کے اوپر غور کریں گے تو یہ دراصل مثلّث یا ٹرائینگل (Triangle)کی شکل بنتی ہے۔ نون کے اوپر اگر آپ غور کریں گے تو یہ دائرہ یا سرکل (Circle)کی شکل ہے۔
ک اور ن دو حرفوں سے کائنات کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری کائنات ٹرائینگل اور سرکل میں تخلیق ہوئی ہے۔ کائنات میں مَوجود کوئی ایک شے بھی اِس فارمولے، اِس (Equation)سے باہر نہیں ہوسکتی۔ ہر تخلیق ٹرائینگل اور سرکل میں بند ہے۔
اس کو ہم چند مثالوں سے بیان کرتے ہیں۔ درخت کا ایک تنا ہے۔ درخت کے تنے کو جب ہم دیکھتے ہیں تو دراصل وہ بہت سارے اوپر نیچے دائروں کی ایک اجتماعی شکل و صورت ہے۔ جب ہم تنے کاٹتے ہیں، کاٹتے، کاٹتے، کاٹتے، کاٹتے، باریک ترین اس کو کاٹ دیتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں دائرے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اب اس دائرے کو جب ہم بیچ میں سے کاٹ دیتے ہیں تو مثلّث کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ دوسری مثال انسان کی ہے۔ انسان کی ہڈیوں کا جو اسٹرکچر ہے اس کو دیکھئے۔ اب آپ پنڈلی کی ہڈی کو ہی لے لیجئے یا ہاتھ کی ہڈی لے لیجئے۔ جب آپ اسے سیدھا کھڑا کرتے ہیں تو وہ بھی دراصل ایک دائروں سے بنا ہوا ترتیب وار بازو ہے۔ ہڈی کو اگر اوپر سے دیکھیں تو درخت کے تنے کی طرح یہ بھی گول ہوتی ہے۔
پھر اس کو آپ پرت در پرت کاٹیں ایک، دو، تین چار کر کے چاہے یہ پرت پچاس ہوں، سَو ہوں یا ہزار ہوں، دائرے کی شکل میں گول ہوں گے۔ کیونکہ گول ہڈی گول ہوتی ہے اور اس کے درمیان میں سوراخ ہوتا ہے۔ لیکن درخت کے اَندر سوراخ نہیں ہوتا۔ یہاں بھی آپ کو دائرے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔
اب آپ دیکھیں، باریک سے باریک ہڈی کے دائرے کو یا ہڈی کے ٹکڑے کو آپ بیچ سے کاٹ دیں۔ اب وہ مثلّث یعنی ٹرائینگل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انتہا یہ ہے کہ آپ کے سر کا جو بال ہے یہ بال نہایت باریک، ایک ایسا درخت ہے، ایسا گھاس ہے جو بیچ میں سے خالی ہے نلکی کی طرح۔ اس بال کو جب آپ قینچی سے کاٹیں گے، تو آپ کے سامنے بے شمار دائرے کی شکل میں بال رکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیکن جب ان میں سے کسی ایک دائرے کو آپ بیچ میں سے کاٹیں گے تو یہی بال آپ کو مثلّث یا ٹرائینگل کی شکل میں نظر آئے گا۔
علیٰ ہٰذا القیاس یہ گلاس ہے…. اِس کو جب ہم اوپر سے دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ ایک سیدھی سی بات ہوتی ہے کہ یہ، ایک دائرہ سے، دو یا تین دائروں سے یا ایک ہزار یا ایک لاکھ دائروں کو اگر جمع کردیا جائے تو یہ گلاس کی شکل ہے۔ اور اگر دائرے سے اس گلاس کو نکال لیا جائے تو گلاس کا وُجود ہی نہیں رہے گا۔ ساتھ ہی اگر اس دائرے کو بیچ میں سے کاٹ دیا جائے تو ٹرائینگل کی شکل حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی صورت سے آپ کے پاس یہ جَگ رکھا ہوا ہے، یہ جَگ جو ہے سمجھ لیجئے یہ ایک بڑا گلاس ہے۔ اسی طرح یہ بھی دائرے اور مثلّث میں بند ہے۔
الغرض کوئی بھی چیز آپ اس زمین پر دیکھیں گے تو اس میں آپ کو دو چیزیں بطورِ خاص نظر آئیں گی۔ یا تو اس چیز کے اوپر مثلّث غالب ہوگا یا سرکل یعنی دائرہ۔ اب جیسے بال ہے، اس کے اوپر سرکل غالب ہے، اب جیسے ناک ہے۔ ناک کے اوپر مثلّث غالب ہے۔ آپ ذرا غور کریں۔ اپنی ناک تو آپ کو نظر نہیں آئے گی دوسروں کی دیکھ لیں، تو وہاں آپ کو مثلّث غالب نظر آئے گی۔ اِسی طرح آپ پیالہ لے لیں، تگاری لے لیں، ہنڈیا لے لیں، آپ کا اللہ بھلا کرے…. پُھونکنی لے لیں، چشمہ لے لیں۔ ہر چیز میں آپ کو دائرہ یا مثلّث غالب یہ مغلوب نظر آئے گی۔
اب آپ سوچیں، دماغ پر زور ڈالیں۔ ہو سکتا ہے کوئی ایک چیز ہو جو اس قانون سے باہر ہو․․․․․ اب اگر ہم غور کریں، آسمان پر، زمین پر، چاند اور ستاروں پر، زمین کے اَندر جو چیزیں ہیں… وہ، زمین کے اوپر جو چیزیں ہیں… وہ…. مکھی، مچھر، چیونٹی، ہاتھی، شیر، بکری، بیل، بھینس، درخت، پھول، پہاڑ اور ریگستان وغیرہ پر، فرشتوں اور جنّات وغیرہ پر، تو پھر بتائیں ذرا․․․․․ ان میں دائرۂ غالب ہے یا مثلّث، ان کی تخلیق میں آپ کو دائرہ نظر آتا ہے یا مثلّث۔
سوچیں آپ سب بھی․․․․․
اجناس کے اوپر غور کریں۔ گندم کے دانے کے اوپر غور کریں۔ اگر دانے کو کھڑا کر کے اوپر سے دیکھیں تو یہ دائرہ میں پرت در پرت نظر آئے گا او اگر اس کے کسی ایک پرت کو، دائرے کو درمیان سے کاٹ دیں تو یہی گندم کا دانہ ٹرائینگل کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا۔ اسی طرح نباتات، جمادات، حیوانات، حشرات الارض، انسان اور کائنات پر غور و فکر کریں، بار بار سوچیں، تھوڑا وقت نکال کر ضرور سوچیں․․․․․
کسی نے سوال کیا کہ،
سوال: ہَوا کو ہم کیا کہیں گے؟
جواب: ہَوا کو آپ جانتے ہیں؟ آپ نے دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو پھر آپ کو کیا پتا…. ہَوا مثلّث ہے یا ٹرائینگل ہے… یا سرکل ہے جب آپ کو پتا ہی نہیں ہے۔
یاد رکھئیے! یہ آپ کی کلاس ہے۔ جو بات دیکھئے، جو بات آپ کریں بغیر سوچے نہیں کیجئے گا کبھی۔ اس سے دوسرے لوگ جو زیادہ سوچ و بچار والے ہیں ان کا نقصان ہوتا ہے۔ دوسرے کیا سوچیں گے کہ یار کیا بیوقوفی کی بات کی ہے۔ اب ساری اس کی توجّہ (Concentration)ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو ذہن میں سوال آیا کھڑے ہو کر کر دیا۔
اس ذہن میں سوال آیا…. ہَوا…. تو آپ کو سوچنا چاہئے ….کس طرح ہَوا؟ آپ کی ذہن میں خود ہی یہ بات آجاتی کہ ہَوا تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔”کچھ چیزیں مربع یا مثلّث شکل میں ہوتی ہیں ان کے متعلق بتائیں؟ ہے کوئی چیز؟
پھر آپ اس کاف (ک) کو الگ اور نون (ن) کو الگ کاغذ پر لکھ لیں۔
ک سے مراد مثلّث یعنی مثلّث کی ایک شکل۔ ابھی جب آپ دیکھیں گے تو دراصل یہ مثلّث کی ہی ایک شکل نظر آئے گی۔
①
(۲) ک
(۳)
(۱)یہ(/)بھی مثلّث ہے(۲) بھی مثلّث ہے، (۳) یہ(-) بھی مثلّث ہے۔
ک (کاف) کا مطلب ہُوا کہ تین مثلّث کو ہم نے ایک جگہ جمع کردیا۔ تین مثلّث جب ایک جگہ جمع ہوگئیں اس کا مطلب ہُوا…. ک (کاف)۔ یعنی ک …. حرفِ مرکّب ہے…. تین مثلّث کا۔
②
(۱)ن
یہ نون جو ہے یہ سرکل ہے…. اِس کو اگر اوپر سے ملا کر کے مکمل کر دیا جائے تو یہ سرکل بن جائے گا۔
یہ (U) بھی سرکل ہے۔ اس کے اَندر جو نقطہ (۰) ہے وہ بھی سرکل ہے تو…. ن مرکّب ہے…. دو سرکل کا۔
قانون: اب قانون یہ بنا کہ یہ ساری کائنات ٹرائینگل(Triangle)اور سرکل(Circle)پر تخلیق ہورہی ہے یا کی گئی ہے۔ اس کائنات میں جو مخلوق ہے وہ یا تو غالب ٹرائینگل سی بنی ہوئی ہے یا غالب سرکل سے بنی ہوئی ہے۔
لیکن دائرے یعنی سرکل(Circle)اور مثلّث یعنی ٹرائینگل (Triangle)سے باہر کوئی تخلیق اس کائنات میں نہیں ہے۔
آپ لوگوں کے ذہن میں یہ بات پوری طرح آگئی ہوگی کہ لوح ِ محفوظ دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک پروجیکٹر ہے جو کتابُ المبین سے فیڈ ہو رہی ہے۔ جو کتابُ المبین کی روشنیوں سے اور اَنوار سے متحرک ہے۔ جہاں یہ روشنیاں متحرک ہیں جہاں یہ روشنیاں تصویر بن رہی ہیں وہ اسکرین ہے جس کو تصوّف اور رُوحانیت اور قرآن زمین کے نام سے پکارتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائناتی پروگرام کی تخلیق جس فارمولے پر ہوئی اور مثلّث وہ دائرہ ہے۔ مثلّث اور دائرے کے اجتماع سے کہیں دائرہ غالب ہے کہیں مثلّث غالب ہے اس کی اجتماعیت سے جو کائنات تخلیق ہوئی وہ کائنات زمین کی اسکرین پر (Display) ڈسپلے ہورہی ہے۔
روحانی تعلیمات کی روشنی میں جب غور و فکر کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں زمین کا جب تذکرہ کیا ہے تو زمین کو ایک کہا۔ زمین کو جمع کے صیغے میں بیان نہیں فرمایا۔ اور جب آسمانوں کا ذکر کیا تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی۔ اس بات کو ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں بیان کر سکتے ہیں کہ سات پروجیکٹروں سے، سات چَینلوں سے سات مختلف فریکوئنسیوں سے کائناتی پروگرام نشر ہو رہا ہے۔ اور وہ کائناتی پروگرام جو مظاہراتی خدوخال میں نظر آرہا ہے، جو زمین کی اسکرین پر ہم دیکھ رہے ہیں اور زمین کی اسکرین پر جو پروگرام نشر ہورہا ہے اس میں ٹھر اؤ نہیں ہے، استحکام نہیں ہے وہ ہر آن اور ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انسان کی اپنی ذات ہے۔
ایک انسان جو پیدا ہُوا…. وہ در اصل زمین کی اسکرین پر نمودار ہُوا۔ زمین کی اسکرین پر نمودار ہونے کے بعد اس کے اَندر استحکام نہیں ہے…. اُس کے اَندر ٹہراؤ نہیں ہے…. وہ ساکن و جامِد نہیں ہے۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے ایک لمحے کے ہزارویں فریکشن (Fraction) میں تبدیل ہوتا ہے۔ اگر بچہ ہر لمحے کے ہزارویں فریکشن میں تبدیل نہ ہو گا…. اُس کی نشو نما رُک جائے گی۔ وہ ا یک منٹ کے بعد دوسرے منٹ میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک دن کا بچہ کبھی دو دن کا نہیں ہوگا۔ اور ایک سال کا بچہ کبھی دس سال کا بچہ نہیں بنے گا۔ یہی صورت زمین پر مَوجود تمام مخلوقات کی ہے․․․․․ آپ کبوتر کے بچے، بکری کے بچے، بھیڑ کے بچے، درخت کے بچے…. کسی بھی بچے پر غور کریں اس کی نشوونما کا سارا دار و مدار اس کی تبدیلی پر ہے۔ ان مشاہدات اور تجربات سے اور حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ “کُن”ایک دفعہ نشر ہو کر ختم نہیں ہوگیا۔ لفظ کُن مسلسل اور متواتر جاری ہے۔ زندگی دراصل لفظ کُن کا (ECHO) ہونا ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے جو لوگوں کو بتایا جاتا ہے۔
جو قانون ہم نے آج بیان کیا ہے…. اِس کو صرف سننا، لکھنا کافی نہیں ہے اس کے اوپر تفکر کرنا لازم ہے۔ اپنے گھروں میں ایک وقت مقرر کریں اور آج کے بیان کردہ اس قانون پر غور
و فکر کریں اور اپنے اِردگرد پھیلی ہوئی مثالوں سے اس کو ثابت کریں۔ کم از کم پچاس مثالیں لکھئے۔
جب اللہ تعالیٰ کے ذہن سے لفظ کُن نکلا تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ساری کائنات ٹرائینگل اور سرکل میں اپنا مظاہر کرے۔
پہلا مظاہرہ کائنات کا….سرکل کی شکل میں ہُوا۔
پہلا مظاہرہ، سرکل کی شکل میں ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس وقت ٹرائینگل نہیں تھا یعنی اس وقت سرکل غالب تھا اور ٹرائینگل یا مثلّث مغلوب تھا۔ اِسی مثلّث یا دائرے کی بنیاد پر کائنات میں تخلیق ہوئی اور نوعوں کا ظہور ہوا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رُوح تو دراصل ہم کہتے ہیں۔ سرکل غالب ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فرشتے، اس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ سرکل غالب ہے اور ٹرائینگل جو ہے وہ مغلوب ہے۔ کائناتی پروگرام اوپر سے نیچے کو نشر ہو رہا ہے جس کو انبیائے کرام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات کی روشنی میں، اولیاء اللہ ؒ اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے نزول کا نام دیا ہے۔ یعنی کہیں کوئی کائناتی پروگرام ریکارڈ ہے اور وہاں سے ڈسپلے(Display)ہو کر خدوخال اور شکل و صورت کے ساتھ اپنا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک بار پھر میری بات آپ غور سے اور توجّہ سے سنیں کہ:
جہاں یہ پروگرام اجتماعی طور پر، نوعی اعتبار سے، پوری کائنات کے لحاظ سے ریکار ڈ ہے اُس کو کتابُ المبین کہا جاتا ہے۔ آپ کویہ اندازہ نہیں ہے کہ کتنا زور پڑتا ہے آپ کو سمجھانے کیلئے اور میں اپنے اَندر کتنی گہرائی میں اتر جاتا ہوں۔ اب اس کتابُ المبین کی مثال کو ہم مادّی وسائل سے بیان کرتے ہیں۔
آپ لوگوں نے سینما دیکھا ہے۔ سینما دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک اسکرین ہو اور اسکرین پر ڈسپلے (Display) ہونے کیلئے آپ کی کمر کے پیچھے کچھ بلندی پر پروجیکٹر لگا ہوا ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹر پر فلم چلتی ہے۔ جب فلم چلتی ہے اگر خالی فلم چلتی رہے اور پیچھے اُس کو روشنی نہ ملے تو اسکرین پر کوئی نقش و نگار آپ نہیں دیکھ سکتے۔
پروجیکٹر پر جب آپ فلم کا فیتہ چڑھاتے ہیں تو اس کی تین صورتیں آپ کے سامنے ہیں۔
ایک یہ کہ بیچ میں فلم ہوتی ہے فلم کے پیچھے روشن بلب ہوتا ہے اور تیسری یہ کہ اس روشنی کو…. جو فلم سے چَھن کر آرہی ہے…. ایک (Lens)یا شیشہ…. مُحدّب شیشہ…. اس چھوٹی سی فلم کو بڑا بڑا بنا کر دِکھاتا ہے۔ اور وہ روشنیاں ایک سوراخ میں سے نکل کر اجتماعی لہروں کی شکل میں پردے کی یا کینوَس کی یا جو بھی اسکرین ہے اس پر پڑتی ہیں۔ جب وہ روشنیاں پروجیکٹر سے نکل کر فلم میں سے گرز کر اور اس شیشے سے گزر کر لہروں کی شکل میں اسکرین پر گرتی ہیں تو اس کو ہم کہتے ہیں کہ “ہم فلم دیکھ رہے ہیں۔”یہ فلم در اصل نزولی حرکت کہ علاوہ کچھ نہیں ہے اگر یہاں یا دوسری منزل پر پروجیکٹر لگا ہوا نہ ہو یا اسکرین کے مقابل پروجیکٹر نہ ہو اور اس پروجیکٹر کے آگے ریکارڈ (Record) فلمی فیتہ نہ ہو اور اس فلمی فیتے کے پیچھے بہت زیادہ وولٹیج کی بجلی نہ ہو اور اسکرین کے سامنے شیشہ نہ ہو جو بہت بڑا کر کے دِکھاتا ہے توآپ فلم نہیں دیکھ سکتے۔ تو اسی صورت ِمثال کو اگر ہم لوح محفوظ کے نام سے بیان کریں کہ لوح ِ محفوظ ایک پروجیکٹر ہے اس پروجیکٹر پر کتاب میں کائناتی فلم سرکل کی شکل میں لکھی ہوئی مَوجود ہے چل رہی ہے اور اس کے پیچھے روشنی یا اَنوار جس کو فیڈ(Feed)کر رہی ہیں یہ اجتماعی روشنی لہروں کی شکل میں اسکرین پر گرتی ہے اس کوتصوّف میں، رُوحانیت میں نُزولی حرکت کہا جاتا ہے۔
یاد رکھیں! کلاس میں کامیاب ہونے کیلئے پرسکون ہونا بہت ضروری ہے۔ جب آپ پر سکون ہوں گے تو خوشحال بھی لازماً ہوں گے۔ اس سے ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اسی طور پر آپ کو خوشحال ہونا، پر سکون ہونا چاہئے۔ اگر کوئی ذہنی طور پر پر سکون نہیں ہے خوشحال نہیں ہے اس کا رُوحانیت پر چلنا مشکل ہے۔ صبر و تحمل اور برداشت پیدا کریں۔ غصے کو ختم کردیں۔ اَنا کے خول سے باہر نکلیں۔ اَنا ایک اچھی چیز ہے مگر اس میں مبتلا ہو کر دوسروں کی دل آزاری ہو وہ دوسروں کو کیا خوشی دے گا۔ انسان غصہ اس وقت کرتا ہے جب اسے اقتدار کی خواہش انسان ہوتی ہے اقتدار کی خواہش انسان کو خود اپنی ذات سے بیزار کردیتی ہے۔
مسئلہ کسی کا ہو، شوہر کا ہو، بیوی کا ہو، بچوں کا ہو، والدین کا ہو، دوست احباب کا ہو، جب بھی آپ کو غصہ آئے آپ سمجھ لیجئے کہ شیطان نے آپ کے دماغ کو اقتدار کے حصول کی طرف مُتوجّہ کردیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ جب بھی آپ غصہ کریں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنی اَنا کے خول میں بند ہوگئے ہیں۔ اب غصے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس طرح بچے کچھ بھی کرتے رہیں اور آپ انہیں نہ ڈانٹیں ڈپٹیں…. نہ انہیں کچھ کہیں…. مقصد یہ ہے کہ انسان کے اَندر اعتدال ہونا چاہیئے۔ رُوحانیت اعتدال کا راستہ ہے۔ رُوحانیت یقین کا راستہ ہے اور یقین کے راستے پر چلنے والے بندے کے اَندر شک نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے اَندر شک ہے آپ سمجھ لیجئے کہ جس راستے پر آپ چل رہے ہیں اس میں کھوٹ ہے۔ یقین اور شک یہ دو ایسے مرحلے ہیں کہ جس سے ہر آدمی کا گزرنا یقینی ہے۔ آدمی یقین اور شک کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جو لوگ یقین پر شک کی اہمیت کو ختم کردیتے ہیں وہ صراطِ مستقیم پر چلتے ہیں اور جن لوگوں کے اَندر یقین کے مقابلے میں شک زیادہ ہوتا ہے وہ شیطان کے راستے پر چلتے ہیں۔
شیطان کا راستہ کبر و نخوت اور اپنی ذات کی تسکین کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آدمؑ اور شیطان ابلیس کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس قانون کو بیان کردیا ہے کہ:
”شیطان نے نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ کس بات نے تجھے مجبور کیا کہ ہماری تمام نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے ہماری حکم عدولی کرے۔ “
شیطان نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے جواب میں جو کچھ کہا ہے وہ بجائے خود شر اور خیر کے درمیان ایک مکمل راہنمائی ہے۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے اِن ارشادات کے جواب میں کہا!
اللہ تعالیٰ آپ یہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں نے آپ کی نافرمانی کیوں کہ؟ آپ نے مجھے اَغواء (Kidnap) کر لیا ہے، گمراہ کردیا ہے، صراطِ مستقیم سے ہٹا دیا ہے۔ آپ نہیں چاہتے تھے، اس لئے میں نے یہ کیا۔”
حضرت آدم ؑ سے جنّت میں بُھول چُوک ہوگئی۔ بُھول سے وہ درخت کے قریب چلے گئے جس درخت کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ سے بھی کہا کہ:
“ہم نے تمہیں منع نہیں کردیا تھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا اور اگر تم اس درخت کے قریب چلے گئے تو زمین پر کود پڑو گے اور تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔”
آدمؑ نے اللہ تعالیٰ کی اس بات کا جواب عرض کیا! لیکن دونوں جواب کتنے مختلف تھے آپ غور کریں۔
آدم علیہ السّلام نے فرمایا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا… اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کیا۔
وَاِلَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا…. اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہیں کردیا، اگر آپ نے ہم پر رحم و کرم نہیں کیا۔
لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ…. تو ہماری ساری زندگی خسارے میں چلی جائے گی۔ یا اللہ ہمیں معاف کردیں۔
دیکھیں دونوں جواب اپنے سامنے رکھیں۔
(i) شیطان کا جواب اَنا کے خول میں بند اور کبر و نخوت میں ڈوبا ہوا تھا۔
(ii) آدمؑ کا جواب عاجزی، انکساری، تحمل، بردباری اور معافی کے الفاظ میں ظاہر ہوا۔
عاجزی، انکساری اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، لوگوں کو بھی پسند ہے۔ اس عاجزی اور انکساری کی قبولیت کا اندازہ کیجئے کہ آدمؑ کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے۔ اس عاجزی انکساری کا اندازہ کیجئے کہ آدم کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو اپنا محبوب بنا کر بھیجا اور کبرو نخوت میں مبتلا اور بڑائی میں ڈوبا ہُوا اِبلیس…. محض اسئے کہ وہ اپنی اَنا کے خول سے باہر نہیں آیا… ذلّت اور لعنت برس گئی۔
تمام رُوحانی طلباء اور طالبات کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عاجزی اور انکساری کو، صِلہ رحمی کو اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کبر کو…. بڑائی کو…. اقتدار کی خواہش کو…. جا و بے جا اپنی بات منوانے کو…. ہَٹ دَھرمی اور ضِد کو اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کو…. نا پسند کرتا ہے۔
سب میری اولاد ہو…. میرے شاگرد ہو…. آپ کے اَندر اپنے استاد کا عکس نظر آنا چاہے ۔ استاد کا عکس لباس، ٹوپی اور داڑھی میں ہی نظر نہ آئے بلکہ طرزِ فکر میں…. رُوح کے عرفان میں اور اللہ کی پہچان میں نظر آنا چاہئے۔ رُوحانی علوم کے حصول میں میری ان ہدایات پر عمل کریں تبھی آپ کامیاب ہوسکیں گے ورنہ خسارے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
آپ کا یہ استاد…. آپ کے اَندر…. اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اِس نعمت کی نا شکری مت کریں…. آپ کو اللہ تعالیٰ خوش رکھے اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین….
السّلام علیکم
خواجہ شمس الدین عظیمی
اِنتساب
اُس جبلِ نور کے نام…..
جہاں
سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما
کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا