Topics

کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب

مارچ ۲۰۰۱؁ء کو لاہور کے الحمراء آڈیٹوریم میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب کی کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب میں چیئرمین پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ محمد اظہر، ممتاز دانشور اور ادیب اشفاق احمد، ایڈیٹر نوائے وقت مجید نظامی، ڈپٹی کنٹرولر ایف۔ ایم ریڈیو لاہور عبیدہ سید، چیئر مین شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی محمد شفیق۔ ڈین فیکلٹی شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی جمیلہ شوکت، صدر روٹری کلب محمد عبدالوہاب اور سروسز ہسپتال لاہور کے ایم۔ ایس ڈاکٹر مظہر الدین نے خصوصی شرکت فرمائی۔ اسکے علاوہ مختلف سکولوں کے پرنسپلز، اساتذہ کرام اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
مسکین حجازی، شفیق احمد جالندھری اور عبیدہ سید نے اپنے خطابات میں عظیمیؔ صاحب کی اِس کتاب کو بچوں کے تدریسی نصاب میں شامل کر نے کی تجویز پیش کی۔ عظیمیہؔ رُوحانی لائبریری برائے خواتین جوہر ٹاؤن لاہور کی لائبریرین اسماء صاحبہ نے انتظامیہ کی جانب سے تمام مہمانانِ گرامی، اساتذہ کرام اور بچوں کا بڑی تعداد میں شریک ہونے پر شکریہ ادا کیا۔
اس پروگرام میں عظیمی صاحب کو بچوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ مختلف سکولز کے طلباء و طالبات نے ٹیبلو پیش کئے، نعت خوانی کی گئی اور قصیدہ بردہ شریف پڑھا گیا۔ تقریب کے آخر میں مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ مرشدِ کریم نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السّلام علیکم!
آج اس تقریب میں مَوجود بچوں کی بڑی تعداد میرے لئے حوصلہ افزاء ہے۔ اساتذہ نے ان بچوں کی تربیت پر بھر پور توجّہ دی ہے جو نہایت قابلِ تحسین ہے۔ آج کا انسان اس لئے بے سکون اور پریشان ہے کہ میرے خیال میں بچپن سے دُور ہو گیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ بچوں میں سکون اور اطمینان کی طرزیں بڑوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ بچے جتنے سکون سے زندگی گزارتے ہیں اور سوتے ہیں بڑے اتنے سکون سے نہ تو زندگی گزارتے ہیں اور نہ ہی ان کو اتنی پر سکون نیند میسر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
• بچے کے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ میرے کپڑے کیسے بنیں گے؟ میرے جوتے کیسے آئیں گے؟ میرےاسکول کی فیس کس طرح ادا کی جائے گی؟ مجھے کھانا کیسے میسر آئے گا؟ میں پانی کیسے پیوں گا؟ مجھے فلاں چیز کیسے حاصل ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
• وہ اپنے تمام معاملات کو اپنے والدین کے سپرد کر کے اپنی ساری توجّہ زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور حاصل کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے۔
بچپن کے اس رویے میں بڑوں کیلئے ایک انتہائی زبردست پیغام چھپا ہوا ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ:
‘‘اگر بڑے اپنا کفیل اللہ تعالیٰ کو مان لیں تو ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے’’۔
کفیل تو سب کا اللہ ہی ہے اور اللہ ہی اپنی مخلوق کی تمام ضروریات ہر لمحہ پوری کر رہا ہے۔ لیکن جب انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ روزی تلاش کر سکے تو اکثر اس کا یقین ٹوٹ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کفالت کر رہا ہے۔ نتیجے میں وہ بے سکون ہوجاتا ہے۔ اگر ہمارا یقین اللہ پر قائم ہوجائے جس طرح ہم بچپن میں اپنے والدین پر یقین رکھتے تھے تو ہمارے اَندر سکون داخل ہوجائے گا۔
رواں دواں پانی کو دیکھ کر آدمی اس لئے متأثر ہوتا ہے کہ اس کے لاشعور میں یہ بات مَوجود ہے کہ پانی زندگی کو قائم رکھنے کیلئے ایک اہم عنصر ہے۔ خنک لطیف ہَوا کے جھونکوں سے آدمی اس لئے پر کیف ہوجاتا ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ لطیف اور خنک ہَوا آدمی کو بنیادی ضرورت آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ خوشنما لباس پہن کر آدمی اس لئے اپنے اَندر فرحت محسوس کرتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات مَوجود ہے کہ خوشنما چیزیں دوسروں کو متأثر کرتی ہیں اور خوشنمائی خود انسان کیلئے ایک بہترین خوشی کا ذریعہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر…. اِس میں حیوانات یا انسان کی کوئی تخصیص نہیں…. آدمی کے اوپر ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں اس کا اپنا بچپن محفوظ ہے۔ بالفاظ ِ دیگر ہم اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ایک بڑا بوڑھا آدمی بچے کو دیکھ کر اپنے ماضی کے بچپن میں لوٹ جاتا ہے کیونکہ بچے فطری اور جبلی طور پر خوش رہتے ہیں اس لئے جب ایک ساٹھ سالہ، بیس سالہ یا پچیس سالہ آدمی اپنے بچپن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اوپر وہی تمام تاثرات غالب آجاتے ہیں جو بچوں کی زندگی کا خاصہ ہیں۔
حضور پاکﷺ کا رشادِ گرامی ہے: “ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں”․․․․
حضور پاک ﷺ کا یہ ارشاد بہت زیادہ فکر طلب ہے․․․․
ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ فطرت سے واقف ہے․․․․ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ․․․․․ فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی․․․․
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، جس دنیا میں نا معلوم مقام سے آتے ہیں․․․․․ اس میں دو باتیں قابلِ توجّہ ہیں․․․․․
جب بچہ اس دنیا میں پہلا قدم رکھتا ہے ․․․․․ تو وہ دراصل ایک ایسے مقام میں داخل ہوتا ہے جس کا اپنا ایک ماحول ہے․․․․․ اس ماحول کی پہلی سیڑھی محدودیت ہے․․․․․
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج پیدا ہونے والال بچہ لامحدود مقام سے نکل کر محدود مقام میں داخل ہوا․․․․․ جب ہم لا محدودیت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مقام ہے جہاں پابندی نہیں ہے․․․․․ فاصلوں کا تَعیّن نہیں ہے․․․․․ وقت کی گنتی نہیں ہے․․․․․ اور کسی مخصوص منزل کا تَعیّن نہیں ہے․․․․․ اور جب محدودیت کی بات کرتے ہیں․․․․․ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب ہم چلتے ہیں تو وہ قدم چلنے میں بھی محدودیت ہمارے اوپر مسلّط ہوتی ہے․․․․․ اور پچاس قدم چلنے میں بھی محدودیت کی بھول بھلیوں سے آزاد نہیں ہوتے․․․․․
منزل کے تَعیّن کے بغیر سفر نہیں ہوتا ․․․․․ مقام کے تَعیّن کے بغیر ہم کسی شہر کا نام نہیں رکھ سکتے ․․․․․ دن اور سال کے تذکرے کے بغیر ہم عمر کا حساب نہیں لگا سکتے ․․․․․ نام کے بغیر ہماری شناخت نہیں ہوتی․․․․․ والدین کے بغیر ہمارا وُجود مشکوک بن جاتا ہے․․․․․ باپ بننا ․․․․․ ماں بننا ․․․․․ بیٹا ہونا․․․․․ خاندان ہونا․․․․․ ہر ضرورت کیلئے ذی احتیاج ہونا․․․․․ کنبہ برادری اور قوم میں شمار ہونا․․․․․ یہ سب محدودیت ہے․․․․․
بچہ جب ماں کے محدود وُجود سے اپنے وُجود کا اِدراک کرتا ہے تودراصل یہ اِدراک محدودیت کا اِدراک ہے․․․․
پیدائش کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ جس لامحددو مقام سے آیا ہے․․․․ اس لا محدود مقام کو بھول گیا ہے․․․․․ لامحدود مقام کی لامحدو صفات اس کے اَندر مَوجود ہوتی ہیں․․․․․ جیسے جیسے بچہ محدودیت میں زندگی بسر کرتا ہے․․․․․ سیکنڈوں، منٹوں، گھنٹوں، دنوں، سالوں میں․․․․․․ اسی مناسبت سے محدودیت کا پردہ تہہ در تہہ موٹا ہوتا رہتا ہے․․․․․ اور لامحدودیت اس پردے کے پیچھے چھپتی رہتی ہے․․․․․ محدودیت کے Behaviourسے یہ پردہ اتنا دبیز ہوجاتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ سے تشبیہہ دی جائے تو یہ تشبیہہ مناسب ہے․․․․․
پردہ کتنا ہی موٹا اور دبیز ہوجائے لیکن سوچ اور فکر کی بساط لا محدو ہی رہتی ہے ․․․․․ کسی بھی لمحہ لامحدودیت سے رشتہ نہیں ٹوٹتا․․․․․ لیکن شعور لامحدودیت سے متصل ہونا نہیں چاہتا ․․․․․ اور اس کے اوپر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ․․․․․
یہی وہ احساس ہے جسے ہم خوف کہتے ہیں․․․․․ اور یہی وہ خوف ہے جسے ہم موت کہتے ہیں․․․․․ حالانکہ زمین پر پیدا ہونے والا کوئی فرد اس بات سے انکار ہی نہیں کر سکتا وہ مرے گا نہیں۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْت (سورۃ آلِ عمران – 185)
ڈھائی سال کے بچے کو ہم اسکول میں داخل کرتے ہیں․․․․․ صبح سویرے بچے کو گہری نیند سے زبردستی اٹھایا جاتا ہے․․․․․ اسکول کی تیاری کیلئے․․․․․ اسکول کی بس میں بٹھا دیا جاتا ہے․․․․․ اسکول میں بچہ چار گھنٹے سے آٹھ گھنٹے تک رہتا ہے ․․․․․ آٹھ گھنٹے کے بعد جب وہ گھر آتا ہے تو کو تھوڑے سے آرام کے بعد ہوم ورک کرایا جاتا ہے ․․․․․ شام کو ٹیوٹر صاحب ٹیوشن پڑھانے آجاتے ہیں․․․․․
ماں کی آواز بچے کے کان میں اترتی چلی جاتی ہے کہ جلدی سوجاؤ صبح اسکول جانا ہے ․․․․․ اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ میٹرک تک قائم رہتاہے․․․․․ محدود دنیا کے محدود حساب کے تحت میٹرک تک کا وقت تقریباًچالیس ہزار گھنٹے بنتا ہے․․․․ یعنی ہمارا بچہ اپنی زندگی کے چالیس ہزار گھنٹے گزار کر صرف اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ اسے معاش کے لئے کون سا شعبہ اختیار کرنا ہے․․․․․ زیدہ تر شعبے کے انتخاب میں Guardianکا عمل دخل ہوتا ہے․․․․․
جب بچہ جوان ہوتا ہے․․․․ دنیا داری کو سمجھنے لگتا ہے ․․․․․ کاروبار کرتا ہے․․․․․ یا ملازمت اختیار کرتاہے․․․․․ تقریباًبائیس سال کی محدودیت اس کی رہنمائی کرتی ہے․․․․․ وہ اس محدویت کو مزید استعمال کر کے زندگی گزارتا ہے اور اس زندگی کو کامیاب زندگی قرار دیا جاتا ہے․․․․․
لا محدود حواس کے تحت مذہب یا مذاہبِ عالَم کی تعریف یہ ہے کہ انسانی ذہن لامحدود اور محدود حواس کو سمجھتا ہو․․․․․ اور آدھی زندگی لا محدود حواس میں اور آدھی محدود حواس میں گزرتی ہو․․․․․
مذہب․․․․․ دین فطرت ہے․․․․․ اور دین فطرت اس لا محدود سفر کو کہتے ہیں جس کی منزلیں بندے کو لا محدود ہستی اللہ سے قریب کردیتی ہیں․․․․․ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“میں تمہارے اَندر ہوں، تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہو!” (سورۃ الذاریات – 21)
آدمی کی شان بھی نرالی شان ہے․․․․․ وہ کہتا کچھ ہے․․․․․ سمجھتا کچھ اور ہے ․․․․․ ایک طالبِ علم کو والدین، کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بھیجتے ہیں․․․․․ وہ بچہ چار سال، پانچ سال، ماں باپ سے الگ․․․․․ معاشرے کی ذمہ داریوں سے آزاد ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ․․․․․ کہا جاتا ہے کہ بچے نے علم حاصل کیا ہے․․․․․ ایسا علم جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکتا ہے․․․․․ پیٹ کا ایندھن اکھٹا کر سکتا ہے․․․․․ بیوی بچوں کو پال سکتا ہے․․․․․
دوسرے باپ نے اپنے بیٹے کو طالب علم کی حیثیت سے خانقاہ کے ہاسٹل میں بھیج دیا تاکہ وہ محدود علوم کے ساتھ ساتھ لامحدود علوم بھی حاصل کرے ․․․․․ خاندان کے افراد کہتے ہیں۔ بچے کو راہب بنا دیا․․․․․ جبکہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے․․․․․
اے دانا اور عقل مند لوگو! ․․․․․ بتاؤ کہ اس بات کا کیا مطلب ہوا․․․․․؟
ہماری دانست میں مطلب یہ ہوا کہ ہم لا محدود اور لا شعوری علوم سیکھنا ہی نہیں چاہتے ․․․․․
ایک دفعہ ایک اونٹ، ایک بیل اور دنبہ․․․․․ ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے ․․․․․ دیکھا، راستے میں گھاس کا ایک گٹّھر پڑا ہوا ہے․․․․․ سفر کی وجہ سے تینوں کو بھوک لگی ہوئی تھی اور تینوں گھاس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے․․․․․
دنبہ بولا․․․․․ بھائیو! یہ گھاس تو بہت تھوڑا سا ہے․․․․․ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس کے تین حصے کر کے ہم تینوں تقسیم کر لیں․․․․․ اس طرح کسی کا بھی پیٹ نہیں بھرے گا․․․․․ لہٰذا میں سوچتا ہوں کہ اس گھاس کا حقدار میں ہوں․․․․․ اس لئے کہ میں تم سب سے بزرگ ہوں؟․․․․․
دنبہ نے کہا․․․․․ مجھے اپنی تعریف اچھی نہیں لگتی․․․․․․ اور اپنے منہ تعریف کرنا ہے بھی بری بات، مگر میں حقیقت چپاہ بھی نہیں سکتا ․․․․․ بات دراصل یہ ہے کہ میں حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کے قربانی کے دنبہ کے ساتھ گھاس چرتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا․․․․․
بیل نے جب یہ سنا تو وہ ناگواری سے بولا․․․․․ اے دنبے میاں! ․․․․․ بس رہنے دو․․․․․ تمہیں پتہ نہیں، میں اس جوڑی کا بیل ہوں جس بیل سے حضرت آدمؑ نے زمین پر زراعت کیلئے پہلا ہل چلایا تھا․․․․․
کہتے ہیں اونٹ بڑا ہوشیار جانور ہے․․․․․ اور اس کی آنکھیں اتنی روشن ہیں کہ ان سے ذہانت ٹپکتی ہے․․․․․(آپ کو کبھی اونٹ نظر آئے تو اس کی چمکدار، سرمگیں اور ذہین آنکھوں میں ضرور دیکھنا)․․․․․ اونٹ نے دونوں کو شیخیاں بگھارتے سنا ․․․․․ تو اس نے کچھ کہے بغیر گھاس کا پورا گٹھا منہ سے پکڑ کر اٹھا لیا․․․․․ اور گردن سیدھی کرکے اتنے اونچا کردیا کہ دنبہ اور بیل دونوں منہ تکتے رہ گئے․․․․․ اونٹ نے جب ان دونوں کو بہت مایوس دیکھا تو اونٹ بولا․․․․․
دوستو ․․․․․ اور میرے ہمسفر ساتھیو․․․․․ مجھے قِیل و قال تو آتی نہیں ․․․․․ اور نہ ہی اونٹوں کی تاریخ سے واقف ہوں․․․․․ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اونٹ بھی بزرگ ہوتے ہیں․․․․․․ بھائیو! تم اپنی فضیلت تاریخ میں ڈھونڈتے رہو․․․․․ اصل بزرگی تو یہ ہے کہ وقت کا کیا تقاضہ ہے․․․․․ تم اپنی اپنی بزرگی ثابت کرو․․․․․ اور میں چلتا ہوں․․․․․ خدا حافظ․․․․․
مولانان رومؒ کی یہ حکایت مسلمان قوم کو آئینہ دکھاتی ہے․․․․․ ہر مسلمان یہی کہتا ہے “پِدرَم سلطان بَوَد”․․․․․میرے ابا بادشاہ تھے․․․․․ ہمارے تاریخی کارنامے یہ ہیں، وہ ہیں․․․․․ ہمارے سروں پر تاج تھا․․․․․ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آج کے حال میں ان کی کیا حالت ہے․․․․․ اور ذِلّت و رسوائی میں ان کا کیا مقام ہے․․․․․
اپنا اصل مقام تلاش کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرما کر ہماری راہنمائی فرمائی۔
پیغمبروں کی ساری زندگی اس عمل سے عبارت ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام اور اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہم کے اَندر إستغناء کی طرزِ فکر راسخ ہوتی ہے۔ انبیاء اس طرزِ فکر کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ:
وہ کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اس چیز کے اوپر اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ان کی طرزِ فکر ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرزِ فکر مستحکم ہوجاتی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کرلیتا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ کی طرف خیال جاتا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجّہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ کی وجہ سے ہے۔ اس طرز عمل میں ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم ہوجاتا ہے۔ اللہ ہی بحیثیت محسوس ان کا مخاطب ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اللہ کی صفات ان کے ذہن
میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی ہیں اور ان کا ذہن اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا ہے۔
غور و فکر کیا جائے تو سوچےا اور سمجھنے کے کئی رخ متعیّن ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کے بجائے ہم دو رخ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1. وہ لوگ جو علمی اعتبار سے مستحکم ذہن ہیں یعنی ایسا ذہن رکھتے ہیں جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز…. اُس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت ہو…. چھوٹی ہو یا بڑی، راحت ہویاتکلیف سب اللہ کی طرف سے ہے۔
2. ان لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات آجاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ مَوجود ہے، جو ہو رہا ہے، جو ہوچکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے اس کا براہِ راست تعلق اللہ کی ذات سے ہے۔ یعنی جس طرح اللہ کے ذہن میں کسی چیز کا وُجود ہے اسی طرح اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت، ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ یہی پیغمبروں کی طرزِ فکر ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کردی ہیں، وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اَندر إستغناء کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔
قلندر بابا اولیاء ؒ کا ارشاد ہے کہ إستغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل بغیر مشاہدے کے نہیں ہوتی، اور جس آدمی کے اَندر إستغناء نہیں ہوتا اس آدمی کا تعلق اللہ سے کم اور مادّی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتاہے۔
آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دولت کے انبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے سکون کوئی عارضی چیز نہیں ہے سکون ایک کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت وارِد نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے، جو عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن کے اوپر ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے بھی موت وارِد ہوتی رہتی ہے، ان سے کسی طرح سکون نہیں مل سکتا ہے۔
إستغناء ایک ایسی طرزِ فکر ہے جس مں آدمی فانی اور مادّی چیزوں سے ذہن ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرتا ہے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر کیس بندے کو غیب میں داخل کر دیتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اَندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے، وہ نظر کام کرنے لگتی ہے جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔ غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہوجاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ دَوڑ ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پر یعنی اللہ پر مرکوز ہوجاتا ہے۔ اِس مرکزیت کے بعد إستغناء کا درخت آدمی کے اَندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔
إستغناء سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی روپے پیسے کی طرف سے بے نیاز ہوجائے۔ روپے پیسے سے کوئی بندہ بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ضروریات ِ زندگی اور متعلّقین کی کفالت ایک لازمی امر ہے اور اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ إستغناء سے مراد یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کرے، اس عمل میں اس کے ساتھ اللہ کی خوشنودی ہو اور اس طرزِ فکر یا عمل سے اللہ کی مخوکق کو کسی طرح نقصان نہ پہنچے۔ ہر بندہ خود بھی خوش رہے اور نوعِ انسانی کے لئے بھی مصیبت اور آزار کا سبب نہ بنے۔ ضروری ہے کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو کہ:
• کائنات میں مَوجود ہر شے کا مالک در و بست اللہ ہے
• اللہ ہی ہے جس نے زمین بنائی
• اللہ ہی ہے جس نے بیج بنایا
• اللہ ہی ہے جس نے زمین کو اور بیج کو یہ وصف بخشا کہ بیج درخت میں تبدیل ہوجائے اور زمین اس کو اپنی آغوش میں پروان چڑھائے۔ پانی درختوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑے۔ ہوا روشنی بن کر درخت کے اَندر کام کرنے والے رنگوں کا توازن قائم رکے۔ دھوپ درخت کے نا پختہ پھلوں کو پکانے کیلئے مسلسل ربط اور قاعدے کے ساتھ درخت سے ہم رشتہ رہے۔ چاندنی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرے۔
• زمین کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسے درخت اگائے جو انسان کی ضروریات کو پورا کریں۔
• درختوں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسے پتے اور پھل پیدا کریں جن سے مخلوق کی ضروریات موسم کے لحاظ سے پوری ہوتی رہیں۔
آپ تمام اساتذۂ کرام اور معزز حاضرین غور کر کے مجھے بتائیں کہ:
• کون ہے جو آسمان سے اور زمین سےتہوں میں روزی پہنچا رہا ہے
• وہ کون ہے․․․․․ تمہارا سننا اور دیکھنا جس کے قبضے میں ہے
• وہ کون ہے جو نکالتا ہے زندگی کو موت سے اور نکالتا ہے موت کو زندگی سے
• پھر وہ کون سی ہستی ہے جو بیشمار زمینوں، آسمانوں، کہکشانی نظاموں اور کائناتی سسٹم کو نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے۔
یقیناً وہ اعتراف کریں گے کہ یہ ہستی اللہ ہے۔
 اے پیغمبرﷺ تم ان سے کہو کہ جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں پھر کیوں غفلت اور سر کشی سے نہیں بچتے؟
 ہاں بے شک یہ اللہ ہی ہے جو تمہارا پروردگار ہے اور جب یہ حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے۔
 تم کہاں جارہے ہو؟
 وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور
 جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سیرابی سے خوشنما باغ لگادئیے۔ حالانکہ یہ بات تمہارے بس کی نہیں تھی کہ باغوں میں درخت لہلہاتے۔
 کیا اللہ کے علاوہ دوسرا معبود بھی ہے؟
 مگر یہ لوگ ہیں جن کا شیوہ حجت اور کَج رَوی ہے
 اچھا بتائیں وہ کون ہے جس نے زمین کو زندگی کا مُستقر بنا دیا اس میں نہریں جاری کردیں اور پہاڑ بلند کر دئیے۔ دو دریاؤں میں دیوار حائل کردی؟
 کیا اللہ کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے؟ مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے
 اچھا بتلاؤ وہ کون ہے جو بے قراروں کی پکار سنتا ہے جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اسے پکارتے ہیں اور ان کا دکھ ٹال دیتا ہے؟ اور
 اللہ نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا۔ کیا اللہ کے سوا دوسرا بھی کوئی معبود ہے؟
 بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پکڑو
 اچھا بتلاؤ وہ کون ہے جو صحراؤں اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے․․․․․
 وہ کون ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے؟
 کیا اللہ کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے․․․․․
 اللہ کی ذات اس شرک سے پاک ہے اور منزّہ ہے کہ جو یہ لوگ اس کی معبودیت میں شریک ٹھہراتے ہیں۔
 اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو مخلوق کی پیدائش شروع کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے؟ اور
 وہ کون ہے جو زمین اور آسمان سے تمہیں رزق دے رہا ہے ․․․․․ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟
 اے پیغمبر ؐ کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔
 انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے۔ اللہ تعالیٰ پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں پھر زمین کی سطح شَق کر دیتے ہیں۔ پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیتے ہیں۔ اناج کے دانے، انگور کی بیلیں، کھجور کے خوشے سبزی ترکاری زیتون درخت کے جُھنڈ، قسم قسم کے میوے، طرح طرح کا چارہ، تمہارے فائدے کیلئے اور تمہاری جانوں کیلئے ہے۔
 دیکھو چوپایوں میں تمہارے لئے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے․․․․․ ان کے جسم میں خون و کثافت سے دودھ پیدا کرتے ہیں جو پینے والوں کیلئے بہترین مشروب ہے․․․․․
 کھجور انگور جس سے نشہ اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہیں، بلاشبہ اس بات میں باشعور لوگوں کیلئے بڑی نشانی ہے․․․․․ اور
 تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان کی ٹہنیوں میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں کہ اپنے لئے گھر بنائیں، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے․․․․․ پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں سے کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو․․․․․ اس کے جسم سے مختلف رنگوں کا رس نکلتا ہے جس میں انسان کیلئے شفاء ہے۔ بلاشبہ اس میں تم لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں گو غور و فکر کرے ہیں۔
 کیا تم نے اس بات پر غور کیا کہ جو کچھ تم کاشت کاری کرتے ہو اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں اگر ہم چاہیں تو اسے چُورا چُورا کردیں اور تم صرف یہ کہنے کیلئے رہ جاؤ کہ ہمیں تو اس نقصان کا تاوان ہی نہ دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنی محنت کے سارے فائدوں سے محروم ہوگئے۔
 یہ بات بھی تمہارے سامنے ہے کہ جو پانی تم پیتے ہو اسے کون برساتا ہے۔ تم برساتے ہو یا ہم بر ساتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں۔ کیا اس نعمت کیلئے ضروری نہیں کے تم اللہ کا شکر ادا کرو۔
 یہ بات بھی تمہارے سامنے ہے کہ جو آگ تم سلگاتے ہو اس کیلئے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم کر رہے ہیں؟ اسے یادگار اور مسافروں کیلئے فائدہ بخش بنایا۔
ان تمام مثالوں سے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ پوری کائنات کا مالک درو بست”اللہ “ہے۔ اور اللہ ہی وہ ہستی ہے جو تمام کائنات اور اس میں شامل تمام انواع اور اشیاء کو پیدا کر رہی ہے اور پیدا کر کے زندہ رہنے کیلئے، پرورش کرنے کیلئے وسائل بھی فراہم کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح رُوحانیت کا راستہ ہے۔
رُوحانیت کے راستے پر چلنے والے مسافر کو اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ:
زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات جب شاگرد…. درو بست پیرو و مرشد کے سپرد کردیتا ہے…. تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے…. بالکل اسی طرح، جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔
جب تک بچہ شعور کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا، ماں باپ چوبیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ گھر کا دروازہ نہ کھلے کہ بچہ باہر نکل جائے گا۔ سردی ہے تو بچے نے کپڑے کیوں اتار دئیے۔ سردی لگ جائے گی۔ کھانا وقت پر نہ کھایا تو ماں باپ پریشان ہیں کہ بچے نے وقت پر کھانا کیوں نہیں کھایا۔ بچہ ضرورت سے زیادہ سوگیا تو اس بات کی فکر کہ کیوں زیادہ سوگیا۔ نیند کم آئی تو یہ پریشانی کہ بچہ کم کیوں سویا۔ ہر شخص جو پیدا ہوا ہے اور جس کی اولاد ہے اور جس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بچے کی تمام بنیادی ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں اور یہ کفالت اس طرح پوری کی جاتی ہے کہ جس کا تعلق بچے کے اپنے ذہن سے قطعاً نہیں ہوتا۔ چوں کہ شاگرد یا مریدپیر و مرشد(مراد یا شیخ) کی رُوحانی اولاد ہوتا ہے، اس لئے مرشد رُوحانی باپ کی حیثیت سے مرید کی دینی، دنیاوی، رُوحانی ہر طرح کی کفالت کرتا ہے اور جیسے جیسے کفالت بڑھتی ہے، پِیر و مُرشد کا ذہن مرید کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جب شیخ مرید کی کفالت کرتا ہے تو مرید کا لاشعور یہ بات جان لیتا ہے کہ جو بندہ میری کفالت کر رہا ہے، اس کا کفیل اللہ ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ذہن آزاد ہوجاتا ہے اور اس کی تمام ضروریات اور تمام احتیاج اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہوجاتی ہیں۔
میری ان تمام معروضات کے پیش نظر اگر آپ لوگ، جس میں ہم سب شامل ہیں اپنی آئندہ نسل کو پرسکون اور کامیاب بناناچاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں خود اپنی تربیت کرنی ہوگی۔ بات ذرا تلخ ہے مگر حقیقت ہے کہ….
• ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہے۔
• جب ہم خود اسلام کے پیروکار نہیں ہیں تو ہم بچوں میں اسلام کی قدریں کس طرح اجاگر کس سکیں گے۔
• اگر ہم خود نماز نہیں پڑھتے تو بچے نماز کیسے پڑھیں گے۔
• اگر ہم خود دانت صاف نہیں کرتے تو بچے بھی دانت صاف نہیں کریں گے؟
• بچے دراصل بڑوں کو دیکھ کر کہ جس طرح بڑے کر رہے ہیں خود بخود ویسا ہی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
• بچے بڑوں کا عکس ہوتے ہیں۔
لہٰذا میری آپ سب حاضرین سے استدعا ہے کہ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ اگر پہلے اپنی بھی تربیت کر لی جائے تو ہماری آئندہ نسل پر سکون اور کامیاب بن جائے گی۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے اور ہمیں یقین عطا کرے کہ ہم اللہ کو اپنا کفیل مان لیں اور جان لیں۔

السّلام علیکم!

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا