Topics

کتاب “محمدؐ رسول اللّٰہ ﷺ”کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب

 اکتوبر ۱۹۹۸؁ء بمقام آواری ہوٹل لاہور میں ممتاز بین الاقوامی رُوحانی اسکالر جناب خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب کی تالیف “محمد رسول اللہؐ”(جِلد اوّل اور دوم)کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ اس تقریب کا اہتمام انتظامیہ مراقبہ ہال لاہور نے کیا۔ اس تقریب کا آغاز محمد عُزیر نے باقاعدہ تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا۔ طاہرہ گل نے خوبصورت انداز سے دُرودِ پاک پڑھتے ہوئے نعت پیش کی۔ نعت کے دوران کتاب کی رُونمائی کا فیتہ صاحبِ کتاب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کاٹا۔ کتاب محمد رسول اللہ ﷺ جِلد اوّل اور جلد دوم کو نہایت خوبصورت طریقے سے پیک کیا گیا تھا اور تازہ پھولوں کی سجاوٹ کی گئی تھی۔ فیتہ کٹنے کے بعد چاروں جانب پھول بکھر گئے اور پھولوں میں سجی ہوئی کتابیں بر آمد ہوئی۔ اس دوران اشفاق احمد اور جسٹس غلام محمود قریشی، صاحبِ کتاب خواجہ شمس الدین عظیمی کے ساتھ تھے۔ کتابوں کی سجاوٹ کو بہت پسند کیا گیا بعد میں پردہ کھینچ کر کتاب کے ٹائٹل کو نمایاں کیا گیا جو کہ ایک بڑے سے بورڈ پر بنایا گیا تھا۔ رُونمائی کے اس انداز کو سب نے بہت پسند کی اور کہا اس سے پہلے کتاب کو اس خوبصورت انداز میں کبھی نہیں پیش کیا گیا۔ دیگر مہمانانِ گرامی کے نام یہ ہیں:
سردار اقبال مؤکل، ڈاکٹر مسکین علی حجازی، طاہرہ گلزار، سید ساجد علی شاہ، اشفاق احمد۔
اشفاق احمد نے کتاب کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب پڑھ کر مجھے بہت رُوحانی سکون ملا۔ اشفاق صاحب نے بسم اللہ اور درود پاک سے آغاز کیا آپ نے فرمایا جب کوئی بڑی کتاب پیش نظر ہو تو بڑی بات کہنی مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسی کتاب کو میں اونچے میز پر رکھ کر اس کے گرد سفید کبوتر کی طرح رقص تو کر سکتا ہوں اور کچھ نہیں۔ محمد رسول اللہ ؐ جِلد اوّل پڑھ کر، دل شکن حالات کا مقابہ کر کے”توحید”پر قائم رہنے کا جرأت مندانہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے اور اپنی رُوح کا عرفان حاصل کرنے کیلئے عزم و ہمت کے چراغ جل اٹھتے ہیں۔ ایک مرکز” توحید“منزل بن جاتی ہے۔
آپ نے کہا کہ یہ کتاب اس عہد کے قاری کو بڑی تقویت اور آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ عظیمی صاحب نے ایک خادم کی حیثیت سے جس آقاؐ کے بارے میں کچھ عرض کیا ہے یہ ان کو جانتے ہیں۔
تقریب کے آخر میں خواجہ شمس الدین عظیمی نے تقریب کی تعریف کرتے ہوئے کہا آج یہاں اتنا اچھا ڈسپلن دیکھ کر اور مقرّرین کے کتاب کے بارے میں تاثرات سن کر میں سُر خُرو ہو گیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اور سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے میری محنت کو قبول فرما کر مجھے عزت بخشی۔
سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ حشر کی آخری آیات تلاوت کی گئیں۔
ان آیات کے بعد مرشدِ کریم نے خطاب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
السّلام علیکم! میرے بچو، بزرگوں، بھائیو، اور بہنو، آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو کہ آج ہم سیّدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے مشن کی پیش رفت میں ایک اہم سنگِ میل عبور کر چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آج کتاب”محمدؐ رسول اللہؐ”کی تقریب رونمائی منعقد کی جارہی ہے۔
میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں اور آپ سب کیلئے دعاگو بھی ہوں کہ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی سیرتِ طیّبہ کے اہم گوشے عیاں ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیرتِ طیّبہ پر عمل پَیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔
میں جناب مہمانِ خصوصی جسٹس غلام محمود قریشی صاحب کا، ہمارے ادب کا سرمایہ جناب محترم اشفاق احمد صاحب اور میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب کا خصوصی شکر گزار ہوں جنہوں نے مشن کی پیش رفت میں میری ہم نوائی میں اس محفل کو رونق بخشی اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی بہترین سعی کی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ؐ کے صدقے ان پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے۔ آمین۔
کتاب “محمدؐ رسول اللہ ﷺ”کی رونمائی ہونا، اس کا لکھائی سے لے کر زیورِ طبع تک سے آراستہ ہونا دراصل اللہ کے فضل و کرم اور حضور ؐ کے وسیلے سے میری دعاؤں کا نتیجہ ہے اور میرے مرشد کا خصوصی کرم ہے۔ میری بڑی دلی خواہش تھی کہ میں حضور نبی کریم ؐ کی حیاتِ طیّبہ کے وہ گوشے عیاں کروں جو اب تک منظرِ عام پر نہیں آسکے۔ یہ دراصل نبی کریمؐ کے مشن کی پیش رفت میں، وقت کے سمندر میں ایک کنکر ہے۔
سیرت ِ طیّبہ لکھنے کیلئے میں نے اس خیال پر غور کرنا شروع کردیا۔ میں جتنا بھی غور کرتا گیا…. پریشان ہوتا گیا کہ حضورؐ کی حیاتِ طیّبہ پر دفاتر کے دفاتر لکھے جا چکے ہیں مگر ہنوز تشنگی پوری نہ ہوسکی ہے۔
میں آخر کیا لکھوں؟
چناچہ اس خیال پر سوچنا شروع کردیا۔
جب انسان اپنے آپ پر غور کرتا ہے۔ خود کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور ماضی، حال مستقبل کا تذکرہ کرتا ہے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ انسان ایک کھلونا ہے۔ وقت اس میں چابی بھر دیتا ہے۔ جب تک کھلونے میں چابی رہتی ہے کھلونا چلتا، پھرتا، کودتا اور حرکت کرتا رہتا ہے۔ جب کھلونے میں چابی ختم ہوجاتی ہے تو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ آج کل نئے نئے کھلونے ایجاد ہوگئے ہیں مگر آپ نے غور کیا ہوگا کہ جب تک اُن میں چابی نہ ہو، کھلونے میں حرکت زیر بحث نہیں آتی۔ یہی صورت انسان کی بھی ہے جب تک اس میں چابی، توانائی یا انرجی مَوجود رہتی ہے اس میں حرکت مَوجود رہتی ہے۔ لیکن جب یہ چابی ختم ہوجاتی ہے تو انسان بھی چابی کے کھلونے کی طرح ختم ہوجاتا ہے۔ انسانی کھلونوں میں نہ چابی نظر آتی ہے، نہ چابی دینے والا نظر آتا ہے اور نہ ہی چابی کا کوئی سِرا انسان کے ہاتھ میں ہے کہ جب چاہے چابی کم یا زیادہ کر سکے لیکن یہ بات طَے ہے کہ انسانی کھلونا چابی کے بغیر نہیں چل سکتا اور کوئی فردِ واحد بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ انسانی کھلونوں میں خاص بات یہ ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے تو کھانا کھاتا ہے، جب پیاس لگتی ہے تو پانی پیتا ہے۔ اس کے اَندر جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں تو تقاضہ بن جاتے ہیں۔ وہ کبھی غمگین ہوجاتا ہے، کبھی خوش ہوجاتا ہے، کبھی امیر ہو جاتا ہے، کبھی فقیر اور کبھی بادشاہ بن جاتا ہے مگر غور کیجئے فقیری، امیری، غمی اور خوشی سب اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک کہ انسان کے اَندر چابی بھری رہتی ہے۔ یہ چابی نظر نہیں آتی۔ اس نظر نہ آنے والی چابی کا نام انسان نے خیال رکھ دیا ہے”۔
خیال آئے بغیر کوئی عمل کیا جا سکتا ہے․․․․․․․․․․․․․․․؟
…. خیال آئے بغیر کوئی عمل بھی نہیں کیا جاسکتا…..!!
جب خیال آتا ہے تو آدمی کھاتا پیتا، محنت مزدوری اور شادی کرتا ہے۔ دنیا کی چھ ارب آبادی کا ہر فرد یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کسی بھی عمل کے بارے میں اگر خیال نہ آئے تو آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔ جب تک کسی عمل کے بارے میں خیال نہیں آئے گا وہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ خیال کے بغیر کھاپی نہیں سکتے، دفتر اور اسکول نہیں جا سکتے۔ یہ ہماری زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے کہ خیال کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ…. خیال کیا ہے؟ اور خیال کہاں سے آتا ہے؟ ہم نے اتنی بڑی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ لاعلمی کا ایک بحرِ ذَخّار ہے۔ انسان بے بس ہے اور عقل و شعور کو اس کا سرا ہاتھ نہیں آتا کہ خیال کہاں سے آیا اور خیال در حقیقت کیا ہے؟
گذشتہ دنوں اس طرح کی باتیں سننے میں آئیں کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ عظیمی صاحب نے کتابیں تحریر کردیں، کچھ حضرات نے کہا عظیمی صاحب تیس سال سے خدمتِ خلق کر رہے ہیں، کچھ نے کہا عظیمی صاحب نے اتنے ہزار مضامین تحریر کردئیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عظیمی صاحب کو اگر خیال ہی نہ آتا تو وہ کیا کرتے؟ عظیمی صاحب نے جو چند کتابیں تحریر کردیں ہیں، اگر تحریر کرنے کا خیال ہی ذہن میں وارِد نہ ہوتا تو کتاب تو دَرکنار ایک سطر لکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں آدمی کی حیثیت کچھ نہیں ہے۔ قدرت جس سے جو کام لینا چاہتی ہے اس کام کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے خیال کی ترسیل شروع ہوجاتی ہے کہ اسے ہسپتال بنانا ہے، مسجد، گھر یا سینما بنانا ہے۔ خیال کو وصول کرنے میں انسان کی اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ پیدائش کے مرحلہ پر غور کیجئے کسی کو اس بات کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کہاں پیدا ہو، غریب کے گھر یا بادشاہ کے ہاں․․․․․ اگر اختیار ہوتا تو ہر شخص بادشاہ کے گھر ہی پیدا ہوتا، غریب تو بے اولاد ہی رہ جاتا۔ یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ مسلمان پیدا ہونا ہے، یہودی یا انگریز۔ یا دنیا کے کس خطہ میں پیدا ہونا ہے ہندوستان میں یا امریکہ میں۔ اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں کوئی حرکت اپنی ذاتی نہیں ہے بلکہ خیال پر قائم ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیال کیا ہے؟ اور کہاں سے آتا ہے؟ خیال کو اطلاع یا Information بھی قرار دیا جاتا ہے مگر غور کریں…. یہ تو خیال کے معنی ہوئے کہ اس کو اطلاع کہہ دیا…. لیکن…. ‘‘خیال کیا ہے؟’’…. اس کا جواب نہیں ہے۔
جتنا بھی آپ غور کریں تفکر کریں تو اس تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ پوری کائنات اسٹیج ڈرامہ کی طرح ہے۔ اس ڈرامہ میں کردار متعیّن ہیں۔ ایک آدمی نماز پڑھتا ہے، دوسرا نماز نہیں پڑھتا۔ تیسرا سینما دیکھتا ہے۔ دراصل ساری کائنات گروہی سسٹم میں بندھی ہوئی ہے اور گروہی سسٹم خیالات کے تابع ہے۔ کسی شخص کو تعمیر کا خیال آتا ہے تو کسی کو تخریب کا۔ ایک آدمی تخریب کے خیال کو ردّ کر کے تعمیر کو قبول کر لیتا ہے تو دوسرا تعمیری خیال کو ردّ کر کے تخریبی خیال قبول کر لیتا ہے۔ غور کیجئے خیال کو قبول کرنا یا ردّ کرنا بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ کہیں سے کوئی خیال آئے۔ خیالات کی ترتیب بھی تو آخر خیال ہی ہے۔ ایک آدمی سینما میں فلم دیکھنے کیلئے گھر سے نکلا۔ راستے میں اذان کی آواز آئی اس کو خیال آیا چلو نماز پڑھ لیں۔ ایک آدمی مسجد کی طرف چلا راستے میں دوست مل گیا۔ خیال آیا کیا نماز پڑھنا…. سینما چلتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینما جانے والا آدمی مسجد کیوں گیا؟ اور مسجد جانے والا آدمی سینما کیوں چلا گیا؟ صورتحال یہ ہے کہ آدمی کی حیثیت نفی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مجھے خیال آیا کہ کوئی کتاب تحریر کرنی ہے۔ برابر یہی خیال آتا رہا۔ آخر کاغذ قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کردیا دماغ میں خیالات کی نہ جانے کس طرح ترتیب پیدا ہوگئی اور میں لکھتا ہی چلا گیا کہ نہ ہاتھ دُکھتا نہ دماغ تھکتا۔ کچھ عرصہ بعد دیکھا تو کتاب بن گئی۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ لکھنے کا پہلا عمل خیالات سے براہِ راست قائم تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جسے مستقل چلانے کیلے اللہ نے انسپائریشن کا ایک نظام بنایا ہے۔ انسپائریشن کا نظام بتاتا ہے کہ یہ کرو وہ نہ کرو۔
اسی انسپائریشن کے نظام کے تحت․․․․․ اس عاجز بندے کو زندگی کا ایک مقصد نظر آیا۔ ہوا یوں  کہ مقصد زندگی سے واقف ایک بزرگ ہستی کی سر پرستی حاصل ہوگئی۔ اس بزرگ ہستی نے بتایا کہ انسان آدم کا بیٹا ہے اور قانون یہ ہے کہ باپ کی وراثت بیٹے کو منتقل ہوتی ہے۔ آدم کی خلافت وہ علوم ہیں جو کائنات میں آدم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور ان ہی علوم کی بنا پر نیابت و خلافت کا شرف آدم کو حاصل ہے۔ آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن میں ان علوم کو “علم ا لأسماء”کہا گیا ہے۔ علم الأسماء میں تخلیقی راز و نیاز، فناء و بقاء کے مرحلے، حیات بعد از موت، حشر و نشر، جنّت دوزخ اور دونوں جہاں(دنیا و آخرت) میں پرسکون رہنے کے آداب اور طریقے مَوجود ہیں۔ ان طریقوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اور کائنات کے خالق کو پہچانے، بندے کو قادرِ مُطلق رحمٰن و رحیم اللہ کا عرفان حاصل ہو۔ اگر اللہ کو کسی بندے نے نہیں جانا یا اللہ کی نشانیوں پر غور کر کے اللہ کی پھیلائی ہوئی آسمانی و زمینی آرائش کا مطالعہ نہیں کیا تو اس بندے نے زندگی کے مقصد سے اِنحَراف کیا اور زندگی کے مقصد سے اِنحَراف کرنے والا آدم کا بیٹا کبھی آدم کا وارث نہیں ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
”اور ہم نے آسمان کو بروج سے زینت بخشی دیکھنے والوں کیلئے․․․․․ اور چھپا لیا ہم نے اس خوبصورت آرائش اور زینت کو شیطان مردود سے۔ “
قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ قرآن ہر بات کو کھول کر اور واضح کر کے بیان کرتا ہے تاکہ نوعِ انسانی کا کوئی گروہ ایسا نہ ہوجو کہے کہ ہمیں بات سمجھ نہیں آئی۔
قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہے۔
”پس خرابی ہے ان نمازیوں کیلئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔ “
یعنی نماز تو وہ پڑھتے ہیں لیکن انہیں نماز میں حضورِ قلب نہیں ہوتا۔
اُس رہنما بزرگ ہستی کے ان کلمات نے قلب پر اثر کیا اور زندگی کا نہج بدل گیا۔ تلاش و جستجو کے جذبات گہرے ہوگئے۔
اس تلاش میں یہ عُقدہ کھلا کہ زندگی کا مقصد”عرفان الٰہی “اس وقت نصیب ہوتا ہے جب اسوہ رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ رہنما ہستی نے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ رسول اللہ ﷺ پر دُرود و سلام کی کثرت اللہ کے محبوب سے ملاقات کا شرف عطا کرتی ہے۔ ہمت جوان تھی، شوق و جذبہ بھر پور تھا، عقیدت کا سمندر موجزن تھا، پشت پر ہادی و رہنما کا ہاتھ تھا، دل میں گداز تھا، آنکھوں میں نمی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی شامل حال تھی۔ امتی ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ کی نسبت حاصل تھی کہ توفیق مل گئی۔
طریقہ کا یہ طے ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک درود شریف پڑھا جائے۔ مرشدِ کریم قلندر بابا اولیاءؒ کی نسبت، رسول اللہ ﷺ کی رحمت، اللہ تعالیٰ کی عنایت اور میرے والدین کی دعا نے اثر دکھایا۔ ایک دن خواب دیکھا کہ:
میں سراپا تیرطے بندہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا محتاج اور اللہ کی بے پایاں رحمتوں کا طلبگار ․․․․․ دربارِ رسالت ﷺ میں ایک فوجی کی طرح Attentionجانثار غلاموں کی طرح مستعد، پر جوش اور با حمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر ہوں۔ آہستہ روی کے ساتھ عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آیا۔ عرض کیا!
” یا رسول اللہ ﷺ ! بات بہت بڑی ہے۔ منہ بہت چھوٹا ہے میں اللہ ربّ العالَمین کا بندہ ہوں اور آپ ﷺ رَحمتَ لِّلعالَمین کا امتی ہوں۔ یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمتِ فرزانہ ہے۔ میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوں۔ یا رسول اللہ ﷺ! یہ عاجز، مسکین، ناتواں بندہ آپ ؐ کی مبارک سیرت لکھنا چاہتا ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ ! سیرت کے وہ پہلو نوعِ انسانی کے سامنے آجائیں جو ابھی تک مخفی ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے صلاحیت عطا فرما دیجئے کہ میں معجزات کی تشریح کردوں “۔
میں نے بند آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری درخواست قبول فرمالی ہے چہرہ انور پر مجھ عاجزبندے کو مسکراہٹ نظر آئی۔
میں سر مستی میں سالوں مدہوش رہا، خیالوں میں مگن گھنٹوں تحریریں لکھتا رہا۔ ہر وہ کتاب جو سیرت سے متعلق مجھے دستیاب ہوئی، اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اور بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ قبولیت کی گھڑی آگئی اور مجھ جیسے عاجز مسکین بندے نے محمد رسول اللہ ﷺ جِلد اوّل لکھنی شروع کردی۔
الحمداللہ ! محمدؐ رسول اللہ ﷺ جِلد اوّل اور جِلد دوئم جلوہ گر ہیں۔ بہت جَلد اِس کے بعد کتاب محمدؐ رسول اللہ ﷺ جِلد سوئم جلوہ نما ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اپنے برگزیدہ بندوں پیغمبرانِ کرام علیہم الصّلوٰۃ و السّلام کی شان میں مجھ عاجز مسکین کی مِدحت کو قبول فرمائے اور یہ کتاب میرے بچوں اور میرے لئے توشہ آخرت بنے۔ آمین یا ربّ العالَمین۔
کتاب محمدؐ رسول اللہ ﷺ جِلد اوّل میرے اس خیال کا مظاہرہ ہے جس خیال کو میں نے یقین کے ساتھ قبول کر کے اس پر کوشش اور جدو جہد کرنا شروع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں آج ہم اس کتاب کی تقریب رونمائی کر رہے ہیں۔
میرے اوپر جو انعامات و اکرامات ہیں وہ بڑے عجیب ہیں۔ یہ کتاب “محمدؐ رسول اللہ ﷺ”اسی دعا کی قبولیت کا مظہر ہے۔ شرک کو ختم کرنے، توحید کو عام کرنے کے مشن میں شرک کے نمائندوں نے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن اللہ کے رسول محمد ﷺ ہر قسم کے مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نوعِ انسانی کو مرکزِ توحید کی طرف بلانے میں مصروف رہے۔
پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا۔”ساری کائنات یقین کے اوپر قائم ہے۔ انسان جب کسی بات کا یقین کر لیتا ہے اور اس یقین کو بار بار دہراتا ہے…. بار بار دہراتا ہے…. تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق اس یقین کا مظاہرہ لازماً ہوتا ہے”۔
لوحِ محفوظ کے قانون کے مطابق ہم اس لئے زندہ ہیں کہ زندہ رہنے پر ہمارا یقین ہے۔ جب زندگی کی خواہش بدل کر ہَوا میں معلّق ہوجاتی ہے آدمی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب آدمی بوڑھاہوجاتا ہے تو کہتا ہے اب آخری وقت ہے دعا کرو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟․․․․․ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آدمی میں زندہ رہنے کے یقین کے اَندر اب شگاف پڑگیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ اگر آپ کسی بات پر جم جائیں تو لازماً اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اولیاء اللہ کے تصرف کا طریقہ بھی یہی ہے۔ ان کے اَندر اللہ تعالیٰ ایسا یقین پیدا کردیتا ہے کہ جب وہ کوئی بات کہتے یا سوچتے ہیں تو لوحِ محفوظ کے قانون کے مطابق اس کا مظاہرہ ہوجاتا ہے۔
اس یقین کی بنیاد پر آج ہم نبی کریم ؐ کے مشن میں کتاب محمدؐ رسول اللہ ﷺ کے ذریعے نوعِ انسانی کو آپ ؐ کے پیغام سے آگاہ کرنے کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں۔
زمین کے اَندر جتنی مخلوقات ہیں، ان پر غور کرنے سے ہمیں اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ یہاں کوئی ایک بھی مخلوق ایسی نہیں ہے جو علم نہ رکھتی ہو۔ مثلاً پرندوں کواس بات کا علم ہے کہ پیاس لگتی ہے اور پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ چوپایوں کو اس بات کا علم ہے کہ بھوک لگتی ہے اور کچھ کھانے سے بھوک رفع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح درختوں کو بھی اس بات کا علم حاصل ہے کہ اگر انہیں پانی میسر نہ آئے اور درختوں کی جڑیں پانی سے سیراب نہ ہوں تو درخت سوکھ کر مرجھا جاتے ہیں، اب اس بات کو یوں کہا جائے گا کہ کائنات میں جتنی بھی مَوجودات ہیں، چھوٹی سے چھوٹی مخلوق ہو مثلاً چیونٹی یا بڑی سے بڑی مخلوق مثلاً اونٹ یا ہاتھی․․․․․ ہر مخلوق کو اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا علم حاصل ہے۔ انہیں اس بات کا بھی اِدراک حاصل ہے کہ ہم ایک مخلوق ہیں۔ مثلاً اونٹ اس بات سے واقف ہے کہ وہ اونٹ ہے، بھینس اس بات سے واقف ہے کہ وہ بھینس ہے۔ اگر بھینس اس بات سے واقف نہ ہو کہ وہ بھینس ہے تو وہ اپنے گروپ میں جا کر نہیں بیٹھے گی۔ فرض کریں کسی جگہ بہت ساری بھیڑیں جمع ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں․․․․․ اور قریب ہی دس پندرہ بکریاں بھی ہیں․․․․․ تو آپ یہ دیکھیں گے کہ بھیڑ، ہمیشہ بھیڑوں میں جا کر بیٹھتی ہے اور بکری بکریوں میں جا کر بیٹھتی ہے․․․․․ کیوں ؟․․․․․ اس لئے کہ بکری کو اپنے بکری ہونے کا علم حاصل ہے اور بھیڑ کو اس بات کا اِدراک ہے کہ میں بھیڑ ہوں۔ تب ہی وہ بھیڑوں میں جا کر بیٹھتی ہے․․․․․ اور جب علم کی بات آتی ہے تو اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا علم تو ہر مخلوق ہی جانتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ
”میں نے انسان کو وہ علوم سکھا دئیے جو وہ نہیں جانتا تھا۔“
یہ بہت زیادہ غور طلب بات ہے کہ وہ کون سے علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھائے۔ علم تو سب ہی کے پاس ہے۔ چیونٹیوں میں بھی علم ہے۔ تمام جاندار حتیٰ کے بے جان اشیاء میں بھی علم ہے۔ پھر وہ کون سا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ انسان کو سکھایا؟․․․․․
یہ وہ علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو سکھائے۔ آپ غور کیجئے․․․․․ جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں کوئی پیغمبر نہیں ہوتا۔ اگر کسی مخلوق میں پیغمبر ہوتے ہیں تو صرف انسانوں میں․․․․․ لہٰذا اب انسان کی دو مختلف قدریں ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک قدر یہ ہے کہ آدمی اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لئے کہ بھیڑ کو بھی پیاس لگتی ہے تو آدمی کو بھی پیاس لگتی ہے۔ آدمی کو بھی سردی لگتی ہے اور کبوترکو بھی سردی لگتی ہے، کبوتر بھی آدمی کی طرح سردی سے بچاؤ کی کوشش کرتا ہے۔ آدمی کی سوچ اور حیوانوں کی سوچ برابر ہے۔ ایک بلّی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پیدا ہوں، انسان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بچے پیدا ہوں۔ بلّی بھی اپنے بچوں کی رکھوالی کرتی ہے، ان کی حفاظت کرتی ہے اور ان کو زندگی میں جدوجہد کی تعلیم دیتی، شکار کرنا سکھاتی ہے۔ انسان بھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے۔
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پیغمبروں کا علم انسان کو حاصل نہیں ہے تو وہ حیوانات کی صف سے باہر نہیں نکل سکتا۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو وہ خاص علم سکھادیا جو دوسری کسی مخلوق کے پاس نہیں ہیں اور اگر انسان وہ خصوصی علم نہیں سیکھتا تو اس کی حیثیت حیوانات سے کسی بھی طرح ممتاز نہیں ہے۔
پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے زیادہ ہو، ہوسکتا ہے کم ہو۔ ایک تسلسل کے ساتھ پیغمبر آتے رہے․․․․․ آپ جب پیغمبروں کی تعلیمات پڑھیں گے تو آپ کو کہیں نہ کہیں، ایک دو، دس بیس جگہ یہ ضرور لکھا ہُوا ملے گا کہ ہمارے بعد ایک نجات دہندہ آئے گا۔ بالآخر سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام تشریف لائے۔ ساری باتیں حضور ﷺ نے وہی فرمائیں جو دیگر پیغمبران علیہم السّلام آپ ﷺ سے پہلے کہہ چکے تھے لیکن حضور ﷺ نے وہ بات نہیں فرمائی۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ اب میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور اس کی تصدیق قرآن پاک سے اس طرح ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا… (المائدہ – 3)
حضرت ابراہیمؑ سے پیغمبرانہ تعلیمات رسول اللہ ﷺ تک تسلسل اور تواتر کے ساتھ جاری رہیں۔ تمام پیغمبروں نے نوعِ انسانی کو یہی پیغام دیا کہ اللہ ایک ہے․․․․․ حضرت محمد ؐ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ اللہ کو ایک مانو․․․․․
ہمارے اَندر اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ ہمارا خالق و مالک اللہ ہے، پیدا بھی اللہ کرتا ہے، حیات بھی اللہ عطا کرتا ہے اور موت بھی اللہ دیتا ہے․․․․․ یعنی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو آپ کا ذاتی شعبہ ہو․․․․․ مثلاً ہم کھا کر ہی جوان ہوتے ہیں․․․․․ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھوک ہی نہ لگے تو ہم کھائیں گے کیسے؟․․․․․ نیند نہ آئے تو آدمی سوئے گا کیسے؟․․․․․ نیند سے بیدار نہ ہو تو آدمی اپنے اختیار سے جاگ ہی نہیں سکتا․․․․․ اپنی زندگی کا جب محاسبہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہی بات آتی ہے کہ ہم سو فیصد حالتِ مجبوری میں ہیں․․․․․ ہمیں کوئی بھی اختیار کسی بھی صورت میں حاصل نہیں․․․․․ مثلاً ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہو سکتے، اتنی بھی چوائس ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ اللہ میاں! ہمیں کسی بادشاہ کے گھر پیدا کر دے، ہم غریب کے ہاں پیدا نہیں ہونا چاہتے․․․․․ پیدائش کے بعد آپ کی زندگی کتنی ہے؟․․․․․ وہ بھی اللہ جانتا ہے․․․․․ دس سال کی ہو، پچاس سال کی ہو، ہو سکتا ہے آپ سو سال زندہ رہیں․․․․․ آپ جوان ہوتے ہیں آپ کو جوان ہونے میں کیا کرنا پڑتا ہے؟․․․․․ اور اگر آپ کھا پی کر، کھیل کود کر جوان ہوجاتے ہیں تو پھر بوڑھے کیوں ہوجاتے ہیں؟․․․․․ جوانی میں آپ نے کھایا پیا، ورزش کی، حفظانِ صحت کا خیال رکھا، کراٹے سیکھے․․․․․ یہ سیکھا وہ سیکھا…. چناچہ آپ کے اعصاب مضبوط ہو گئے․․․․․ اس لئے جوان ہوگئے․․․․․ لیکن پھر بوڑھے ہوگئے․․․․․!
دنیا کا کوئی آدمی خوشی سے بوڑھا نہیں ہونا چاہتا․․․․․ جو آدمی بوڑھا ہونا چاہتا ہے وہ ہاتھ اُٹھائے ․․․․․ کیوں جی․․․․․ کوئی بوڑھا نہیں ہونا چاہتا؟․․․․․ تو پھر بتائیے آپ بوڑھے کیوں ہوجاتے ہیں؟․․․․․
بچپن سے گزر کر آپ جوانی کے سسٹم میں آجاتے ہیں…. اور
جوانی سے گزر کر آپ بڑھاپے کے سسٹم میں چلے جاتے ہیں….
اچھا یہ بھی ضروری نہیں کہ آدمی بوڑھا ہو کر ہی مرے․․․․․ جوان بھی مر جاتے ہیں اور بچے بھی مرجاتے ہیں۔
انسان درو بَست اللہ کے نظام میں بندھا ہوا ہے اور یہی تمام پیغمبروں کی تعلیمات ہیں…
جب کوئی بندہ پیغمبرانہ علوم حاصل کرتا ہے…. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ…. کے نُور سے واقفیت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ بَرمَلا کہتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں ہمہ وقت، یہاں ہر چیز منجانب اللہ ہے، ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے․․․․․ ہمارا جینا مرنا، سانس لینا، کھانا پینا سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے․․․․․
پیغمبرانہ تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کے اَندر ایک ایسی طرزِ فکر قائم ہوجائے کہ انسان ہمہ وقت اللہ کی طرف مُتوجّہ رہے، وہ کچھ بھی کرے Care of Allahکرے۔ پیغمبرِ آخِرُ الزّماں سیّدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان کا ذہن اِس طرح بنا دیا جائے کہ وہ کوئی بھی کام کرے پہلے اس کا ذہن اللہ کی طرف جائے پھر کام کی طرف․․․․․ مسلسل اس مشق سے وہ بندہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور اس کے اوپر سے خوف و غم ختم ہوجاتا ہے۔ جب خوف و غم ہی ختم ہو گیا تو زندگی جنّت کے سِوا اور کیا ہوگئی․․․․؟
آدم و حوّا کا پہلا مسکن جنّت ہے․․․․․!
جنّت ایک ہی اسپیس Space پر آباد ہے جہاں مکانات عالیشان مَحلّات، نہریں مُرغزار ․․․․․ نیلے پیلے اُودے پیراہن سے آراستہ پھولوں کے تختے․․․․․ خوبصورت لان․․․․․ حور، غَلمان․․․․․ پھلدار اور سایہ دار درخت ہیں․․․․․ باغات، پانی سے ابلتے فوّارے، کِل کِل کرتے جَھرنے اور آبشاریں، ندی نالے، دریا، گلستان و نخلستان․․․․․ یہ سب چیزیں ہماری زمین پر بھی مَوجود ہیں․․․․ زمین ایک اسپیس Space ہے․․․․ اسپیسSpaceکا مطلب ہے بہت بڑی جگہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرنا ․․․․
جب ہم اپنی زمین کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمین سے مراد کوئی ایک ملک یا کسی ملک کے کئی شہر مراد نہیں ہوتے․․․․
زمین سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اتنا بڑا رقبہ کے جو اعداد و شمار میں نہ آئے․․․․․
ہماری زمین کے اعداد و شمار جو بھی بیان کئے جاتے ہیں․․․․․ زمین کا وہ حصہ ہے جو معلوم زمین ہے․․․․ بتایا جاتا ہے کہ زمین پر تین حصے پانی ہے، ایک حصہ خشکی ہے․․․․․ زمین کی یہ صورت بھی نظر آتی ہے کہ زمین کے اوپر کڑوں یا چھلوں کی شکل میں پہاڑ ایستادہ ہیں اور ان پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ Vallies …. ملک، شہر اور محلوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
زمین کا رقبہ جو کچھ بتایا جاتا ہے وہ محض قیاس پر مبنی ہے․․․․․ زمین کا پورا ناپ تول ابھی  تک ممکن نہیں ہوا․․․․․ سائنسی ترقی کے اس دَور میں بھی ایسے علاقے ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئے اور ان علاقوں کو Uncivilized کہا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زمین واحد سیّارہ ہے جس پر زندگی کے آثار نظر آتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے․․․․․ ہر سیّارے پر آبادیاں ہیں․․․․․ بالکل اسی طرح جیسے ہماری زمین آباد ہے․․․․․ ہر سیّارے کی زمین پر چاند، سورج، ستارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں․․․․․ہم شعوری طور پر مانتے ہیں کہ آکسیجن پر زندگی کا دار و مدار ہے․․․․․جبکہ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی․․․․․
عقل رہنمائی کرتی ہے کہ ایک گھر میں چھ آدمی ہیں اور یہ چھ آدمی آکسیجن کے اوپر زندہ ہیں․․․․․ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان چھ آدمیوں میں سے ایک آدمی کا انتقال ہوجاتا ہے․․․․․ اگر ہم گھر کو ایک غبارہ سمجھ لیں اور اس غبارے کے اَندر کلیتاً آکسیجن کا عمل دخل مان لیں تو یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ غبارے میں آکسیجن مَوجود ہے․․․․․ غبارے میں آکسیجن مَوجود ہونے کے باوجود پانچ آدمی زندہ رہتے ہیں اور ایک آدمی مرجاتا ہے․․․․․ اگر زندگی کا دار و مدار آکسیجن پر ہی ہے تو آکسیجن ایک آدمی کیلئے کیوں زندگی کا سہارا نہیں بن رہی․․․․․ باقی پانچ آدمی آکسیجن سے کیوں مستفید ہو رہے ہیں؟
اور آکسیجن کے ذریعے مرنے والے فرد کو زندہ کیوں نہیں کر لیا جاتا….؟
جس طرح زمین پر حیات و مَمات ہے․․․․․ اسی طرح دوسرے سیّاروں میں بھی موت اور زندگی کا سلسلہ جاری ہے․․․․․
ہماری زمین پر بلڈنگیں تعمیر ہوتی ہیں، کھیتی باڑی ہوتی ہے، فیکٹریاں لگتی ہیں، ہوائی جہاز اڑتے ہیں، بڑے بڑے پانی کے جہاز سمندر کی سطح پر تیرتے ہیں․․․․․ بادبانی کشتیاں سمندر کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کر کے سفر کرتی ہیں․․․․․
اسی طرح دوسری دنیاؤں میں بھی سب کچھ ہو رہا ہے․․․․․
زمین جس طرح سے بھی بنی لیکن زمین کے اوپر فضا اور زمین کے اَندر مَوجود تہوں میں بے شمار گیسز Gasses کام کر رہی ہیں․․․․․ دوسرے سیّاروں کا بھی یہی حال احوال ہے․․․․․
زمین کی ایک خصوصیت ہے․․․․․ وہ خصوصیت یہ ہے کہ زمین اپنے حسن کو دو بالا کرنے کیلئے ․․․․․ تزئین و آرائش کیلئے اپنے اَندر سے تخلیق کرتی ہے․․․․․ اس تخلیق میں رنگینی ہے․․․․․ کائنات میں نافذ تخلیقی قانون کے مطابق زمین پر کوئی ایک شے ایسی نہیں ہے جو بے رنگ ہو․․․․․ کھیت کھلیاں دیکھئے تو وہاں رنگ ہیں․․․․․ پھول پھلواری پر توجّہ کیجئے․․․․․ رنگ رنگ ․․․․․․ سینکڑوں رنگ ہیں․․․․․ درخت کے سراپا پر نظر ڈالئے․․․․․ درخت میں ہر چیزرنگین ہے․․․․․ درخت کی جڑوں کا رنگ الگ ہے․․․․․ تنے کا رنگ الگ ہے․․․․․ درخت کے لباس کا رنگ الگ ہے․․․․․لباس سے مراد درخت میں لگنے والے پھل بھی بےرنگ نہیں ہوتے․․․․․ یہ رنگینی دراصل زمین کی زیبائش ہے․․․․․ اس زیبائش سے مخلوق کو آسائش ملتی ہے․․․․․
زمین پر تقریباًساڑھے گیارہ ہزار نوعیں آباد ہیں․․․․․ ہر نوع میں کم سے کم دو سو مخلوقات شمار کی جا سکتی ہین․․․․․ اور کتنی زیادہ ہو سکتی ہیں․․․․․ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے․․․․․ مچھلی ایک نوع ہے․․․․․
بہت بڑے ایکوریم Aquariumکے اَندر رنگ رنگ مچھلیوں میں کوئی سرخ ہے․․․․․ کوئی Purpleہے․․․․․ مچھلی کی کوئی مخلوق ٹرانسپیرنٹ ہے․․․․․ کوئی چھوٹی ہے․․․․․ کوئی بہت بڑی ہے․․․․․ کوئی مچھلی اتنی بڑی ہے کہ اس کی خوراک کا ایک لقمہ کئی ہزار مچھلیاں بن جاتی ہیں․․․․․ یہی مثال درختوں، پرندوں، چوپایوں کے اوپر بھی صادق آتی ہے․․․․․
ہماری زمین․․․․․ کائناتی تخلیقی قوانین کے مطابق دو حصوں میں تقسیم ہے․․․․․
1. ایک حصہ وہ زمین ہے جس پر آدم زاد چلتا پھرتا، سوتا جاگتا اور کھاتا پیتا ہے․․․․․
2. زمین کا دوسرا حصہ خلاء میں واقع ہے․․․․․
خلاء میں واقع زمین بھی ہماری زمین کی طرح ہے․․․․․ اس زمین پر جنّات کی آبادیاں ہیں․․․․․ جنّات کی آبادی میں مذکر مونث دونوں افراد ہیں․․․․․ نسلی سلسلہ بھی انسانی آبادیوں کی طرح قائم ہے․․․․․ جنّات کی دنیا میں لہلہاتی کھیتیاں ہیں، باغات ہیں، جمادات، نباتات، معدنیات، دریا، سمندر سب ہیں۔ جنّات کی مخلوق انسانوں کی طرح کھاتی پیتی ہے، کاروبار کرتی ہے․․․․․ اور ان کے یہاں سائنسی ایجادات و ترقی کا گراف انسانوں کی ترقی سے زیادہ ہے․․․․
ہم نے بات شروع کی تھی کہ آدم و حوّا کا پہلا مَسکن جنّت تھا․․․․․ اور اب بھی ہے․․․․․
با شعور انسان اسے کہتے ہیں جو گِرد و نَواح کی صورتحال سے واقف ہو․․․․․ با شعور انسان وہ ہے جو اپنے آپ سے واقفیت رکھتا ہو․․․․․
ذی شعور اُسے کہا جاتا ہے جو اپنے اَندر کی دنیا سے با خبر ہو․․․․․ میرے بچو․․․․․ یہ ساری تمہید اس لئے ہے کہ ہمیں غور کرنا ہے․․․․․آدم و حوّا جب جنّت میں رہتے تھی تو ان میں کون سے حواس یا شعور کام کرتا تھا؟․․․․․ اس لئے کہ ہم جنّت کے شعور کو ردّ نہیں کر سکتے․․․․․
جنّت․․․․․ ایک لا محدود و رقبہ ہے․․․․․ علمِ الٰہی سے منکشف ہوتا ہے کہ وہاں باغات ہیں․․․․․ انار اور کھجور کے درخت ہیں․․․․․ انگور کی بیلیں․․․․․ خوشنما قطار در قطار درخت ہیں․․․․․ پھولوں کے تختے ہیں․․․․․ ایسے پھول جن میں کئی کئی رنگوں کی آمیزش ہے․․․․․ ہوا چلتی ہے تو ساز بجتے ہیں․․․․․ پھول ہلتے ہیں تو جَل بُجھ روشنیوں کا اِدراک ہوتا ہے․․․․․ خوشبو کا یہ عالَم ہے کہ فضا میں سے پھولوں کی مہک گھونٹ گھونٹ اَندر اتر جاتی ہے․․․․․
حوریں․․․․․ اتنی خوبصورت ہیں کہ آدمی دیکھ لیتا ہے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے․․․․․ غَلمان․․․․․ عفوان ِ شباب کی مکمل تصویر ہیں․․․․․ پانی․․․․․ دودھ جیسا سفید اور میٹھا ہوتا ہے․․․․․ شہد․․․․․ شہد کا سنہری پن اور ذائقہ ہماری زمین کے شہد کے ذائقے سے ہزار گنا افضل ہوتا ہے․․․․․
جب قطار در قطار درخت، انار کھجور اور انگور کا تذکرہ آتا ہے تو شعور ایک قدم آگے نہیں بڑھتا ․․․․․ لیکن وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنّت میں شعور اور حواس دونوں مَوجود ہیں․․․․․
اب سوچنا یہ ہے کہ جنّت کے شعور سے آدم و حوّا کو عارضی محرومی کیوں ہوئی․․․․․
یہ عام بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر انعام و اِکرام کرتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ آدمی انعام و اِکرام کرنے والی ہستی کا شکر گزار ہو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرے․․․․․ جو ضابطے اس نے متعیّن کر دئیے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ کرے․․․․․
جنّت میں ایسا نہیں ہو سکا․․․․․ آدم و حوّا کیلئے جو اَحکامات صادر ہوئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا․․․․․ ان احکامات میں بنیادی بات یقین کا درجہ حاصل کرنا تھا․․․․ اور یہ بات ذہن نشین کر دی گئی تھی کہ اگر تعمیلِ حکم میں سرِ مُو اِنحَراف ہُوا، چاہے وہ سَہواً ہی کیوں نہ ہو․․․․ تو جنّت کے شعور پر پردہ آجائے گا ․․․․․ جیسے ہی جنّت کے شعور پر پردہ آ گیا․․․․․ آدم و حوّا کا پہلا مَسکن جنّت نہیں رہی․․․․․․ اور لا محدود شعور پر محدود شعور کا غلبہ ہو گیا․․․․
محدود شعور کا مطلب احساسِ محرومی، اِضطراب اور گھٹن ہے․․․․․
اِس دنیا میں رہتے ہوئے اگر آدم و حوّا کی اولاد محدود شعور سے نکل کر جنّت کے لا محدود شعور میں داخل ہو جائے تو یہ دنیا اس کیلئے جنّت بن جاتی ہے۔ جتنی دیر اس دنیا میں قیام رہے گا جنّت کی کیفیات اس کے اوپر غالب رہیں گی․․․․․
اور جب اس دنیا کا سفر ختم ہوگا․․․․․ تو جنّت کا ابدی سکون اسے حاصل ہوجائے گا ․․․․․ انسان اس حقیقت سے واقف ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے کہیں مَوجود تھا اور جب وہ یہاں پیدا ہوجاتا ہے تو کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا ․․․․․ بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلے دن سے ہی وہ تغیّرات میں ردّ و بدل ہونے لگتا ہے اور چھوٹے معصوم بچے سے وہ دن بہ دن بڑھتا ہوا ایک خوبصورت جوان بن جاتا ہے پھر یہ جوانی بھی چند روزہ ہوتی ہے اور وہ بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگتا ہے․․․․․ شادی کے بعد ماں اور باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ ان کے یہاں اولاد ہو․․․․․ یہ آرزو اتنی گہری ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی خیال ہی نہیں آتا․․․․․ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی یہ آرزو دیکھ کر ان کے اَندر سے تشنگی کو اپنی محبت اور رحمت کے ساتھ دُور کرتے ہیں اور انسان کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے جو اتنی مختصر ہوتی ہے کہ خورد بین سے ہی دیکھی جاسکتی ہے․․․․․ پھر اس نطفے میں اللہ تعالیٰ کا اشارہ ہوتا ہے تو وہ پُھٹکی بن جاتا ہے․․․․․ اس پُھٹکی میں گوشت اور ہڈی بنتی ہے اور اس پر کھال چڑھائی جاتی ہے پھر اس کے اَندر اعضاء پیدا ہوتے ہیں اور اس کی شکل بنتی ہے۔
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ
”کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ماؤں کے پیٹ میں کیسی کیسی تصویریں بناتا ہے․․․․“
ایک مرتبہ میں نے قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا․․․․․ حضور! ․․․․․ یہ کیسا سسٹم ہے کہ ماں کے پیٹ میں وہ پُھٹکی جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا، آٹھ نو پونڈ کا بچہ بن جاتی ہے؟․․․․․ حضور قلندر بابا ؒ کا ایک بڑا وصف یہ تھا کہ جب وہ کچھ سمجھاتے تھے تو شاگرد کے اَندر کی آنکھ کھل جاتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ سوئچ آن کر کے فلم چلا دی گئی ہو․․․․․ چنانچہ جواب میں انہوں نے فرمایا بھی اور دکھایا بھی کہ اِستقرارِ حمل کے روز سے فرشتوں کی ڈیوٹی شروع ہوجاتی ہے․․․․․ فرشتے اس پُھٹکی کے اوپر پھونک مارتے رہتے ہیں․․․․․ اس پُھٹکی کے اَندر اضافہ ہوتا رہتا ہے․․․․․ یہ پُھٹکی دراصل انسانی خدوخال کا ایک غبارہ ہوتی ہے جو ہوا بھرنے سے مسلسل بڑا ہوتا جاتا ہے اور آنکھ کان ناک سب توزان کے ساتھ بڑھنے لگتے ہیں․․․․․ اسی طرح فرشتے پھونکیں مارتے رہتے ہیں اور اس سے تغیّر ہونے لگتا ہے․․․․․ چنانچہ وہ نطفہ جس کا ابتداء میں کوئی وزن نہیں تھا ہوتا، آٹھ نو پونڈ کو بچہ بن جاتا ہے․․․․․ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ میں نے انسان کو گوندھے ہوئے گارے، سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹّی سے بنایا۔
پھر اس پتلے کے اَندر اپنی رُوح پھونک دی تو وہ چلنے، پھرنے، بولنے اور دوڑنے لگا․․․․․ تو انسان کی زندگی اور مسافت کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اس کا نام تغیّر ہے․․․․․ پیدا ہونے کے بعد اگر بچے کے اَندر تغیّر نہ ہو تو بچہ بیٹھ نہیں سکتا․․․․․ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے (آمین)․․․․․ آپ نے دیکھا ہوگا، سنا تو ضرور ہو گا کہ بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں ہوتی․․․․․ ماں باپ انہیں بھی پال ہی لیتے ہیں․․․․․ ایک صحت مند بچے کے اَندر تغیّر ہوتا ہے تو وہ بیٹھنے لگتا ہے․․․․․ گھٹنوں پر چلنے لگتا ہے․․․․․ انتہا یہ کہ پیروں سے چلنا شروع کردیا، مزید بڑا ہوا تو دوڑنے لگا یہاں تک کہ نشو نما کے بعد جوان ہو گیا پھر بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگا یہاں تک کہ بڑھاپنے کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا وُجود ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوجاتا ہے․․․․․
یہ سب کیا ہے؟․․․․ اس کا ایک ہی نام ہے․․․․․ تغیّر․․․․․ انسان کی پوری زندگی تغیّر ہی کا دوسرا نام ہے اور تغیّر سے مراد ہے تبدیل ہونے والی شے․․․․․ جنّت میں تغیّر نہیں․․․․․
جب یہ طے ہو گیا کہ انسان تغیّر کے علاوہ کچھ نہیں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی کہ پیدا ہونے سے پہلے ہم جہاں مَوجود تھے جب وہاں تغیّر ہوا تو ہم عالَمِ ناسوت میں پیدا ہوگئے․․․․․ ہم یہاں سے جائیں گے تو عالَمِ اَعراف میں پہنچ جائیں گے․․․․․ پھر اس عالَم میں بھی تغیّر ہوگا تو آدمی نفخ صور میں چلا جائے گا․․․․․ جب وہاں تغیّر ہوا تو عالَم حشر نشر میں پہنچ جائے گا․․․․․ عالَم حشر نشر کے بعد دو عالَمین سامنے آتے ہیں ایک جنّت اور دوسرا دوزخ․․․․․ جب اللہ تعالیٰ جنّت کا تذکرہ کرتے ہیں تو فرماتے ہیں….”خَالِدِينَ فِيهَا“…. یعنی جنّت میں ہمیشگی ہے․․․․․ ہمیشہ کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم جنّت میں چلے جائیں گے تو وہاں تغیّر ختم ہوجائے گا․․․․․اب مسئلہ حل ہوا․․․․․ یعنی تغیّر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا ٹوٹے بکھرے گا اور اتنا تقسیم ہوگا کہ وہ اس مقام پر جا ٹھرہے گا جہاں مزید تقسیم نہیں ہوگی اور وہ مقام جنّت ہے․․․․․ اس سے یہ ثابت ہوا کہ تغیّر کا پورا انتظام اور سسٹم اس لئے ہے کہ انسان ایسے مقام پر جا کر ٹھہر جائے جہاں تغیّر نہیں ہے․․․․․ قرآن مجید، سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی احادیث اور اولیاء اللہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ آدم کا مسکن جنّت ہے․․․․․ قرآن (سورۃ البقرۃ) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں․․․․․
اے آدم جنّت میں جا کر رہو․․․․․ ہم نے جنّت تمہیں الاٹ کردی․․․․․ اے آدم تُو اور تیری بیوی جنّت میں رہو جسے ہم نے تمہارا ٹھکانہ بنا دیا ہے․․․․․ کھاؤ پیو کوئی پابندی نہیں․․․․․ جنّت کا لاکھوں کروڑوں میل کا رقبہ تمہیں دیا گیا لیکن جنّت میں رہنے کی ایک شرط یہ ہے کہ خوش ہو کر رہو․․․․․ جنّت میں کھانا پینا، رہنا اور بسنا سب Free of Chargeہے․․․․․ سب بالکل مفت ہے․․․․․ انسان کا اصل گھر، مکان، وطن اور مقام جنّت ہے․․․․ وہاں کوئی محنت مزدوری نہیں کرنی پڑتی ․․․․․ یہاں آپ کو روٹی چا

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا