Topics

مقصد حیات

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے۔

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔

روحانی علوم کے حوالے سے علم کی تشریح تین طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک حصے کو اجمال یا خلاصہ کہتے ہیں۔ دوسرے حصے کو تفصیل اور تیسرے حصے کو علم کی افادیت یا حکمت کہتے ہیں۔ جب کوئی نئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس میں پہلے کتاب کا نام ہوتا ہے، پھر فہرست ہوتی ہے، پھر دیباچہ ہوتا ہے۔ دیباچہ مصنف یا مؤلف خود لکھتا ہے یا کسی ایسے آدمی سے لکھوایا جاتا ہے جو مصنف اور مرتب کے لئے باعث احترام ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب میں ابواب ہوتے ہیں، عنوانات ہوتے ہیں اور کتاب کے آخر میں پوری کتاب کا مجموعی تاثر ہوتا ہے۔

میں جو کچھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں ڈاکٹر جامی صاحب نے اس کا دیباچہ پیش کر دیا ہے۔ روح کے حوالے سے، سائنسی ترقی اور ایجادات کے حوالے سے، عقل و شعور کے حوالے سے، مادی وجود کے حوالے سے اور مقصد حیات کے حوالے سے میں انشاء اللہ اس کی تشریحات بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے کامیاب کریں۔ (آمین)

پیدا ہونا انسان کی مجبوری اور ضرورت ہے کیونکہ کوئی انسان پیدا ہوئے بغیر اس دنیا میں نہیں آتا۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے۔ ہاتھ، پیر، دماغ، آنکھ، کان سب اعضا ہوتے ہیں۔ لیکن آنکھ ہونے کے باوجود بچہ اس طرح نہیں دیکھتا جس طرح سال بھر کا بچہ دیکھتا ہے۔ کان ہونے کے باوجود بچہ اس طرح نہیں سنتا جس طرح ایک دس سال کا بچہ سنتا ہے۔ ہاتھ ہونے کے باوجود بچہ کسی چیز کو اس طرح سے نہیں پکڑتا جس طرح تین سال کا بچہ کسی چیز کو پکڑتا ہے۔ کمر ہونے کے باوجود بارہ سال کا بچہ ڈھائی من کی بوری نہیں اٹھا سکتا۔ اسی صورت سے حلق ہونے کے باوجود بچہ لقمہ نہیں نگل سکتا۔ حالانکہ لقمہ نگلنے کے لئے ذرائع اس کے اندر موجود ہیں۔ کوئی بچہ مقرر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس عمر کو نہ پہنچ جائے جس عمر میں تقریر کی جاتی ہے۔ اگر نوزائیدہ بچے کو ماں سے لے کر کسی دوسرے کو پرورش کے لئے دے دیا جائے تو بچہ اصلی ماں کو نہیں پہچانتا۔ جب تک ماں کا تعارف نہ کرایا جائے۔

اگر بچے کی پرورش اچھے ماحول میں نہ ہو تو ننانوے99فیصد اس بات کا امکان ہے کہ بچہ وہی عادات و اطوار اختیار کر لیتا ہے جو ماحول میں رائج ہیں۔ اگر اچھے ماحول میں پرورش کا موقع مل جائے تو 99فیصد اس بات کا امکان ہے کہ بچے کی ذہنی تربیت اچھی ہو جاتی ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ جب بچہ کے اندر حواس خمسہ موجود ہیں وہ بالغ آدمی کی طرح ان حواس کو کیوں استعمال نہیں کرتا؟۔۔۔۔۔۔

میں جو کچھ بول رہا ہوں یہ تقریر نہیں ہے، لیکچر بھی نہیں ہے، آپس میں بات چیت ہے۔ یوں سمجھیں کہ میں آپ کا بڑا ہوں، دادا، نانا ہوں۔ اس لئے کہ میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں۔ بڑا ہونے کی وجہ سے آپ سب میرے بچے ہیں۔ میں نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں بڑے بچوں کی ایک مجلس سجائی ہے۔ اس لئے کہ میں اپنے بچوں کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ بچے سوالات کرتے ہیں، آپ بھی سوال کر سکتے ہیں۔ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔

میں نے عرض کیا ہے کہ سارے ذرائع ہونے کے باجود بچہ حواس کو استعمال نہیں کرتا؟ اس لئے کہ بچے نے حواس استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سیکھا۔ کان آوازیں سننے کے ابھی متحمل نہیں ہوئے جتنی آواز ایک بڑا آدمی سن سکتا ہے۔

میرے بیٹے وقار یوسف عظیمی ماشاء اللہ! پی ایچ ڈی ہیں۔ جب وہ دو مہینے کا تھا اخبار کا صفحہ پلٹنے کی آواز سے وہ چونک گیا، ڈر گیا۔ اس کے شعور میں ابھی اتنی سکت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ اخبار کی آواز کو برداشت کر سکے۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ بچے کے سامنے کوئی آدمی زور سے بولتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا اگر بچے کو اچھی نظر سے نہ دیکھا جائے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کو پیار کی نظر سے دیکھا جائے تو بچہ خوش ہوتا ہے، مسکراتا ہے۔ بچہ آپ کو دیکھ کر نہیں ہنس رہا۔ آپ کو ہنستے ہوئے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ آپ بچہ کو پیار کریں خوش ہو گا۔ ہاتھ بڑھا دے گا کہ مجھے گود میں لے لو۔ اگر آپ بچہ سے ترش روئی سے پیش آئیں تو بچہ اچھا تاثر نہیں دے گا۔

اس کا مطلب یہ ہواکہ بچے کے شعور میں احساس تو ہے لیکن جوان آدمی کی طرح شعور نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس نے شعوری صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا طریقہ ابھی تک نہیں سیکھا ہے۔ یہ تشریح ہوئی حواس سے متعلق۔

اس دنیا میں رہنے والے ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے وسائل مہیا ہوں۔ سب سے پہلے زمین کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر زمین نہیں ہو گی۔ تو بچہ کہاں رہے گا۔ پلنگ پر لٹائیں گے پلنگ بھی تو زمین پر رکھا ہوا ہے۔ ساتھ ساتھ زندگی کے لئے روشنی ضروری ہے۔ بچے کی پیدائش سے پہلے روشنی موجود ہے، سورج موجود ہے، ہوا موجود ہے۔ ہوا کے بغیر کوئی آدمی یا کوئی ذی روح زندہ نہیں رہتا۔ پیدا ہونے سے پہلے دودھ موجود ہے۔ چار مہینے تک بچہ کی غذا دودھ ہوتی ہے۔ ماں باپ موجود ہیں۔ گرم و سرد سے بچنے کے لئے گھر کی چاردیواری، چھت، کھڑکیاں ہیں۔ پہننے کے لئے کپڑے ہیں، نہانے کے لئے پانی ہے۔ خدانخواستہ کوئی دکھ درد ہو جائے تو علاج معالجے کی سہولتیں بھی موجود ہیں غرضیکہ زندگی گزارنے کے لئے جتنے بھی وسائل ضروری تھے سب مہیا ہیں۔ بچے کو اپنے لئے وسائل ڈھونڈنے نہیں پڑتے، وہ مزدوری نہیں کرنی پڑتی، مزدوری کر ہی نہیں سکتا۔

تربیت کے لئے ماحول موجود ہے۔ ماحول میں والدین، عزیز و اقربا، بہن بھائی، رشتہ دار ہیں، کنبہ برادری ہے، محلہ ہے، شہر ہے، قوم ہے، ملک ہے، اساتذہ ہیں اور درسگاہیں ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ نے پیدا ہوتے ہی اپنا استاد منتخب کر لیا تھا۔ روزگار حاصل کرنے کے لئے وسائل موجود ہیں۔ علم حاصل کرنے کے لئے اسکول، کالج، یونیورسٹی اور کاروبار کرنے کے لئے بازار دکانیں پہلے سے موجود ہیں۔ محنت مزدوری کرنے کے لئے اعصاب میں طاقت ہے۔ معاملہ فہمی کے لئے عقل ہے۔ اگر اس بچے نے فساد برپا کرنا ہے تو زمین پر فساد والا گروہ بھی ہے اور اگر اس بچے نے امن اور شانتی سے دنیا میں رہنا ہے تو اس کے لئے امن اور شانتی والاگروہ بھی کام کر رہا ہے۔

مختصراً یہ کہ قدرت نے بچہ کے لئے پہلے سے ہر چیز مہیا کر دی ہے۔ بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے۔ اس کے حواس میں بالیدگی اور پختگی آتی ہے۔ 

پہچاننے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سننے، دیکھنے، چھونے، چکھنے اور سونگھنے میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اس کے اندر ذہانت زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ ایک فرد مذکر بن جاتا ہے، ایک فرد مؤنث بن جاتا ہے۔ پھر یہ دو افراد آپس میں ملتے ہیں۔ ان میں ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے اور اس ذہنی ہم آہنگی سے پھر ایک آدم زاد دنیا میں آتا ہے اور یہ سلسلہ آدم سے لے کر اب تک قائم ہے۔ اس وقت آدم و حوا کی اولاد چھ ارب بتائی جاتی ہے۔ میں نے یہ کہانی دنیاوی پہلو سے سنائی ہے۔ اب اس کہانی کو روحانی پہلو سے سنیئے!

ایک بچہ میں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پیر، دل، گردے، پھیپھڑے، پتہ، لبلبہ، وریدیں، شریانیں، معدہ سب ہوتے ہیں لیکن اس کے اندر جان نہیں ہوتی۔ دنیا کے تمام وسائل ہیں لیکن بچہ میں جان نہ ہو۔ بتایئے بچے کی کیا Conditionہو گی؟

کیا وہ بچہ سنے گا؟ کیا وہ بچہ دیکھے گا؟ کیا وہ بچہ ماں کا دودھ پئے گا؟ کیا وہ بچہ کروٹ بدلے گا؟ کیا وہ بچہ اخبار کی آواز سے ڈرے گا؟ کیا اس بچے پر بہت بڑے دھماکہ کا اثر ہو گا؟۔۔۔۔۔۔کیوں اثر نہیں ہو گا؟ اس لئے کہ اس کے اندر زندگی نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ بچے کے اندر اگر زندگی نہ ہو تو اس کے اندر یہ تمام صلاحیتیں نہیں ہونگی۔ وہ بالغ نہیں ہو گا، اس کی شادی نہیں ہو گی، وہ کاروبار نہیں کرے گا۔

حاصل گفتگو!۔۔۔۔۔۔یہ ہے کہ Physical Bodyمیں اگر زندگی نہ ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ زندگی اگر ہے تو وسائل کام آئیں گے، حواس کام کریں گے، اساتذہ بھی پڑھائیں گے۔ اگر بچہ کے اندر روح نہیں ہے تو اس بچہ کو جو منتوں مرادوں سے اللہ نے ہمیں دیا ہے، ہم خود ہی اپنے ہاتھ سے زمین کھود کر اسے دفن کر دیتے ہیں۔ جو بچہ نو مہینے ماں نے پیٹ میں رکھا، ولادت کی انتہائی تکلیف برداشت کی لیکن اس کے اندر اگر جان نہیں ہے تو ماں بھی رو دھو کر صبر کر لیتی ہے اور باپ بھی صبر کر لیتا ہے اور دونوں اس طرح صبر کر لیتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر بچے کے اندر روح ہے تو دل و جان سے عزیز رکھ کر اس کو پالتے ہیں۔ بتایئے! کہ کیا کسی مردہ بچے کو کوئی ماں لے کر بیٹھی رہتی ہے؟

اگر آدمی کے اندر روح ہے تو وہ آدمی ہے، اگر روح نہیں ہے تو خالی قالب ہے۔

ہم ایک بہت عمدہ قیمتی کھلونا لاتے ہیں، چابی دیتے ہیں، وہ اچھلتا ہے، بھاگتا ہے، آوازیں نکالتا ہے، چھلانگ لگاتا ہے۔ چابی ختم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ کھلونا گر پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمارا مادی جسم ہے۔ اس کے اندر چابی(Energy) ہے، چابی ختم ہو جاتی ہے تو کھلونا مردہ ہو جاتا ہے یعنی روح کے بغیر آدمی مر جاتا ہے۔

*****


میرے بچوں! طلبا اور طالبات! محترم اساتذہ کرام، فیکلٹی کے ڈین اور اپنے اپنے شعبوں کے چیئرمین صاحبان!

آپ سے میرے بچے ہیں۔ مجھے انگریزی نہیں آتی تو جب میں انگریزی سیکھوں گا تو استاد مجھے A,B,C,Dپڑھائیں گے۔ مجھے A,B,C,Dیاد کرنی ہو گی۔ یاد کرنے میں میرے دماغ پر اس کا وزن پڑے گا کیونکہ میرے لئے انگریزی نیا علم ہے۔ جب کوئی علم نیا ہوتا ہے تو اس کا دماغ پر الگ سے ایک وزن پڑتا ہے۔

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے اس ہال میں آ کر آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ نہ بیٹھے ہوں سارے انگوٹھا چھاپ ہوں اور کوئی سائنٹسٹ ایٹم کا فارمولہ بیان کرنے لگے ایٹم کی تھیوری سنانا شروع کر دے تو دماغ پر بوجھ پڑے گا۔ وہ لوگ کہیں گے پتہ نہیں پروفیسر صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔حالانکہ سائنٹسٹ اردو بول رہا ہے لیکن چونکہ لوگ اس تھیوری سے واقف نہیں ہیں، اس لئے پہلی بار بوجھ پڑے گا اور دوسری دفعہ کم وزن پڑے گا، تیسری دفعہ، چوتھی دفعہ وزن نہ ہونے کے برابر پڑے گا۔ نتیجے میں لوگ ایٹم کو جان لیں گے۔

میں آپ سے بار بار سوال کرتا ہوں اس لئے سوال کرتا ہوں کہ آپ کے دماغ پر نئے علم کا اضافی وزن نہ پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سو جائیں۔ میری تقریر میں ایسا بہت ہوتا ہے، لوگ سو جاتے ہیں اور انہیں روحانی علم نیا لگتا ہے۔ روحانی علم اس لئے نیا علم ہے کہ اساتذہ نے ہمیں نہیں پڑھایا، ابا نے، اماں نے نہیں سکھایا۔ پروفیسر صاحبان نے نہیں بتایا۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ میرے مرشد کریم ہیں۔ مجھے الحمدللہ ان کا فیض ملا ہے۔ میں شب و روز ان کی خدمت میں سولہ سال حاضر باش رہا ہوں۔ انہوں نے حضور پاکﷺ کے حکم سے، ایک کتاب لوح و قلم لکھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

“میں یہ کتاب پیغمبر اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں اور مجھے یہ حکم بطریق اویسیہ ملا ہے۔”

یعنی رسول پاکﷺ کی روح مبارک نے ان کو یہ حکم دیا کہ تم نوع انسانی کے لئے، انسانی ارتقا اور شعور کو سامنے رکھ کر کتاب لکھو۔

سائنسی نقطہ نظر سے انسانوں میں ڈھائی سو سال پہلے اتنا شعور نہیں تھا۔ جتنا اب ہے۔ ساٹھ سال پرانی بات ہے، میرے بہنوئی صاحب کلکتے سے ریڈیو لائے، وہ چھوٹے صندوق کے برابر تھا، بیٹری سے چلتا تھا، میرے قصبہ میں بجلی نہیں تھی۔ اس ریڈیو کو سارے بستی والے دیکھنے آئے۔ صحن میں لوگ چاروں طرف بیٹھ کر سنتے تھے۔ حیران ہوتے تھے، آواز کہاں سے آ رہی ہے؟

ایک روز ڈرائنگ روم میں ریڈیو بج رہا تھا۔ میں نے اس کے اندر جھانکا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ بہت کوشش کی میں اس بندہ کو دیکھوں کہ کون بول رہا ہے۔ میں نے خالہ اماں سے پوچھا:

“یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ کوئی نظر تو نہیں آتا۔”

انہوں نے کہا کہ یہ آواز دہلی کی جامع مسجد سے آ رہی ہے۔ خالہ اماں دہلی تو بہت دور ہے اتنی دور سے آواز کیسے آتی ہے؟ میں نے پوچھا کیا دہلی کی جامع مسجد میں کوئی کمرہ ہے؟ کہنے لگیں، کمرہ نہیں ہے، وہاں بہت بڑے بڑے بجلی کے تار لٹکے ہوئے ہیں۔ ان تاروں کے قریب جا کر جب کوئی بولتا ہے تو ساری دنیا آواز سنتی ہے۔

مجھے شوق چڑھ گیا کہ دہلی جانا ہے۔ اماں نے ڈانٹا کہ پاگل ہو گیا ہے کیا، رٹ لگا رکھی ہے، دہلی جانا ہے، دہلی جانا ہے۔ کس کے پاس جائے گا؟ 

لیکن میرے اندر تو جیسے مدوجزر آ گیا تھا بس ایک ہی سوچ تھی کہ دہلی جانا ہے۔

جب بندہ کا ذہن کسی ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے تو اسے قدرت پورا کرنے کے وسائل فراہم کر دیتی ہے۔ بڑے کہتے ہیں کہ یہ لوح محفوظ کا قانون ہے۔

تو جناب! ایسا ہوا کہ میں خالہ زاد بھائی کے ساتھ دہلی پہنچ گیا۔ بھائی اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ میں ٹرام میں ایک آنہ کرایہ دے کر جامع مسجد پہنچ گیا۔ جامع مسجد لاہور کی شاہی مسجد جیسی ہے۔ میں نے تار ڈھونڈے تو ایک طرف لڑکے ہوئے نظر آ گئے۔ موٹے موٹے تار تھے۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر میں نے زور سے کہا۔”خالہ اماں! السلام علیکم۔ میں شمس الدین بول رہا ہوں۔ دہلی جامع مسجد سے بول رہا ہوں۔” آپ ہنس رہے ہیں۔ یہ واقعہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ اگر شعور نہ ہوتو انسان کیسی کیسی بیوقوفیاں کرتا ہے۔

دنیا میں کتنا شعوری ارتقا ہو گیا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ابھی تک متحد نہیں ہوئے۔ ہر فرقے کی مسجد الگ ہے، دیو بندیوں کی مسجد، بریلویوں کی مسجد۔ اہل حدیث کی مسجد، اہل تشیع کی مسجد۔

میرے محلہ کی مسجد میں مولوی صاحب گوہر افشانی کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے دنیا اللہ نے پانی پر بنائی ہے۔ یہ دنیا پانی پر بنی ہوئی ہے، پانی پر ایک تختہ ہے۔ تختے پر ایک بیل کھڑا ہوا ہے، دنیا بیل کے سینگھ پر رکھی ہے، بیل کھڑے کھڑے تھک جاتا ہے، ایک سینگھ سے دوسرے سینگھ پر دنیا کو اٹھا لیتا ہے تب زمین میں زلزلہ آ جاتا ہے۔

حضور پاکﷺ نے حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کو حکم دیا کہ سائنسی ذہن کے مطابق روحانیت کے اوپر ایک کتاب لکھو۔ لوح و قلم کے ابتدائی صفحوں میں لکھا ہے:

ہر انسان زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے لئے سرد و گرم سے اپنی حفاظت کرنے کے لئے لباس بناتا ہے۔ وہ لباس کپڑے کا ہوتا ہے، اون کا ہوتا ہے، کھال کا ہوتا ہے۔ لباس کسی طرح کا ہو کوٹ ہو، پتلون ہو یا شلوار قمیض ہو۔ جب تک لباس جسم پر رہتا ہے، ہاتھ کے ساتھ آستین ہلتی ہے۔ سر سے ٹوپی اتار کر جسم پر سے کوٹ اتار کر رکھ دیں اور چاہیں کہ وہ ہلے یا وہ نہ ہلے لیکن اگر وہ جسم پر ہو گا تو ضرور ہلے گا۔ اس کا مطلب ہوا کہ لباس جسم کے تابع ہے۔ جسم ہلے گا تو لباس بھی ہلے گا۔ جسم میں سے روح نکل جائے تو جسم حرکت نہیں کرے گا۔

جب تک جسم کے اندر روح ہے، جسم لباس کی طرح حرکت کرتا ہے اور جب جسم کے اندر سے روح نکل جاتی ہے تو جسم کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ جب تک روح جسم کو پہنے رہتی ہے، اس میں حرکت رہتی ہے اور جب روح اس جسم (یعنی لباس) کو اتار کر پھینک دیتی ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔

بتایئے! ہماری اصل روح ہے یا جسم؟

آپ سب خواتین و حضرات، طلبا اور طالبات کا جواب ہے کہ ہماری اصل روح ہے اور مادی جسم روح کا لباس ہے یعنی ہمارے مادی جسم کی حیثیت ایک لباس کی ہے جو روح نے پہنا ہوا ہے۔ جب تک روح اسے پہنے رہتی ہے اس میں حرکت رہتی ہے۔ جب روح اسے اتار دیتی ہے تو Dead Bodyہو جاتا ہے۔

اس بات کو جن لوگوں نے سمجھ لیا ہے وہ ہاتھ اٹھا دیں۔ ماشاء اللہ آپ سمجھدار ہیں۔ الحمدللہ تمام حاضرین نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ مادی جسم دراصل روح کا لباس ہے۔ بہت شکریہ!

عزیز بچو، محترم اساتذہ!

یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ہمارے مادی جسم کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک لباس ہے۔ ایک آدمی زندہ ہے، ایک آدمی مردہ ہے۔ زندہ آدمی کھانا کھاتا ہے۔ مردہ آدمی کھانا نہیں کھاتا۔ زندہ آدمی کپڑے پہنتا ہے، اپنی مرضی سے اتار دیتا ہے اور مردہ آدمی کپڑے نہیں پہنتا۔ زندہ آدمی چلتا پھرتا ہے، مردہ آدمی چلتا پھرتا نہیں ہے۔ جو آدمی زندہ ہے وہ کھانا کھاتا ہے، سوچ کر بتایئے کہ کھانا جسم کھاتا ہے یا روح کھاتی ہے؟ابھی سبق یاد نہیں ہوا دوبارہ دہراتے ہیں۔ زندہ آدمی کھانا کھاتا ہے، مردہ آدمی کھانا نہیں کھاتا۔ مردہ آدمی کھانا کیوں نہیں کھاتا؟ اس لئے کہ اس کے اندر روح نہیں ہے۔ تو کھانا کس نے کھایا جسم نے یا روح نے؟ آدمی دوڑتا نہیں ہے کیوں؟۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ اس کے اندر روح نہیں ہے۔ بتایئے! روح دوڑ رہی ہے یا جسم دوڑ رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے میں نے مٹی سے آدم کا پتلہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے آدم کو بجنی مٹی سے بنایا ہے۔ آدم کو خلا سے بنایا اور میں نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔

روح اللہ کی جان ہے۔ اللہ کی جان سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ دیکھنا اللہ کی ایک صفت ہے۔ سننا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ نے بندوں کو سننے کی صفت عطا کی ہے۔ پکڑنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بندوں میں منتقل کیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان اشرف المخلوقات اس لئے ہے کہ وہ دیکھتا ہے، سنتا ہے، پکڑتا ہے تو سب جانور دیکھتے سنتے ہیں۔ بلی دیکھتی ہے، بلی سنتی ہے، بلی اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے، بلی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔

میں نے بچپن میں مرغیاں پال رکھی تھیں۔ مرغی کے بہت سارے بچے تھے۔ چھوٹے چھوٹے چوزوں کو مرغی، صحن میں اپنے ساتھ لے جاتی تھی، بڑی شان سے چلتی تھی، پیچھے پیچھے بچے پھدکتے ہوئے بہت اچھے لگتے تھے۔ ایک دن چیل زور سے بولی تو مرغی نے ’کڑ کڑ ‘ کی ایک مخصوص آواز نکالی اور پر پھیلا دیئے۔ سارے بچے دوڑ کر اس کے پروں میں چھپ گئے اور مرغی اپنے بچوں کو پروں میں چھپا کر بیٹھ گئی۔ دو چار شریر بچے مرغی کے پروں سے باہر آئے۔۔۔۔۔۔’کڑک‘ مرغی نے ڈانٹا اور چونچ سے بچوں کو پروں میں سمیٹ لیا۔

یہ اس لئے ہوا کہ مرغی میں ماں کی مامتا تھی۔ وہ اپنے بچوں کی اسی طرح حفاظت کر رہی تھی جس طرح ماں اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ مرغی میں، بکری میں اور انسان میں کیا فرق ہوا؟ مامتا جانور میں بھی ہے۔ اگر عقل نہ ہوتی تو مرغی بچوں کو پروں میں سمیٹ کر بچوں کی حفاظت نہ کرتی۔ فرق یہ ہے کہ جانور اللہ کی صفات کا علم نہیں سیکھ سکتے اور انسان یہ علم سیکھ لیتا ہے:

“اور ہم نے انسان کو وہ علوم سکھا دیئے جو وہ نہیں جانتا تھا۔”

انسان تمام مخلوق سے اس لئے ممتاز ہے کہ وہ حقیقت سے وقوف حاصل کر سکتا ہے۔ انسان اگر روح سے واقف نہیں ہو گا تو وہ کتنا ہی بڑا Scientistبن جائے اس کی حیثیت اشرف المخلوقات کی نہیں ہو گی۔

میں مشورہ دیتا ہوں کہ آپ دنیاوی علوم حاصل کیجئے۔ اس لئے کہ دنیاوی علوم اگر حاصل نہیں کریں گے تو آپ کی ذہنی صلاحیتیں نہیں بڑھیں گی۔ جب تک آپ دنیاوی علوم نہیں سیکھیں گے۔ آپ کے اندر صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ روحانی علوم ضرور سیکھیں تا کہ آپ حیوانات سے ممتاز ہو جائیں۔ (آمین)



خطبات ملتان

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "