Topics
آدمی آدمی کی دوا ہوتا ہے۔ آدمی آدمی کا دوست ہوتا ہے۔ دوستی کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں کے معاملات میں دلچسپی لیں، ان کے کام آئیں اور مالی اعانت کی استطاعت نہ ہو تو ان کے لئے وقت کا ایثار کریں۔ یہ بھی حق دوستی ہے کہ جب آپس میں میل ملاقات ہو تو سرد مہری کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ مستقل مزاجی سے تعلقات کو آخر تک نبھانا بھی ایک مستحسن عمل ہے۔ جب بہت سے برتن ہوتے ہیں تو آپس میں ٹکراتے بھی ہیں۔ آواز بھی مدہم اور پر شور ہوتی ہے۔ دو برتن ٹکراتے ہیں تو ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں نرمی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے رشتہ کی ایک نوعیت یہ ہے کہ ہر آدم زاد ایک دوسرے کا برادر اور دوست ہے اور رشتہ کی ایک نوعیت یہ ہے کہ ایک مذہب، ایک ملک کے افراد ایک دوسرے کے رفیق اور ہم خیال ہوتے ہیں۔نوعی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر آدم زاد کو اپنا بھائی سمجھئے۔ کوئی کام ایسا نہ کیجئے کہ آپ کے عمل سے نوع انسانی کی فلاح متاثر ہو۔ ہمیشہ ان رخوں پر سوچئے کہ نسل انسانی کی فلاح و بہبود کے وسائل میں اضافہ ہو۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دوستوں اور رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک ہو کر، ان کے غم کو اپنا غم سمجھ کر ان کا غم غلط کرنے کی کوشش کیجئے۔ ان کی خوشیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے اور ان کی مسرتوں میں بغیر کسی احسان اور صلہ و ستائش کی پروا کئے بغیر شریک ہو کر انہیں خوش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر دوست اپنے پیاروں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ مصیبت میں اس کا ساتھ دے گا اور کوئی افتاد پڑنے پر اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔
ہمارے آقا، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے کہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتا اور سہارا دیتا ہے۔ جیسے عمارت کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کا سہارا بنتی اور قوت پہنچاتی ہے۔ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور اس طرح مسلمانوں کے باہمی تعلق اور قرب کو واضح فرمایا۔اور آپ نے یہ بھی فرمایا:
’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، باہم الفت و محبت اور باہم تکلیف کے احساس میں ایسا پاؤ گے جیسے ایک جسم کہ اگر ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں اس کا شریک رہتا ہے۔‘‘
خوش دلی، نرم خوئی، اخلاص اور خندہ پیشانی کی عادت تعلق خاطر میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس روکھے پن سے ملنا، لاپروائی، بے نیازی، یاس و حزن اور مردہ دلی ایسی بیماریاں ہیں جن سے دوست کا دل بجھ جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: ’’اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔