Topics

مسلمان سائنسدان

۱۴۲۴ سال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی ہوئی تھی، ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی عام تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی اور اشرف المخلوقات نے انسانی حدود کوپھلانگ کر حیوانیت کو اپنا لیا اور اللہ کے عطاء کردہ انعام ’’فی الارض خلیفہ‘‘ کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے زمین کو دوبارہ پر سکون بنانے کے لئے اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ اس برگزیدہ مقدس اور مطہر بندے نے عجیب و غریب، حیرت انگیز، محدود و لامحدود رنگ رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا کہ ابتدائی دور میں زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہو گئی۔ 

قرآن نے بتایا:

’’بیشک زمین و آسمان کی پیدائش رات اور دن کے بار بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقلمندوں کے لے نشانیاں ہیں جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دے۔‘‘

(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر ۱۹۰۔۱۹۱)

’’کیا ان لوگوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو آراستہ کیا اور اس میں کسی قسم کا سقم نہیں ہے اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے اور اس میں سے ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں، یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دانا اور بینا ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ ق۔ آیت نمبر۶تا۸)

جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہو گئے تو انہوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جو ان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔ ان کی تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ وہ دانشور مسلمان ہیں جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم کی شمعیں روشن کیں۔ مسلمانوں نے دنیا میں اس وقت روشنی پھیلائی جب چہار سو تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ ان مفکرین، محققین میں علوم باطن کے ماہرین متصوفین بھی تھے اور سائنسدان بھی تھے۔ آج مسلمان تہی دست ہے۔ اس لئے کہ من حیث القوم ہمارے اندر سے تفکر، ریسرچ اور اللہ کی نشانیوں میں سوچ و بچار کا ذوق ختم ہو گیا ہے۔

عبدالمالک اصمعی:

عبدالمالک اصمعی نے علم ریاضی، علم حیوانات، علم نباتات اور انسان کی پیدائش اور ارتقاء پر تحقیق کی۔ عبدالمالک اصمعی سائنس کا پہلا بانی ہے اس سے پہلے سائنس کے علم کا وجود تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں ہے۔

جابر بن حیان:

جابر بن حیان کی کتابوں کے تراجم پندرھویں صدی عیسوی تک یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سائنس دان نے کپڑے کو واٹر پروف، لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے اور شیشے کو رنگین کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

محمد بن موسیٰ الخوارزمی:

محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے صفر کا اضافہ کر کے ہندسوں کی قدر کو بڑھایا۔ اس نے کرہّ ارض کے نقشے بنائے اور جغرافیہ میں تحقیقات کیں۔

علی ابن سہیل ربان الطبری:

علی ابن سہیل ربان الطبری نے فردوس الحکمت کے نام سے ایک مکمل کتاب لکھی۔

یعقوب بن اسحاق الکندی:

یعقوب بن اسحاق الکندی علم فلکیات، کیمسٹری، موسیقی اور طبیعات میں ماہر تھا۔

ابوالقاسم عباس بن فرناس:

ابوالقاسم عباس بن فرناس ہوا میں اڑنے کے تجربے کرتا رہا اس کی کوششیں ہوائی جہاز بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ دھوپ گھڑی بھی اس کی ایجاد ہے۔

ثابت ابن قرۃ:

ثابت ابن قرۃ نے لیور اور گیئر ایجاد کئے۔ لیور اور گیئر نہ ہوتے تو آج ہم بڑی بڑی مشینوں کے ذریعہ نئی نئی ایجاد نہیں کر سکتے تھے۔

ابوبکر محمد بن زکریا الرازی:

ابو بکر محمد بن زکریا الرازی کو سرجری میں مہارت حاصل تھی۔ آپریشن کے بعد جلد کو سینے کا طریقہ بھی اس کی ایجاد ہے۔

ابوالنصر الفارابی:

ابوالنصر الفارابی نے موسیقی کا ایک آلہ ایجاد کیا تھا جس کی آواز سننے والا کبھی سو جاتا تھا، کبھی روتا تھا اور کبھی ہنستا تھا۔

ابوالحسن المسعودی:

ابو الحسن المسعودی سب سے پہلا شخص ہے جس نے بتایا کہ زمین کی جگہ سمندر تھا اور سمندر کی جگہ زمین۔ یہ بات اس نے اس وقت بتائی تھی جب پیمائش کے لئے کوئی آلہ موجود نہیں تھا۔

ابن سینا:

ابن سینا میڈیکل سائنس کا ماہر تھا اس نے علم الابدان کا نقشہ بنایا اور اس کے الگ الگ حصے کر کے اس کی تصویریں بنائیں۔

موجودہ میڈیکل سائنس میں ANATOMY اسی کی تحریر کردہ کتاب کا ترجمہ ہے۔ ابن سینا نے جسمانی حرارت ناپنے کا آلہ ایجاد کیا جو تھرمامیٹر کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ علیٰ ہذا القیاس بیان کردہ سائنس دانوں کے علاوہ انیس یا بیس سائنسدان اور ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم کی بنیاد رکھی۔

شاہ ولی اللہ:

شاہ عبدالعزیز کے والد بزرگوار نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ انہوں نے غیب کے اوپر سے پردہ اٹھایا۔ کائناتی نظام کی نقاب کشائی کی اور بتایا کہ ہر انسان کے اوپر نور کا بنا ہوا ایک جسم ہے جو انسان کے جسم کے ساتھ چپکا رہتا ہے۔ محروم اور زوال پذیر قوم نے یہ قدر کی کہ ان کے خلاف قتل کی سازش کی۔

سائنس کا غلغلہ بلند ہوا اور سائنس نے AURAتعارف کرایا تو قوم نے اسے نعوذ باللہ صحیفہ سمجھ کر قبول کر لیا۔

بابا تاج الدین ناگپوری:

بابا تاج الدین نے بتایا کہ انسان کی نگاہ میں بہت زیادہ وسعت ہے۔ سورج 9کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ جب ہماری نگاہ سورج کو دیکھ سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر کے قانون سے واقف ہو کر دور دراز اشیاء کو کسی DEVICEکے بغیر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کائنات میں ہر مخلوق دوسری مخلوق سے ہم رشتہ ہے۔ ہر ذرہ دوسرے ذرہ کے ساتھ پیوست ہے۔ جان جب جان سے گلے ملتی ہے تو زندگی بن جاتی ہے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی:

شاہ عبدالعزیز دہلوی کے حالات و واقعات ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ نادیدہ مخلوق جنات کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ان سے دوستی کر سکتے ہیں۔ اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

محی الدین ابن عربی:

شیخ اکبر ابن عربی نے بتایا کہ روح کو دیکھنا، روح سے مکالمہ کرنا اور روح کے ذریعہ عالم بالا کی سیر کرنا، انفس و آفاق کے رموز سے آگاہ ہونا، انسانوں کے لئے ممکن ہے۔

قلندر بابا اولیاء:

عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاء نے خواب کے اوپر سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی زندگی آدھی بیداری میں اور آدھی خواب میں گزرتی ہے۔

بیداری کی زندگی ہو یا خواب کی زندگی دونوں کو روح فیڈ (Feed) کرتی ہے۔ قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں کہ:

’’روح‘‘، تجلی، نور اور روشنی سے مرکب ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے روح کے اندر یہ وصف رکھا ہے کہ روح نسمہ کی تشکیل کرتی ہے۔ نسمہ میں تجلی کے غلبہ سے ملاء اعلیٰ تخلیق ہوتے ہیں۔

نسمہ میں جب نور غالب ہوتا ہے تو ملائکہ کی تخلیق عمل میں آتی ہے اور نسمہ میں جب روشنی کا غلبہ ہوتا ہے تو جنات اور انسان کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔

انسان اور جنات کی تخلیق میں یہ فارمولا کام کر رہا ہے کہ یہ دونوں مخلوق ظاہر اور غیب میں رد و بدل ہوتی رہتی ہیں۔ غیب میں رد و بدل ہونا خواب کی زندگی ہے اور غیب سے ظاہر میں منتقل ہونا بیداری کی زندگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواب کی دنیا ہو یا بیداری کی دنیا، دونوں حواس پر قائم ہیں۔ حواس کی تشکیل میں مسلسل اور متواتر فعال انفارمیشن کا عمل دخل ہے۔ انفارمیشن کا بہاؤ جب نزول کرتا ہے تو ایسے ایٹم بنتے ہیں جن سے اسپیس (Space) کی تشکیل ہوتی ہے۔ اور جب انفارمیشن کا بہاؤ صعود میں ہوتا ہے تو ایسے ایٹم بنتے ہیں جن سے عالم بالا کی مخلوق وجود میں آتی ہے۔



احسان وتصوف

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے