Topics

مراقبہ

ذہنی مرکزیت:

تمام طرف سے ذہن ہٹا کر کسی ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام مراقبہ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب تک توجہ مرکوز نہ ہو ہم کوئی کام احسن طریقہ پر نہیں کر سکتے۔ بچے اس لئے الف۔ب۔ج۔سیکھ لیتے ہیں کہ ان کی توجہ استاد کے بولے ہوئے الفاظ پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک منشی حساب اس وقت صحیح کرتا ہے جب اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ بصورت دیگر وہ کبھی حساب صحیح نہیں کرتا۔ کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی توجہ اس کام کی طرف قائم رہے۔

جس طرح دنیا کے تمام امور کے لئے ذہنی مرکزیت ضروری ہے اسی طرح دینی امور میں ذہنی مرکزیت نہ ہو تو خیالات کی یلغار رہتی ہے۔ خیالات کی یلغار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نماز میں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ نمازی نے کونسی سورۃ کس کس رکعت میں تلاوت کی ہے۔

عرفان:

مشائخ اور صوفیاء مراقبہ کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو مراقبے کی تلقین کرتے ہیں۔ تصوف کی تعریف یہ ہے کہ شریعت اور طریقت پر دلجمعی، یقین اور مداومت سے عمل کیا جائے۔ عرفان ذات کے لئے شریعت تھیوری (Theory) ہے اور تصوف پریکٹیکل (Practical) ہے۔ بندہ جب اسلام کے ارکان پورے کرتا ہے تو یہ عمل دین کی تھیوری ہے اور جب مسلمان ارکان کی حکمت پر غور کر کے حقیقت تلاش کر لیتا ہے تو یہ عمل پریکٹیکل ہے۔ پریکٹیکل میں سالک رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے والوں کو اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرنے والے فرشتوں کو دیکھتا ہے اور اللہ کا فضل اس کے اوپر محیط ہو جاتا ہے۔ یہی ’’الصلوٰۃ المعراج المومنین‘‘ کا مفہوم ہے۔ نمازی دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو سجدہ کر رہا ہوں اور اللہ میرے سامنے ہے۔

مراقبہ کی تعریف:

مراقبہ کی تعریف مختلف طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔ 

۱)         تمام خیالات سے ذہن کو آزاد کر کے ایک نقطہ پر مرکوز کر دیا جائے۔

۲) جب مفروضہ حواس کی گرفت انسان کے اوپر سے ٹوٹ جائے تو انسان مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔

۳) جب انسان اپنے اوپر بیداری میں خواب کی حالت طاری کر لے تو وہ مراقبہ میں چلا جاتا ہے۔

۴) یہ بات بھی مراقبہ کی تعریف میں آتی ہے کہ انسان دور دراز کی باتیں دیکھ اور سن لیتا ہے۔

۵) شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا میں جب انسان داخل ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت بھی مراقبہ کی ہے۔

۶) مراقبہ میں بندہ کا ذہن اتنا زیادہ یکسو ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔

۷) ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ مراقب یہ دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔

انسان کی روح میں ایک روشنی ایسی ہے جو اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اس لامتناہی روشنی کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو اس لامحدود روشنی میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنی موجودات کی ہر چیز کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں ہے۔ روشنی کے اس دائرے میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالت موجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب ذات انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔

چراغ کی لو:

اس روشنی کی ایک شعاع کا نام ’’باصرہ‘‘ ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔

کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔ جہاں اس چراغ کی لو کا عکس پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں ہلکی، کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تواہم پیدا ہوتا ہے۔ تواہم لطیف ترین خیال کو کہتے ہیں۔ جو صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔

جن چیزوں پر لو کی روشنی ہلکی پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تصور قدرے نمایاں ہو جاتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ لیتی ہے۔

وہم، خیال اور تصور کی صورت میں کوئی چیز انسانی نگاہ پر واضح نہیں ہوتی اور نگاہ اس چیز کی تفصیل کو نہیں سمجھ سکتی۔

شہود:

شہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو، نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شہود ایسی صلاحیت ہے جو ہلکی سے ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتی ہے تا کہ ان چیزوں کو جو اب تک محض تواہم تھیں، خدوخال، شکل و صورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جا سکے۔ روح کی وہ طاقت جس کا نام شہود ہے وہم کو خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو نگاہ پر منکشف کر دیتی ہے۔

بصارت:

شہود میں برقی نظام بے حد تیز ہو جاتا ہے اور حواس میں روشنی کا ذخیرہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس روشنی میں غیب کے نقوش نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ مرحلہ شہود کا پہلا قدم ہے۔ اس مرحلے میں سارے اعمال باصرہ نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔یعنی صاحب شہود غیب کے معاملات کو خدوخال میں دیکھتا ہے۔

سماعت:

قوت بصارت کے بعد شہود کا دوسرا مرحلہ سماعت کا حرکت میں آنا ہے۔ اس مرحلہ میں کسی ذی روح کے اندر کے خیالات آواز کی صورت میں صاحب شہود کی سماعت تک پہنچنے لگتے ہیں۔

شامہ اور لمس:

شہود کا تیسرا اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کے برابر ہو، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔

ایک صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اپنی طویل شب بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں آسمان میں فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھتا تھا۔‘‘ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

’’اگر تم شب بیداری کو قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ بھی کرتے۔‘‘

دور رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس واقعہ میں شہود کے مدارج کا تذکرہ موجود ہے۔ فرشتوں کو دیکھنا باصرہ سے تعلق رکھتا ہے اور مصافحہ کرنا، لمس کی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جو باصرہ کے بعد بیدار ہوتی ہے۔

شہود کے مدارج میں ایک ایسی کیفیت وہ ہے جب جسم اور روح کی واردات و کیفیات ایک ہی نقطہ میں سمٹ آتی ہیں اور جسم روح کی تحریکات سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔

حضرت معروف کرخیؒ :

صوفیاء کے حالات میں اس طرح کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ مثلاً ایک قریبی شناسا نے حضرت معروف کرخیؒ کے جسم پر نشان دیکھ کر پوچھا کہ کل تک تو یہ نشان موجود نہیں تھا۔ آج کیسے پڑ گیا۔ حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا۔ ’’کل رات نماز میں ذہن خانہ کعبہ کی طرف چلا گیا، خانہ کعبہ میں طواف کے بعد جب چاہ زمزم کے قریب پہنچا تو میرا پاؤں پھسل گیا اور میں گر پڑا۔ مجھے چوٹ لگی اور یہ اسی چوٹ کا نشان ہے۔‘‘

ایک بار اپنے مرشد کریم ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے جسم پر زخم کا غیر معمولی نشان دیکھ کر میں (خواجہ شمس الدین عظیمی) نے اس کی بابت دریافت کیا۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے بتایا۔ ’’رات کو روحانی سفر کے دوران دو چٹانوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے چٹان میں نکلی ہوئی ایک نوک جسم میں چبھ گئی تھی۔‘‘

جب شہود کی کیفیات میں استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو روحانی طالب علم غیبی دنیا کی سیر اس طرح کرتا ہے کہ وہ غیب کی دنیا کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو دنیا میں کرتا ہے۔

سیر یا معائنہ:

صوفی جب مراقبہ کے مشاغل میں پوری طرح انہماک حاصل کر لیتا ے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکتا ہے اور اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کے تحت اپنی قوتوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے واقعات دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے سے موجود تھا یا آئندہ ہو گا اس وقت بھی موجود ہے۔ شہود کی اس کیفیت کو تصوف میں سیر یا معائنہ کہتے ہیں۔

تصوف کا طالب علم ’’سالک‘‘ جب اپنے قلب میں موجود روشنیوں سے واقف ہو جاتا ہے اور شعوری حواس سے نکل کر لاشعوری حواس میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے فرشتے نظر آنے لگتے ہیں وہ ان باتوں سے آگاہ ہو جاتا ہے جو حقیقت میں چھپی ہوئی ہیں۔ صوفی پر عالم امر (روحانی دنیا) کے حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں اور روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے انوار کس طرح استعمال ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ادراک پردہ تجلی منکشف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔


مراقبہ کے فوائد:

مراقبہ کرنے والے بندے کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

۱) خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔

۲) روحانی علوم منتقل ہوتے ہیں۔

۳) اللہ تعالیٰ کی توجہ اور قرب حاصل ہوتا ہے۔

۴) منتشر خیالی سے نجات مل جاتی ہے۔ ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔

۵) اخلاقی برائیوں سے ذہن ہٹ جاتا ہے۔

۶) مسائل حل ہوتے ہیں۔ پریشانیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

۷) مراقبہ کرنے والا بندہ بیمار کم ہوتا ہے۔

۸) مراقبہ کے ذریعے بیماریوں کا علاج قدرت کا سربستہ راز ہے۔

۹) اللہ تعالیٰ پر یقین مستحکم ہو جاتا ہے۔

۱۰) اپنے خیالات دوسروں کو منتقل کئے جا سکتے ہیں۔

۱۱) صاحب مراقبہ روحانی طور پر جہاں چاہے جا سکتا ہے۔

۱۲) مراقبہ کرنے والوں کو نیند جلدی اور گہری آتی ہے۔ وہ فوراً سو جاتے ہیں۔

۱۳) فراست میں اضافہ ہوتا ہے۔

۱۴) کسی بات یا مضمون کو بیان کرنے کی اعلیٰ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

۱۵) صاحب مراقبہ بندہ عفو و درگذر سے کام لیتا ہے۔ دل نرم اور گفتگو لطیف ہو جاتی ہے۔

۱۶) بلاتخصیص مذہب وملت اللہ کی مخلوق کو دوست رکھتا ہے اور خدمت کر کے خوش ہوتا ہے۔

۱۷) ’’ماں‘‘ سے والہانہ محبت کرتا ہے، باپ کا احترام کرتا ہے، بڑوں کے سامنے جھکتا ہے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔

۱۸) مراقبہ کرنے والا بندہ سخی اور مہمان نواز ہوتا ہے۔

۱۹) اپنے پرائے سب کے لئے دعا کرتا ہے۔

۲۰) مراقبہ کرنے والے کی روح سے عام لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔

۲۱) تواضع اور انکساری کی عادت بن جاتی ہے۔

۲۲) صاحب مراقبہ سالک کو پراگندہ خیالات بوجھ اور وقت کا ضیاع نظر آتے ہیں اور وہ ہر حال میں ان سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی روحوں سے امداد کا طالب ہوتا ہے اور اس کی بے قراری کو قرار آ جاتا ہے۔

۲۳) نماز میں حضوری ہو جاتی ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے فرشتوں کو صف بہ صف دیکھتا ہے۔

۲۴) آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور جنت کے باغات اس کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔

۲۵) کشف القبور کے مراقبے میں اس دنیا سے گزرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

۲۶) سچے خواب نظر آتے ہیں۔

۲۷) شریعت و تصوف پر کاربند انسان کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ 

مراقبہ کی اقسام:

مراقبہ کی بے شمار اقسام میں سے چند یہ ہیں:

۱) صلوٰۃ قائم کرنا۔

۲) روزہ میں توجہ الی اللہ قائم کرنا۔

۳) حج بیت اللہ میں دیدار الٰہی حاصل کر کے اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔

۴) تصور شیخ کا مراقبہ۔

۵) نیلی روشنیوں کا مراقبہ۔

۶) مرتبہ احسان کا مراقبہ

۷) پھولوں کا مراقبہ

۸) مراقبہ مشاہدۂ قلب

۹) عرش کے تصور کا مراقبہ

۱۰) بیت المعمور کا مراقبہ

۱۱) جنت کا مراقبہ

۱۲) اپنی روح کے مشاہدے کا مراقبہ

۱۳) دل میں سیاہ نقطے کا مراقبہ

۱۴) مراقبہ معائنہ

۱۵) مراقبۂ موت

۱۶) مراقبۂ نور

۱۷) مراقبۂ استرخاء

۱۸) مراقبۂ ہاتف غیبی

۱۹) مراقبۂ کشف القبور

۲۰) مراقبۂ تفہیم

۲۱) مراقبۂ ذات

۲۲) مراقبۂ توحید الٰہی

۲۳) مراقبۂ سیر انفس و آفاق

۲۴) بیماریوں کے علاج کے لئے، بیماریوں کی مناسبت سے مراقبے تجویز کئے جاتے ہیں

۲۵)  مختلف رنگوں کی روشنیوں کے مراقبے:

۱۔ نیلی روشنی کا مراقبہ

۲۔ سبز روشنی کا مراقبہ

۳۔ زرد روشنی کا مراقبہ

۴۔ سرخ روشنی کا مراقبہ

۵۔ جامنی روشنی کا مراقبہ

۲۶) یہ چاروں مراقبے کھلی آنکھوں سے کئے جاتے ہیں:

۱۔ مراقبہ سورج بینی

۲۔ مراقبہ چاند بینی

۳۔ مراقبہ دائرہ بینی

۴۔ مراقبہ شمع بینی

مراقبہ کرنے کا آداب:

۱) مراقبہ کرنے کی جگہ ایسی ہونی چاہئے جہاں گرمی ہو نہ سردی۔ ماحول معتدل ہو۔

۲) شور و غل اور ہنگامہ نہ ہو اور ماحول پُرسکون ہو۔

۳) مراقبہ جہاں کیا جائے وہاں مکمل اندھیرا ہو۔ اگر ایسا ہونا ممکن نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اندھیرا ہونا چاہئے۔

۴) مراقبہ بیٹھ کر کیا جائے۔

۵) لیٹ کر مراقبہ کرنے سے نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے اور مراقبہ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

۶) مراقبہ کے لئے نشست ایسی ہونی چاہئے جس میں آسانی سے بیٹھ کر مراقبہ کیا جا سکے۔

۷) ارکان اسلام کی پابندی کی جائے۔

۸) غصہ سے گریز کیا جائے۔

۹) بڑوں کا احترام کریں اور بچوں سے پیار سے پیش آئیں۔

۱۰) نشہ سے بچا جائے۔

۱۱) ذکر اذکار کی مجالس میں شریک ہوں۔

۱۲) مراقبہ باوضو کیا جائے۔

۱۳) وقت مقرر کر کے مراقبہ کرنا چاہئے۔

۱۴) کھانے کے ڈھائی گھنٹے یا اس سے زیادہ وقفہ گزرنے کے بعد مراقبہ کیا جائے۔ کھانا بھوک رکھ کر آدھا پیٹ کھانا چاہئے۔

۱۵) زیادہ سے زیادہ وقت باوضو رہنے کی کوشش کی جائے مگر بول و براز نہ روکیں۔ تا کہ طبیعت بھاری نہ ہو۔

۱۶) چلتے پھرتے وضو بغیر وضو دن میں یا حی یا قیوم کا ورد کیا جائے۔ اور رات کو اہتمام کے ساتھ پاک صاف جگہ، پاک صاف پوشاک پہن کر اور عمدہ قسم کی خوشبو لگا کر کثرت سے درود شریف پڑھا جائے۔

مراقبہ کے لئے بہترین اوقات:

۱) تہجد کے وقت

۲) فجر کی نماز سے پہلے یا بعد میں

۳) ظہر کی نماز کے بعد

۴) عشاء کی نماز کے بعد

مراقبہ کس طرح کیا جائے:

۱) مراقبہ کی بہترین نشست یہ ہے کہ سالک نماز کی طرح بیٹھے۔

۲) آلتی پالتی مار کر بیٹھا جائے۔

۳) دونوں زانوں پر ہاتھ رکھ کر حلقہ بنا لیا جائے۔ کپڑا یا پٹکا بھی کمر اور ٹانگوں پر باندھا جا سکتا ہے۔

۴) مراقبہ میں مرشد سے رابطہ قائم ہونا ضروری ہے۔

۵) آنکھیں بند ہوں اور نظر دل کی طرف متوجہ ہو۔

۶) نماز کی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھا جائے۔ آنکھوں کی پتلیاں اوپر کی طرف ہوں۔

۷) ناک کی نوک پر نظر جمائی جائے۔

۸) کمر اور گردن سیدھی رہنی چاہئے۔ لیکن سیدھا رکھنے میں کمر اور گردن میں تناؤ نہ ہو۔

۹) سانس آنے جانے میں ہم آہنگی ہو۔ سانس دھونکنی کی طرح نہ لیا جائے۔

۱۰) مراقبہ خالی پیٹ کیا جائے۔

۱۱) نیند کا غلبہ ہو تو نیند پوری کر لی جائے پھر مراقبہ کیا جائے۔

۱۲) مراقبہ کے ذریعے لوگوں کے دلوں کی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ دوسرے کسی آدمی کو ماورائی چیزیں دکھائی جا سکتی ہیں۔ مطلب براری کے لئے لوگوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب استدراج کے دائرے میں شمار ہوتا ہے اور استدراج شرعاً ناجائز ہے۔ اور بالآخر آدمی خسارہ میں رہتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ خلاف شرع باتوں سے لازماً اجتناب کرنا چاہئے۔

۱۳) مراقبہ سے پہلے اگر کچھ پڑھنا ہو تو وہ پڑھ کر شمال رخ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے (اگر مغرب کی طرف منہ کیا جائے تو شمال سیدھے ہاتھ کی طرف ہو گا۔ کسی بھی رخ منہ کر کے مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ شمال رخ منہ رہے)۔ ذہن اس طرف متوجہ رکھا جائے جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہے۔

۱۴) مراقبہ کے دوران خیالات آتے ہیں۔ خیالات میں الجھنا نہیں چاہئے ان کو گزر جانے دیں اور پھر ذہن کو واپس اسی طرف متوجہ کر لیں جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہو۔ کم سے کم ۱۵ سے ۲۰ منٹ مراقبہ کے لئے کافی ہیں۔ زیادہ دیر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس وقت دل چاہا مراقبہ کے لئے بیٹھ گئے یا تمام کام چھوڑ کر مراقبہ ہی کرتے رہیں۔

۱۵) مراقبہ تخت یا فرش پر کرنا چاہئے۔ کرسی، صوفے، گدے یا کسی ایسی چیز پر بیٹھ کر مراقبہ نہیں کرنا چاہئے جس سے ذہنی سکون میں خلل پڑنے کا امکان ہو۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غار حرا میں طویل عرصے تک مراقبہ کیا ہے۔

دنیاوی معاملات، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے یکسوئی کے ساتھ کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا ’’مراقبہ‘‘ ہے۔

’’اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو۔ اور سب سے قطع تعلق کر کے اس ہی کی طرف متوجہ رہو۔‘‘

(سورۂ المزمل۔ آیت نمبر۸)

صاحب مراقبہ کے لئے ضروری ہے کہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و غل نہ ہو اندھیرا ہو۔ جتنی دیر کسی گوشے میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو مقصود کی طرف متوجہ رکھا جائے۔

پرہیز و احتیاط:

۱) مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے۔

۲) کسی قسم کا نشہ نہ کیا جائے۔

۳) کھانا آدھا پیٹ کھایا جائے۔

۴) ضرورت کے مطابق نیند پوری کی جائے اور زیادہ دیر بیدار رہے۔

۵) بولنے میں احتیاط کی جائے، صرف ضرورت کے وقت بات کی جائے۔

۶) عیب جوئی اور غیبت کو اپنے قریب نہ آنے دے۔

۷) جھوٹ کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر دے۔

۸) مراقبہ کے وقت کانوں میں روئی رکھے۔

۹) مراقبہ ایسی نشست میں کرے جس میں آرام ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے۔ اس 

طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ نہ ہو۔

۱۰) مراقبہ کرنے سے پہلے ناک کے دونوں نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینہ میں روکے بغیر خارج کر دیا جائے۔ سانس کا یہ عمل سکت اور طاقت کے مطابق استاد کی نگرانی میں پانچ سے اکیس بار تک کریں۔

۱۱) سانس کی مشق شمال رخ بیٹھ کر کی جائے۔ 

مرتبہ احسان کا مراقبہ:

پانچ وقت نماز ادا کرنے سے پہلے مراقبہ میں بیٹھ کر یہ تصور قائم کیا جائے کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ نماز میں خیالات کی یلغار نہیں رہتی۔

جب کوئی بندہ اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔

مراقبہ موت:

مادی جسم فنا ہونے کے بعد زندگی ختم نہیں ہوتی۔ ’’انسانی انا‘‘ موت کے بعد مادی جسم کو خیر باد کہہ کر روشنی کا نیا جسم بنا لیتی ہے۔ 

مراقبہ موت کی مشق میں مہارت حاصل کر لینے کے بعد کوئی شخص مادی حواس کو مغلوب کر کے اپنے اوپر روشنی کے حواس کو غالب کر سکتا ہے اور جب چاہتا ہے مادی حواس میں واپس آ جاتا ہے۔

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’مر جاؤ مرنے سے پہلے‘‘ اس فرمان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے مادی حواس کو اس طرح مغلوب کر لیا جائے کہ آدمی موت کے حواس سے واقف ہو جائے یعنی انسان مادی حواس میں رہتے ہوئے موت کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کر لے۔



احسان وتصوف

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے