Topics
ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب گلشن زندگی پر خزاں کا پہرہ تھا ۔ ہر طر ف سکوت و انجمادتھا ۔ وقت ، حرکت اور بے چینی ایک دو سرے سے نا آشنا تھی ۔ مشیت خدا وندی نے چا ہا کہ تنہا ئی ختم ہو اور سکوت حرکت میں تبدیل ہو جا ئے ۔ مخلوقات کا ظہور ہو تا کہ اس کی قدرت اور ربوبیت کا مظا ہرہ ہو اورمخلوق کی عظمت ، حکمت اور صنا عی کو دیکھے اور اسے پہچانے ۔مشیت کا ارادہ صدائے کن بن کر گو نجا اورزندگی نے انگڑائی لی اور حرکت کا آغاز ہوا مشیت الٰہی کی ایسی چا ہت اور خو اہش کو حد یثِ قدسی نے ان الفاظ میں ڈ ھا ل دیا ہے کہ
میں چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا تا کہ میں پہچانا جا ؤں ۔
مشیت نے اپنے پرو گرام کے مطا بق سب سے پہلے ایک ایسا میڈیم تخلیق کیا جو کائنات اور خالق کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہو اورمعارف اور شائستگی اور تعارف اور رو شنا سی کا منشا پو را کر سکے ، درمیانی واسطہ موجود نہ ہو تو کا ئنات کا نخیف و نزار پیکر صفت جلال سے راکھ ہو جا ئے ۔
جب یہ میڈیم یا نور پیکر بشری میں متشکل ہو ا تو ذاتِ محمد الر سول اللہ ﷺ بنا ۔ مخلوق کو خالق سے متعارف کرانے کا سلسلہ آدم سے شروع ہو کر انسانِ کامل پرختم ہو گیا ۔ مقام محمود اور مقام محبوبیت عطا کر کے آپﷺ کے اوپر نعمتوں کا قرِبِ حق میں اہتمام کر دیا گیا ہے ۔وہاں پہنچا یاگیا جہاں دو کما نوں سے بھی کم فا صلہ رہ گیا ۔ اس جامع کمالات و صفات ہستی نے جس طر ح مشیت کا منشاء پورا کیا اور جس طر ح مخلوق پر رحمت خدا ندی نچھاور کی اس کی تعریف و تو صیف میں اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ۔
’’بے شک اللہ اور اس کے ملا ئکہ اس کے نبی ؐ پر درُود شریف بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی درُود شریف اور سلام بھیجو ۔ ‘‘
عرفان و گیان کی دنیا کے ماہ ِکامل نے نوع انساں کو یاد دلا یا کہ انسان کا تخلیقی رشتہ اللہ رب العزت سے وابستہ ہے ۔اس رشتہ کو فرا مو ش کر کے کو ئی بندہ سکون و اطمینان حاصل نہیں کرسکتا ۔انسانوں کے انسانوں پر حقوق ہوں یا انسان کا کا ئنات سے تعلق یہ سب ایک ہی بنیاد پر ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارا اور سب چیزوں کا مالک اللہ ہے اس نے ہمیں اس لئے پیدا کیا کہ ہم اسے پہچانیں ۔
خاتم النبیین ؐ نے یہ حرف راز بتا یا بندہ اسی وقت پہچان سکتا ہے جب اس کا ہر عمل اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہو ۔جب بندے کی ذاتی غرض درمیان میں نہیں رہتی تو بندہ اور خالق کا وہ رشتہ قائم ہو جا تا ہے ۔ آقائے ؐ دو جہاں نے معاشرت ، معیشت ، جنگ ، امن غر ض زندگی کے ہر شعبہ میں اس ابدی راز کی عملی تفسیر پیش کی ہے کہ
میری نماز ، میرا جینا ، میرا مر نا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ ‘‘
مسلمان قوم کا یہ اعزاز ہے کہ اس قوم کو نورِ ا وّل حضور اکرم ﷺکی نسبت حاصل ہے ۔ ہر سال ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے ۔ زمین سے آسمانی رفعتوں تک محمد ﷺ کے نام کی صدا بلند ہو تی ہے ۔ہر اسٹیج ، ہر جلسہ گاہ میں آپ ؐ کا ذکر کیا جا تا ہے ۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ صرف آپؐکا نام لینے سے اور آپ ﷺ کے ذکر کا غلغلہ بلند کر لینے سے آپ ؐ کے رو حانی مشن میں کتنی پیش رفت ہو ئی ہے ۔
ماہ ربیع الاول بے شک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت ِعظیم کی یاد گار ہے جو اس نے محمدالرسول اللہﷺ کی شکل میں ساری نو ع انسانی کو عطا کی ہے لیکن یہ مہینہ ہمیں اس طر ف بھی متوجہ کر تا ہے کہ ہم اپنے اندر جھا نک کر دیکھیں، اپنے با طن کا تجز یہ کر یں کہ کیا ہمار ااپنے رب سے اسی طر ح کا رشتہ قائم ہے جس تعلق کا عملی نمو نہ رسول اللہﷺ کی زندگی ہے ؟
ہمیں اپنے اندر ، با ہر ، ظاہر ، با طن نظر دوڑا کر دیکھنا ہو گا کہ ہم کس حد تک خود فر یبی میں مبتلا ہو چکے ہیں ہمارے نفس نے ہمیں اپنے رب سے دور تو نہیں کر دیا ؟ایسا تو نہیں ہے کہ دو سروں کو نصیحت کے عمل نے ہمیں خود اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ہے ۔خاتم النبیین ؐ دو جگ کے تا جدار رحمت اللعالمین کے اسوہ حسنہ کو اپنے اوپر محیط کر نے کے لئے ضروری ہے کہ حضور ؐ نے جس طر ح زندگی گزاری ہے ہم بھی ا س کا عملی مظا ہرہ کر یں ۔
ہمیں یہ دیکھنا ہو گا ۔ با وجود اس کے حضورؐ دو جہاں کے خزانوں کے ما لک تھے کس طر ح زندگی گزارتے تھے اپنے مفید مطلب زندگی کے کسی ایک شعبے پر عمل کر لینے سے ہر گز تعمیل ِارشاد کا منشاء پو را نہیں ہوتا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے