Topics

مالک الملک

یہ دنیا لاکھوں پریشانیوں، دکھوں اور مصیبتوں کی دنیا ہے جس کو ٹٹولئے وہ اندر سے ٹوٹا ہوا ہے۔ بکھرا ہوا ہے، سیماب بنا ہوا ہے، کسی کل چین نہیں، کروٹ کروٹ بیزار، پاش پاش دل، پرنم آنکھ اور ٹپکتے آنسو، پرشکیب پیشانی، غنچہ دہن بسورتا چہرہ، داغ داغ تن،ایمان سے خالی من۔

انسان ایک ایسی اذیت میں مبتلا ہے کہ وہ نہ اذیت سے نکلتا ہے اور نہ ہی اذیت کو قبول کرتا ہے۔ عظیم دنیا ویران اور جنگل بن گئی ہے۔ کوئی خوش نہیں، کسی کو سکون نہیں، افراتفری کے عالم میں ہر شخص اپنی آگ میں جل رہا ہے اور دوسروں کو بھی جلا رہا ہے۔ ایک چہرے پہ ہزار چہرے بنائے انسان خود فریبی کے ایک ایسے جال میں گرفتار ہو گیا ہے کہ نہ کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور نہ چلنے کے لئے کوئی راستہ۔ تعصب کے دہکتے ہوئے کوئلہ پر انسان تڑپ رہا ہے۔ نسلی منافرت سے اس کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے۔ مسکراہٹ ابلیسیت میں اور اخلاص فریب میں تبدیل ہو گیا ہے۔

میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ جنت کے باغات جن کا وعدہ کیا گیا ہے کہاں غائب ہو گئے؟ سکون کیوں غارت ہو گیا؟ اطمینان قلب کی کیفیات پر دبیز پردے کیوں پڑ گئے؟ آدم و حوا کی نسل کا قافلہ صحرا میں کیوں بھٹک رہا ہے؟

سوچتے سوچتے میرا شعور خود میرے اندر اتر گیا۔ چاروں اطراف سمٹ کر ایک نقطہ بن گئے۔ نقطہ کے اوپر ایک دائرہ نظر آیا۔ دائرہ پر اور بے شمار دائرے لپٹے ہوئے تھے ان دائروں نے ایک نقطے کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر لیا اور پھر یہ دائرے اس نقطے سے دور ہوتے چلے گئے، اتنے دور کہ نقطے کا وجود اوجھل ہو گیا۔ کشش اور گریز کے اس مسلسل عمل سے دائروں پر عدم چھا گیا اور پھر ایک ’’کون‘‘ میرے اوپر میرے ذہن کے اوپر اور میری نسل کے اوپر مسلط ہو گئی۔ میں نے خود کو تکون کے تین زاویوں میں اس طرح دیکھا جیسے مجھے پابند سلاسل کر دیا گیا ہو جیسے جیسے میرے وجود پر، میری زمین کے وجود پر، میرے ماحول پر گھٹن کا احساس بڑھتا رہا میں اضطراب کے دو پاٹوں میں پستا رہا۔

میں نے دیکھا کہ یہاں ہر سکون، امتحان اور اضطراب کے لئے مہلت ہے اور ہر خوشی، غم و آلام کے لئے ایک وقفہ ہے۔ یہ راز جان کر میری چیخ نکل گئی۔ نبض نبض ڈوب گئی، دل دھڑکنے لگا، آنکھوں کا سیل بہہ نکلا۔ لاشعور و شعور آسمان و زمین ایک دوسرے میں اس طرح پیوست دیکھے کہ جیسے ایک ورق کے دو صفحے یا ایک بیج کے اندر بہت بڑا درخت۔ تفکر عمیق بہت گہری گھاٹیوں میں سے گزر کر بالآخر میری انا، میری زندگی، میری روح میں اتر گیا، میں نے ایک ہیولیٰ دیکھا، رنگ بدلتے اس ہیولیٰ سے میں نے پوچھا:

’’تو کون ہے؟‘‘

میرا سوال فضاء اور پر انوار ماحول میں گونج بن کر نشر ہونے لگا۔

’’میں تیری ابدی شناخت ہوں۔ میں اس ہستی کی آواز ہوں جو تجھے عدم سے وجود میں لائی۔ تجھے رہنے کے لئے زمین دی۔ اڑنے کے لئے بال و پر دیئے۔ دیکھنے کیلئے آنکھ دی۔ سوچنے کے لئے دماغ عطا کیا۔ تیرے لئے سماوات کی درجہ بندی کی۔ آسمان کو چھت بنایا اور زمین کو فرش۔ آدم کے نالائق بیٹے گریبان میں منہ ڈال کر سوچ کہ جس زمین پر تو رہتا ہے۔ جس زمین میں سے تو اپنے وسائل نکالتا ہے۔ جو زمین تیرے ارادے اور اختیار کے بغیر تجھے پانی فراہم کر دیتی ہے۔ جس زمین کیلئے تو اپنے باپ اپنے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ جس زمین کو تو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔ انسانی جان سے جس زمین کی قیمت تیرے نزدیک زیادہ ہے۔ اس زمین کی ملکیت حاصل کرنے کیلئے تو نے زمین کے اصل مالک اللہ کو کتنی قیمت ادا کی ہے؟

اے جدال! ظالم! جلد باز! اور ناشکرے آدم کے بیٹے! یہ کیسی جہالت، کبر و ظلم اور کیسی بدنصیبی ہے کہ اصلی اور حقیقی مالک اللہ کی زمین پر تو دندناتا پھرتا ہے۔ زمین کا مالک بن بیٹھا ہے تو کیوں نہیں سوچتا کہ جب تو نے گھر، کوٹھی، فیکٹری اور اپنی کھیت کھلیان کی ایک پھوٹی کوڑی بھی قیمت ادا نہیں کی تو کس طرح تیرے اندر ملکیت کا تصور ابھرا؟ تو کس طرح مالک بن بیٹھا؟ اے آدم کی ناسعید اولاد! توغاصب ہے مکار اور جھوٹا ہے۔ تو نے اللہ کی ملکیت کو اپنی ملکیت بنا کر فراڈ کیا ہے۔ اپنے ضمیر کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے۔ تیرے ضمیر کا یہ احتجاج تجھے بے چین اور پریشان کئے ہوئے ہے۔ تجھے اللہ نے زمین مفت اس لئے دی ہے کہ تو اس زمین کو استعمال کر کے خوش رہے۔ ملکیت کا تصور جب تیرے اندر نہیں ہو گا تو قتل و غارت گری کا بازار سرد پڑ جائے گا۔ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو اپنا گھر عارضی طور پر رہنے کیلئے دیتا ہے۔ وہ آدمی احسان فراموش ہو کر اس مکان کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی قانون اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اے آدم زاد تو کتنا مکار، دغا باز، فریبی اور احسان فراموش ہے کہ خود ہی اپنے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری نہیں کرتا۔ اللہ کی زمین پر تو اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو توڑ کر تو نے اللہ کی ملکیت کو بزعم خود اپنی جائیداد بنا لیا ہے۔ بے شک تو ظالم جاہل اور دغاباز ہے۔ ظالم، جاہل اور جلد باز، قانون شکن اور احسان فراموش بندے تو کیسے خوش ہو گا۔ ضمیر کی ملامت کا مارا ہوا انسان کیسے پرسکون رہ سکتا ہے۔

میرے دادا آدم کی نسل، میری بہنوں اور بھائیوں آؤ کہ:

آج عہد کریں کہ اللہ کی زمین پر خوش رہیں گے۔ خوش ہو کر کھائیں گے پئیں گے۔ زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ زمین کو اللہ کی ملکیت تسلیم کریں گے۔ بیشک و شبہ یہی حاکم اعلیٰ اور قادر مطلق ہے۔ اللہ ہر قسم کی احتیاج سے مبرا ہے اور مخلوق سراپا احتیاج ہے۔

 


صدائے جرس

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے