Topics
مورخہ 15مارچ 2001 ء بروز جمعرات
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں، سب باشعور ہیں۔ ہر مخلوق خود کو پہچانتی ہے اور اپنی ذات سے متعلق جتنے کام ہیں ان کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نباتات، جمادات، حیوانات زمینی مخلوق ہیں اور ہر مخلوق جاندار ہے۔ اگر زمین بے جان ہوتی تو زمین کے اندر عجائبات نہیں ہوتے۔ زمین جانتی ہے کہ آم کی گٹھلی سے مجھے آم پیدا کرنا ہے۔ خشخاش سے چھوٹا بیج زمین میں ڈالتے ہیں تو زمین گولر کا درخت پیدا کرتی ہے۔ اگر زمین میں شعور نہ ہو تو زمین کے اندر جتنی تخلیق ہے اور جس قدر عجائبات ہیں وہ سب نہ ہوتے۔ زمین ماں ہے۔ زمین میں اگر عقل و شعور نہ ہو تو عجائبات کا وجود بھی نہ ہوتا۔
تربوز کے بیج سے تربوز پیدا ہوتا ہے۔ جامن کی گٹھلی سے جامن پیدا ہوتا ہے۔ ہر بیج میں الگ صلاحیت ہے۔ آم کی گٹھلی میں بے شمار آم چھپے ہوئے ہیں اور گٹھلی میں آم کی شکل، آم کا رنگ، آم کا ذائقہ، آم کی خوشبو اور آم کی افادیت موجود ہے۔
آم کی اپنی خصوصیات ہیں۔ اس طرح انجیر کی اپنی شکل ہے، ذائقہ الگ ہے اور انجیر کی خصوصیات الگ ہیں۔ انجیر اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اور ایسی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انجیر کی قسم کھائی ہے۔ انسان کی صلاحیت اگر آسمانی رفعت میں گم ہو جائے اور شعور لاشعور کے تابع ہو جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ فرشتے بھی باشعور ہیں جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے سب میں شعور ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
’’میں نے سماوات سے، زمین سے اور پہاڑوں سے کہا کہ میری امانت اٹھا لو، پہاڑوں نے معذرت کی اور عرض کیا کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘(سورۃ الاحزاب۔ آیت ۷۲)
سوال یہ ہے کہ بے شعور اور بے جان چیز کو مخاطب نہیں کیا جاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا اس چیز کو تم اٹھا لو گے یا نہیں تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ چیز باشعور اور بااختیار ہے۔ پہاڑ چونکہ باشعور ہیں، باصلاحیت ہیں اس لئے پہاڑوں میں معدنیات پیدا ہو رہی ہیں۔ کائنات میں ہر شئے شعور رکھتی ہے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ کائنات کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے، پہاڑ بظاہر سخت اور خشک ہیں لیکن ان میں معدنیات بھری ہوئی ہیں۔
آیئے! ہم سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کریں۔ (آمین)
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔
عظیمی صاحب کی ذات سے لاکھوں انسان فیض حاصل کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تاقیامت کرتے رہیں گے۔ آپ نے انسانیت کی فلاح کے لئے رات دن محنت کی ہے اور نبی کریمﷺ کے مشن کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے انسان کو نہ صرف خود آگہی حاصل ہو گی بلکہ توحید و رسالت، تسخیر کائنات اور کہکشانی نظام کے ایسے ایسے عقدے کھلیں گے، جو ابھی تک مخفی تھے۔
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے سچے مرید حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی جس سادگی اور آسان الفاظ میں اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے اوپر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور جس طرح افراد کی توجہ فلاح و بہبود کی طرف مبذول ہو جاتی ہے یہ بھی فضل ایزدی ہے۔