Topics
مورخہ 2مارچ 2001 ء جمعتہ المبارک
دنیا میں ساڑھے گیارہ ہزار مخلوقات آباد ہیں۔ جن میں انسان اشرف المخلوقات ہے۔ مخلوق کی بے شمار قسمیں ہیں۔ ضروریات سب کی یکساں ہیں۔ سب کے گھر ہیں۔ سب کو علم ہے کیا کھانا چاہئے، کیا نہیں کھانا چاہئے۔ مخلوق بیمار ہوتی ہے، صحت مند بھی ہوتی ہے، پیدا ہوتی ہے اور دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔
آدمی کہتا ہے میں عقلمند ہوں لیکن بکری میں بھی عقل ہوتی ہے۔ بکری کی تخلیق ایسی نہیں ہے کہ وہ گاڑی چلا سکے جبکہ آدمی کی ساخت ایسی ہے کہ وہ گاڑی چلا سکتا ہے۔ آدمی اور جانور میں فرق صرف عقل و شعور کے استعمال کا ہے۔ آدمی کی فضیلت صرف علم کی بنیاد پر ہے۔ آج کا آدمی پریشان کیوں ہے؟
جب اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو فرمایا ’’کن‘‘ اور ’’فیکون‘‘ ہو گیا۔ کائنات میں تمام مخلوقات شامل ہیں۔ انسان، فرشتے، جنات، نباتات، جمادات اور حیوانات وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے تعارف اس طرح کرایا ہے۔۔۔
’’میں تمہارا رب ہوں۔‘‘
(سورۃ الاعراف۔ آیت ۱۷۲)
مخلوق نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا، اللہ تعالیٰ کی آواز سنی اور پہچان کر کہا۔۔۔
’’جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘
(سورۃ الاعراف۔ آیت ۱۷۲)
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو حواس بخشے۔
یہ ساری باتیں عالم ارواح میں ہوئیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خصوصی علم سکھایا۔
مثال
آپ یہاں 50افراد بیٹھے ہیں، سب مجھے دیکھ رہے ہیں کہ عظیمی صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ آپ میں سے میں ایک آدمی کو علم سکھاتا ہوں۔ وہ بندہ جس کو علم سکھایا وہ علم سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو کیا ہو گا؟
وہ محروم رہے گا اور محرومی اسے بے سکون کر دے گی۔
انسان کو چاہئے کہ اپنی زندگی مسافر کی طرح گزارے اور علم حاصل کرے۔ علم میں اولیت روحانی علوم کی ہے۔ آج آدمی کیوں پریشان ہے؟
جبکہ باقی مخلوق بے سکون نظر نہیں آتی۔ مگر آدمی بے سکون ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ آدم دوسری مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ سکون سے زندگی گزارتا۔
ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ کبوتر غٹرغوں کرتا ہے، طوطا ٹائیں ٹائیں کرتا ہے۔ مختلف جانور اپنی اپنی بولی بولتے ہیں۔ صبح آپ کسی جنگل میں یا ویرانے میں یا کسی باغ میں چلے جائیں۔ چڑیوں کی چہکار سنائی دیتی ہے۔ سب مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ درخت حمد و ثناء کرتے ہیں۔ لاکھوں مخلوق تسبیح کرتی ہے۔ پرندے شام کو گھونسلے میں چلے جاتے ہیں اور مغرب کے بعد بالکل خاموشی چھا جاتی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ۔۔۔
’’پرندے جلد سو جاتے ہیں اور آدھی رات کو اٹھ کر مراقبہ کرتے ہیں۔ صبح اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور اپنے کاموں پر نکل جاتے ہیں۔‘‘
ہمیں نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں، بعض اوقات تو ایک رکعت بھی صحیح طور پر ادا نہیں ہوتی۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو خصوصی علم عطا کیا ہے آدمی اگر اس علم کو سیکھ لے تو وہ پرسکون اور یکسو رہتا ہے اور انسان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسان نے عالم ازل میں اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے رب ہیں، ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ وہ پیدا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے، خورد و نوش کا انتظام کرتا ہے۔ آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو تلاش کرے اسے کس نے پیدا کیا ہے اور وہ اپنی مرضی سے دنیا میں کیوں نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے۔ ہم اس وعدے سے انحراف کر رہے ہیں اس لئے بے سکون اور پریشان ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔
عظیمی صاحب کی ذات سے لاکھوں انسان فیض حاصل کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تاقیامت کرتے رہیں گے۔ آپ نے انسانیت کی فلاح کے لئے رات دن محنت کی ہے اور نبی کریمﷺ کے مشن کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے انسان کو نہ صرف خود آگہی حاصل ہو گی بلکہ توحید و رسالت، تسخیر کائنات اور کہکشانی نظام کے ایسے ایسے عقدے کھلیں گے، جو ابھی تک مخفی تھے۔
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے سچے مرید حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی جس سادگی اور آسان الفاظ میں اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے اوپر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور جس طرح افراد کی توجہ فلاح و بہبود کی طرف مبذول ہو جاتی ہے یہ بھی فضل ایزدی ہے۔