Topics
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ عبادت کا تعلق ذہن سے ہے صرف جسم سے نہیں ہے۔ غسل اور وضو کا منشاء طبیعت کو شگفتہ کر کے انہماک پیدا کرنا ہے۔
ہمیں سوچنا چاہئے کہ۔۔۔۔۔۔
ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضا کے ذریعے صادر ہوتے ہیں۔۔۔کہاں تخلیق پاتے ہیں؟۔۔۔اور۔۔۔ان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے؟
صوفیاء حضرات بتاتے ہیں کہ:
کسی شئے کی ماہیئت کی طرف رجوع کیا جائے تو ہم کتنی ہی انواع و مخلوقات کو پہچان سکتے ہیں۔ شیر، شاہین، چاند اور سورج، زمین و آسمان، جن و انس، ہوا، پانی، فرشتے، پہاڑ، سمندر اور حشرات الارض یہ سب مخلوق ہیں۔ ان کا مظاہرہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔ جیسے شیر ایک شکل و صورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے، اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ چیزیں اس کی پوری نوع پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص عادتیں اور خاص صلاحیتیں رکھتا ہے۔ لیکن یہ دونوں اپنی ماہئیتوں میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ دونوں میں یکساں تقاضے پائے جاتے ہیں۔ یہ اشتراک نوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ ماہیئت کی ’’اصل‘‘ میں ہے۔
روح اعظم:
اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایک ہر نوع کی جداگانہ ماہیت دوسرے تمام انواع کی واحد ماہیئت۔ یہی واحد ماہیئت روح اعظم اور شخص اکبر ہے۔ اور ہر نوع کی جداگانہ ماہیئت شخص اصغر ہے اور اسی شخص اصغر کے مظاہر فرد کہلاتے ہیں مثلاً تمام انسان شخص اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیئت ہیں۔
ایک شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخص اصغر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخص اکبر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے۔ اصغر ماہیئت کی صلاحیت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے۔ لیکن شیر کو جب پیاس لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیئت کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیئت کی بدولت یعنی شخص اکبر کی وجہ سے یہ بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہو جاتی ہے۔
کشش بعید۔ کشش قریب:
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح ہر فرد کے اندر اکبر صلاحیت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخص اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان شخص اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نوع کے افراد کو نہیں پہچان سکتا نہ اس کا مصرف جان سکتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ ستاروں کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیت شخص اکبر سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی نوع کے انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ کشش شخص اصغر کا خاصہ ہے۔ یہاں سے اصغر ماہیئت اور اکبر ماہیئت کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اکبر ماہئیت کشش بعید کا نام ہے اور اصغر ماہیئت کشش قریب کا نام ہے۔
روحانی دنیا میں غیر ارادی حرکت کا نام کشش اور ارادی حرکت کا نام عمل ہے۔ غیر ارادی تمام حرکات شخص اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی ہے۔ لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل میں آتی ہیں۔
چار نورانی نہریں:
نہر تسوید، نہر تجدید اور نہر تشہید کی حدود میں جب کوئی خرق عادت پیش آتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے۔ جب نہر تظہیر کی حدود میں کوئی خرق عادت پیش آتی ہے تو استدراج کہلاتی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوئی ہیں، خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی ہوں۔
مثال:
شیشے کا ایک گلوب ہے۔ اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے۔ اس دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے۔ اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل و صورت، جسم و مادیت کے ذریعے ظہور میں آتی ہے۔ پہلا گلوب تصوف کی زبان میں نہر تسوید یا تجلی کہلاتا ہے۔ یہ تجلی موجودات کے ہر ذرہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تا کہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے۔
دوسرا گلوب نہر تجرید یا نور کہلاتا ہے یہ بھی تجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرہ سے گزرتا رہتا ہے۔ تیسرا گلوب نہر تشہید یا روشنی ہے، اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔ چوتھا گلوب نسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے اس ہی نسمہ کے ہجوم سے مادی شکل و صورت اور مظاہرات بنتے ہیں۔ اس کو نہر تظہیر کہتے ہیں۔
جس خدا نے دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
(انجیل۔ اعمال، باب نمبر 17آیت 24)
اس آیت میں نہر تسوید اور نہر تجرید کا بیان ہے۔ اول اللہ تعالیٰ کی قوت خالقیت پوری کائنات کے ذرہ ذرہ پر محیط ہے۔ اس ہی قوت کے تسلط کو تصوف میں نہر تجرید یا نور کہتے ہیں (دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔۔۔نہر تسوید، آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر۔۔۔نہر تجرید)
نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہی سب کو زندگی، سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
(انجیل۔ اعمال، باب نمبر 17۔ آیت نمبر 25)
(زندگی۔۔۔نہر تشہید، سب کچھ ۔۔۔نہر تظہیر یا نسمہ)
نہر تشہید یا روشنی جسے انجیل کی زبان میں زندگی کہا گیا ہے اس کی عطا کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔
تظہیر کی رو جس کا دوسرا نام نسمہ ہے کائنات کے مادی اجسام کو محفوظ اور متحرک رکھتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے