Topics

قلندر شعور

اِس کتاب کا نام “قلندر شعور”ہے۔ قلندر شعور نام یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس طرح ہر آدمی کے اَندر شعور کام کرتا ہے اور اس شعور کی بنیاد پر ہر انسان کی طرزِ فکر مختلف ہوتی ہے اسی صورت سے ایک شعور ایسا بھی ہے کہ جس کا نام ہم نے ’’قلندر شعور‘‘ رکھا ہے۔
شعور سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اَندر ایک ایسی ایجنسی مَوجود ہے جو ایجنسی آنے والے خیالات کو اپنے مطلوبہ معنے پہناتی ہے۔ شعور سے ہمیشہ مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک ایسی ایجنسی جو نیوٹرل (Neutral) نہیں ہوتی۔ شعور سے مراد مَوجودہ علم کی روشنی میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ طبعیات، طبعیات کے دائرے میں جو شعور ہے۔
طبعیات اور نفسیات کے بارے میں ماشاء اللہ آپ سب لوگ پڑھے لکھے ہیں، جانتے ہیں کہ طبعیات اور نفسیات دو دائرے ایسے ہیں کہ جن کے بغیر نہ کوئی انسان زندگی گزار سکتا ہے اور نہ کوئی حیوان زندگی گزار سکتا ہے۔ جہاں تک طبعیات کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی ذی رُوح مخلوق ایک مخصوص دائرۂِ عمل میں رہ کر زندگی گزارتی ہے اس مخصوص دائرۂِ عمل میں اُس مخلوق کو یا اُس فرد کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ مجھے کیا کھانا ہے؟ کیا پینا ہے؟ کس طرح رہنا ہے؟ جسمانی مشین کو جب وہ تھک جائے یا گرم ہوجائے کس طرح آرام دینا ہے؟ طبیعات کے دائرے میں یہ ساری چیزیں آتی ہیں۔ اب طبعیات کے دائرے میں وہ مخلوق جو زمین پر زیرِ بحث ہے، ایک کا نام ہم رکھتے ہیں انسان، دوسری کا نام ہم رکھتے ہیں حیوان۔
انسان بذاتِ خود اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ انسان جو ہے…. حیوانِ ناطق ہے۔ یعنی بولنے بولا حیوان۔ لیکن جب غور و فکر کیا جاتا ہے تو یہ انسان کا دعویٰ بے بنیاد اور مفروضہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا…. اس لئے کہ جتنے بھی یہاں حیوانات ہیں وہ سب بولتے بھی ہیں، وہ آپس میں اپنی بولیاں سمجھتے بھی ہیں اور خطرے کے وقت وہ اور قسم کی بولی بولتے ہیں خوشی کے وقت اور قسم کی بولی بولتے ہیں مثلاً اگر جنگل میں کوئی شیر آجائے تو بندر درختوں پہ چڑھ کر اپنا پیٹ بھی پیٹتے ہیں، آوازیں بھی نکالتے ہیں، بہت شور کرتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جنگل کے جتنے بھی جانور ہیں وہ با خبر ہوجاتے ہیں کہ اب ہمیں خطرہ ہے اور اس خطرے سے ہمیں بچنا چاہئے۔ اسی صورت سے جتنے بھی جانور آپ دیکھتے ہیں، مثلاً گائے، بھینس، بکری، بھیڑ، شیر، کتا، بلی…. جتنے بھی چوپائے ہیں ان کی آوازیں الگ الگ ہیں پھر وہ اپنی آوازوں کو سمجھتے بھی ہیں۔ مرغی ایک مخصوص آواز اُس وقت نکالتی ہے جب اس کے بچوں کو یا چوزوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس کی آواز سن کر چھوٹے چھوٹے چوزے دوڑتے ہیں اور مرغی اپنے پَر کھول کر اپنے تمام بچوں کو اُن میں اِس طرح سمیٹ کر بیٹھ جاتی ہے کہ چیل مرغی کے بچوں کو نہیں اٹھا سکتی۔ ثابت ہوا کہ مرغی کی آواز مرغی کے بچے نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس آواز کو سن کر اس پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ انسان حیوانِ ناطق ہے، باقی دوسرے حیوانات گونگے بہرے ہیں یا سمجھ اور عقل سے بالکل بے خبر ہیں، یہ انسان کا محض دعویٰ ہے جس کو ہم خود فریبی کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔
دوسرا مسئلہ شعوری اعتبار سے یہ آتا ہے کہ انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں زیادہ ہوشیار ہے، زیادہ باصلاحیت، زیادہ عقل کو استعمال کرتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی…. اگر غور و فکر کیا جائے تو بے بنیاد اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس لئے کہ جب ہم حقیر ترین چھوٹا سا پرندہ مکھی پر غور و فکر کرتے ہیں تو…. مکھی کی نفسیات کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے…. مثلاً شہد کی مکھی کا تو وہاں بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان عقلی اعتبار سے کسی بھی طرح شہد کی مکھی سے زیادہ عقل نہیں رکھتا۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ انسانوں کیلئے فرماتے ہیں کہ وحی نازل ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کیلئے بھی فرمایا کہ مکھی پر وحی نازل ہوتی ہے۔
ہم یہ تو کہتے ہیں کہ عقل و شعور کے جو دائرے ہیں، طبعیات کے شعبوں میں رہتے ہوئے، انسانی نفسیات کے جو تقاضے ہیں وہ مختلف تو ہوسکتے ہیں لیکن کوئی انسان محض عقل کی بنیاد پر، محض شعور کی بنیاد پر حیوانات سے ممتاز ہونے کادعویٰ کسی بھی صورت میں نہیں کر سکتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اب تک جو بھی علوم یہاں رائج ہیں یا آدم و حوّا سے لے کر اس وقت تک انسانی ارتقاء جس انداز میں بھی ہوا، وہ ارتقاء کتنا ہی اہمیت رکھتا ہو لیکن لاکھوں کروڑوں سال کے ارتقاء کی بنیاد پر کوئی انسان حیوانات سے ممتاز ہونے کی سند پیش نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ… اگر انسان کے اَندر عقل ہے کہ وہ جہاز بنا لیتا ہے تو کبوتر کے اَندر یہ صلاحیت ہے کہ اسے جہاز کی ضرورت ہی نہیں ہوتی…. وہ خود جہاں چاہے اڑ کر جا سکتا ہے۔
انسان کا شعور محدود ہے۔ وسائل کا پابند ہے۔ کوئی ترقی آج تک ایسی نہیں ہوئی، کوئی ایجاد ایسی نہیں ہے کہ جو ایجاد شعوری حدود میں بند نہ ہو۔ کوئی ایجاد ایسی نہیں ہے کہ جو وسائل کی پابند و محتاج نہ ہو۔ جبکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جانوروں میں انسانوں کی طرح وسائل کی پابندی نہیں ہے اور وہ ہم سے بہت اچھی زندگی گزارتے ہیں۔
تعمیر میں انسان نے بڑی ترقی کی لیکن تعمیری نقطۂ نظر سے جب ہم اپنے گردو پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ضرورت کے لحاظ سے پرندے بھی ایسے ایسے عجیب گھونسلے بناتے ہیں کہ مَوجودہ سائنس کی پوری ترقی بھی اگر مصرو ف ہوجائے تو وہ ایسے گھر نہیں بنا سکتی۔
مثلاً بَیا کا گھونسلہ ہے۔ بلبل کا گھونسلہ ہے۔ چیونٹیوں کا ایک نظام ہے۔ زمین کے اَندر چوہوں کا ایک بڑا اپنا پورا نظام ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جہاں انسان کی عقل ختم ہوجاتی ہے اور انسانی عقل حیوانی عقل کے تابع ہو کر کام کرتی ہے اور کوئی چیز بنا لیتی ہے۔ مثلاً یورپ میں انڈر گراؤنڈ ریل کا سلسلہ ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انڈر گراؤنڈ ریل کا سلسلہ زمین کے اَندر چوہوں کی کالونیوں کو دیکھ کر نقشہ کھینچا گیا ہے۔ چوہے زمین پر کس طرح رہتے ہیں؟ وہ باقاعدہ زمین کی تہہ میں سیڑھیاں بناتے ہیں ان سیڑھیوں کے اَندر سرنگیں بناتے ہیں اور اس میں وہ بڑے آرام سے رہتے ہیں۔ سردی گرمی سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ چیونٹیوں کے بارے میں…. قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹی کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ قرآن کی ایک پوری سورۃ کا نام ہی “سورۃ نمل “ہے۔ یعنی سورۃ چیونٹی ہے۔
تو اب یہ طبعیاتی نقطۂ نظر سے اگر ہم یہ کہیں کہ انسان بہت عقلمند ہے، بہت باشعور ہے اور دنیا میں مَوجود جتنی مخلوقات ہیں وہ ان سے زیادہ باصلاحیت ہے تو یہ بات خود کو آئینے میں دیکھنے کے مصداق ہے۔ اس کی کوئی سند ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شعور سے ہم واقف ہیں وہ شعور ہمیں ایک طرف محدود رکھتا ہے اور دوسری طرف ہم اُس محدودیت کو آزادی کا نام دے کر خود کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں آزاد رہنا چاہتا ہوں۔ لیکن جب اس کی زندگی پر غور کیا جائے تو وہ جتنا خود کو چار دیواری میں بند کر کے اور اَندر سے کنڈی لگا کر محفوظ سمجھتا ہے، اتنا وہ کھلے آسمان کے نیچے خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔
ایک طرف وہ آزاد ہونا چاہتا ہے اور دوسری طرف خود کو قید و بند کی زندگی میں داخل کرکے آزاد کہتا ہے۔ یہ آپ کا شعور، جتنا بھی شعور اس وقت زمین کے اوپر کام کر رہا ہے اس کے پیچھے محدودیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
سائنس اور سائنسدانوں نے بڑی ترقی کی۔ ہر شعبے میں ترقی کی اور وہ نظر بھی آتی ہے۔ ان تمام ترقیوں کو جب وہ انسانی دماغ سے شمار کرتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی تک انسان پانچ فیصد دماغ سے زیادہ واقف نہیں ہوا۔ یعنی ابھی تک انسانی شعور جو ہے کروڑوں سال کی ایجادات سے، کروڑوں سال کے ارتقاء سے، انسان کے اَندر پانچ فیصد شعور پیدا ہوا ہے۔ کون جانے اور کتنے اربوں کھربوں سال کے بعد مزید پانچ فیصد شعور بیدار ہوگا تو انسان کا یہ سمجھنا کہ وہ اس لئے اشرف المخلوقات ہے کہ اس کے اَندر عقل ہے، یہ بالکل لغو، غلط، بے معنی اور فضول بات ہے۔ انسان کا شرف کسی بھی صورت سے شعوری ارتقاء سے ثابت نہیں ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان دوسری مخلوقات میں ممتاز ہے اور اسے دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہے۔
اس لئے ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ انسان دوسری مخلوقات سے اشرف المخلوقات نہیں ہے۔ وہ شرف عقل کی بنیاد پر اس لئے نہیں ہے کہ اگر انسان کے اَندر سونگھنے کی صلاحیت سَو گز تک ہے تو دوسرے جانوروں کے اَندر سونگھنے کی صلاحیت ہزار گز سے بھی زیادہ ہے۔ اب دیکھئے کہ انسان کی بے بسی کا عالَم یہ ہے کہ انسان جرم کرتا ہے اور اپنے مجرم کو پکڑ نہیں سکتا۔ اتنا کوتاہ طاقت ہے کہ انسان اپنے مجرم کو پکڑنے کیلئے کتّوں کا محتاج ہے۔ جو مخلوق اپنے جرائم کو ڈھونڈنے کیلئے کھوج لگانے کیلئے کتّوں کی محتاج ہو، اس کو کسی بھی طرح اشرف المخلوقات نہیں کہا جا سکتا۔
یہ شعور جس سے ہم واقف ہیں ہمیں ہر ہر قدم پر پابند رکھتا ہے۔ ہمارے اَندر کوئی حس ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم پانچ حِسوں میں سے کسی ایک بھی حِس میں آزاد ہیں مثلاً سونگھنے کے حِس، اس کی بھی ایک مُعیّن مِقدار ہے۔ چھونے کی حِس، دیکھنے کی حِس، بولنے کی حِس…. ہر حِس جو ہے…. شعوری طور پر پابند ہے، یا اُس کا ایک تَعیّن ہے۔ اسی طرح دوسری مخلوقات، سنتی بھی ہیں، بولتی بھی ہیں، محسوس بھی کرتی ہیں، مستقبل کے بارے میں ان پر انکشاف بھی ہوتا ہے جو انسان کے اوپر نہیں ہوتا۔ بلّیوں کے اوپر، کتوں کے اوپر، پرندوں کے اوپر پہلے سے ہی یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اب کوئی مصیبت ظاہر ہونے والی ہے، کوئی بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ جبکہ انسان کو اس وقت پتا چلتا ہے جب وہ ڈوب جاتا ہے۔
شرف کو تلاش کرنے کیلئے ہمیں اس شعور سے گزرنا ہوگا جو طبعیات کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانوں اور جانوروں میں مشترک ہے۔ جانوروں کی طبعیات پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جبلّت کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مثلاً بکری کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ گوشت نہیں کھاتی۔ اس کی جبلّت میں بھوک رفع کرنے کا جو تقاضا ہے وہ پتے کھانے سے پورا ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شیر کی جبلّت کھانے پینے کے سلسلے میں گوشت کھاتی ہے گوشت کھانا شیر کی جبلّت ہے اس جبلّت کے تقاضے کے تحت گوشت کو شیر کھاتا ہے۔ شیر پتے نہیں کھاتا۔ انسان کی جبلّت یہ ہے کہ وہ سب کچھ کھا جاتا ہے۔ گوشت بھی کھاتا ہے، لکڑی بھی کھاتا ہے، مٹی بھی کھاتا ہے، پتھر بھی کھاتا ہے، پتے بھی کھاتا ہے۔ وہ ہر چیز کھا جاتا ہے۔ یہ اس کی ایک جبلّت ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں ہم انسان کو پابند نہیں کرسکتے…. شیر اور بکری کی طرح۔
اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ جبلّت میں انسان یا آدم دوسرے جانوروں سے کچھ تھوڑا سا آگے ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ انسان کی جبلّت اور حیوانات کی جبلّت میں کوئی نمایاں فرق نظر آتا ہو۔ نسل کشی کا جب مسئلہ سامنے آتا ہے تو انسان کی بھی نسل بڑھتی ہے، جانوروں کی بھی نسل بڑھتی ہے۔ انسان بھی اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے اور دوسرے تمام جانور بھی اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ انسان کی جبلّت کا تقاضا ہے کہ اس کی نسل زیادہ سے زیادہ زمین پر پھیل جائے۔ اسی صورت سے مرغی کا بھی یہ تقاضا ہے کہ اس کی نسل زیادہ سے زیادہ زمین پر پھیل جائے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جبلّت میں انسان اور حیوانات میں فرق تو آپ بیان کر سکتے ہیں لیکن جبلّت کے اعتبار سے کوئی انسان کسی حیوان سے الگ نہیں ہو سکتا، نہ وہ ممتاز ہو سکتا ہے۔ انسان کو چونکہ شرف عطا کیا گیا ہے اس لئے یہ ضروری ہُوا کہ انسان حیوانات کی صف سے نکل کر اس مقام پر پہنچے جس مقام پر پہنچ کر وہ حیوانات سے ممتاز ہے۔ اگر انسان ان مقامات کو طے نہیں کرتا کہ جن مقامات کے طے کرنے سے وہ حیوانات سے ممتاز ہوجاتا ہے تو انسان کی آدم کی اور حیوانات کی پوزیشن بالکل ایک ہے۔ اب یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ انسان گوشت پکا کے کھاتا ہے اور وہ اشرف المخلوقات ہے، شیر کچا گوشت کھاتا ہے وہ اشرف نہیں ہُوا، یہ ایک ارتقائی صورت ہے۔ پہلے جب انسان گوشت کھاتا تھا تو کچا ہی گوشت کھاتا تھا۔ انسان گوشت پکا کر کھانے کے باوجود پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔ گوشت خور جانور کچا گوشت کھانے کے باوجود پیٹ کے امراض میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اگر انسان کا اور دوسرے حیوانات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو انصاف یہ بتاتا ہے کہ انسان بہرحال حیوانات سے پیچھے ہے، حیوانات سے کمتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ"انسان جو ہے وہ ایسے خسارے میں پڑا ہوا ہے کہ وہ شعور کا خسارہ بھی حاصل کر رہا ہے اورآخرت کا خسارہ بھی حاصل کر رہا ہے، ڈھونڈ رہا ہے اور تلاش کر رہا ہے"
جبلت کے تقاضے میں حیوان اور انسان دونوں برابر سفر کر رہے ہیں۔ انسان کی جب عقل کی طرف آتے ہیں تو اس عقل کی کار فرمائی بھی پوری زمین کے اوپر فساد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جب بھی انسان نے عقل استعمال کی جب بھی نوعِ انسانی میں جینئس لوگ زیادہ ہوگئے انہوں نے سوائے فساد بر پا کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ جبکہ حیوانات کی زندگی میں ہمیں زمین کے اوپر فساد برپا کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس اعتبار سے بھی انسان حیوانات سے کم تر ثابت ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ انسان نے سائنسی ترقی کی، انسان نے نئی نئی مشینیں ایجاد کرلیں، انسان نے رفتار کو زیادہ سے زیادہ․․․․․ زیادہ سے زیادہ پکڑ کر وقت کو کم کردیا…. یہ ترقی، اس طرح ترقی اس لئے نہیں ہے کہ اس ترقی کے جو ثمرات ہیں اس ترقی کے جو نتائج ہیں وہ انسانی شعور کیلئے ہلاکت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اب ترقی کی بنیاد یہ ہے کہ ایک سپر پاور کوئی ہتھیار بناتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ ایک منٹ میں تین لاکھ آدمی مرجائیں گے اور اس کا نام ترقی رکھا جاتا ہے، عقل کی کار فرمائی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا آدمی کہتا ہے کہ ایک منٹ میں پانچ لاکھ آدمی مر جائیں گے۔ وہ اور زیادہ ترقی یافتہ کہلاتے ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ ہَوا میں بم کو مار دیں گے آکسیجن ختم ہوجائے گی اور دنیا، انسان، حیوان، پرندے، چرندے سب مرجائیں گے، ختم ہوجائیں گے زمین کے اوپر سے۔ انہوں نے کہا بہت بڑی ترقی ہے۔ شعوری نقطۂ نظر سے جتنی بھی ترقی اب ہے، آئندہ ہوگی یا ہوچکی ہے اس سب کے پیچھے سوائے تخریب کے، سوائے پریشانی کے، سوائے مالی منفعت کے، سوائے مادّی اضافے کے کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر ہم مَوجودہ شعور کے مطابق انسان کو افضل قرار دیں تو انسان حیوانات سے افضل تو نہیں ہے لیکن حیوانات سے اَبتر درجے میں ضرور ہم اس کو شمار کر سکتے ہیں۔
مَوجودہ دَور شعور کا دَور کہلاتا ہے۔ مَوجودہ دَور ترقی کا دَور کہلاتا ہے۔ مَوجودہ دَور میں مُحیّرَ العُقول ایجادات سامنے آئی ہیں لیکن جب اجتماعی طور پر ان ترقّیوں کے ثمرات کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر شخص یہ بات جانتا ہے اس ترقی کے پیچھے ہمیں جو تحائف ملے ہیں وہ بیماریاں ہیں، ایسی ایسی بیماریاں جن کا پہلے کبھی کوئی وُجود نہیں تھا۔ ہمیں بے سکونی ملی ہے، فرسٹریشن ملی ہے، ٹینشن ملی ہے، بلڈ پریشر کا کبھی سنا ہی نہیں تھا، اب یہاں ہر آدمی بلڈ پریشر سے اس طرح واقف ہے کہ وہ اپنی ذات سے بھی واقف نہیں۔ بیماریاں نئی نئی بن رہی ہیں، مثلاً کینسر کی بیماری ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کینسر کا علاج ہی نہیں ہے لیکن اگر غور کیا جائے کہ کینسر کے علاج سے مہنگا کوئی علاج نہیں ہے۔ یعنی عقل و شعور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اگر کوئی آدمی نیوٹرل ہو کے سوچے تو یہ تصدیق ہوتی ہے․․․․․ پتا نہیں چلتا، اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک مخصوص گروہ ہے جنہوں نے اپنے چالاک ذہنوں سے پوری آبادی کو اپنے زیرِ دَست کرکے ان کو محتاج اور مجبور کردیا ہے۔ عوام مجبور ہے۔ چند لوگوں نے اپنی ذہنی عیاریوں سے، چالاکیوں سے اور عقل سے ترقی کا نام اُس شے کو دے دیا ہے کہ جس شے میں سوائے بے سکونی اور پریشانی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارے اُس شعور کی تعریف ہے جو زمین پر ٹائم اینڈ اسپیس میں بند ہے اور ہم اس میں زندگی گزارتے ہیں۔ اِس شعور سے، اِس پابندی سے، اِس غمناک اور ہیبت ناک ترقی سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم پہلے ترقیوں کا جائزہ لیں اور ان ترقیوں کے جو ثمرات ہیں ان کے بارے میں غور و فکر کریں۔ غور و فکر کرنے کے بعد بظاہر تو یہ ترقی بہت ترقی نظر آتی ہے لیکن اس کے پیچھے جو نوعِ انسانی کی ہلاکت اور بربادی ہے، اس کا کوئی شمار و حساب نہیں ہے۔ انسان نہ صرف اپنے عزیز و اقارب سے، اپنے خاندان سے، اپنی قوم سے، اپنے ملک سے دُور ہو گیا ہے، بلکہ اب وہ اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا ہے۔ یہ ہماری اس ترقی کا ثمرہ ہے جو ہم نے شعوری طور پر حاصل کی ہے۔ میرا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ترقی نہ کی جائے، یہ بھی نہیں ہے کہ یہ جو انسان کا شعوری ارتقاء ہوا ہے یہ غلط ہوا ہے۔ منشاء یہ ہے کہ اس شعوری ارتقاء کے پیچھے شعور بھی ایک دائرہ بن گیا ہے اور شعور ایسے دائرے کا نام ہے جس کو ہم محدودیت کے علاوہ دوسرا کوئی نام نہیں دے سکتے۔
قلندر شعور کتاب جو آپ پڑھیں گے اس میں شعور کے ساتھ قلندر لگایا ہوا ہے۔
٭ قلندر سے مراد ایسی طرزِ فکر جو آزاد طرزِ فکر ہے۔
٭ قلندر سے مراد غیر جانبدار زاویۂِ نظر
٭ قلندر سے مراد محدودیت میں رہتے ہوئے لا محدودیت میں داخل ہونے کی صلاحیت
٭ قلندر سے مراد وہ ایجنسی جو ایجنسی ہمارے محدود شعور کو متحرک کئے ہوئے ہے
محدود شعور کو متحرک کرنے کا جو طریقہ ہے وہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ مثلاً اگر کسی آدمی سے کہا جائے کہ بھئی! تم زندہ کیوں ہو؟ تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکتا کہ میں زندہ کیوں ہوں۔ بھئی! میں زندہ ہوں! بھئی کس طرح زندہ ہو؟ وہ جی سانس آرہا ہے…. تم بھی لو۔ بھئی! سانس کیا چیز ہے؟ وہ نہیں بتا سکتا ہے۔ بھئی سانس ایک ہوا ہے، آکسیجن ہے جو اَندر آجاتی ہے اور کبھی باہر چلی جاتی ہے۔ بھئی ! تم جو زندہ ہو اس کی وجہ؟ اس کی وجہ آکسیجن ہے جی آکسیجن ہمارے اَندر فضا میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ فضا سے آکسیجن ہمارے اَندر جا رہی ہے اس لئے ہم زندہ ہیں۔
لیکن جب آپ اس سے یہ سوال کریں گے کہ جب آدمی مر جاتا ہے ایک آدمی مرگیا دس ہزار آدمی اسی فضا میں مَوجود ہیں، اِس فضا میں آکسیجن بھی مَوجود ہے، اِس فضا میں ہَوا بھی مَوجود ہے، اِس فضا میں گیسز (Gasses)بھی مَوجود ہیں تو وہ ایک آدمی کیسے مرگیا؟
تو اِس کا جواب کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان بھی نہیں دے سکتا۔ اور یہ میں اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے یورپ میں بڑے بڑے انگریزوں کے اجتماع میں یہ سوال کیا اور انہوں نے یہ کہا کہ اس پر ابھی ریسرچ (Research)نہیں ہوئی۔ ایک بڑا اُن کے پاس ہتھیار ہے…. جو ترقی یافتہ قوم ہے… کہ اگر وہ کسی چیز کا جواب نہیں دے پاتے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس پر ریسرچ (Research) نہیں ہوئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آکسیجن کی بنیاد پر آدمی زندہ ہے تو جب وہ مرجاتا ہے تو فضا میں کیا آکسیجن ختم ہوجاتی ہے؟ آپ کا جواب ہوگا کہ ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی آکسیجن کی بنیاد پر زندہ نہیں ہے۔
اگر آدمی پانی کے اوپر زندہ ہے، جس وقت آدمی مرجاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا زمین پر سے پانی ختم ہوجائے پانی مَوجود رہتا ہے۔ اگر انسان گیسز(Gasses)کے اوپر زندہ ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ جب آدمی مرجائے توفضا میں سے ساری گیسیں بھی ختم ہوجائیں، سارے رنگ ختم ہوجائیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان لہروں کے اوپر زندہ ہے، اگر انسان لہروں کے اوپر زندہ ہے تو جب آدمی مرجاتا ہے تو سورج کی بھی شعاعیں لہروں کی شکل میں مَوجود ہیں۔ چاند کی کرنیں بھی لہروں کی شکل میں مَوجود ہیں لیکن مرنے والا آدمی مرجاتا ہے۔ تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہمارے جینئس لوگ، ہمارے دانشور لوگ موت و حیات کے فلسفے سے واقف نہیں ہیں۔ وہ ثابت نہیں کر سکتے کہ انسان مر کیوں جاتا ہے؟ وہ ثابت نہیں کر سکتے کہ انسان زندہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس لئے کہ زندگی کا دار و مدار اگر آکسیجن پر ہے، گیسز (Gasses)پر ہے، ہوا پر ہے پانی پہ ہے، غذاؤں پر ہے تو مرنے والا آدمی جس وقت پلنگ پر ڈیڈ (Dead Body)ہوجاتا ہے توا س وقت یہ ساری چیزیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ اس کا مطلب یہ ہُوا کہ ہمارا محدود شعور اس بات سے ناواقف ہے کہ ہم زندہ کیوں ہیں؟ ہم مر کیوں جاتے ہیں؟ ہم پیدا کیوں ہوتے ہیں؟ ہمارے اَندر جو توانائی ہے وہ کس طرح بنتی ہے؟ اگر یہ جب کیلوریز بنتی ہیں اس سے آدمی زندہ رہتا ہے…. اگر یہ زیادہ خرچ ہوجائیں تو آدمی کمزور ہوجاتا ہے۔ کیلوریز کم خرچ ہوں تو وہ طاقتور ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی عجیب صورتحال ہے…. ایک پہلوان آدمی اور ایک دبلا پتلا آدمی…. اس کی زندگی کا جب آپ تجزیہ کریں گے تو وہاں بھی عقل جو ہے وہ کچھ فیصلہ نہیں کر پاتی۔ کیلوریز کا جو فلسلفہ ہے وہ ختم ہوجاتا ہے۔
تو ثابت ہوا کہ جس شعور سے نوعِ انسانی واقف ہے یا جس شعور میں نوعِ انسانی زندہ ہے یہ شعور وہ نہیں ہے جس کو ہم قلندر شعور کا نام دیتے ہیں۔
٭ قلندر شعور آزاد طرزِ فکر رکھنے والا شعور ہے۔
٭ قلندر شعور غیر جانبدار زاویۂ نظر سے چیزوں کو سمجھنے والا شعور ہے۔
٭ قلندر شعور زندگی کی (Equation)اور فارمولوں سے واقف شعور ہے۔
٭ قلندر شعور اس بات سے واقف شعور ہے کہ انسان پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا اور مرنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے۔
کتاب”قلندر شعور “میں آپ پڑھیں گے تو اس میں سب سے پہلے عقلی توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حیوانی عقل اور انسانی عقل میں اگر فرق ہے تو وہ کیا ہے اگر فرق نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ اور انسان کس عقل کی بنیاد پر، کس شعور کی بنیاد پر، کس فہم کی بنیاد پر اور کس تفکر کی بنیاد پر اپنے آپ کو ممتاز قرار دے سکتا ہے۔
“قلندر شعور”کتاب کا نام رکھنے میں میرے پیش نظر، میرے استاد، میرے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاء ؒ تھے۔ جن کی طرزِ فکر سے، آزادانہ طرزِ فکر سے، مَیں اس قابل ہوا کہ مَیں نے یہ کتاب لکھی۔
اس کتاب کے لکھنے کا منشاء انسان کو، خصوصاً عظیمی برادری کو، یہ بتانا ہے کہ:
آزاد طرزِ فکر سے واقف ہو کر انسان اپنا شرف تلاش کر سکتا ہے۔ انسان محدود دائرے میں رہ کر خود کو آزاد کر لے تو اس کے اوپر اس بات کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ اِس دنیا سے باہر کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
‘‘اے گروہِ انسان اور جنّات تم اس زمین اور آسمان کے کناروں سے باہر نکل کر دکھاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔’’
سلطان ایک آزاد طرزِ فکر ہے۔
یہی سلطان قلندر شعور ہے۔
قلندر شعور آپ کی راہنمائی کرے گا کہ گوشت پوشت کا جسم کیا معنی رکھتا ہے؟
گوشت پوست کے جسم کی جو مشینری ہے اس مشینری کے اَندر یہ خون کی ترسیل کا جو نظام ہے، اِس کا ایک ایندھن سسٹم وغیرہ وغیرہ ہے وہ کس بنیاد پر قائم ہے؟
آج تک بڑے سے بڑا سائنسدان یہ معلوم نہیں کر سکا کہ یہ دل دھڑکتا کیوں ہے؟
مجھے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ انسان کے اَندر وریدوں اور شریانوں کی جو لمبائی ہے وہ ایک لاکھ پچاس ہزار کلومیٹر ہے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار کلو میٹر ہمارے اَندر شریانیں اور وریدیں ہیں اور دل جب ایک دفعہ پمپ کرتا ہے تو ستر ہزار وریدوں اور شریانوں کو سیراب کرتا ہے آخر یہ کون سی توانائی ہے کون سے وہاں بجلی کے جنریٹر لگے ہوئے ہیں؟
اگر قلندر شعور سے آدمی واقف ہوجائے تو وہ ان چیزوں سے بھی واقف ہوجاتا ہے کہ جن چیزوں کی بنیاد پر وہ زندہ ہے، جب چیزوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات کہا ہے۔
سوال: زمین اور آسمان کے کناروں سے کیا مراد ہے؟
جواب: وہی حدبندی، محدودیت، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم جس محدود شعور میں بند ہو، آسمان اور زمین کو جس محدود شعور سے تم جانتے ہو، اس محدود شعور سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ تم لامحدود شعور سے واقفیت حاصل کر لو۔ زمین کیا چیز ہے؟ محدود شعور کا نام زمین ہے۔ آسمان کیا چیز ہے؟ وہ لامحدود، لامحدود شعور کہہ لیجئے۔ لیکن یہ محدود لاشعور کا نام ہے جب ہم نے سات آسمان کہہ دیئے تو محدودیت میں داخل ہوگئے۔ آسمان کی جب حدبندی ہوگئی تو محدودیت ہوگئی۔ زمین کی حدبندی ہوگئی وہ بھی محددویت ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم محدود شعور سے اس وقت تک نہیں نکل سکتے جب تک تم اپنے اَندر اس صلاحیت سے واقف نہ ہوجاؤ، جو صلاحیت تمہیں محدود شعور سے نکال کر لامحدود شعور میں داخل کرتی ہے۔ اب وہ ہماری اصطلاح میں…. عظیمیہ اسکول کی اصطلاح میں…. اس کا نام “قلندر شعور”ہے۔
سوال: محدود شعور کو متحرک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ محدود شعور کو متحرک کر کے لا محدوود کیسے بنائیں؟ جبکہ آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ محدود شعور کو متحرک کرنے کا طریقہ کسی کو معلوم نہیں ہے؟
جواب: کسی کو معلوم نہیں بھئی وہی تو بتائیں گے آپ کو آئندہ۔ یہاں جو اس وقت ہمارے ہاں سائنسی ریسرچ (Research)ہے وہ ساری کی ساری رفتار کے اوپر ہے۔ رفتار کو اتنا تیز کردیا جائے کہ ٹائم کی نفی (Time-Less)ہوجائے۔
اگر کسی صورت سے شعور کی رفتار اتنی بڑھادی جائے تو وہ شعور ہی نہ رہے تو شعور کہ اوپر لامحدود شعور کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً آپ پیدل چلتے ہیں تو ایک گھنٹے میں تین چار میل چلیں گے۔ سائیکل پر چلیں گے تو چھ سات میل چلیں گے۔ موٹر سائیکل پر چلیں گے تو تیس پینتس میل چلیں گے۔ گاڑی میں چلیں گے سو میل چلیں گے۔ ہیلی کاپٹرمیں چلیں گے تو ہزار پندرہ سو میل چلیں گے ہوائی جہاز میں چلیں گے۔ تین ہزار میل چلیں گے تین ہزار میل فی گھنٹہ۔ کنکارڈ میں چلیں گے تو ہوا کی رفتار سے چلیں گے۔ بات ساری رفتار کی ہے۔ تو ہمارا جو شعور ہے جس کو ہم شعور کہتے ہیں وہ مٹّھک بَیل کی طرح ہے۔ جب تک اس کی دُم نہیں پکڑو گے…. چلے گا نہیں…. اور یہ شعور آرام طلب ہے، کام چور ہے۔ ایسی کسی چیز کی طرف مُتوجّہ نہیں ہوتا کہ جس کام کہ وجہ سے اس کے ذاتی مفاد کے علاوہ نوعِ انسانی کوبھی فائدہ پہنچ سکے۔ جتنا انسان اپنے خول میں بند ہوجائے گا اتنا ہی اس کے شعور کی رفتار کم ہوجائے گی۔ وہ مزید محدود ہوجائے گاور جتنا انسان اپنی ذات سے ہٹ کر اپنے خاندان کے لئے، اپنی برادری کیلئے، اپنی قوم کیلئے اور پوری نوعِ انسانی کیلئے سوچے گا عمل کرے گا اسی مناسبت سے اس کے شعور کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ مثلاً آپ خدمتِ خلق کا شعبہ قائم کرتے ہیں، اس خدمتِ خلق کے شعبے میں پیش رفت ہوجاتی ہے۔ ایک وہ آدمی ہے جو اپنی ذات کے علاوہ سوچتا ہی نہیں ہے اور ایک وہ آدمی ہے جو اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچتا دوسرں کے بارے میں سوچتا ہے۔ کیا اس کے اعمال و حرکات کی رفتار اس آدمی کے برابر ہوگی یا زیادہ ہوگی․․․․․(زیادہ ہوگی) تو جتنا انسان اپنے خول سے باہر نکل جائے گا اسی مناسبت سے اس کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ بھئی اشفاق احمد صاحب نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ سمجھ نہیں آتاہے کہ ایک آدمی جو ہے ایک وقت میں اتنے سارے کام کیسے کر لیتا ہے۔بڑی اچھی  بہت پیاری بات کہی ہے تقریر میں کہ حضرت کتابیں بھی لکھ رہا ہے، خطوں کا جواب بھی دے رہا ہے، دورے بھی کر رہا ہے اور بیمار بھی ہو رہا ہے اور بخار بھی ہو رہا ہے۔جب اس کے کام کا موازنہ کیا جاتا ہے تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ کام کیسے کرسکتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر آپ یہاں سے کراچی جائیں گے تو ایک گھنٹہ بیس منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ ریل میں بیٹھ کر جائیں گے تو چوبیس گھنٹوں میں پہنچیں گے۔ بَیل گاڑی میں جائیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ نَو دس دن میں پہنچ جائیں گے بلکہ پندرہ دن میں ہی پہنچیں گے۔ اب بیل گاڑی میں سفر کرنے والا آدمی ہوائی جہاز کی رفتار کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ ہوائی جہاز کی رفتار سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیل  گاڑی میں بند شعور سے باہر نکل کر ریل میں بیٹھے۔ ریل کے بند شعور سے بھی نکل کر ہوائی جہاز میں بیٹھے۔ ہَوائی جہاز کے بعد بھی شعور ہے۔ دیکھیں ناں، یہ ایک گھنٹہ بیس منٹ پابندی تو ہے۔ ہوائی جہاز کے محدود اور بند شعور سے نکل کر اس شعور میں داخل ہوجائے جہاں لمحات کا بھی وُجود ہے۔ مثا ل آپ کے سامنے ہے۔ چاہے سائیکل پر سفر کریں، بیل گاڑی میں سفر کریں، موٹر سائیکل پر سفر کریں، ریل میں سفر کریں یا ہوائی جہاز میں سفر کریں، اس سے ایک قانون یہ پتا چلا کہ انسان کے اَندر یعنی انسان کے ذہن میں الاسٹک کی طرح سکڑنے اور پھیلنے کی صلاحیت ہے۔
جب وہ پیدل چلتا ہے تو اس کو چلانے والی ایجنسی اتنی محدود ہوجاتی ہے کہ وہ دو یا تین میل چلاتی ہے۔ جب وہ جہاز پر بیٹھتا ہے تو اس کو چلانے والی ایجنسی اتنی تیز ہوجاتی ہے کہ وہ اس کو ایک گھنٹے میں تین ہزار میل چلاتی ہے۔ اگر انسان کے اَندر پیدل چلانے والی صلاحیت جہاز میں بیٹھ کر وہی رہے گی جو پیدل چلنے والی ہے تو انسان کا دماغ پھٹ جائے گا اور وہ مر جائے گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جب جہاز اترتا ہے تو ان کا رنگ ایسے ہوتا ہے جیسے سفید کپڑا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جہاز میں بیٹھنے ہی سے ڈرتے ہیں، کیوں؟ اس لئے ان کے اَندر جو صلاحیت ہے اس میں پھیلنے اور سمٹنے کی جو صلاحیت ہے وہ متحرک نہیں ہو پاتی۔
تو انسان ایک ایسا اللہ تعالیٰ کا عجوبہ ہے کہ یہ جہاں بھی ہو، جس حال میں بھی ہو ذہن اس ماحول کو بھی قبول کر لیتا ہے اس بات کو بھی قبول کر لیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ تیز رفتار بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ محدود رفتار بھی ہو سکتا ہے۔ اس صلاحیت کو متحرک کرنے کیلئے یہ کتاب (قلندر شعور) لکھی گئی ہے۔
اس کتاب کی شروعات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں سے نکلے ہوئے لفظ “کُن”سے ہوئی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ جب یہاں کچھ نہیں تھا تو ایک ذات مَوجود تھی جس کو ہم اللہ تعالیٰ کے نام سے جانتے ہیں۔ اللہ نے یہ چاہا کہ ایک کائناتی سسٹم بنایا جائے۔ اس کائناتی سسٹم کو اللہ تعالیٰ نے پورے پروگرام کے ساتھ خدوخال کے ساتھ، نقش و نگار کے ساتھ، مُعیّن مِقداروں کے ساتھ اور درجہ بندی کے حساب سے تخلیق کیا۔
کتاب کی ابتدائی سطریں اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ محدود شعور کو باخبر کیا جا رہا ہے کہ محدود شعور کے علاوہ بھی اور ایسی چیزیں ہیں جن سے شعور واقف نہیں ہوا۔ مثلاً ….
ایک کتاب المبین۔ اس لفظ کی تشریح آپ محدودیت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
ایک کتاب المبین…. شعور ایک کو جانتا ہے لیکن کتابُ المبین کو نہیں جانتا۔ شعور کے ایک جاننے کا سہارا لے کر شعور کو ایسی فضا میں دھکیل دیا گیا ہے کہ جس سے شعور واقف تو نہیں ہے لیکن وہ ایک سے واقف ہے اس لئے وہ کتابُ المبین کے بارے میں انکار نہیں کر سکتا۔ یعنی ایک کتابُ المبین کہہ کر شعور کے اوپر ضرب لگائی گئی ہے کہ ایک، دو، تین، چار کمرے ہی نہیں ہوتے، ایک، دو، تین، چار کرسیاں ہی نہیں ہوتیں، ایک، دو، تین، چار، آدمی ہی نہیں ہوتے، ایک کتابُ المبین بھی ہوتی ہے۔ شعور نے جب اس بات کو قبول کیا کہ ایک کتاب المبین…. شعور کتاب سے بھی واقف ہے…. ایک کتاب المبین…. شعور ایک سے بھی واقف ہے۔ شعور کتاب سے بھی واقف ہے اور شعور مبین سے بھی واقف ہے…. رَوشن چیز کو مبین کہتے ہیں۔
یعنی ایک ایسی کتاب جو روشنیوں سے اور اَنوار سے بھری ہوئی ہے۔ تو سب سے پہلے شعور کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا گیا کہ شعور جس ایک میں بند ہے…. اِنّر(Inner)میں…. یعنی ایک بند اور محدود دائرے میں ’’کتابُ المبین ‘‘…. دو لفظ کا اور اضافہ کر کے شعور کی محدودیت کو ایک سے ختم کر کے تین میں داخل کر دیا گیا ہے۔ تین میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شعور کی محدودیت میں ہم سب کردار داخل ہیں۔
دوسری بات…. ایک کے بعد کتاب کا تذکرہ آیا تو شعور اس بات سے واقف ہے کہ کتاب اُس دستاویز کا نام ہے جس میں صفحے ہوتے ہیں، ورق ہوتے ہیں، جلد ہوتی ہے اور ان صفحات پر تحریر لکھی ہوتی ہے۔ تو جب کتاب کا تذکرہ آیا، شعور کیلئے لا محالہ ایک وسعت پیدا ہوگئی۔ ایک کتاب یعنی کوئی ایسی چیز ہے جو دستاویزی شکل میں مَوجود ہے۔ اور وہ دستاویز کیا ہے؟ اس کا تعلق اَنوار اور روشنیوں سے ہے۔ ایک کتابُ المبین ۔ جب شعوری طور پر کوئی بندہ ایک کتابُ المبین کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ شعور جو ایک میں محدود ہے، اُس کی وسعت کتابی ہوگئی۔ جب کتابی وسعت ہوگئی، اب کتابی شعور اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ کتاب میں کہانی بھی ہوتی ہے، افسانہ بھی ہوتا ہے۔ ریاضی بھی ہوتی ہے۔ بے شمار شعبے ہیں جو کتابوں سے ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ ایک کتابُ المبین سے مراد ایک ایسی کتاب جس کے اوپر نورانی تحریر نقش ہے یعنی اس کتاب کا تعلق صفحات سے، ورقوں سے، سطروں سے، لفظوں سے، حرفوں سے تو ہے…. لیکن یہ سارے الفاظ، سارے حروف نُور کے غلاف میں بند ہیں۔
ایک کتابُ المبین…. شعور کی ایک محدودیت ختم ہو کر ایک کتاب کی سطح پر بکھر گئی ہے، پھیل گئی ہے کتاب کی سطح پر روشن تحریر لکھی ہوئی۔ کالی روشنائی سے لکھی، نیلی روشنائی سے لکھی…. کس روشنائی سے لکھی ہے؟
کتابُ المبین ساری کی ساری روشنی، نُور ہے اور اس نُور میں اللہ تعالیٰ کا پروگرام جو”کُن‘‘سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں تھا وہ پروگرام نورانی تحریر میں ایک کتابی شکل میں مَوجود ہے یعنی شعور کی محدودیت جو ایک محدودیت میں بند ہے۔ لفظ ایک میں…. ” ایک کتابُ المبین‘‘ کہہ کر شعور کی سطح کو زمین کو سطح سے نکال کر بلند اور ارفع سطح میں داخل کر دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ”کُن‘‘کہا۔ کُن کہنے سے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو پروگرام تھا وہ سارا کا سارا مظہر بن گیا۔ اور وہ جو مظہر بنا تو پہلے اس کی ایک دستاویز بنی اور اس دستاویز کو قرآن پاک نے کتابُ المبین کہا۔ دیکھئے یہ بڑی عجیب بات ہے سوچنے کی بات ہے۔ ایک کتابُ المبین تو ٹھیک ہے۔ ایک کتابُ المبین… تو ایک کتاب المبین، جب تک آپ آزادانہ طرزِ فکر سے قلندر شعور سے ایک کتابُ المبین کے بارے میں ریسرچ نہیں کریں گے توآپ کا شعور محدود رہے گا۔ لیکن اگر آپ قلندر شعور کتاب کے نام کی مناسبت سے ایک کتابُ المبین اور کُن کے بارے میں تفکر کریں گے تو آپ کا ذہن کششِ ثَقل اور(Gravity)سے آزاد ہو کر آسمانوں سے نکل کر جذبات سے نکل کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اللہ کے بعد تخلیق کا پہلا مرحلہ مَوجود ہے اور اگر ہم غور نہ کریں تو کچھ بھی نہیں ہے۔
• کتاب المبین سے مراد کائنات کا یکجائی پروگرام
• کتاب المبین سے مراد کائنات کا یکجائی پروگرام کس سسٹم کے تحت بنایا گیا؟
• کس سسٹم کے تحت قائم ہے؟ اور….
• کس سسٹم سے وہ چل رہا ہے؟
یہ کتابُ المبین کا مطلب ہے۔
باقی تشریح اگلے لیکچر میں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ آپ کو محدود شعور سے نکال کر لا محدود شعور میں داخل فرمائے(آمین)۔

السّلام علیکم!

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا