Topics
انسانی شعور اور اس کا ارتقاء ہمیں لا زماً اس طر ف متو جہ کر تا ہے کہ جس مقام یا جس حیثیت میں ہم آج موجود ہیں اس کا سہر ہ ہمارے اسلاف کے سر بند ھا ہوا ہے ۔ نوع انسانی کے جد ِ ا مجد آدم کو جب اس دنیا میں پھینکاگیا تو وہ شعور کی اس منزل میں تھے جہاں آج کا ایک نو زائیدہ بچہ ہو تا ہے ۔اس بچہ (آدم )کی زندگی کے لمحات آن بنے ۔ آن سیکنڈوں میں تبدیل ہو ئی ، سیکنڈ منٹ بنے ۔ منٹ خود کو گھنٹوں میں گم کر دیا ، گھنٹوں نے رات دن کا لباس زیبِ تن کیا ۔ رات اور دن نے سالوں کا روپ دھارا ۔ سال کی گھڑیاں صد یوں کی آغوش میں دم توڑتی رہیں اور یوں قرن وجود میں آتے رہے ۔
آدم نے شعور کا سانس لیا تو زندگی قائم رکھنے کے لئے کچھ کر نے ، کچھ کھا نے اور کچھ پہننے کے لئے تقاضا ابھر ا ۔ تقاضے میں شدت پیدا ہو ئی تو گداز بنا اور یہ گداز آنکھوں سے بہہ نکلا ۔اس سیل رواں پر بند باندھنے کے لیے جبریل امینؑ عرش سے فر ش پر اتر ے اور آدم سے گو یا ہو ئے ۔
’’اے بھو لے بادشاہ ! رونے دھو نے سے کام نہیں بنے گا تم نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اس ظلم کی چکی پیسنے کے لئے کچھ دو ،کچھ لو کے مصداق محنت کر و گے تو پا ؤ گے ۔ اٹھو اور نا فر ما نی کی پا داش میں زمین پر مشقت کرو اور پیٹ کا ایندھن جمع کر و ۔ ‘‘
قلند ر بابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں ۔’’میں نے یہ تمثا لیں دیکھی ہیں ۔حضرت جبر ئیل ؑ آگے آگے چل رہے تھے اور آدم ان کے نقش ِپاپر آہستی خرام پیچھے پیچھے،قطعہ زمین کے ایک مر بع پر حضرت جبر ئیل ؑ کھڑے ہو گئے اور کہا یہ کھیت ہے ۔ یہاں بیج ڈالو اور اس کو سینچ سنیچ کر پر وان چڑ ھا ؤ ۔ کھا ؤ اور پیو ! "
آدم تیزی سے دو قدم آگے بڑھے اور کہا یہاں تک حد مقرر کر دو ۔ ‘‘
حضرت جبر ئیل ؑ نے بہت ہی دکھ کے ساتھ کہا ۔ہا ئے افسوس ، صداافسوس !تم نے اپنی اولاد میں حر ص کا بیج بو دیا ہے ۔ یہ بات تمہاری عقل میں کیوں نہیں آئی کہ یہ ساری زمین اللہ نے تمہاری ملک قرار دے دی ہے ۔‘‘
نوع آدم کا پہلا ارتقاء یہ ہوا کہ اس نے زمین میں بیج بو نا سیکھا ۔ زمین کی کوکھ سے کا نٹوں نے جنم لیا تو آدم نے شعوری طور پر چبھن محسوس کی ۔ پھول کھلے تو ذہن وار فتگی کے عالم میں آسمان کی رفتوں کو چھو نے لگا۔
شگو فے اور خار ، پھول اور کا نٹے اپنی ذات میں ایک محسوساتی ردِّ عمل ہیں ۔ ردعمل طر ز فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ طر ز فکر میں ایمان یقین، مشاہدہ موجو دہے تو آدم کی اولاد سکون آشنا ہے ۔طر ز فکر میں بے یقینی شک اورکور چشمی ہے تو زندگی کا نٹوں بھری ایک سیج ہے ۔ ہر کر وٹ لہو لہو اور ہر سانس فنا ہے ۔
نوع انسانی اپنے باپ اس آدم کے ورثہ پر رواں دواں ہے ۔ آدم نے نا فر مانی کی ۔اولاد کو نا فر ما نی کا ورثہ منتقل ہوا ۔ آدم نے عجز و انکسا ر کے ساتھ عفو در گزر کی درخواست رب کا ئنات کے حضور پیش کی اور پکارا ۔" اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اگر آپ نے معاف نہیں کیا اور ہمارے اوپر رحم نہیں کیا تو ہم تیری نعمتوں سے محروم رہ جا ئیں گے۔اور یہ نقصان ایسا نقصان ہے جس کی تلافی کسی طر ح بھی ممکن نہیں۔
ایک طر ز فکر بندے کو خالق سے قریب کر تی ہے دو سری طر ز فکر بندے کو خالق سے دور کر تی ہے ۔ہم جس طر ز فکر سے جس قدر قریب ہو جا تے ہیں اسی منا سبت سے ہمارے اوپر رحمتوں اور صعوبتوں کے دروازے کھلتے رہتے ہیں ۔انعام یافتہ شخص آلام و مصائب کی زندگی سے نا آشنا ہو جا تا ہے اور یہ دنیا اس کےلئے جنت کا گہوارہ بن جا تی ہے ۔
ہم اس رحمت و عنا یت کو رسول اللہﷺ کی پہلی سنت ادا کر کے نہا یت آسانی کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ محبوب ِخدا کی اوّلین سنت غارحرا میں مراقبہ ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے