Topics
علم کیا ہے؟ علم کا مطلب
جاننا کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے، زمین و آسمان میں آباد مخلوق میں
سے کوئی ایک مخلوق بھی ایسی نہیں ہے جو علم کے دائرے سے باہر ہو۔ ہر مخلوق وائرس
مخلوق ہو، چیونٹی مخلوق ہو، شہد کی مکھی مخلوق ہو، ہرن مخلوق ہو، نقش و نگار سے
مزین خوبصورت پروں والا پرندہ مور ہو، زیبرا ہو، شیر ہو، ہاتھی ہو یا ہزاروں سال
پہلے حجم میں ہاتھی سے بھی بڑی مخلوق ڈائینا سار ہو، سب علم کے دائرے میں بند ہیں
یا سب کو اپنی زندگی گزارنے اپنی خورد و نوش کا سامان حاصل کرنے اور اس سامان سے
استفادہ کرنے کا علم حاصل ہے۔
ہم جب شہد کی مکھی برادری
کے رہائشی کمروں اور حفاظتی انتظامات دیکھتے ہیں تو ہمیں مکمل ضابطہ حیات اور
بھرپور ایڈمنسٹریشن نظر آتا ہے۔ یہی صورتحال چیونٹی کی بھی ہے، حضرت سلیمان علیہ
السلام کے قصے میں مذکور ہے کہ:
’’چیونٹیوں کی ملکہ نے
حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر اپنی رعایا چیونٹیوں سے
کہا کہ تم فوراً اپنے بل میں گھس جاؤ ورنہ سلیمانؑ بادشاہ کے گھوڑوں اور پا پیادہ
لوگوں کے قدموں کے نیچے آ کر ہلاک ہو جاؤ گی۔‘‘
(القرآن)
مزدور چیونٹیاں گلہ جمع
کرتی ہیں اور زمین کی تہہ میں بنے ہوئے الگ الگ خانوں میں ذخیرہ کرتی ہیں، مزدور
چیونٹی کے اندر اپنے جسم سے دس گنا زیادہ وزن اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے، انجینئر
چیونٹیاں اپنی ملکہ کے لئے شاہی محل تیار کرتی ہیں، یہ شاہی محل گیلریوں کے ذریعے
ہر طرف سے ملا ہوا ہوتا ہے، انجینئر چیونٹیوں کا بنا ہوا قلعہ اتنا مضبوط ہوتا ہے
کہ اس پر پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور شدید گرمی بھی اثر انداز نہیں ہوتی یعنی
یہ قلعہ اور قلعے کے اندر محل، محل کے اندر گیلریاں، سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ ہوتی
ہیں، چیونٹیوں میں ایک قسم ایسی ہے جو لہروں میں منتقل ہونے کا علم جانتی ہے۔ جس
طرح کسی ٹی وی سٹیشن سے تصویر لہروں میں منتقل ہو کر ٹی وی اسکرین پر نظر آتی ہے،
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنٹسٹ چیونٹی اب سے لاکھوں سال پہلے روشنیوں میں تحلیل
ہونے کا عمل جانتی تھی۔ آسمانی کتاب قرآن پاک میں ملکہ سبا کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے
اور اس واقعہ میں ایک پرندے کے عقل و شعور کا تذکرہ ہے۔ اس طرح زمین کے اوپر موجود
ہر مخلوق علم کی دولت سے مالا مال ہے، کسی میں عقل و شعور زیادہ ہے، کسی میں کم ہے
لیکن زمین پر موجود تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار مخلوق اور ان مخلوقات میں کھربوں
لاکھوں افراد میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو علم نہ رکھتا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ انسان
معاشی جانور ہے، معاشی جانور سے مراد اگر یہ ہے کہ انسان گروہی سسٹم کا پابند ہے
یعنی انسان انسان کے ساتھ رہتا ہے، انسان انسان کے ساتھ بات کرتا ہے، انسان انسان
کے ساتھ نفرت کرتا ہے، محبت کرتا ہے، ایک انسان جو کچھ کھاتا ہے دوسرا انسان بھی
وہی نوش جان کرتا ہے۔ دراصل یہ طرز تکلم انسان کی انا پرستی ہے جب کہ ہر انسان یہ
دیکھتا اور جانتا ہے کہ بھیڑ بھی معاشی جانور ہے، بھیڑ ہمیشہ بھیڑ کے گلہ میں
بیٹھتی ہے، بکری ہمیشہ اپنے ریوڑ کے ساتھ رہتی ہے، ہاتھی ہاتھی کے ساتھ رہتے ہیں،
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہاتھی بھینس کے ساتھ بیٹھا ہو، بھینس اونٹ کے ساتھ بیٹھی
ہوئی نظر آئی ہو، یہ سب جانور یا حیوانات ایک دوسرے کی خبر گیری رکھتے ہیں، ایک
دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔
انسان چونکہ بذات خود
احساس برتری کا مریض ہے اس لئے اس نے اپنا گروہ کو معاشی جانور کے نام سے متعارف
کرایا، ایک گائے یا ہرن کا بچہ جب مر جاتا ہے تو گائے اور ہرن آنسوؤں سے روتے ہیں،
حیوانات کے گروہ میں جب پیدائش ہوتی ہے تو اس گروہ کے افراد خوش ہوتے ہیں اور ان
کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑتی ہوئی باآسانی نظر آتی ہے۔ انسان یہ بھی کہتا ہے کہ
علم کی فضیلت حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں عقل و شعور زیادہ ہے۔ اگر
حیوانات کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو انسان کا یہ دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے،
حیوانات میں چھوٹے چھوٹے حشرات الارض کئی معاملات میں انسان سے کہیں زیادہ ذہین،
ہوشیار اور عقل مند ہیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہے کہ علم
کے حصول میں جب تمام حیوانات بشمول انسان جسے حیوان ناطق کہتا ہے جبکہ ہر حیوان
بھی ناطق ہے، کس طرح دوسری مخلوق پر افضل و اشرف ہے، علم کیا ہے؟ علم دراصل یقین
کا پیٹرن ہے، ایسا پیٹرن جس کی بنیاد پر زندگی رواں دواں ہے۔ حیات و ممات قائم ہے،
ترقی و ارتقاء موجود ہے۔
یقین کیا ہے؟ یقین وہ
مرکزیت ہے جس میں شک اور ابہام نہیں ہوتا، دنیا میں کھربوں افراد میں یقین کا یہ
پیٹرن موجود ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے۔ موجود نہ ہو تو پانی معدوم ہو جائے
گا، پانی سے پیاس اس لئے بجھتی ہے کہ پانی موجود ہے، یقین کا پیٹرن یہ بتاتا ہے کہ
پانی اگر نہیں ہو گا تو پیاس بھی نہیں بجھے گی۔ یقین ایک ایسا عمل ہے جس کے اوپر
ظاہر اور باطن متحرک ہیں۔ یقین علم کے بغیر ممکن نہیں ہوتا اور علم یقین کی آبیاری
میں مکمل کردار ادا کرتا ہے۔ قرآن پاک میں یقین اور علم کی پوری طرح وضاحت کی گئی
ہے، پیغمبران کی ساری زندگی علم اور یقین ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ
تعالیٰ نے علم اور یقین یعنی نور فراست سے نوازا تھا۔ ان کے علم نے یقین کا درجہ
حاصل کر لیا تھا، بت سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور کسی کو نفع نقصان نہیں
پہنچا سکتے، ان کے علم نے انہیں بتایا کہ بے جان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں
سے بناتا ہے پھر یہی مورتیاں عبادت گاہوں میں سجادی جاتی ہیں۔ جہاں بادشاہ، بادشاہ
کے مصائب، بڑے بڑے عہدے دار اور عوام پتھر سے تراشی ہوئی ان بے جان مورتیوں کو
سجدہ کرتے ہیں اور حاجت روائی کے لئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں اور دعا کرتے
ہیں۔
ایک روز انہوں نے اپنے
والد آذر سے پوچھا:
’’اے میرے باپ! کیوں
پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے اور نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘
(سورۃ مریم)
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے والد نے جو کچھ جواب میں کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی نفی کر دی،
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر علم کے بعد تفکر اور تفکر کے بعد یقین کا پیٹرن متحرک
ہوا۔ انہوں نے سوچا کہ:
’’ہر شئے مقررہ قاعدے اور
ضابطے کے تحت خود بخود کیسے متحرک ہے؟ کون ہے جو روزانہ سورج کو طلوع کرتا ہے؟ کون
ہے جو دن کے اجالے کو تاریکی میں بدل دیتا ہے؟ کون ہے جو درختوں کی شاخوں میں سے
پھل نمودار کرتا ہے؟ بارش کون برساتا ہے؟ لہلہاتی کھیتیاں کون اگاتا ہے؟ کون ہے وہ
جس کی عمل داری میں کائنات کا ہر فرد اپنے کام میں لگا ہوا ہے، آپس میں کوئی ٹکراؤ
نہیں ہوتا اور کبھی کوئی اختلاف بھی واقع نہیں ہوتا۔‘‘
نتیجہ میں حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے لکڑی سے بنائے ہوئے کھلونے، پتھر سے بنائی ہوئی مورتیوں اور مٹی
چونے سے بنائی ہوئی دوسری چیزوں کو خدا ماننے سے انکار کر دیا اور کہا:
’’میں اپنا رخ اس طرف
کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں
ہوں۔‘‘
(سورۃ انعام)
تفکر کی راہوں پر چلتے
ہوئے تاروں بھری ایک رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روشن ستارہ دیکھا
فرمایا۔ یہ میرا رب ہے، جب وہ روشن ستارہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے فرمایا میں چھپ جانے والے کو معبود نہیں مانتا پھر ٹھنڈی ٹھنڈی
میٹھی رو پہلی چاندنی سے بھرپور چاند کو دیکھا جیسے جیسے طلوع آفتاب کا وقت قریب
آیا چاند بھی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاند کے رب
ہونے کی بھی نفی کر دی، طلوع آفتاب کے بعد سورج بھی زوال پذیر ہونے لگا اور اس پر
اتنا زوال غالب آیا کہ وہ نظروں سے مخفی ہو گیا، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ
تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم اور علم کے نتیجے میں یقین سے کہا:
’’میرا رب وہ ہے جو نہ
کبھی چھپتا ہے اور نہ اسے کبھی زوال ہے۔‘‘
بات بادشاہ وقت نمرود تک
پہنچی۔ نمرود خود کو رعایا کا رب اور مالک سمجھتا تھا۔ رعایا نمرود کو خدا مانتی
تھی اور اس کی پرستش کرتی تھی، دربار شاہی میں سجدہ کرنے کا رواج عام تھا، بالکل
بالکل عقائد کی تکذیب اور باطل عقائد کا پرچار کرنے والے مذہبی پیشواؤں، ارباب
اقتدار اور عوام کو دعوت حق دیتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’تم کائنات کے مالک اور
مختار کل اللہ کو چھوڑ کر باطل معبودوں کو پوجتے ہو، تم عقل و شعور کیوں نہیں
استعمال کرتے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے